بات پھر وہیں آتی ہے کہ چونکہ قرآن میں جنات کا ذکر ہے اس لئے محفل پر جنات کا انکار منع ہے یا اشتعال انگیز ہےیہاں ایک اور مراسلے میں یہ صاحب محترم کھلم کھلا جنات کے وجود کا انکار کر رہے ہیں جب کہ قرآن کھلم کھلا جنات کے اثبات کی دلیل دے رہا ہے
دیکھئے۔ آپ مذہب کو بیچ میں لاتے ہیں تو اس پر بھی بحث ہوگی۔ آپ سائنس پر بات کرتے ہیں تو اس پر بھی بحث ہوگی۔ اگر آپ کو مذہب پر یقین ہے تو لازمی نہیں کہ دیگر افراد بھی آپ کے ہم خیال ہوں۔ اس میں تلخی کیسی؟ آپ سائنس کو برا بھلا کہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم جو بات ہو دلیل کے ساتھ ہو تو مناسب لگتی ہےجی بجا فرمایا آپ نے جناب اچھا کیا آپ نے ان صاحب کو سمجھایا اور پھر بھگایا مگر کوئی بندہ لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ کر اور حقیقت کی عینک لگا کر ایسا ہی کام کرے تو ایسے بندے کے لیے بھی آپ کو مندرجہ بالا عمل ہی دھرانا چاہیے جیسے کہ دیکھیے۔۔۔ ۔۔۔
یہاں ایک اور مراسلے میں یہ صاحب محترم کھلم کھلا جنات کے وجود کا انکار کر رہے ہیں جب کہ قرآن کھلم کھلا جنات کے اثبات کی دلیل دے رہا ہے کہ 'وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون' اور ہم نے نہیں پیدا کیے جن اور انسان، مگر اپنی عبادت کے لیے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تو ایسے بندے کو کیا حق ہے کہ وہ ہر مراسلے پر مذہب پر کی گئی بات کو اچھالے اور اس کو بنیاد بنا کر ہر عمل کی دلیل طلب کرنا شروع کر دے، معافی چاہوں گا اگرالفاظ کچھ تلخ ہوں مگر یہ بھی ایک طرح کی شر انگیزی ہے اور کیا ضرورت ہے اس بندہ خدا کو کہ ہر مراسلے میں اگر کوئی 'غلطی' سے مذہب کو حوالہ دے تو یہ فورا لٹھ لے کر اس کے پیچھ پڑ جائیں کہ اس کا پورا ثبوت دو ورنہ منہ بند رکھو۔ ہر مراسلے میں مذہب کو گھسیٹنے کا یہی عمل اس طرف بھی ناپسندیدہ ہونا چاہیے کیوں کہ قرائن سے لگتا ہے کہ پھر معذرت کے ساتھ، متذکرہ بندہ خدا مذہب سے کوئی خاص قسم کا بیر رکھتا ہے اور اپنے انداز میں کوئی شدت پسند کا رول ادا کر رہا ہے
اب ایسی بات اگلے کے منہ میں ٹھونس کر یا اگلوا کر کیا ثابت کیا جا رہا ہے، صاحب زیادہ شوق ہے اس سوال کے جواب کا تو مت اگلے کے ہاتھ پاؤں باندھیں اور اس کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنے کا کھیل نہ کھیلیں کیا آگے چل کر شدت پسند نہیں ثابت کر دیں گے اگلے شریف بندے کو اس طرح۔۔۔ ۔۔۔ ۔! کیا ضرورت ہے ایسی جھگڑے کی باتیںکر کے محفل کے ماحول کو خراب کرنے کی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
میں دونوں طرح کے فسادیوں کے خلاف ہوں جیسے طالبان کی دہشت گردی اور ڈرون حملوں دونوں کے خلاف ہوں۔آپ عمل کو روک دیں، اس کا رد عمل خود بخود ختم ہو جائے گا
مجھے اچھا لگا آپ سے انصاف کی بات جان کر۔بے شک گوانتانمو غلط ہے تشدد ہے اور بند ہونا چاہیئے۔
کوئی مہذب آدمی اپنی بیوی کی پٹائی نہیں کرتا اور کوئی مہذب دین اس کی اجازت نہیں دے سکتا
یہ بھی یاد رہے کہ بیویوں کی مار پیٹ کے اسلامی جواز پر بات میں نے شروع نہیں کی تھیجی بجا فرمایا آپ نے جناب اچھا کیا آپ نے ان صاحب کو سمجھایا اور پھر بھگایا مگر کوئی بندہ لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ کر اور حقیقت کی عینک لگا کر ایسا ہی کام کرے تو ایسے بندے کے لیے بھی آپ کو مندرجہ بالا عمل ہی دھرانا چاہیے جیسے کہ دیکھیے۔۔۔ ۔۔۔
یہاں ایک اور مراسلے میں یہ صاحب محترم کھلم کھلا جنات کے وجود کا انکار کر رہے ہیں جب کہ قرآن کھلم کھلا جنات کے اثبات کی دلیل دے رہا ہے کہ 'وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون' اور ہم نے نہیں پیدا کیے جن اور انسان، مگر اپنی عبادت کے لیے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تو ایسے بندے کو کیا حق ہے کہ وہ ہر مراسلے پر مذہب پر کی گئی بات کو اچھالے اور اس کو بنیاد بنا کر ہر عمل کی دلیل طلب کرنا شروع کر دے، معافی چاہوں گا اگرالفاظ کچھ تلخ ہوں مگر یہ بھی ایک طرح کی شر انگیزی ہے اور کیا ضرورت ہے اس بندہ خدا کو کہ ہر مراسلے میں اگر کوئی 'غلطی' سے مذہب کو حوالہ دے تو یہ فورا لٹھ لے کر اس کے پیچھ پڑ جائیں کہ اس کا پورا ثبوت دو ورنہ منہ بند رکھو۔ ہر مراسلے میں مذہب کو گھسیٹنے کا یہی عمل اس طرف بھی ناپسندیدہ ہونا چاہیے کیوں کہ قرائن سے لگتا ہے کہ پھر معذرت کے ساتھ، متذکرہ بندہ خدا مذہب سے کوئی خاص قسم کا بیر رکھتا ہے اور اپنے انداز میں کوئی شدت پسند کا رول ادا کر رہا ہے
زیک نے کہا: یعنی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام نے شوہر کو بیوی کو مارنے کا حق دیا ہے اگرچہ اس کے ساتھ کچھ شرائط ہیں؟
اب ایسی بات اگلے کے منہ میں ٹھونس کر یا اگلوا کر کیا ثابت کیا جا رہا ہے، صاحب زیادہ شوق ہے اس سوال کے جواب کا تو مت اگلے کے ہاتھ پاؤں باندھیں اور اس کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنے کا کھیل نہ کھیلیں کیا آگے چل کر شدت پسند نہیں ثابت کر دیں گے اگلے شریف بندے کو اس طرح۔۔۔ ۔۔۔ ۔! کیا ضرورت ہے ایسی جھگڑے کی باتیںکر کے محفل کے ماحول کو خراب کرنے کی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
بچے کی پٹائی بھی غلط ہے۔1- پھر باپ کو بھی بچے کو سرزنش کا حق نہیں ہونا چاہئے۔
ڈفرنٹ تو ہے آپ دیکھ ہی نہیں پا رہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر آج کل کاپی پیسٹ کارکردگی ڈاون ہےلولزز۔۔۔ محفل نہیں بدلنے والی۔۔۔ میں سوچتی ہوں کہ اتنے دن بعد جاؤں گی تو کچھ تو ڈفرنٹ ہو گا۔۔۔ پر۔۔۔ ۔۔
یہ آپ کی ذاتی رائے جسے آپ شوق سے اپنائیے۔ مگر اسلام سرزنش کا حق دیتا ہے۔بچے کی پٹائی بھی غلط ہے۔
مگر یہ بھی خیال رہے کہ میں اپنے نابالغ بچے کو حکم دے سکتا ہوں مگر بیوی برابر ہے اور اسے حکم دینا بھی نہیں بنتا
ادھوری سٹوری کیوں جناب؟ اسلام نے تربیت پر مار سے زیادہ زور دیا ہے۔ مار کا حق محض آخری آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے شاید۔ آپ اسے اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ جیسے والدین کا بنیادی حق ہی بچوں کی مرمت ہے اور شوہر کا بنیادی حق اپنی بیوی کو بگاڑ کر پھر اس کی مرمت کر کے ٹھیک کرنایہ آپ کی ذاتی رائے جسے آپ شوق سے اپنائیے۔ مگر اسلام سرزنش کا حق دیتا ہے۔
نہیں بالکل ایسا نہیں ہے کہ مغرب سے مرعوب ہو کے یہ دعوے کیے جاتے ہیں۔جب دین اسلام نہیں تھا جاہلیت کا دور تھا جب عورت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا تب دین اسلام آیا اور عورت کی عزت اور حقوق اپنے ساتھ لایا۔اور بتایا کہصحیح کہہ رہی ہیں۔ جانے کیوں کچھ مسلمان مغرب سے مرعوب ہو کر دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں مرد عورت برابر ہیں
آپ کا اس تھریڈ کے موضوع کے بارے میں کیا خیال ہے؟نہیں بالکل ایسا نہیں ہے کہ مغرب سے مرعوب ہو کے یہ دعوے کیے جاتے ہیں۔جب دین اسلام نہیں تھا جاہلیت کا دور تھا جب عورت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا تب دین اسلام آیا اور عورت کی عزت اور حقوق اپنے ساتھ لایا۔اور بتایا کہ
ایک عورت جب بیٹی ہوتی ہے تو رحمت ہوتی ہے اور اپنے ماں باپ کے لیئے جنت کا دروازہ ہوتی ہے۔
کیونکہ ہمارے نبی صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے 2 بیٹیوں کی پرورش اچھے طریقے سے کی اور اُن کی شادیاں کروائی وہ جنت میں میرے ساتھ میری ان 2 انگلیوں کی طرح ہوگا۔
وہ ہی عورت جب بیوی بنتی ہے تو اپنے شوہر کا آدھا دین مکمل کر دیتی ہے کیونکہ
ارشاد ہے کہ
جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اُس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے اور اُسے چایئے کہ باقی کے آدھے دین میں اللہ سے ڈرے۔
اور وہ ہی عورت جب ماں بنتی ہے تو جنت اُس کے پیروں کے نیچے آجاتی ہے
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وراثت میں عورت کو مرد سے آدھا حصہ ملتا تو اس کے پیچھے بھی سٹرونگ ریزن ہے باپ کی وراثت میں سے بیٹی کو آدھا اس لیئے ملتا ہے کہ اُسے شوہر کی وراثت سے بھی 1 بٹا 8 حصہ ملتاہے جو کہ ایک مرد کو نہیں ملتا۔
اللہ نے عورت کو مرد کی پسلی سے بنایا اور مرد کو ایک عام سی مٹی سے
ہماری جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے ہم اُسے اُتنا ہی چھپا کے کہیں تالوں میں رکھتے ہیں اسی طرح عورت کو بھی پردے کی شکل میں ہر بُری نظر سے بچا کے رکھتا ہے دین اسلام ۔
یا اللہ خیر! یہ آپ نے کیسے اخذ کر لیا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بچوں کو مار کے ذریعے ہی تربیت دینا چاہئے؟ اور شوہر کا بنیادی حق اپنی بیوی کو بگاڑ کر پھر اس کی مرمت کر کے ٹھیک کرنا؟ آپ اتنی بدگمانی کیوں رکھتے ہیں ؟ادھوری سٹوری کیوں جناب؟ اسلام نے تربیت پر مار سے زیادہ زور دیا ہے۔ مار کا حق محض آخری آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے شاید۔ آپ اسے اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ جیسے والدین کا بنیادی حق ہی بچوں کی مرمت ہے اور شوہر کا بنیادی حق اپنی بیوی کو بگاڑ کر پھر اس کی مرمت کر کے ٹھیک کرنا
بیوی پر تشدد کے بعد آپس میں محبت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ اور اگر آپس میں محبت نا ہو تو ساتھ رہنے کا کیا جواز ہے؟ صرف بچے؟
ایک دوسرے کو سمجھ کر زندگی گزارنی چاہئے ایسی نوبت ہی نا آئے کہ کوئی کسی پر ہاتھ اٹھائے۔
ایک شوہر عورت کا مالک نہیں محافظ ہوتا ہے اُس سے پوچھ ہوگی اُس کی بیوی کے بارے میں ۔اسلام کہتا ہے کہ جیسا خود پہنتے ہو اُسے پہناؤ جو خود کھاتے ہو اُسے کھلاؤ ۔اور جو دودھ وہ تمہارے بچوں کو دیتی ہےاگر اُس کی اُجرت مانگے تو وہ بھی اُسے دو۔آپ کا اس تھریڈ کے موضوع کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پہلا مراسلہ تو خبر ہے۔ میں نے آپ کی رائے پر رائے دی ہےیا اللہ خیر! یہ آپ نے کیسے اخذ کر لیا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بچوں کو مار کے ذریعے ہی تربیت دینا چاہئے؟ اور شوہر کا بنیادی حق اپنی بیوی کو بگاڑ کر پھر اس کی مرمت کر کے ٹھیک کرنا؟ آپ اتنی بدگمانی کیوں رکھتے ہیں ؟
آپ نے میرا پہلا مراسلہ پڑھا تھا؟ اسے دوبارہ پڑھئے؛
اچھا مجھ سے مراسلے کا نمبر بتانے میں غلطی ہو گئی، دوسرا مراسلہ۔۔ اب ٹھیک ہے؟پہلا مراسلہ تو خبر ہے۔ میں نے آپ کی رائے پر رائے دی ہے
گھریلو تشدد بلا تفریق معاشرہ اور مذہب کی پیروی ، ہر جگہ موجود ہے۔پاکستان میں ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کی آبادی کی تقریباً 43 فیصد خواتین اور ایک تہائی مرد سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی سے متعلق قومی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز کے آبادی اور صحت سے متعلق ایک تازہ سروے میں یہ رائے سامنے آئی ہے۔
یہ سروے سال 1990 سے لے کر سال 2013 تک تین بار کیا گیا ہے اور اس سروے میں 15 سے 49 سال تک کی عمر کی 13 ہزار خواتین اور تین ہزار مردوں کو شامل کیا گیا۔
اس میں خواتین کی ملازمت، گھریلو فیصلوں میں شرکت، اثاثوں کی ملکیت اور بیوی پر کی پٹائی جیسے سوالات پوچھے گئے۔
گھریلو تشدد سے متعلق خواتین اور مردوں سے پوچھا گیا کہ کیا کھانا خراب بننے، شوہر کے ساتھ بحث کرنے، شوہر کو بغیر بتائے گھر سے جانے، بچوں اور سسرال کو نظر انداز کرنے یا جنسی تعلقات سے انکار کرنے کی وجہ سے کوئی شوہر اپنی بیوی کو مار سکتا ہے؟
سوچا ہی نہیں تھا
"
خواتین کیوں گھریلو تشدد کو صحیح سمجھتی ہیں؟ ایک مرد سے پوچھا گیا، کہ اگر عورت کا کام کھانا پکانا ہے اور نہ اچھا بنانے پر اس کی پٹائی کی جانی چاہیے، تو اگر آپ کا کام کمانا ہے اور آپ نہیں کما پائے تو آپ پر ہاتھ اٹھانا چاہیے؟ وہ بہت حیران ہوئے، کیونکہ اس پہلو پر انھوں نے سوچا نہیں تھا"
خاور ممتاز
اس پر 34 فیصد خواتین کا جواب تھا کہ اگر بیوی شوہر سے بحث کرے تو تشدد کا جواز بنتا ہے جبکہ 20 فیصد مردوں کے مطابق اگر بیوی بغیر بتائے گھر سے جائے تو بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 43 فیصد خواتین مجموعی طور پر شوہر کے تشدد کو جائز سمجھا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ربعیہ وقار کے مطابق گھریلو تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار اور رویوں کے بارے میں پہلی بار حکومت کی جانب سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ صوبوں میں گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی کے لیے یہ اعداد و شمار اہم ہیں۔ جس میں صوبہ سندھ میں 20 فیصد خواتین کے مطابق وہ نفسیاتی یا جسمانی تشدد کا شکار رہی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات 57 فیصد کے قریب ہیں۔
’سروے کی وجہ سے گھریلو تشدد کے بارے میں ہمارے پاس اب ریاست کی جانب سے اعداد و شمار آگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صوبے میں سب سے پہلے قانون سازی ہوئی، وہاں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ہیں۔‘
پاکستان میں 52 فیصد خواتین گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں رپورٹ نہیں کرتی ہیں
سال 2009 میں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق بل منطور ہوا تھا تاہم بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے یہ قانون نہیں بن سکا تھا۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ نےگذشتہ سال گھریلو تشدد سے متعلق قانون منظور کیا تھا اور اس برس جنوری میں اسی طرح کا قانون پنجاب اسمبلی میں پیش ہوا جبکہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا نے گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی نہیں کی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قومی ادارے نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ومین کی سربراہ خاور ممتاز کا کہنا ہے’خواتین کیوں گھریلو تشدد کو صحیح سمجھتی ہیں؟ ایک مرد سے پوچھا گیا، کہ اگر عورت کا کام کھانا پکانا ہے اور نہ اچھا بنانے پر اس کی پٹائی کی جانی چاہیے، تو اگر آپ کا کام کمانا ہے اور آپ نہیں کما پائیں تو آپ پر ہاتھ اٹھانا چاہیے؟ وہ بہت حیران ہوئے، کیونکہ اس پہلو پر انھوں نے سوچا نہیں تھا۔‘
سروے کے بعض اعداد وشمار
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اور ان پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں
خواتین کی شادی کرنے کی اوسط عمر 19.5 سال اور مردوں کی 24.7 سال ہے۔
14 میں سے ایک بچے کی اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت واقع ہو جاتی جبکہ 11 میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ تک زندہ نہیں رہتا۔
پاکستانی مرد اور خواتین چار بچے چاہتے ہیں۔ یہ تعداد صوبہ بلوچستان میں چھ جبکہ اسلام آباد میں تین ہے۔
سال 1990 میں 9 فیصد مرد اور خواتین جبکہ سال 2013 میں 26 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے استعمال کرتے تھے۔
45 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 11 فیصد شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔
گھریلو تشدد کی شکار 52 فیصد خواتین نے تشدد کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں اور نہ ہی مدد مانگی۔
ملک میں چھ فیصد خواتین اور 45 فیصد مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140122_pakistan_population_health_survey_zz.shtml
سرزنش کا مطلب 'مار پیٹ' نہیں ہے۔یہ آپ کی ذاتی رائے جسے آپ شوق سے اپنائیے۔ مگر اسلام سرزنش کا حق دیتا ہے۔
ضرور مارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے تو مار لے۔