عبدالرزاق قادری
معطل
برسوں سے پڑھتے آئے تھے کہ اردو رائٹرز کلب نے کہاں سے آغاز کیا اور پھر پاک ٹی ہاؤس کا رخ کیا پھر چوپال کا اور پھر ایوان اقبال کی پچھلی جانب چلے گئے وغیرہ وغیرہ
پھر ایک عرصے سے پاک ٹی ہاؤس کے بند ہو جانے کا ماتم ہوتا آ رہا تھا حال ہی میں اس کو دوبارہ سجا سنوار کرکھول دیا گیا جس میں سیاست دانوں کا تعاون بھی شامل حال رہا۔ یار لوگوں نے سوچا کہ محفلین کی ایک نشست بھی وہاں ہونی چاہیے۔ چنانچہ آج ڈیڑھ بجے میں اور سر نعیم قیصر ڈیڑھ بجے پاک ٹی ہاؤس کے سامنے پہنچ کر دوسرے دوستوں کا انتظار کرنے لگے۔ دو بجے تک جناب محمد کامران اختر بھی پہنچ آئے۔ محترم عاطف بٹ صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ پانچ منٹ میں آرہے ہیں۔ ہم تینوں ٹی ہاؤس میں داخل ہو کر اوپر والے حصے میں جا کر بیٹھ گئے ابھی ٹی ہؤس کے بارے میں باتیں شروع کر رہے تھے کہ نیچے سے بلند آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ادھر دیکھا تو بٹ صاحب، باباجی سید فراز، متلاشی اور محمد عمر فاروق صاحب باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ اور بٹ صاحب گھن گرج رہے تھے۔ سلام دعا کے بعد بیٹھنے لگے تو پردیسی بھائی بھی نیر صاحب کے ساتھ آ پہنچے۔ نئے ملنے والوں کا تعارف ہوا۔ پہلے یہ سوچا کہ کس چیز کا دور چلایا جائے اور کس چیز کو اڑایا جائے۔ مینیو میں سے بریانی پسند کی گئی لیکن اس کے ناغے کا دن تھا۔ سو پانی کا ایک گلاس جو میں پی چکا تھا اس کے ساتھ ہی پچھلی عید ملن پارٹی والے ریستوران کا رخ کیا۔ وہاں بھی ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ کھانا ختم کر کے دوبارہ پاک ٹی ہاؤس میں آ گئے۔ بٹ صاحب کے بقول وہاں ایک محترمہ کی آمد بھی متوقع تھی۔ لیکن خدا معلوم وہ دعوت والے دھاگے میں صرف کہہ ہی رہی تھیں اور انہیں آنا نہیں تھا بہرحال ساجد بھائی کے ساتھ ساتھ محترم حسیب نذیر گل بھی نہ آسکے۔ نیر بھائی کے کیمرے نے ایسی ایسی تصاویر کھینچی کہ زور زور سے کھینچ ڈالیں جس پر محترم بٹ صاحب کو تحفظات بھی تھے۔ بہرحال سیاسی قسم کی گفتگو بھی ہوتی رہی اور برداشت کے رویے کو عام کرنے کے لیے بٹ صاحب نے بحث کے طور طریقوں پر بھی روشنی ڈالی۔ میں نے سر نعیم قیصر کو متلاشی صاحب سے ملایا کہ یہ علم عروض کو جانتے ہیں اور آپ کے ساتھ اچھے دوستانہ مراسم قائم کر سکتے ہیں۔ آغاز میں جب ایک بار سر نعیم قیصر نے بتایا کہ ان کا ایک چھوٹا سا سکول ہے تو پردیسی بھائی نے فرمایا پھر تو آپ بہت امیر آدمی ہیں۔ بٹ صاحب نے کہا کہ وہ سکول کی فیسیں سن سن کر حیران ہو گئے ہیں تو پردیسی بھائی نے کہا کہ وہ فیسیں ادا کرکرکے پریشان ہو گئے ہیں۔ محترم محمد عمر فاروق اور محمد کامران اختر صاحب نے گفتگو میں حصہ کم سے کم لیا اور ناٹ آؤٹ رہے۔ لیکن محترم باباجی بلاوجہ مین آف دی میچ قرار پائے
پھر ایک عرصے سے پاک ٹی ہاؤس کے بند ہو جانے کا ماتم ہوتا آ رہا تھا حال ہی میں اس کو دوبارہ سجا سنوار کرکھول دیا گیا جس میں سیاست دانوں کا تعاون بھی شامل حال رہا۔ یار لوگوں نے سوچا کہ محفلین کی ایک نشست بھی وہاں ہونی چاہیے۔ چنانچہ آج ڈیڑھ بجے میں اور سر نعیم قیصر ڈیڑھ بجے پاک ٹی ہاؤس کے سامنے پہنچ کر دوسرے دوستوں کا انتظار کرنے لگے۔ دو بجے تک جناب محمد کامران اختر بھی پہنچ آئے۔ محترم عاطف بٹ صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ پانچ منٹ میں آرہے ہیں۔ ہم تینوں ٹی ہاؤس میں داخل ہو کر اوپر والے حصے میں جا کر بیٹھ گئے ابھی ٹی ہؤس کے بارے میں باتیں شروع کر رہے تھے کہ نیچے سے بلند آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ادھر دیکھا تو بٹ صاحب، باباجی سید فراز، متلاشی اور محمد عمر فاروق صاحب باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ اور بٹ صاحب گھن گرج رہے تھے۔ سلام دعا کے بعد بیٹھنے لگے تو پردیسی بھائی بھی نیر صاحب کے ساتھ آ پہنچے۔ نئے ملنے والوں کا تعارف ہوا۔ پہلے یہ سوچا کہ کس چیز کا دور چلایا جائے اور کس چیز کو اڑایا جائے۔ مینیو میں سے بریانی پسند کی گئی لیکن اس کے ناغے کا دن تھا۔ سو پانی کا ایک گلاس جو میں پی چکا تھا اس کے ساتھ ہی پچھلی عید ملن پارٹی والے ریستوران کا رخ کیا۔ وہاں بھی ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ کھانا ختم کر کے دوبارہ پاک ٹی ہاؤس میں آ گئے۔ بٹ صاحب کے بقول وہاں ایک محترمہ کی آمد بھی متوقع تھی۔ لیکن خدا معلوم وہ دعوت والے دھاگے میں صرف کہہ ہی رہی تھیں اور انہیں آنا نہیں تھا بہرحال ساجد بھائی کے ساتھ ساتھ محترم حسیب نذیر گل بھی نہ آسکے۔ نیر بھائی کے کیمرے نے ایسی ایسی تصاویر کھینچی کہ زور زور سے کھینچ ڈالیں جس پر محترم بٹ صاحب کو تحفظات بھی تھے۔ بہرحال سیاسی قسم کی گفتگو بھی ہوتی رہی اور برداشت کے رویے کو عام کرنے کے لیے بٹ صاحب نے بحث کے طور طریقوں پر بھی روشنی ڈالی۔ میں نے سر نعیم قیصر کو متلاشی صاحب سے ملایا کہ یہ علم عروض کو جانتے ہیں اور آپ کے ساتھ اچھے دوستانہ مراسم قائم کر سکتے ہیں۔ آغاز میں جب ایک بار سر نعیم قیصر نے بتایا کہ ان کا ایک چھوٹا سا سکول ہے تو پردیسی بھائی نے فرمایا پھر تو آپ بہت امیر آدمی ہیں۔ بٹ صاحب نے کہا کہ وہ سکول کی فیسیں سن سن کر حیران ہو گئے ہیں تو پردیسی بھائی نے کہا کہ وہ فیسیں ادا کرکرکے پریشان ہو گئے ہیں۔ محترم محمد عمر فاروق اور محمد کامران اختر صاحب نے گفتگو میں حصہ کم سے کم لیا اور ناٹ آؤٹ رہے۔ لیکن محترم باباجی بلاوجہ مین آف دی میچ قرار پائے