عمران خان صاحب نے جو کیا، پہلی بار نہیں کیا۔
وقفے وقفے سے محترم کوئی ایسی پھلجھڑی چھوڑ دیتے ہیں جس کے لئے ان کے ٹائیگرز کو ان کا دفاع کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن بے چارے اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔جس عقیدت سے ان لوگوں نے خان صاحب کواپنے دل میں جگہ دی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ خان کا ہر کہا بالکل درست ہے۔ وہ کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ وہ عقل کل ہے۔سو ان کا دفاع کرنا ان پر لازم ہے۔
چاہنے والوں کے اسی طرز عمل نے خان صاحب کو بھی اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس ملک میں صرف وہ ہی صاحب فہم و فراست ہیں۔ سو ان کے من میں جو آتا ہے زبان سے نکال دیتے ہیں۔ دنیا انہی کے الفاظ کو لے کر انہیں شرمندہ کرتی ہے۔ طعنے دیتی ہے۔ ٹھٹھہ اڑاتی ہے۔ ان کی تعلیم،ان کی تربیت اور ان کی فراست پر سوالات اٹھاتی ہے۔ مگر آپ سب تنقیدی آوازوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں،شرمندہ ہونا تو دور کی بات اپنے کہی ہوئی غلط بات کو غلط تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ اگرد گرد واہ واہ کرنے والوں کا شور ہوتا ہے۔
ایک کھلنڈرا نوجوان یا پلے بوائے ہونا اور بات ہے اور کسی ملک کی حکومت کا سربراہ ہونا بالکل ہی دوسری بات ۔ اس اہم ترین منصب کے حامل کو اپنے ہر قول میں ذمہ دار اور محتاط ہونا چاہیئے۔ ہر بات کو بولنے سے پہلے ایک بار نہیں سو بار تولنا چاہیئے۔ کہ یہی اس منصب کا تقاضا ہے۔نواز شریف کو پرچی شریف ہونے کا طعنہ دینے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ بلا سوچے سمجھے بول کر شرمندگی سے دوچار ہونے سے بہت بہتر ہے کہ اگر زبان پر قابو نہیں تو پرچی سے دیکھ کر بولا جائے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔۔۔۔۔۔۔۔آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا