پختون کی بیٹی - مکمل ناول

تفسیر

محفلین
guul.gif
 

تفسیر

محفلین
جاری

.
پختون کی بیٹی
سید تفسیر احمد
باب اول۔ داستانِ گل و بلبل
1۔ گل
2۔ سکینہ
3۔ خان
4۔حدود ارڈنینس
5۔ پینو
6۔ ساحل سمندر

.
 

تفسیر

محفلین

کوہاٹ





آج کے زمانے میں ایسی قوم دنیا کی بھلائی اور انسانیت میں کیا حصہ لےگی
جو عورتوں کی عزت کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتی ہو؟

جو ماں، بہن اور بیوی کو روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہ تو کوئ مردانگی نہیں۔
عورت بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ وہ کوئ گائے یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔

جس نے تم کو جنا ہے اور تم اس کو بازارمیں نیلام کرتے ہو! جس نےتم کو بھائ کہا تم سےلاڈ کیا،
اس بہن کو بیچ دیتے ہو!

تم اپنی ہی اولاد ، اپنی ہی بیٹی کوخان اور ملّک کے پاس چھوڑ آتے ہو
اور بیٹیوں سے باپ کہنے کا حق چھین لیتے ہو۔
یہ نہیں جانتے کہ کتنے مرد اُس کی بےحرمتی کریں گےاور اس کی عزت لوٹیں گے!

 

تفسیر

محفلین
پختعن کی بیٹی


میں نے کمپیوٹر آن کیا۔اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اسائنمنٹ کی فائل کو کھولا۔
کلاس: فلسفہ۔ ایم چار سو دو۔ ارسطو
پروفیسر : سان کیلسی۔اسسِٹنٹ پروفیسرآف فلاسفی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ایٹ لاس اینجلس۔
اسائنمینٹ: اَچھائ کا virtue
ڈیؤ ڈیٹ: پانچ جولائ
کمپیوٹر کے اسکرین پر میسنجرکا ایک ’ پاپ اپ‘ نظر آیا۔
” سلام“۔
دماغ نے کہا نظرانداز کردو۔ میں نے’ مصروف ‘ہو نے کا بٹن کِلک کردیااور اپنی توجہ اسائنمنٹ پر مرکوز کی۔
اچھائ۔میں نے عنوان لکھا۔ اسکرین نے ایک بھبکالیا۔
” سلام“۔
میں نے ’ ناموجود ‘ ہو نے کا بَٹن کِلک کردیا۔ اورتَمہید لکھنی شروع کی۔اچانک ذہن خالی ہو گیا۔
اسکرین پھرسے بھبکا۔۔۔ سلام۔۔۔اور مسینجرنے سارے اسکرین پر قبضہ کرلیا۔
” سلام “۔
میں نے پروفائل دیکھنے کی کوشش کی۔ نام ، جنسیت ، ملک اور پیشہ کے خانے میں’ نا اِظہار‘ لکھا تھا۔
سعدیہ میری چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہوئ۔ میں نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئ۔
” تم کون ہو؟“میں نے پوچھا۔
”میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” مجھے 5 جولا ئ سے پہلے اپنے کالج کے اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے“۔
” میں نے تمارا افسانہ’مدّوجزر‘ پڑھا“۔
” کیا تم کو پسند آیا؟“میں نے نرمی اختیار کی۔
” میں نے تمارا مضمون تقویٰ بھی پڑھا“۔
” تو؟“ میں نے کہا۔
 

تفسیر

محفلین
پختون کی بیٹی


” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” کیوں؟“ میں نے سوال کیا۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔ اس نے عاجزانہ لہجہ میں کہا۔
” مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ تم مجھ سے کھیل رہی ہو“۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔اس نےمیری بات کونظرانداز کردیا۔
” کیوں؟“ میں نےمطالبہ کیا۔
” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے پھر دوہرایا“۔ ہم’ آڈیو‘ استمعال کریں گے“۔
” لیکن میں مصروف ہوں۔ مجھے اس اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے”۔
” اگر میں تم سے وعدہ کروں کہ ہماری گفتگو کےاختتام پرتم اس اسائنمنٹ کو آدھےگھنٹے سے کم وقت میں کر لوگے تو کیا پھر تم مجھ سے بات کروگے؟”
میں نے اس کو’ قہقہہ‘ لگانے کا ونک بھیجا اور بے پروائ سے آڈیو کی درخواست کو قبول کرلیا۔ ویسے بھی اس وقت میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔
میں نے مائکروفون میں کہا۔” تمہارا کیا نام ہے ؟ تم کون ہو؟ اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ اگر تم ان باتوں کا جواب پانچ منٹ میں نہ دوگی تو میں کمپیوٹر کو آف کردوں گا”۔
اس نےصرف یہ کہا کہ پانچ منٹ کے بعد یہ مجھ پر ہوگا کہ میں اس کی تمام باتوں کوسنوں یا نہ سنوں۔
” میرا نام گل ہے“۔
کنکشن بہت صاف تھا۔ میں نے پہلے کبھی اس انٹرنیٹ آڈیو کواتنا صاف نہں سننا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ لڑکی میرے کمرے میں موجود ہے۔ اس کی آواز غم اور سوزسے بھری تھی۔
” آپ داستان لکھتے ہیں! میں نے آپ کی داستان ۔ ’مدّ وجزر‘ پڑھی - بہت اچھی لگی۔ اگر میں آپ کو ایک حقیقی داستان سناؤں توکیا آپ اس کو لکھیں گے؟“
” میں آپ سے بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں صرف اپنی پسند کے موضوع پرداستان لکھتا ہوں“
گل نےمجھےنظرانداز کر کے کہا۔
” میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹےگاؤں میں پیدا ہوئ۔ میرا ایک بھائ ہے جو مجھ سےدو سال بڑا ہے۔اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں۔ ایک ،سال بھر اور دوسری دو سال مجھ سے چھوٹی ہے۔ میں نےاس کی سِسکیوں کی آواز سنی۔ ہمارے ساتھ دادی، نانی،چچا اورچچی بھی رہتے تھے۔
ابا بہت بوڑھے ہیں اور وہ چار جماعت تک اسکول گئے تھے۔ اس لے وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب کبھی ماں کوابا کچھ پیسے دیتے وہ بھائ کے ساتھ بازار جاکر سبزی، گوشت اور آٹا لے آتی تھیں۔ بعض دفعہ ماں ہم کو صرف’ ڈوڈئ‘ اور پانی دیتی اور ابا کو’ ٹیکالہ‘۔ میں جب چھ سال کی تھی تو پہلی دفعہ میں نے خان صاب کے ہاں دودھ پیا۔
” ڈوڈئ اور ٹیکالہ کیا ہوتا ہے“۔ میں نے سوال کیا۔
 

تفسیر

محفلین
پختون کی بیٹی


میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
” میں پانچ سال کی تھی ایک دن ماں نے کہا بیٹی تمہارے بھائ کوبابا، مردان کے خان صاب کےہاں لےجارہے ہیں۔ یہ اب خان صاب کے پاس رہ کر کچھ سیکھےگا“۔
میں نے کہا ” بھائ وہاں کیوں جائیں یہاں کیوں نہیں سیکھتے ؟“
میں نے بھائ کاہاتھ پکڑ کر کہا۔” بھائ ! تم مجھ کو چھوڑ کرمت جا ؤ۔ میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟ کس کے ساتھ اس کول جاؤں گی؟ جب بڑے بچےمجھ کوماریں گے توکون مجھ کو بچائے گا؟“
سعدیہ کے آنسواب اس کےگالوں پر بہ رہے تھے۔
باپ نےمیرا ہاتھ جھٹک دیا۔ بھیا نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کرچیخ ماری اور وہ چلایا۔گل،گل“۔
میں بھائ کواب بھی دروازے سےنکلتا دیکھتی ہوں۔ جب میں دروازے پر پہنچی توبابا۔ بھائی کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
جیسے سُوئی ایک پُرانے ریکارڈ پر رُک جاتی ہے وہ ایک گِھسّے ہوے ریکارڈ کی طرح ایک جملہ دُہرانے لگی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ سعدیہ اب رو رہی تھی۔گل رو رہی تھی۔ پھرمیں نےگل کی دھاڑیں مار کر رونے کی آواز سنی۔
میں خاموش رہا۔ میرے پانچ منٹ تک سننے کے وعدے کوگزرے ہو ئے عرصہ ہو چکا تھا۔ میں اب اس مقام پر تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ مجھےاب اس کہانی کوسننا تھا۔
” میں نے میرے بھیا کو آخری بار دیکھا۔ وہ منظر مجھ کو آج بھی اس طرح نظر آتا ہے۔ جیسے پھر سے ہو رہا ہو“۔ گل نے روتے ہوکہا۔
مجھ سے کرسی پر بیٹھا نہ گیا۔ میرے آنسو بہنے لگے۔میں نے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔
بہت عرصہ گزرا- ایک دن میں اسکول سے واپس آئ تودیکھا کہ ابا ، اماں کولکڑی سےمار رہے ہیں۔ ابا نے اماں کو بہت مارا۔ میں بہت ڈری اور دادی کے پاس بھاگ گئ۔
دوسرے دن ماں نےمجھے نہلا کرصاف کپڑے پہنائے۔ میرے بالوں میں کنگھی کی۔اور مجھے بہت پیارکیا۔ وہ بہت رویں۔ مجھے پتہ نہیں وہ کیوں رورہی ہیں۔ مگرمیں بھی نہ اپنے آنسوکو روک سکی اور ہم دونوں لپٹ کر بہت دیر تک روئے۔
شام کو بابا آئے اورکہا چلو۔ میں نے کہا۔” بابا ،ہم کہاں جارہے ہیں۔ اماں ہمار ے ساتھ نہیں آئیں گی“۔
ابو نے کہا۔” میں تم کوخان صاب کی حویلی میں لے جاتا ہوں۔ وہاں تم کو اچھا کھانا اورصاف سترے کپڑے ملیں گے۔اورتم گھر بار کی چیزیں سیکھوگی۔ بلبل ، اس طرح جب تم بڑی ہوگی تو تماری شادی ہوسکے گی“۔
 

تفسیر

محفلین
پختون کی بیٹی


میں نے روتے ہوکہا۔” بابا میں اماں کے پاس رہوں گی۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی“۔ بابا نے مجھےگِھسیٹنا شروع کیا اور میں نے چلانا شروع کیا“۔
میں اب بھی بھیا کو دروازے سے جاتا اور گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔اب میں اپنے آپ کو بھی بھیا کی طرح گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔
میری ٹہلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔
میں ایک نوجوا ن ہوں جس نے زندگی میں ایک وقت بھی فاقہ نہیں کیا۔جو ایک دن بھی اپنے ماں باپ اور بہن سے جدا نہ ہوا۔ جس کی بہن اس کو ہرگھنٹہ سیلولر فون پرکال کرتی ہے۔اور اگرمیں مصروفیت کی وجہ سے جواب نا دوں تو بیقرار ہو جاتی ہے اورطوفان کھڑا کردیتی ہے۔
” الٰہی میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا یہی تیری توفیق اور تیرا انصاف ہے؟ تو دیتا ہے ایک کواورسب کچھ چھین لیتا ہے دوسرے سے“۔
اچانک میں نےگل کی آواز سنی۔
میرے بابا نےمجھے پیارکیا اورکہا۔” میری بلبل تم اندر جاؤ۔ اللہ حافظ“۔
حویلی کےاندر بہت لوگ تھے۔ گھر کے کاموں کی دیکھ بھال کرنے والی ماسی مجھے باورچی خانہ میں لےگئ۔ اور سبزی کاٹنے پر لگا دیا۔ مجھے تو چھری پکڑنا بھی نہیں آتی تھی۔ میں نےدیکھا کہ دو لڑکیاں وہاں کام کررہی ہیں وہ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔ ان کا نام نورا بی بی اور جمعہ بی بی تھا۔جب ماسی باورچی خانہ سے چلی گئی تو میں ماں اور بھائ کو یاد کرکے رونے لگی۔ اتنے میں دروازے سے ایک بڑی لڑکی داخل ہوئ۔ لڑکیوں نے کہا چھوٹی مالکہ بی بی آرہی ہیں جھک کر سلام کرو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ کر سلام کیا۔
وہ مجھ کودیکھ کر مسکرائ۔
” تم نئ لڑکی ہو۔ تمھارا کیا نام ہے؟“۔
میں نے شرما کرکہا۔” گل، سب مجھ کوگل کہتے ہیں۔ میرے بابا مجھ کو اپنی بلبل کہتے ہیں“۔
اتنے میں ماسی باورچی خانہ میں واپس داخل ہوئ۔ بی بی آپ یہاں؟ آپ نےگھنٹی بجائ ہوتی تو میں نورا کو بھیج دیتی۔ کیا چاہیے؟“
” ماسی میں امی سے کہوں گی کہ گل کو میرے پاس رکھیں“۔
بی بی جیسی آپ کی مرضی۔ مگر ہمیں گل کوشادی کے قابل بھی تو کرنا ہے؟“
” اچھا، تویہ صرف اس وقت دوسرے کام کرے گی۔ جب میں کالج جاؤں“۔
” چلوگل تم میرے ساتھ آؤ“۔
ہماری ماں نے کھلے ہوئے دروازہ پر کھٹکھٹایا۔ہر چیز خیریت سے ہے؟ ہاں سعدیہ نے روتے ہوے جواب دیا۔ کمپیوٹر کا آڈیو چلا گیا اور اسکرین پر میرے اسائنمنٹ کا صفحہ واپس آگیا اور اس پر اچھائ کے virtue کی ایک آوٹ لائن موجود تھی۔
ماں نےصوفہ کے بیچ میں بیٹھ کر سعدیہ اور مجھ سے سوال کیا”۔ تم دونوں میں لڑائ ہوئ نا“۔
” نہیں ماں ، میں اپنے لیے رورہی ہوں۔ میں ، میری بہن گل کے لیے رورہی ہوں۔ میں صوبہ پختونخواہ اور پاکستان کی عورتوں کے لے رورہی ہوں“۔
اور سعدیہ سسکیاں لینے لگی۔ ماں نے سعدیہ کا سر اپنی گود میں رکھ کیا۔اور اُنگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں اور پھر میری طرف دیکھا۔ میں اپنے جذبات پر قابو پاچکا تھا۔
 

تفسیر

محفلین
سکینہ


سعدیہ اور میں کمپیوٹر پر ایک گیم کھیل رہے تھے۔ مسینجر کا اسکرین’ کپکپایا‘۔

” السلام علیکم“۔میں نےوعلیکم سلام لکھا۔

” میرا نام سکینہ ہے۔میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔

سعدیہ نے کہا۔” ہاں بھائ جان نئ گرل فرینڈ، میں چلوں“۔

میں نے کہا۔ ” کدھر جاتی ہو۔تم یہ گیم ہار جاؤگی بیٹھو، میں اس کو ابھی رخصت کرتا ہوں۔میں اس کو جانتا نہیں ہوں“۔

” میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔

” میں تم کو نہیں جانتا اور نہ ہی تم میری contact list میں ہو۔پھرتم کومیرا برقی رابطہ کیسےملا“۔

” میں’ آڈیو اجازت‘ کی درخواست بھیج رہی ہو“۔

” اور میں اس کو ’ قبو ل‘ نہیں کروں گا“۔ میں نےغصے سے کہا۔

اسپیکر پر آواز آئ۔” میرا نام سکینہ ہے۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔

اس کی آواز میں ترنم اور سوز تھا اُس آواز میں اپنائیت تھی۔ جیسے ہم ایک جیسے ہیں۔

” میں کوہاٹ کی ایک خان زادی ہوں۔گل میری ننھی سی بہن کی طرح تھی“۔

سعدیہ اورمیرے کان کھڑے ہوگئے“۔ تم گل سے واقف ہو؟“

اس نے میرے سوال کو نظرانداز کرکے کہا“۔ میں نے ہمیشہ اس کی دیکھ بھال کی۔ ہم بہت عزت دار ہیں اورہماراگھرانا شریف گھرانا ہے“۔

” تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟ میں نے کہا“۔

” وہ میرے پاس ایک سال سے تھوڑا سا کم عرصہ رہی“۔

” کیا۔گل نے تم کو مجھ سے بات کرنے کوکہاہے؟“

” میرا نام سکینہ ہے۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اسنے پھر سے دُ ہرایا۔

سعدیہ نے مجھ سےفرنچ زبان میں کہا۔” بھیا ، آپ مت پوچھیں اس کو بتانےدیں کہ یہ آپ سے کیوں بات کرنی چاہتی ہے؟“

سکینہ ہنسی۔ وہ ایسے ہنسی جیسے کسی نے ستار پرہاتھ پھرا ہو۔ مجھےایسا لگا کہ وہ فرنچ جانتی ہے۔

” گل جب میرے پاس رہنے آئ تو وہ ایک خاموش اورکھوئ کھوئ سی دس سالہ تھی۔ ایک دن وہ برآمدہ میں کھڑی تھی۔ میں نےاسے نام لے کر پکارا۔ جب اس نے موڑ کر میری طرف نہ دیکھا تو میں نے بلند آواز میں پکارا۔ تب بھی اس نے جواب نہ دیا“۔

” تمہارے خاندان میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھی؟“ میں نے سوال کیا؟

” مجھے نہیں پتہ نا۔ بس یہ پتہ ہے کہ ہم وادی میں ہیں اور وہ پہاڑوں سے آئی تھی“۔

” کوہا ٹ میں غر یب اپنی لڑکیوں کو ملک یا خان کے پاس کیوں رکھتے ہیں؟“ مجھے اس رواج کے متعلق بتاؤ۔
” مجھے نہیں پتہ نا۔ بڑوں کو پتہ ہے۔ اور یہ صرف کوہاٹ میں ہی نہیں بلکہ سارے پختونخواہ اور افغانستان میں ایسا رواج ہے“۔

میں نے اسے کُریدا“۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“

میرا خیال ہے کہ اس سےغریبوں کو اپنے بچوں کوپالنے میں مدد ملتی ہے۔اور بچوں کوگھر کے کام کاج کی تربیت بھی ملتی ہے“۔

میں نے کہا“۔ کیا ان بچوں کونوکروں کی طرح رکھا جاتاہے؟“

” ہم عزت دار ہیں اورہماراگھرانا شریف گھرانا ہے۔ ہمارے خاندان میں اُنکواپنے بچوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ گل میرے کمرے میں سوتی تھی۔ وہ اکیلے سونے سے ڈرتی تھی”۔

” مجھےگل کے متلعق اور بتاؤ“۔

” میری کوئ چھوٹی بہن نہیں۔ وہ میری چھوٹی بہن کی طرح تھی۔ میں نےاس کو پہلا سپارہ پڑھایا۔گنتی اوراردو کا پہلا قاعدہ پڑھایا۔انگریزی کے لفظ سکھانے کی کوشش کی۔ایک دن پشاور والی آنٹی آئیں اور وہ اُن کے ساتھ چلی گئ“۔

” اپنی مرضی سے؟“

” ہا ں اپنی مرضی“۔ ۔سکینہ نے کہا۔

مجھ یقین نہیں آیا مگر میں خاموش رہا۔ کیا بڑے دس سال کی بچی کواُس کی مرضی دیں گے؟

” اس کے بعد میں نے گل کے بارے دوسال تک کچھ نہ سنا۔ایک دن امی نے بتایا کہ گل اب شادی شدہ ہے“۔ سکینہ نے کہا۔

” تم نے کیا کہا ، شادی شدہ“۔ میں نےحیران ہوکرکہا ؟

” شادی شدہ“۔ سعدیہ کرسی سے اُچھل کر کھڑی ہوگئی اور اسکا سردائیں بائیں ہل رہا تھا۔جسے ایک مسخرہ اپنا سر ہلاتا ہے۔

سکینہ نے کہا۔ ” یہ اسی عجیب بات تو نہیں ہے۔ یہ تو ہماری قوم کے غریبوں کی مجبوری ہے لڑکیوں کی شادی سے لڑکی کے ماں باپ کو پیسے ملتے ہیں۔گل کے ابو نے پیسوں کے لئے اس کی شادی ایک چالیس سال کے آدمی سے کردی“۔
سعدیہ غصہ سے بولی”۔” یہ تو ظلم ہے کیا ایک ماں، باپ اور بھائ اپنی بیٹی اور بہن پر یہ زیادتی کرسکتے ہیں۔ اس عمر میں تو لڑکی جسمانی اور دماغی طور پر تیارنہیں ہوتی“۔

میں نے سعدیہ کو ر وکا۔ ” اس میں سکینہ کا قصور نہیں ہے“۔

سعدیہ نے سکینہ سے معافی مانگی۔

سکینہ کہا۔” میں تمہارے غصہ کو قبول کرتی ہوں۔ میں نےاس کو بہن کہا تھا اورگل نےمجھ کو باجی۔ مجھے بھی اتنا ہی غصہ ہے جتنا تم کو ہے۔ جب میں نے سنا کہ گل بچے کی پیدائش کے دوران مرگئی تومیں اس کے غم میں دو دن تک کھانا نہیں کھا سکی اور نا ہی سوسکی“۔

سکینہ ہچکیاں لے کر رونے لگی - سعدیہ میں اب سننے کی برداشت نہ رہی۔ وہ زور زور سے روتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔
میں نے سکینہ سے کہا۔” مگر میں نے توگل سے تھوڑا عرصہ پہلے بات کی ہے“۔ سکینہ نے میری بات کو بلکل نظر انداز کردیا۔

” اللہ حافظ“۔ سکینہ نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔

” اللہ حافظ“۔

٭ ٭٭

میں نے سعدیہ کوماں کے کمرے میں پایا۔ اماں اس کو دلاسا دے رہیں تھیں۔ ” سعدیہ کیسی ہے؟“۔

ماں نے کہا کہ اس نےاب رونا بند کیا ہے۔

سعدیہ کھڑے ہوکرمجھ سےلپٹ گئی۔ بھیا آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ آپ میری بہنوں کواس طرح مرنےنہیں دے سکتے۔ آپ مرد ہیں۔ میں آپ کو اس کا ذمہ دار ٹہراتی ہوں۔ تمام مرد اس کے ذمہ د ار ہیں۔ میں زخمی ہوں۔ میں زخمی ہوں۔میں زخمی ہوں۔ میں تمہاری گُل ہوں۔ تم مجھے بچاؤ۔ میں زخمی ہوں۔

 

تفسیر

محفلین

میں نے سعدیہ کوگود میں اٹھاکر ماں کے بستر پرلیٹا دیا۔ اور ماں سرہانے بیٹھ کراپنی انگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔

میں نے سعدیہ کی پسندی کی سی ڈی لگادی۔ اس میں سمندر کی لہروں کی مسمرائ آواز اور پرندوں کی چرچراہت تھی۔

پانچ منٹ کے بعد سعدیہ کی سِسکیاں ختم ہوگیں اور اس کے بعد وہ سوگئی۔


٭ ٭٭


امی آپ نےگیارہ ، بار ہ سالہ بچّی کو چالیس پچاس سال کی عمر کے آدمی کوشادی کے بہانے، بیچنے کے بارے میں سننا ہے؟“

” ہاں اس کو مہر یا ’ سوارہ ‘ کہتے ہیں۔ اسلام نےمہرکےvirtue کواس لئےاختیار کیا تھا کہ مسلمان عورت کوکچھ حد تک مالی خود مختاری اور عزت ملے۔لیکن یہ اب غریبوں کے لے ایک آمدنی کا زریعہ بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ غُربت ہے۔یہ virtue جوایک زمانےمیں اچھائ کا virtueتھا اب زندگی، سماج اور تہذیب کی نشوونما میں برائ بن گیا ہے۔یہاں تک کے اب جس غریب خاندان کے پاس دولت نہیں ہے وہ لڑکیوں کا شادی کے لیے تبادلہ کرتے ہیں۔اس کو ‘ بدل’ کی رسم کہا جاتا ہے”۔

” آپ کا مطلب نہں سمجھ آیا“۔ سعدیہ نے کہا۔

” فرض کرو کہ ہم پختونخواہ میں ایک غریب گھرانا ہیں۔ مجھے تمارے بھیا کی شادی کرنی ہے۔ میں ایک ایسا گھرانا تلاش کرتی ہوں جہاں خاندان میں کم از کم ایک لڑکی اور لڑکا موجود ہیں۔ تمارے بھیا اس لڑکی سے شادی کریں گے اور تم اس خاندان کے ایک لڑکے سے شادی کروگی۔ اس طرح سے غریب لوگ بھی شادی کرسکتے ہیں”۔

” اگر خاندان میں صرف لڑکا یا لڑکی ہو اور دونوں نہ ہوں“۔ سعدیہ نے پوچھا۔

” تو پھرلڑکی والوں کے پا س مہراور سوارہ ہونا چاہیے“۔ ماں نے کہا۔

” امی ہم اگر بھائ جان کی شادی کے لیے ایک لڑکی منگائیں تو کتنے پا کستانی روپوں کی ضرورت ہوگی؟“۔سعدیہ نےمذاق سے پوچھا۔

” پکتیکا کے زُزمت علاقہ میں تم اپنے بھیا کی پچاس ہزار سے دس لاکھ پاکستانی روپوں میں اپنی پسند کی 14 برس کی لڑکی سے شادی کر سکتی ہو۔ یہ امریکن ڈالرمیں 9 سے لے کر16 ہزار ڈالرکے برابر ہیں“۔

” تب تو میں ایک 14 برس کی لڑکی جس کو رشتہ نہ ملتا ہوکم سے کم قیمت میں بھائ جان کے لئے منگاؤں گی۔ وہ تو میری دوست بن جائےگی“۔ سعدیہ نے قہقہہ لگا کرکہا۔

میں نے کہا“۔ ماں ہمیں سعدیہ کوکتنی مہرمقرر کرنا چاہیے؟“۔

” سعدیہ کوکوئ بھی نہیں خرید سکتا“۔ ماں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔یہ اصول تمام ماؤں کااپنی بیٹیوں کے لیے ہونا چاہیے“۔

” آپ تو یہ کہہ سکتی ہیں کیوں کہ آپ مالی طور پر بہتر ہیں۔لیکن وہ ماں اور باپ ، ایسا نہ کریں توخاندان کے دوسرے بچے بھوک سے مر جائیں گے“۔ میں نے کہا۔

” کیا یہ اصول ، باپ کے لئے بھی صحیح ہے بھائ جان؟“

” میں کتنا بھی چاہوں کہ یہ صحیح ہے ، لیکن مسلمان لڑکی اور لڑکے کا باپ اس اصول پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ہم مرد اپنی مالی اور جنسی خواہشات کی لیے کتنی مصوم لڑکیوں کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں۔ میں اس پرشرمندہ ہوں اور مجھے اس معاشرے کی برائ کے خلاف حصہ لیناچاہیے“۔


٭ ٭٭

میں نے ماں کوگل کی پوری کہانی بتائ۔ میں نے ماں سے کہا”۔ ہم اسکا الزام صرف غربت کودے رہے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ رسم رواج کا پہلے اور غربت کا بعد میں ہے“۔

ماں نے کہا”۔ تم کیا کروے گے؟“۔

میں نے کہا”۔ میں اپنی بہن کو زخمی نہیں دیکھ سکتا۔ اُس کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ وہ آہستگی کی موت مررہی ہے۔ مجھے دوسری گُلوں کو اس موت سے بچانا ہوگا“۔

اماجان نے کہا۔ ” بیٹا یہ کوئ نیا مسئلہ نہیں ، ہر چیزکی ابتدا گھر سے ہوتی ہے“۔

میں نے کہا۔ ”میں نہیں سمجھا“۔

” پختونخواہ کی تعلیم یافتہ باحیثیت لڑکیوں کو فیصلہ کرناہوگا کہ وہ کب تک خاموش رہئیں گی اور اپنی بہنوں، اپنی پختون قوم کی بچیوں پر یہ ظلم ہونےدیں گی - وہ کب انکی بھلائ کی پروا کریں گی“۔ اماں جان نے کہا۔
” جب پختون کی بیٹی اپناحق مانگےگی تو پاکستان کی تمام عورتوں کو انکا ساتھ دینا ہوگا۔ اور پھر دنیا کی تمام عورتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ یہ صرف پختون کی بیٹی کی جدوجہد ہی نہیں ہے۔یہ تمام عورتوں کی جنگ ہے، ہم مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں۔ لیکن یہ محاذ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے“۔

ماں نے کہا ۔” کیا تم جانتے ہو کہ تمارے ملک امریکہ میں کالوں کے تھوڑے سے حقوق تھے۔ 1900 میں ایک 23 سال کی لڑکی نے یہ سب تبدیل کردیا“۔

” وہ کیسے ؟“ میں نے پوچھا۔

” اس نےہمشہ سے قبول کیے ہوئے ایک غلط اصول کوماننے سے انکار کیا“۔ماں نے کہا۔

” تم اسکا نام جاننا چاہو گے؟“۔

” ہاں“۔میں نے کہا۔

” اسکا نام Rosa Luis Park تھا۔ وہ تماری گُل ہے“۔ماں نے کہا۔

” امریکہ میں کالےلوگوں کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی۔ 1823 میں ورجینا اسٹیٹ نے ایک قانون پاس کیا جسکا نام ’ جم کرو‘ یا ’ بلیک کوڈ ‘ تھا۔ اس قانون نے کالوں اورگوروں کوبالکل الگ کردیا۔ ہرچیز علیحدہ ، پانی پینے کا فوارہ علیحدہ ، علیحدہ ریسٹورانٹ، بسوں کی سیٹیں علیحدہ ، علیحدہ پارک، اس کول علیحدہ ، علیحدہ رہنے کی جگہیں۔ غرض ہرقسم کی ذیادتی ہوئ“۔

1955 میں ’ روزا ‘ ا یک بس میں سفر کررہی تھی۔ وہ اپنی مقررہ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ دوسری سب سیٹیں استمعال میں تھیں۔ایک گوراشخص بس میں داخل ہوا۔ بس کے ڈرائیور نے روزا سے کہا کہ تم اپنی سیٹ خالی کرو۔ روزا نے انکار کردیا۔ روزا کوگرفتار کرلیا گیا۔دوسرے دن ڈاکٹر مارٹن لوتھر کینگ اور تمام شہر کے کالوں نےشہر کی بسوں کواستمعال کرنا بند کردیا۔382 دن بعد کورٹ میں روزا مقدمہ جیت گئی۔اس سانحہ اوراس طرح کے دوسر ے سانحوں نے حقوق شہریت کی ابتدا کی اور 1963میں سِول رائٹ ایکٹ لکھا گیا” ۔ اب امریکی شہری حقوق کے قانون ، نسل، ذات اور مذہب کی بنیاد پر بنانے کی اجازت نہیں ہے"۔ قانون کی نظر میں تمام امریکی ایک ہیں۔
پاکستان کو اپنی ’ روزا ‘ چاہیے جس نے23 سال عمر اپنی بس سیٹ ایک گورے شخص کو دینے سے انکار کردیا۔اس سے ایک انقلاب شروع ہوا اور1965 میں قانون میں تبدیلی ہوئ اور تمام کالوں کو بس میں کسی بھی سیٹ پر بیٹھنے کا حق ملا۔

پاکستان کو اپنی’ سوو‘ چاہیے۔ جوجمہوریت کے لئے18 سال سے برما کی ملیٹری حکومت سے لڑرہی ہے۔ ’ ڈاو اینگ سان سووکی‘ نے 7 سال برمی جیل میں گزارے۔

پاکستان کو اپنی ’ ریگوبرٹا ‘ چاہیے جس نے اپنی زندگی’ گواٹامالا ‘ کے انڈیجنس( اصلی مقامی لوگ) لوگوں کی فلاو بہبود میں سونپی ہے۔ ریگوبرٹا مینچو نے اس کول یا کالج میں نہیں پڑھا۔ اس نے اپنے آپ کو پڑھایا.۔

پاکستان کو اپنی’ کریتیا ‘ چاہیے۔ جو کہ تھائ لینڈ میں لڑکیوں کے بیوپار کو ختم کرنےمیں مصروف ہیں ’ کریتیا ارچاون تیکول ‘ نے اس کام میں اب تک 20 سال گزارے ہیں۔

پاکستان کو اپنی’ نوال‘ چاہیے۔جو کہ مصر میں عورتوں کو مردوں کی فوقیت اور غلبت کے جال سے آزاد کرنے کے لیے مصروف ہے۔’ نوال السادوی‘ سےانکی میڈیکل ڈاکٹر کے کام کی اجازت مصر کی حکومت نے چھین لی ہے۔
پاکستان کو اپنی’ تھریسا’ چاہیے جس نے اپنی زندگی، کلکتہ کے غریبوں کے لیے وقف کردی۔ پوپ نے کلکتہ کی ماتا تھریسا کو اولیا saint کا درجہ دیا۔

پاکستان کو’ پختون کی بیٹی’ چاہیے۔ جو اپنی بہنوں، اپنی ماؤں کوآزادی دلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردے۔ جو ’ روزا ‘ بن جائے۔ جو ’ سوو ‘ بن جائے۔۔ جو’ ریگوبرتا ‘ بن جائے۔۔جو ‘ کریتیا’ بن جائے۔۔ جو ’ نوال ‘ بن جائے۔۔ جو’ تھریسا ‘ بن جائے۔۔

” ماں ، مگر میں کیا کروں؟“۔

” تم کواس پختون کی بیٹی کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کو ریمشا کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کوگل کو ڈھوڈناہے۔ تم کو نورا بی بی کو ڈھوڈناہے“۔

” میں ا نکو کہاں پاؤں گا؟“

” وہ کرک ، بنّوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرا اسمعیل خان میں گھومتی ہے۔وہ سوات میں بستی ہے۔ وہ چترال میں ملتی ہے۔وہ کوہستان میں ہے۔وہ بٹگرام میں رہتی ہے۔اس کا رنگ دیربالا میں جھلکتاہے۔وہ دیر پیاں میں موجود ہے۔وہ مانسہرہ اور شانگلہ میں رہتی ہے۔ وہ بونیرمیں بستی ہے۔وہ صوابی، مردان ، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ میں رہتی ہے۔وہ مالاکنڈ میں رہتی ہے۔وہ ایبٹ اباد اورہری پور میں ملتی ہے۔اس کی سانسیں کوہاٹ اورہنگومیں محسوس کرو گے۔ تم اس کو پختونخواہ کے تمام اضلاع میں پاؤگے“۔
 

تفسیر

محفلین

خان

میں نہا کرغسل خانے سے نکلا تو اماں جان نے کہا ہم باہر سوئیمینگ پول پر ہیں اور چائے تیار ہے۔ میز چائے، سموسے ، نمک پارے اور میری پسندیدہ مٹھائ قلاقند سے سجی ہوئ تھی۔ سعدیہ کی آنکھیں اب تک سرخ تھیں۔ لیکن وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نےما ں کا ماتھاچومااور پھر سعدیہ کا ماتھا پیار سے چوما۔ اماں نے میرے نے چائے پیالی میں نکالی۔

” ماں“۔میں نے کہا۔” ایک دفعہ آپ نے ذکرکیا تھا کہ آپ اوراباجان نے کالج سے ایک سال کی چھٹی لے کر پیس کورPeace Core میں کام کیا تھا“ ۔

” ہاں اور ہمارا اسائنمنٹ افغانستان اور صوبہ سرحد تھا“ ۔ماں نے کہا۔

میں نے سموسے کے ایک ٹکڑے پر ہری مرچ کی چٹنی لگا کر کھایا۔اور پھر چائے کا ایک گونٹ لیااور ماں سے پوچھا۔
” یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کےدونوں طرف لوگ ایک ہی نسل کے ہیں“؟
” ہاں وہ سب پختون ہیں“۔

پختونخواہ میں باجوڑ کے ترکلانی سوات اور ملاکنڈ کے’ یوسفزئ‘ اور خیبر، کوہاٹ اور پشاور کے ’ آفریدی‘ ، مھند کے’ مھمند یا مومند‘ ، اورکزئ کے ’ اورکزئ ‘ ،کرم کے ’ طوری ‘ اور’بنگش‘ شمالی وزیرستان کے ’ وزیری‘ ، جنوبی وزیرستان کے ’ محسود اور ارمڑ‘ ، ڈی آئ خان اور ٹانک کے ’ بیٹنی اور شیرانی‘ ، کوہاٹ کے ’ خٹّک اور اعوان ‘ اور بہت سی دوسری خیلیں“ ۔

سعدیہ نے پوچھا”۔ پختون اور پٹھان ایک ہیں؟“

ماں نے مسکرا کر کہا۔” ہاں، ہندوستانی پختونوں کو پٹھان کہتے ہیں، ایرانی افغان مگر یہ خود کو پختون کہتے ہیں“ ۔


مجھ ایک نظم یاد آرہی جو پختونخواہ کے ایک مشہور شاعر نے ’ خان ‘ کے بارے میں لکھی ہے۔



تقدیر کا کمہار جنت میں بیٹھا تھا
تقدیر کا کمہار ایک گدھا بنا رھا تھا

جب خان کو بنانے کا وقت آیا
کمہار نے گدھے کی دُم کو کاٹ دیا

اور دونوں کانوں کی نقاشی کی
اس کی پیشانی پر غصہ کا نشان بنایا

اور خان صاحب کے دماغ میں
اس نے ایک بیماری رکھ دی

- وہ سب کا رہنما بنے
اسکے سر پر ایک پگڑی باند دی

کمہار اس کو دینا کی طرف روانہ کر دیا


٭ ٭٭

پختون کا کردار عزت ، بدل اور مل مستیا سے بنتا ہے۔


٭ ٭٭

پختون کا کردار عزت ، بدل اور میلمستیا سے بنتا ہے۔

زندگی نہیں، موت مجھ کوگلا ملتی ہے
گر زندگی میں عزت کو دغا ملتی ہے

کھانا اکیلا کرتا ہے کھانے کو ضائع
ساتھ بیٹھ کے کھانے میں شفا ملتی ہے

نا کر میری عزت خراب تو تفسیر
پٹھان ہوں قتل کرنے سے جزا ملتی ہے

اگر آپ پٹھان کے مہمان ہیں یا آپ ایک منصف کی طرح آتے ہیں تو پٹھان آپ کی مہمان نوازی ایک دوست کی طرح سے کرے گا اورخاطر و خیا ل تعظیم و تکریم تہذیبی نظام کےمطابق کرے گا۔ اگرآپ اس کی ملکیت سے باہرہیں اور حکومت یا غلبہ کرنے کےارادے سے آرہے ہیں، پختوں آپ کی تعظیم اور تکریم کرے گا۔لیکن جب اندر آجاتے ہوآپ اس کے رقیب ہیں تب ظلم، لالچ، دھوکے بازی اوربغض اس کی و سعت ہوگی”

” ماں میں نے کہیں پڑھا ہے کہ چند تاریخ نویسوں کا خیال ہے کہ پختون اسرایئل کے کھوئے ہوئے، دس قبیلوں میں سے ایک قبیلہ کی اولاد ہیں۔اس قبیلہ کا نام جوزف (یوسفزئ) تھا۔اس کےعلاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پختون ، غور کے قیس عبدالرشید کی اولاد ہیں۔ قیس نے سات سو ہجری میں حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی - قیس ایک خیالی افغانہ کی اولاد میں سے ہیں۔ اس لیے وہ افغان کہلائے۔

” یہ تو کسی کو نہیں معلوم کہ صحیح کیا ہے۔ لیکن پختون اب مسلمان ہیں اور ہم سب کو اسلام یکجا کرتا ہے“۔
سعدیہ نے کہا“۔ مگر ان کے قانون تو اسلام سے مختلف ہیں نا“۔

” بیٹی ہر قوم اور قبیلہ ان اصولوں اور ورچوز کواختیار کرتا ہے جو اس کے بقا کے لیے بہتر ہوں۔virtues کی تبدیلی علمِ حیات اور تہذیب کی نشوونما پر ہے اور ترقی یافتہ قومیں اپنے آپ کو انسانیت کے عروج پر لے جانے کی تمنا اور کوشش کرتی ہیں۔مگر پختون کو اس کا آج تک موقعہ نہیں دیا گیا”۔ ماں نے کہا۔

” کیا تمہیں پتہ ہے کہ پاکستان کے بننے کے59 سال بعد اب بھی پختونخواہ کو پختونخواہ نہیں کہا جاتا۔ اب تک اس کو شمال مغربی صوبہ سرحد کہا جاتا ہے۔ یہ بھی تو بےانصافی ہے“ ۔

میں نے پوچھا۔” لیکن اماں، مجھے اس میں تو بےعقلی نظر آتی ہے کہ عورت اور خاندان کی عزت کواس طرح سے ملانا کہ عورت پر ہی ظلم ہواور عورت کی ہی بےحرمتی ہوتی ہے“ ۔

” بیٹے تم اس کو موجودہ زمانے کےلحاظ سے دیکھو تو یہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے اور دنیا کا ہر شخص تسلیم کرے گا کہ یہ اصول وقت کی ضروریات کےساتھ نہیں بدلا۔اس کوبدلنا تھا۔لیکن ایک وقت عورت اور خاندان کی عزت کو اس طرح سے سلجھانا ایک سنہری اصول تھا اور اس نے قبیلہ کی بقا میں مدد دی۔ مگراب عورت اور خاندان کی عزت کو رکھنے کے لیے ملکی اور عالمی حقوق موجود ہیں“ ۔

” وہ کیسے؟“۔سعدیہ نے پوچھا۔

” ایک زمانہ تھا کہ جرگہ کوامتیازحاصل تھا۔جرگہ ایک روحانی اور اخلاقی جمہوریت تھا۔جرگہ نہ صرف جھگڑ وں کو نمٹا تا تھا بلکہ مخالفت کو بھی ختم کرتاتھا۔ عورت کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر عورت خون خرابے کے بدلے میں دشمن کو دی جائے تو وہ اپنی محبت اور محنت سے دشمن کو دوست میں تبدیل کر دے گی۔لیکن جرگہ کے اصولوں میں وقت کے مطابق تبدیلی نہیں ہوئ“ ۔ اماں نے کہا۔

” آج کے زمانے میں ایسی قوم، دنیا کی بھلائ اور انسانیت میں کیا حصہ لےگی جو عورتوں کی عزت کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتی ہو؟ جوماں، بہن اور بیوی کو روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہ تو کوئ مردانگی نہیں۔عورت بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ وہ کوئ گائے یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ جس نے تم کو جنا ہے تم اس کوبازارمیں نیلام کرتے ہو!۔جس نے تم کوبھائ کہا تم سےلاڈ کیااس بہن کو بیچ دیتے ہو! تم اپنی ہی اولاد ، اپنی ہی بیٹی کوخان اور ملک کے پاس چھوڑ آتے ہو اور بیٹیوں سے باپ کہنے کا حق چھین لیتے ہو۔ یہ نہیں جانتے کہ کتنے مرد اُس کی بے حرمتی کریں گےاور اس کی عزت لوٹیں گے۔ اور تم اپنے آپ کو پختون کہتے ہو؟ تم کو تو شرم سے چلو بھرپانی میں ڈوب کر مرجانا چاہئے۔تم شرم سے نا آشنا ہو۔تم حیوان سے بدتر ہو“۔

سعدیہ رونے لگی۔ ماں نے اس کو رونے دیا۔

 

تفسیر

محفلین

حدود آرڈینینس

کمپیوٹر کا اسکرین جھلملایا۔

” سلام“۔

میں نے مسینجرکی کھڑکی پر نظر دوڑائ۔

اسکرین نام ر فعت۔

” خوش آمدید رفعت کیا میں تم کو جانتا ہوں؟“

” نہیں“۔ اور اس نے’ حیرت‘ کا وینک بھیجا۔

میں نے اس کو’ زبان دکھانے ‘ کا وینک بھیجا۔ میں نے مذاق میں کہا”۔ اپنی تعریف کریں“

اس نے ’ ہنسی‘ کا وینک بھیجا۔اور لکھا۔

” تعریف تواس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ میں رفعت آفریدی ہوں میرے شوہر کا نام احسان ہے“۔ رفعت نے کہا۔

” مجھے سکینہ سے آپ کی مسینجرکی آئ ڈی ملی ہے۔ میں آپ سے آڈیو پر بات کرنا چاہتی ہوں“۔

میں نے سعدیہ کے کمرے کے انٹر کام کا بٹن دبایا۔

” ہاں بھائ جان“۔ سعدیہ نے کہا۔

” تم فوراً کمپیوٹر کے کمرے میں آؤ”۔ میری آواز میں جلدی تھی۔

” میں آگئ“ ۔سعدیہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

” اسکرین کو پڑھو۔” میں نے سعدیہ کی توجہ اسکرین کی طرف کی۔

” میں آپ سے آڈیو پر بات کرنا چاہتی ہوں“۔ رفعت نے ’ نج ‘ کا ونک بھیجا۔

سعدیہ مسیجیز پڑھ چکی تھی۔میں نے’ منظور‘ کا بٹن کلک کیا۔

” میرا نام احسان ہے۔اور آپ رفعت سے بات کر چکے ہیں“ ۔

سعدیہ نے مائک میں کہا۔” ہیلو احسان اور رفعت میں سعدیہ ہوں“ ۔

” سعدیہ میری بہن ہے“۔ اس سے پہلے کہ سعدیہ دوسری باتوں میں نکل جائے میں نے جلدی سےگفتگومیں داخل ہو کر کہا۔

” آپ لوگ کیوں ہم سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں“ ۔

احسان نے کہا۔” رفعت کا نام رفعت آفریدی ہے“

” ” سعدیہ نے کہا۔ رفعت پختون کی بیٹی ہے اور آپ نہیں۔

” جی ، میں مہاجر ہوں“ ۔ احسان بولا۔

” 1999میں میں اور رفعت کراچی میں ملےاور ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ ہم دونوں بالغ تھےاور ہم کومعلوم تھا کہ رفعت کا خاندان یہ کبھی بھی گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ مجھ سے شادی کرے۔ہم دونوں نے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ اور غائب ہوگئے- پختون لوگوں نے اس کے احتجاج میں کراچی میں ہڑتال کردی۔ اس کے نتیجہ میں فساد ہوا۔ گولیاں چلیں۔اور دو آدمی مارے گئے اور دس زخمی ہوئے“ ۔

” رفعت نے کہا“۔ میرے والدین اور رشتہ داروں نےاحسان پر عدالت میں مقدمہ کر دیا اور یہ الزام لگایاکہ میں شادی شدہ ہوں اور احسان مجھے زبردستی بھگا کر لے گئے ہیں۔ پولیس نے احسان کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا“ ۔
رفعت سانس لینے کے لئے رُ کی“۔

” جب احسان کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا۔ میرے رشتہ دار بھی عدالت میں موجود تھے۔ان میں سے کچھ نےاحسان پرگولیاں چلائیں۔ احسان زخمی ہوگئے“ ۔

جج نے ہم سب کی شہادت سنی اور احسان کو بری کردیا“ ۔

” مگر ہمیں پتہ تھا کہ اگر ہم پاکستان میں رہے تو قتل کردیے جائیں گے۔ اس لیے ہم اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آگئے“ ۔
” سکینہ نے سوچا کہ آپ کو یہ جان کر یہ پتہ چلےگا کہ مسئلہ صرف پختونوں کے لوگوں میں محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ پاکستان کے حدود آرڈنینس کے استعمال کا ہے“۔

رفعت نے کہا۔ ” کیا آپ کو پتہ ہے کہ 7 نومبر1987 میں ایک کورٹ نے 25 سالہ شاہدہ پروین اور 30 سال کے محمد سرور کو سنگسار کرنےکی سزا دی۔ اُن کا قابلِ نفرت جرم جس کی یہ ہولناک سزا ‘ دی گئ اسے زنابالجبر’ کہاگیا۔
شاہدہ نے کورٹ کے ذریعے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی۔ طلاق کے کاغذات پر شاہدہ اور اس کے پہلے شوہر نے مجسٹریٹ کے سامنے دستخط کئے۔قانون کے مطابق شوہر کو یہ کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل ِرجسٹر کرنا چاہئے تھے۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ شاہدہ کو اس کا علم نہیں تھا۔اس نےعدت کے 97 دن لاہور میں گزارنے کے بعد دوسری شادی سرور سے کرلی۔ شاہدہ قانون کی نظر ایک بالغ لڑکی تھی۔

اُس کے پہلے شوہر نے کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ شاہدہ اس کی بیوی ہے۔ کیوں کہ اس نے طلاق کے کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل رجسٹر نہیں کرائے ہیں۔ شاہدہ کی دوسری شادی زنا اور زنابالجبرہے۔اس قسم کی دسیوں مثالیں ہیں۔ پاکستان کے 1979 ، حدود آرڈینینس کا جو پاکستانی عورتوں کے حقوق کےساتھ جو ناانصافی اور ہے اس کا نظیر دنیا میں مشکل سے ملے گا۔ صرف 1987 میں 55 کیسوں میں 37 کیس ایسے تھے“

احسان نے کہا۔” دوسرا کیس۔ ایک یتیم 13 سال کی بچی کا ہے۔ جہاں مینا کے ساتھ اس کا چچا اور چچا کا لڑ کا زنابالجبر کرتا ہے۔جب مینا اپنے چچاؤں سے اس ظلم کا ذکر کرتی ہے تواس پر کوئ یقین نہیں کرتا۔ جب وہ پیٹ سے ہو جاتی ہے توآخرکار ایک چچا کواس بچی کی بات پر یقین آتا ہے۔ کورٹ میں کیس جاتا ہے۔ زنا کے مظلوم کے بیان کی قانون کے مطابق کوئ اہمیت نہیں ہے۔یا تو زنا چار آدمی کے سامنے کیا گیا ہو۔ یا پھر زناکار خود اپنے جرم کا اقبال کرلے۔ اس لیے مینا کو قصور وار ٹھرایا گیا اور اس کو 3 سال کی سخت قید اور 10 کوڑوں کی سزا دی گئ“۔

” پہلی جون 1999 کو یار حسین کو جب یہ پتہ چلا کہ اس کی بیٹی مملکت بی بی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو اس نے اس کو سوتے میں قتل کردیا“۔ رفعت نے کہا۔

کنور بولی۔”کراچی میں عورتوں کی مدد اور وسیلہ کی جگہ ’ شرکت گاہ ‘ کی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 1993 سے 1998 میں 535 عورتوں کو ان کے شوہر یا رشتہ داروں نے قتل کیا اور یاانہوں نے خودکشی کرلی۔ ’ پاکستان کاادارۂ حقوق انسانی‘ کے مطابق ہر روز 8 عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے 5 بچیاں ہوتی ہیں۔ اس قانون کواسلامی شریعہ کے مطابق ضیاءالحق کی حکومت نے 1979 میں صدر کےحکم سے نافذ کیا۔ جو کہ بعد میں ملک کا قانون بن گیا“۔
 

تفسیر

محفلین

پینو

میں کتب خانے میں تھا۔ انٹرکام بجا۔ سعدیہ لائن پرتھی”۔ بھیا، سکینہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہے“۔

میں کمپیوٹر روم میں پہنچا.

” سلام“۔ میں نے کہا۔

” سلام“۔ سکینہ نے کہا”۔ تو آپ گل کی کہانی لکھیں گے؟“

” اس سے پہلے کہ میں کوئ وعدہ کروں۔ میں کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں“۔

” پوچھیں “ ۔

جب گل تمہارے خاندان میں آئ تو وہ 10 سال کی تھی اور جب وہ تمہارے گھر سے تمہاری آنٹی کے ساتھ گئ تو وہ 11 سال کی تھی۔اس لحاظ سے وہ ایک سال تمہارے خاندان میں پلی۔

” ہاں نا“۔ سکینہ نے کہا۔

” مجھے تم اس کی زندگی 5 سال سے 10 سال تک کی بتاؤ“ ۔ میں نے کہا۔

” میں نے بتادیا سب کچھ آپ کو ، نا“۔

تم نے مجھ کو بتایا”۔ گل اکیلے سونے سے ڈرتی تھی۔گل جب میرے پاس رہنے آئ تو وہ ایک خاموش اور کھوئ کھوئ دس سال کی لڑکی تھی۔ایک دن وہ برآمدے میں کھڑی تھی۔ میں نے اس کو اس کا نام لے کر پکارا۔ جب اس نے مڑ کر میری طرف نہ دیکھا تو میں نے بلند آواز میں پکارا۔ تب بھی اس نے جواب نہ دیا“۔

” تم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ایسی کیوں تھی“۔

سکینہ خاموش رہی۔

سعدیہ نے کہا کہ اگر بھائ جان اس کہانی کو لکھیں گے تو یہ ضروری ہے کہ ان کو بھی پتہ ہو جو تم گل کے مطعلق جانتی ہو۔

” میں پینو کو اس گفتگو میں شامل کرتی ہوں“۔ سکینہ نے کہا۔

” پینو کون ہے؟“ میں نے پوچھا۔

” پینو اورگل ایک خاندان میں دو سال ساتھ رہیں“۔

” پینو اب سولہ سال کی ہے“۔

” ٹھیک ہے؟“

” سلام“۔ پینو کہا۔

پینو۔ تم گل کو جانتی ہو؟“

” جی، ہاں“۔

” کیسے“۔

” گل اور میں ، آنٹی کی حویلی میں ساتھ رہتے تھے“۔

” کیا تم کو پتہ ہے کہ میں تم سےگل کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہوں؟“

” آپ گل کی سچی کہا نی کو لکھیں گے“۔

” گل کی کہانی کیوں لکھی جائے“۔

” سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ گل کی کہانی ہم پختون کی بیٹیوں کی کہانی ہے۔اس کوضرور لکھا جائے یہ ہماری تاریخ پر ایک برائ کا خونی داغ ہے۔ ہمیں اس داغ کو بھولنا نہیں ہے۔ مستقبل میں جب پختون کی بیٹی ظلموں سے آزاد ہوگی تو یہ”کہانی“ آنے والی بیٹیوں کو بتائے گی۔ کہ اُن کی ماؤں نے کیسے ظلم اٹھائے ہیں اور کیا قربانیاں دی ہیں“ ۔
” تم گل کے ساتھ ضلع کوہاٹ کے پہاڑوں میں ایک گاؤں میں تھی؟“

” ہاں“۔

” گاؤں کا کیا نام تھا اور کس خاندان میں تم پلی؟“

” سکینہ بی بی نے کہا ہے میں آپ کے سب سوالوں کا جواب دوں مگر میں آپ کو خااندان اور اس کے لوگوں کے نام نہں دے سکتی“۔

” اچھا، مگرتم مجھ کو اپنی داستان اس طرح بتاؤ جیسے کہ یہ سب ابھی ہو رہا ہے کیا تم یہ کرسکتی ہو؟”“ ہاں“ ۔میں اور گل ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔ گل اور میں میری چار پائ پر بیٹھے ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے”۔

میں نے اس کی آواز میں کپکپی محسوس کی۔

”ایک چھوٹے خان جو اس حویلی میں مہمان تھے اوردوسری تحصیل سے اپنے چچا کے گھر رہنے آئے ہیں۔ وہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔اور گل کی چار پائ پر بیٹھ جاتاہے اور کہتا ہے کہ تم دونوں میرے پیر دباؤ۔میں اور گل اپنے ابا کے پیر گھٹنوں سے نیچے دباتے تھے اسی طرح سے اس کے بھی پیر دابتے ہیں۔ چھوٹا خان غصہ ہو کر کہتا ہے۔ اوپر بھی دباؤ۔ وہ میرے سے کہتا ہے تم ا چھا نہیں دباتی تم جاؤ اُدھر بیٹھو۔ میں اپنی چار پائ پر آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ چھوٹاخان بستر سے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہے“ ۔ پینو اب ہچکیاں لیکر رورہی تھی۔

”اور گل کو اٹھا کرپیٹ کے بل بستر پر ڈال کر اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔گل اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے وہ اس کو بے تحاشہ تھپڑ مارتا ہے۔گل چیخیں مارتی ہے۔اور پھررونا بند کردیتی ہے“۔

پینو ڈھاڑیں مار کر رورہی تھی۔ سکینہ بھی رورہی تھی اور میرے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

سعدیہ روتے ہوئے کمرے سے نکل گئ۔ میں نے جلدی سے پینو اور سکینہ کو اللہ حا فظ کہا اور سعدیہ کے پیچھے دوڑا۔ سعدیہ نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیا۔ ماں دوڑتی آئیں۔ اور مجھ سے پوچھنے لگیں کیا ہوا؟
میں نے کہا۔” ننھی۔ دوازہ کھولو“۔

” چلے جاؤ یہاں سے ، مجھ کو تم سب مردوں سے نفرت ہے“۔ سعدیہ نےروتے ہوئے کہا۔

میں نے ماں کو پینو سے ہماری گفتگو کا بتادیا۔

ماں نے کہا”۔ بیٹا تم سعدیہ سے ابھی بات نہ کرو۔ یہ گتھی اس کو خود سلجھانی ہوگی۔ تم صبر اور تحمل سے کام لو۔ وہ زخمی ہے۔اُس کو مرد پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ہر مرد اس کے لیے ایک سا ہے۔ یہ چند روز کی بات ہے۔ اس کو یاد آجائے گا کہ مرد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور بُرے، وہ جانتی ہے کہ اس کا باپ اور بھائی دنیا کے بہترین انسان ہیں“۔

 

تفسیر

محفلین

ساحل سمندر
میں نے سعدیہ کو شام کے کھانے پر نہیں پایا۔ دوسرے دن ناشتہ اور شام کے کھانے پر بھی باہرنہ آئ۔

ماں نے کہا ”وہ روتی ہے۔میری "ساد" بہت روتی ہے“۔

میں نے ابا جان کو خاموش دیکھا۔ وہ افسردہ تھے۔ میں نے اباجان کو پہلے اتنا سوگوار کبھی نہیں دیکھا۔

میں اپنے کمرے میں سر پکڑ کربیٹھ گیا۔ کیا یہ میری برائ ہے جس کی وجہ سے میری لاڈلی، میری ساد مجھ سے نفرت کرتی ہے۔یا یہ میرے جنس کی برائ ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ دل نے کہا تم اپنی ذمہ داری کو قبو ل کرو اور سعدیہ کے شانہ بہ شانہ اس برائ کو مٹانے میں حصہ لو۔ یہ مسئلہ صرف پختونی، پنجابی، سندھی، بلوچستانی یا مہاجری نہیں ہے۔ اور نہ ہی پاکستانی بلکہ اسلامی ہے۔

لیکن اس مسئلے کا تو حل ایک ہے۔اچھائ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ میری بہن بیمار ہے۔ میری گل، میری بلبل مرچکی ہے۔

کیوں نہ میں تمام پاکستان کی بہنوں کو بتاؤں کہ ان کی بہن کے ساتھ کیا ہوا۔شاید پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کو شرم آئے کہ ان کے گاؤں اور شہروں میں مرد گلوں کو نوچ کر کچل دیتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں کس طرح سے اپنی بہن کے زخم کو شفا دے سکتا ہوں۔

رات ہوچکی تھی۔ چودھویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔ساحل پر روشنی تھی۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ اور ساحل کے سامان کا بیگ اٹھایا۔ ایک اورکمبل اور چادر بھی رکھی۔ماں ، میں رات ساحلِ سمندرپر گزاروں گا۔ ماں نےگرم چائے کی تھرماس بوتل میرے بیگ میں رکھ دی۔ساحلِ سمندر ہمار ے گھر کی سیڑھیوں کے پاس تھا۔

میں نے چادر زمین پر بچھائ اور لیپ ٹاپ کھولا۔ کہانی کا عنوان ”گل کی کہانی“

میں نے اس پر لکیر کھینچ دی گل کی کہانی۔

پٹھان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پختونخواہ کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پاکستان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

میں نے سوچا کہ ظلم اورمظلوم کی کہانی تو ہر کہانی نویس لکھےگا۔ مگرمیں تو اس کا حل لکھوں۔اس کے عنوان کاتعلق تو مرد اور وحشی پن سے ہونا چاہئے۔

٭٭٭

”ہمارے پا کستان کے نامرد“

” یہ کہانی ایک گل کی ہے۔

وہ ایک بلبل کی طرح تھی۔

وہ پھولوں کی کلیوں طرح نازک تھی۔

وہ فرشتوں کی طرح معصوم تھی۔

وہ ستاروں کی روشنی تھی۔

وہ میری بہن تھی۔

وہ میر ی سعدیہ تھی۔

وہ میری بھی تو گل تھی۔

وہ پورے پاکستان کی گل تھی۔

وہ زندگی کے صرف بارہ سال دیکھ پائ۔

ذلیل نامردوں اوروحشیوں نے اس ننھی کی بے عزتی اور بے حرمتی کی۔اور اس کی جان لی”۔

میری لکھائی میں روانی تھی۔میرے آنسو بھی اسی روانی سے بہہ رہے تھے۔جب میں نے اپنی کہانی کااختتام لکھا تو صبح کے چا ر بج رہے تھے۔ میں نے لیپ ٹاپ کو بند کیا اور سیڑھی چڑ کر اوپر پہنچا۔ ماں کھلے برآمدے میں آرام دہ کرسی پر ہلکی نیند میں سورہی تھی۔اس کی آنکھ کھل گئ۔اس نے کہا۔

”وہ ساری رات یہاں بیٹھی تمہیں دیکھتی رہی۔ میں 15 منٹ پہلے اس کو سُلا کر آئ ہوں “۔

ماں نے دھیرے سے سعدیہ کے کمرے کا دروازہ کھولا۔میری گل گہری نیند میں سورہی تھی۔ میں نے لیپ ٹاپ کو سعدیہ کی میزپر رکھا اور ایک پرچہ پر اس کو ایک نوٹ لکھا۔

میں نے دروازہ بند کرکے ماں سے کہا۔” اب ہر چیز ٹھیک ہوگی۔میں ساحلِ سمندر پرسوؤں گا“۔

٭٭٭

میں ہوائ مخلوق ہوں اور ایک گلائیڈر کی طرح فضا میں اُڑ رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف خاموشی ہے۔ میرے نیچے دور دور تک چٹانوں کا سلسلہ ہے۔ ہر طر ف سبزہ ہی سبزہ ہے۔اچانک آندھی اور طوفان برپا ہوا اور ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور بارش ہونے لگی۔ اور سعدیہ کی آوازیں آنے لگیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

سعدیہ پانی کا جگ لیے کھڑی تھی۔ سعدیہ پانی کا جگ پھینک کر مجھ سے لپٹ گئ۔بھیا میں نے آپ کی کہانی پڑھی۔ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔آپ میرے لیے دنیا کے انسانیت سے بھرے مردوں کی نشانی ہیں۔ میں نے اپنے کندھے کو آنسووں سے گیلا محسوس کیا۔میں نے سعدیہ کو اپنی باہوں میں زور سے سمیٹا۔

” بھائ جان یہ میری پسلیاں ہے۔آپ پھلوں کا عرق نہیں نکال رہے“ ۔

ہم دونوں بہت دیر تک اس طرح کھڑے رہے۔ سورج نکل آیا۔ اس کی روشنی نے لہروں میں جھلملاہٹ پیدا کی۔

ہم چادر پر بیٹھ گیے۔ میں نے گھر کی طرف دیکھا۔ اماں اور اباجان سیڑھیوں سے اتر کر ہماری طرف آرہے تھے۔ان کے ساتھ ایک حسین اور خوبصورت لڑکی تھی۔

” وہ سکینہ ہے“۔ سعدیہ نے فخر سے کیا۔

” جب میں نے اس کو آپ کی کہانی بھیجی ، تو وہ آپ سے ملناچاہتی تھی۔ وہ یہاں لاس انجلیس میں تھی”۔

میں نے اپنا شارٹ ویو ریڈیو آن کیا۔ اس پر کوئ علامہ اقبال کی نظم’ پھولوں کی شہزادی’ پڑھ رہا تھا۔

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں
رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغِ رضواں میں

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں

سنا ہے کوئ شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تُو لے چل
چھپا کر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بُو لے چل

کلی بولی سریرآرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے پتھر بھی نگیں بن کر

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دکھ درد کے مارے کا اشکِ آتشیں بن کر

نظر اس کی پیامِ عید ہے اہل محرم کو
بنادیتی ہےگوہرغمزدوں کے اشک پہم کو


باب اول کا خاتمہ

٭٭٭
 

تفسیر

محفلین

پختون کی بیٹی

اجتِماع

سید تفسیر احمد
باب دوئم۔اجتماع


1۔ خواب
2۔ تشخیص
3۔ تعمیل کا منصوبہ
4۔ سوچ ایک طریقہ ہے
5۔ خواہش
6۔ یقین و ایمان
7۔ آٹوسجیشن
8۔ تعلیمِ خصوصی
9۔ تصور
10۔ منظم منصوبہ بندی
11۔ ارادۂِ مصمم اور فیصلہ
12۔ ثابت قدم
13۔ ماسٹرمائنڈ
14۔ کامیابی کے اصول۔ ایک نظرِ ثانی
 

تفسیر

محفلین
پچھلی قسط ۔۔۔ اگلی قسط


پختون کی بیٹی ۔۔۔باب دوئم ۔ اجتِماع


سید تفسیر احمد

خواب​


جب گلاب کا پُھول کُھلتا ہے تب اس کی خوشبو باہر نکلتی ہے۔ کیا یہ ایسا ہے؟ کیا تم کِسی کلی کی بھی خوشبوُ کو سُونگھ سکتے ہو؟ نہیں، تم نہیں۔

کیا تم اس کی خوبصورتی کو دیکھ سکتے ہو؟ نہیں یہ تو صرف ایک کلی ہے۔ جب یہ کِھل جائےگی تب اس کی خوبصورتی اور خوشبوُ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

دل ، ایک پھول ہے اگرچہ کہ وہ موجود ہے مگروہ کَلی طرح ہے تم اس کی خوبصورتی کو، اس کے رنگ کو محسوس نہیں کر پاؤگے۔ جب یہ دل پُھول کی طرح کُھل جائے گا تب ہی تم اس کی مہک کو سُونگھ سکوگےاور پُھول کودیکھ سکوگے۔ تب ہی اس کی خوبصورتی، رنگ، اور اُس کا امتیاز پہچان جاؤ گے۔ یہ خصوصیات کلی میں نہیں دیکھی جاسکتیں۔ اس لیے دل جو پُھول ہے اس کوکُھولناہوگا۔ اس کوکِھلناہوگا۔

پُھولوں کے باغ کو بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جانور اندر آ کراُس کو تباہ نہ کرسکیں۔ ہم کواس پُھولوں کے باغ کوکُھولنا ہے۔ تا کہ ہم اندر جائیں اوراُس کی دیکھ بھال کریں۔ہمیں پودوں کو پانی دینا ہے، غذا دینی ہے اور ان کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم سچائ اور دانائ کر کے پُھولوں کا باغ کھولتے ہیں۔ جب ہم داخل ہوتے ہیں تو ہم یہ معلوم کریں کہ اس کلی کو بڑھ کر کِھل جانے کے لیے کس چیزکی ضرورت ہے۔ ہم اس کو حسن مُتَبرّک کی غذا اور پانی دیں۔ اس طرح پُھول شاداب ہوگا۔ یہ مالی کا کام تم ‘ بہنوں’ کو کرنا ہے، تم’خان ذادیوں‘ اور’ ملک ذادیوں‘ کوکرنا ہوگا۔

کیا تم شرمسارنہیں ہوکہ جانور تمہارے گُلوں کے باغیچے کوتباہ کررہے ہیں؟

٭٭٭

باجی۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بولونا، آپ تو میری شادی میں بھی نہیں آئیں۔کیا میری باجی مجھ سے ناراض ہیں ؟ مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔ میں درد سے تڑپ رہی ہوں۔آپ نے کہا تھا ناکہ ایک دن میں تم کو پشاور لے جاؤں گی۔ میں تو تیار بیٹھی ہوں۔ کیا پشاور میں ڈاکٹر بھی ہوگا؟

میں مررہی ہوں۔ میرے پیٹ میں ایک ننھی مر رہی ہے۔ کیا میری ننھی آپ کی ننھی نہیں ہے؟

باجی۔۔۔۔۔۔ باجی آپ نے مجھے بھی تواپنی ننھی کہا تھا۔میری ننھی کو بھی اپنی ننھی بنالیں نا۔

٭٭٭



خواب


” سلام“

مسینجرکی کھڑکی کااسکرین ’ کپکپایا ‘۔

” سلام۔ آپ کون ہیں“۔

” بھائ جان اس وقت نہیں ہیں۔ میں ان کی بہن سعدیہ ہوں۔آپ ان کے لیے پیغام چھوڑ دیں“۔ سعدیہ نے جواب دیا۔
” تم سعدیہ ہو۔“۔ آواز میں خوشی بھی تھی اور غم بھی!

” جی ہاں“

” یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ میں آپ سے ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں یاسمین ہوں۔ ہم آڈیو پہ بات کرتے ہیں“۔

” کیوں؟ “ سعدیہ اس کے لیے تیار نہ تھی۔وہ ا ِنڑنیٹ پر ریسرچ کررہی تھی۔

” میرے، آپ کے اور ہماری سب بہنوں کے مشترک مسئلہ سے متعلق ۔” یاسمین نے کہا۔

” اچھا“۔ اور سعدیہ نے آڈیو کوآن کردیا۔

” میں نے ’داستانِ گل و بلبل‘ پڑھی ۔ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کہانی آپ کے بھائ نے آپ کے یا سکینہ کے یا پھرگل کے لیے لکھی ہے ؟“

” دیکھیں یاسمین۔ آپ میرا وقت برباد کررہی ہیں ۔ آپ بھائ جان کے لیے پیغام چھوڑ دیں”۔ سعدیہ نے کہا۔

” نہیں سعدیہ ، تم کومجھےسنناہوگا۔ یہ کہانی میر ے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی میری پاکستانی بہنوں کے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی پختون کی خانزادیوں اور ملک زادیوں کے لیے لکھی گئ ہے۔

تم تو اس کی اکلوتی بہن ہو۔ لیکن وہ ہم سب بہنوں کا اکلوتا بھائ ہے۔ تم اس کی خوشی ہو۔ ہم اس کا غم ہیں۔ تم اس کا پیار ہو۔ ہم سب اس کی جدائ ہیں۔ تم اس کا سُہانا خواب ہو۔ ہم اس کا ڈراؤنا“۔یاسمین نے روتے ہوئے کہا۔

” جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو میں گھنٹوں روئ۔ میں نےسارا دن کسی سے بات بھی نہ کی۔ میں جرنلسٹ بناچاہتی تھی تاکہ میں دنیا کو میری بہنوں کا حال بتاؤں۔ماں نے کہا بیٹی انجنئیر بن جاؤ اس میں پیسہ ہے۔ میں نے کہا میں وکیل بنوں گی۔ بھائ نے کہا میری بہن عدالت میں مردوں کے سامنے نہیں کھڑی ہوگی۔ سعدیہ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ بھیا سے کہو۔ میں اب تیار ہوں۔ مجھے راہ دکھائے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟“


٭٭٭

جھرنے کا مدھم شور فضاء میں گھوم رہا ہے اور پرندوں کی چرچراہٹ گونج رہی ہے۔ ندی کا میٹھا پانی انگڑائ لے کر بہہ رہا ہے۔ ندی کے کنارے حسین پُھول، ساری وادی کی فِضا کو معطّر کررہے ہیں۔ یہ فطرت کی رنگین رَعنائیوں اور دلکش نظاروں سے بھری جگہ ہے۔ ایک عورت ندی کے کنارے بیٹھی گنگنا رہی ہے۔ وہ ایک کتھئ اور لال رنگ کے کشیدہ کاری سے بھری کھٹ "پرتوگ" اور ٹیکریا پہنے اور پاؤں میں سانکڑی پہنے ہے۔ ایک آٹھ یا نوسالہ بچی نزدیک کھڑی ہے۔

میں نے کہا”۔ السلامُ علیکم“

” وعلیکم سلام“۔عورت بولی

” زما نوم سعدیہ دے”

” ستا نوم سہ دے؟“

” زما نامہ نورا دہ“

” تا وا؟“

” چنگا“۔

” ستاد خیل نوم “

” کوہاٹ“

” ستا شکریہ”

اچانک میں ندی میں گری اور ہڑبڑا کرکھڑی ہوگئ۔ بھائ نے سارا کے سارا پانی کا جگ مجھ پر الٹ دیا تھا۔
” صبح ہوگئ اب اٹھ جاؤ۔تم کو اپنا وعدہ یاد نہیں کہ ہم ابا اور اماں جان سے ’ گل کے مسئلہ ‘ پر بات کریں گے؟“۔ بھائ جان نے بہت زور سے قہقہہ لگایا۔

” بھیا ، مجھ کوسونے دو۔ میں دیر سے سوئ تھی“ اور میں نے کروٹ لےکر دیوارکی طرف منہ کرلیا۔
بھائ جان نے مجھ کوگود میں اٹھا کر باتھ ٹب میں رکھ دیا اور جلدی سے بھاگ گئے۔

تشخیص

میں سمندرکی طرف کے کُھلے ہوئے برآمدے میں آیا۔ ناشتے کی میز آج الگ سے لگی ہوئ تھی۔ جب بھی ہمیں کوئ اہم بات کرنی ہوتی ہے ماں کھا نے کا سامان الگ میز پر رکھتی ہیں۔ میں نےمیز کو دیکھا۔۔۔ میزکودیکھا اور پھرماں کو۔ ” میرا نارنگی کاجوس، پین کیک اورگرم چائے کہاں ہے، ماں؟“

” آج ہم پختونی کھانا کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے کیا بجا ہے؟“ سعدیہ نےماں کے بجائے ہنس کر جواب دیا۔

” بہت سے پختون دن میں صرف دو دفعہ کھاتے ہیں۔گیارہ بجےدوپہرکواور پھرمغرب کے بعد“۔ سعدیہ نے مجھ سے اس طرح کہا جیسےایک بچے کوسبق پڑھا تے ہیں۔

میں نےگھڑی میں وقت دیکھا۔گیارہ بجے تھے۔

میں نےماں سے کہا”۔ اس لڑکی کو کیا بیماری لگی ہے؟“

ماں نے کہا”۔ بیٹا تم کھا کرتودیکھو۔ تم کو پسند آئےگا اور آج چائے کی جگہ قہوہ بنایا ہے“۔

میں نےاپنی رکابی اِن لوازمات سے بھری، چھری اورکانٹا اٹھانے کے لیے بڑھا توسعدیہ جلدی سے بولی“۔ نہیں بھیا پختون ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں“۔

میں غُرایا۔”خدا ایسی بہن صرف مجھ ہی کودے“۔

میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔

سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔

ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔

” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔

” وہ کیسے؟ “ ماں نے پو چھا۔

” کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کی صحیح وجہ کا جاننا ضروری ہے“۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔

” غلط وجہ متعین کریں اورآپ غلط راہ پر چل نکلیں گے“۔ سعدیہ نے میرا جملہ مکمل کیا۔


” ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں کا ہے۔ عورتیں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں“۔

سعدیہ نے بات جاری رکھی۔

” اس لیے میں سعدیہ کے ساتھ اس پرکام کروں گا“۔ میں کہا۔

” ہم نےاس مسئلہ کا مکمل تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے کو لکھا ہے۔ آپ دونوں کے لیے میں نےاس کی نقل بھی بنائ ہیں۔ ابھی ہم آپ کو صرف اس کا نتیجہ بتاتے ہیں“۔ سعدیہ بولی۔

مسئلہ کیا ہے؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔

”عورتوں پر ظلم ، ان کی بے حرمتی، ان سے زنا بالجبر، ان کا بدل ، سوارہ“۔

کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی بھی ہے اس لیے یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا فوری سُروکار گُل اور اس کی تقربیاً آٹھ کروڑ پختون بہنیں ہیں“۔

” اس مسئلہ کے مرکزی کردارکون ہیں؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔


پختون کی بیٹیاں۔ مرکزی مظلوم

غیر مرکزی مظلوم، پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں “۔ سعدیہ کی آواز میں درد تھا۔


” پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں اس لئےغیرمرکزی ہیں کیونکہ پاکستان میں سینکڑوں پڑھی لکھی عورتیں ان کے مسئلہ پر کا م کررہی ہیں“ ۔ سعدیہ نے کہا۔

” مگر پختونخواہ کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پرریسرچ کی مگرایک بھی پختون کی مشہور پڑھی لکھی لڑکی نہیں ملی“۔ سعدیہ نے کہا۔

” جن پختون عورتوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے وہ یا تو گھر بیٹھی ہیں یا حکومت پاکستان کے لیے کام کررہی ہیں“۔


مرکزی ظالم پختون کا مرد

اور غیر مرکزی پاکستان اور اسلام کا مرد ہے“۔

اماجان نے سوال کیا”۔ ظلم کی وجہ؟


” پہلی اور اہم وجہ

پختون قوم کے پرانے رسم و رواج۔ ان رسم و رواج کا مجموعہ پختون ولی کہلاتا ہے۔


” دوسری وجہ

شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تفسیر اور


” تیسری وجہ

حدود ارڈینینس قانون جوکہ عورتوں کےحقوق کومارتا ہے۔ ان کےساتھ نا انصافی اور ذیادتی کرتا ہے“۔

میں نے کہا۔” غُربت اور بےعلمی“۔

” سعدیہ نے کہا۔ غربت اور بے علمی ظلم کو کرنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ فارغ البالی اور تعلیم سے مدد ملے گی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا“۔

” کیا اور بھی وجوہ ہیں؟“

” بڑھتی ہوئ آبادی ، بےکاری ، جرائم، نشہ ، بچوں کی مزدوری ، بڑھاپا، رشوت ستانی، پرانی رسموں کی حفاظت اور مقامی علاقائ مفاد“۔

” کیا ان دوسرے مسئلوں کو حل کرنے پرکام ہو رہاہے؟“

” ہاں ، ناں گورنمینٹل ایجینسیز۔انٹرنیشنل سوشل ریلیف ایجینسیز۔ یو-این ، حکومتِ صوبہ سرحد کے مختلف شعبے، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبے ان مسائل کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن رسم و رواج ، شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تعمیل، پاکستان کا حدود اورڈینیس ان مسئلوں میں ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور وہ بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے “۔

” ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اُس وقت تک حل ہوسکتا جب پختون لڑکیاں اس میں حصہ لیں اور خاص طور پرپختون زادیاں ، ملک زادیاں اور پڑھی لکھی پختون عورتیں بھی حصہ لیں”ہم دونوں نے یکجا ہوکرکہا“۔

ناشتہ کے بعد ابا جان نے ماں سے کہا“۔ چلو شیری، ہم ان کے تجزیے کا مطالعہ کرتے ہیں“۔

میں نے بھائ جان سے کہا“۔ بھیا آپ مجھےگاڑی میں اسکول پر چھوڑ دیں؟“

اچھا”۔ توچلو ، ورنہ میں لیٹ ہو جاؤں گا“۔
 

تفسیر

محفلین

تعمیل کا منصوبہ

شام کی چائے پرہم لوگ پھر جمع ہوئے۔ مسئلہ کی تشخیص ہوچکی تھی۔ حل کی نشان دہی بھی ہو چکی تھی۔ اب سوال پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کی تعلیم اور ٹرینینگ کرنے کے منصوبے کا تھا۔ مگر اس سے پہلےسعدیہ اور مجھے بھی ابا جان سے کامیابی کے اصول اور اماں جان سے تنظیم کا سلیقہ سیکھنا تھا۔ ہمارا طریقِ کار یہ بنا کہ سعدیہ ہمارے مقاصد کو صاف کرے گی۔ اباجان مختلف نشستوں میں کامیابی کے اصولوں کا جائزہ لیں گے اوراماں جان ہمیں پھر معاشی فلاح و بہبود ، پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے، اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبودِ عامہ کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی کی تعلیم دیں گیں تاکہ ہم اس علم کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ میں سعدیہ کی مدد کروں اور سعدیہ اور سکینہ دوسری پختون اور پاکستان کی لڑکیوں کی مدد سے اس حل کو عملی جامہ پہنائیں گی۔

سعیدہ کیونکہ صرف 15سال کی ہے اس لیے اس کی شخصیت کو چھپانے کے لیے وہ ’ افغانہ ‘ کہلائےگی۔ اباجان بولے۔ بیٹا اس ظلم کوجو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کےنام پر کر رہے تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کوختم کرنا ہوگا ۔“

ابا جان نے سعیدہ سے پوچھا”۔ اس کے حل کے متلعق تم نے سوچا ہے“۔

سعد یہ اٹھ کر اباجان کے پاس گئ اوران کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا”۔ ابا جان آپ کو پتہ ہے نا ہم اس صبح کیوں جمع ہوئے ہیں کہ آپ ہم کو اس کے جواب کو تلاش کرنے میں مدد دیں گے“۔

اباجان نے کہا۔” لیکن تمہیں اس کے حل کا علم ہے”۔

” اچھا۔ وہ کیسے؟“

اباجان نے ماں سے مسئلہ کی تشخیص کو پھر سے دُ ہرانے کو کہا۔اور سعدیہ سےکہا کہ ماں کو غور سے سنے۔

اماں جان نے کہا۔


۔” اس ظلم کو جو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا“۔

ماں نے کس چیز کو تبدیل کرنے کا اشارہ کیا ہے۔

” رسم و رواج کو بدلناہے“۔ سعدیہ نے فوراً جواب دیا۔

” کیا ہم پختون ولی کے تمام رسم و رواج چھوڑ دیں؟“ اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

” نہیں ، صرف ’ فرسودہ رسم و رواج‘ کو بدلناہے کیوں کہ پختون ولی میں اچھے رسم و رواج بھی ہیں“۔ میں نے کہا۔

” اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

” پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کی“ میں نے کہا۔

اباجان نے سعدیہ سے یہی سوال کیا“۔ اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

سعدیہ نے کہا۔” جب ہم میں سے کسی ایک ملک ، نسل، یا فرقہ پر ظلم ہوتا ہے تو انسان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پرلازم ہے کہ اپنے آسائش سے باہر نکلیں اور اس کےخلاف احتجاج کریں۔ یہ میری ذمہ داری ہے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ پاکستان کی عورتوں کی ذمہ داری ہے۔یہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ مظلوم کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس کےخلاف احتجاج کرے۔ خاص طور پر پختون تعلیم یافتہ لڑکیاں ان کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا“۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” بیٹا، جب تم ان پختون خانزادیوں اور ملک زادیوں سے مسینجر پر بات کرتے ہو تو وہ کیا کہتی ہیں؟”

” اباجان، ہماری شہزادیاں بھی رسم و رواج کے ظلم کا شکار ہیں۔ لیکن ان کو بہتر سہولتیں عطا ہیں اور ان کی زندگی ان کی بہنوں سے بہتر ہے۔ یہ عطائیں اُن کی توجہ کو اس مسئلہ سے دور رکھتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ کوشش کے بعد تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ کوشش کے بعد ان میں سے کچھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرسکتی ہیں۔ان کی شادی ہم عمرکزن سے ہوگی۔ جو ان ہی کی طرح تعلیم یافتہ بھی ہوگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے زندگی ذرا اچھی ہے“۔

” مگر ان کے دوسرے مسئلے وہی ہیں جس کا شکار ہر پختون عورت ہے“۔

ابا جان نے سعدیہ سے پوچھا کہ کیا اب تم کواس مسئلے کا جواب معلوم ہوا؟

سعدیہ نے کہا ہاں ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار کرنا ہوگا۔

اماں جان نے اپنے نوٹس میں دوسرے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔

1۔ اس ظلم کو جو پختون مرد، آٹھ ملین پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا۔

2۔ ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار بنانا ہوگا۔

میں نے ہنس کر سعدیہ سے پوچھا۔” لڑکیوں کو خود مختارکرنے کا مطلب ہوا کہ مردوں کی کِشتی ڈوب جائےگی“۔

سعدیہ نےماں سے کہا۔” اماں میں نے کہا تھا نا آپ سے کہ میرے بھائ جان بالکل بدھو ہیں۔ آپ اب خود سے دیکھ لیں“۔
اماں جان نے توجہ کومسئلہ کی طرف لاتے ہوئے کہا۔

” اختیاری ، اخذ کی ہوئ چیزوں پر احتراز کرتی ہے۔

اختیاری بنیادی ، امرِ قیاسی، طاقت، ا مداد ، حصول اورکامیابی کے بارے میں ہماری رائے کو بدلتی ہے۔

اختیاری کے حاصل کرنے سے مرد اور عورت کے درمیان ’ توازنِ طاقت‘ برابر ہوجاتا ہے اور عورت کی ’ قوت‘ بڑھتی ہے۔
اباجان نے کہا۔ اختیاری دو درجوں پر کام کرتی ہے۔ انفرادی اور مجموعی۔

انفرادی اختیاری، پختون عورتوں کو خود اعتمادی د ےگی۔

مجموعی اختیاری، پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنا ئے گی۔پختون عورتوں کواپنے شعور کو بلند کرناہوگا۔اجتماعیت سیکھنی ہوگی۔ منظّم ہونا ہوگا۔

اماں نے اپنے نوٹس میں تیسرے اور چوتھے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔

1۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کووہ ظلم ختم کرنا ہوگا جو پختون مرد آٹھ میلین پختون عورتوں کے اوپر رسم و رواج کے نام پہ کر رہے ہیں۔

2۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو خود مختار بنانا ہوگا۔

3۔ انفرادی طو رپر پختون عورتوں کو خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی مجموعی طور پر پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہوگا۔

4۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کواپنے شعور کو بلند کرناہوگا۔ منظّم ہونا ہوگا۔

ماں نے کہا مجھے معاشی فلاح و بہبود کا تجربہ ہے۔ پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے واقف ہوں۔ اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبود کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی، تعلیم سے بھی وا قفیت ہے۔

سعدیہ نے کہا۔ میں گل کے سپاہیوں کی سردارنی ہوں۔ میں خان زادیوں اور ملک زادیوں کا ذریعہ اور وسیلہ ہوں۔
اور تم بھائ جان؟

” میری قابلیت کمپیوٹر کا استعمال ہے گراس رُوٹ اورگینیشن بنانے میں ہے۔اور میں تمہارا اکلوتا "سکینڈ اِن کمانڈ" ہوں“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

” وہ کیوں بھیا؟“

” میں اس خان زادی سے پھر ملنا چاہتا ہوں“۔

” ہاں آپ کے خوابوں میں وہ بھی شاید“۔ سعدیہ نے قہقہہ ما رکر کہا۔

ابا جان نے کہا کہ میں’ کامیابی کے اصول‘ سے شروع کروں گا۔


سوچ
کے ساتھ
مقصدِ مقرر،
قائم مزاجی
اور
خواہشِ شدید
کو
شامل
کریں توا ِسکا نتیجہ
مکمل کامیابی
ہوتا ہے-


کامیابی کے عناصر :
یقین کا مل ،
تعلیم خصوصی ،
تصور ،
منظم منصوبہ بندی ،
فیصلہ ،
ماسٹر ماینڈ
ہیں
ہمارا پہلا اجتماع” سوچ” سے مطالق ہے ۔

اور ان اصولوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کریں گے“ ۔ ابا جان نے کہا ۔

ہم لوگ کھا نے کے وقت ملیں گئے ۔
 

تفسیر

محفلین

سوچ ایک طریقہ ہے

کھانے کے بعد ہم سب کتب خانہ میں جمع ہوئے۔

اباجان اور اماں جان اپنی پسندیدہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے اور سعدیہ نےصوفہ کا رخ کیا۔

جب ہم سب لوگ آرام سے بیٹھ گئے تو اباجان نے مجھ سے کہا۔ ” ایسا لگتا ہے کہ تم اور تمہاری بہن اتفاقاً اس مسئلہ سے آگاہ ہوئے جس نے تم کو ذہنی اور جذباتی طور پر دُکھ دیا ہے۔اوراب تمہاری بہن مسئلے کوحل کرنے کی ابتداء کرنا چاہتی ہے۔ سکینہ جب تم سے مخاطب ہوئ تو وہ جانتی تھی کہ اس مسئلے کو جاننے کے بعد تم اس سے جدا نہ ہوسکو گے۔کیا حقیقت میں یہ ایک اتفاق تھا؟ میں تم کو اس کا خود فصیلہ کرنےدوں گا۔ میرا کام اب یہ ہے کہ تم کو بتاؤں کہ وہ کیاخصوصیات ہیں جو ایک شخص استعمال کرکے ہرمشکل میں اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے اور وہ زندگی کی تمام مشکلات کو عبورکرکے اپنےعزیزخوابوں کو پورا کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص تمام کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے“۔

کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں اپنے سانس کو سن رہا تھا۔

” سوچ ایک خیال ہے۔ جب اس سوچ میں مقصدِ مقرر ، قائم مزاجی اورخواہشِ شدید کو شامل کریں تو اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے“۔ ابا جان نے کہا۔

” دماغ جو سوچتا ہے اوراُس سوچ پریقین رکھتا ہے تو دماغ اس سو چ کا وسیلہ حاصل کر لیتا ہے“۔

سعدیہ اٹھ کراباجان کے پاس گئ اوراُن کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا۔

” اباجان آپ میری زبان میں بولیں نا۔ مجھ کوالفاظ تو سمجھ میں آگئے لیکن معنی سمجھ نہیں آئے“۔

اباجان نے کہا”تم یہاں میرے پاس بیٹھواور غور سے سنو“۔

بجلی کے بلب کا نام لو تو فوراً ایڈیسن کا خیال آتا ہے۔ایڈیسن کا کاروبار بہت بڑا تھا، ایڈیسن نے ہزارہا چیزیں ایجاد کیں۔ ان میں سے ایک ڈیکٹاٹینگ کی مشین بھی ہے۔

ایڈوین۔سی۔بارنیس ایک معمولی شخص تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ ایڈیسن کے کاروبار کا حصہ دار ہوجائے۔ اس کی خواہش شدیداورمقررتھی۔ جب یہ خواہش، سوچ میں تبدیل ہوئ تواس کو دو مشکلات نظرآئیں۔ ایک اس کے پاس ریل کے ٹکٹ کوخریدنے کے پیسے نہ تھے۔ دوسرے وہ ایڈیسن کونہیں جانتا تھا۔لیکن نہ صرف اس نے کسی نہ کسی طریقے سے ریل کا ٹکٹ خریدا بلکہ وہ ایڈیسن کے آفس میں پہنچ گیا۔

” میں آپکا شریکِ کاروبار بننا چاہتا ہوں“۔ بارنیس بولا۔

ایڈیسن نے ایک غیراہم شخص کو اپنے سامنے دیکھا۔ ایڈیسن عالم اور تجربہ کار تھا۔ اس نےدیکھا کہ بارنیس اپنےارادے کا پکا ہے۔اور یہ آسانی سے نہیں جائے گا اوراس وقت بارنیس اس قابل نہیں جو وہ چاہتا ہے۔ ایڈیسن نے بارنیس کو اپنے آفس میں ایک معمولی سی نوکری دے دی۔ کئ سال گزرے، بارنیس آفس میں سیلزمین کی باتیں سنتا اور اس سے سیکھتا تھا۔

جب ایڈیسن نے ڈیکٹاٹینگ مشین ایجاد کی۔تواس کے سلیزمین پُرجوش نہیں تھے ان کاخیال تھا کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیں گے اوراس کونہیں خریدیں گے۔ انہوں نے ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے میں بالکل دلچپسی نہ لی۔
بارنیس نے ایڈیسن سے درخواست کی وہ اس ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے کا کام کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے تیار نہ تھے تو ایڈیسن نے بارنیس کو اجازت دے دی۔ بارنیس نے اپنی جان کی بازی لگادی اور ان اصولوں کو استعمال کیا جو اس نےاس آفس میں سنے اور سیکھے تھے۔ وہ کامیاب ہوا ، ایڈیسن نے اس کو پورے امریکہ میں ڈیکٹاٹینگ مشین کے کاروبار کا شریکِِ کار بنا لیا۔

” بیٹا سعدیہ۔ بارنیس ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟“

سعدیہ کہا”۔ اباجان اگر آپ نے مجھ کواس طرح پہلے بتایا ہوتا تو سمجھ گئ ہوتی۔ یہ تو بالکل صاف معاملہ ہے۔ بارنیس کی یہ خواہش کہ و ہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے خواہشِ مقرر اور شدید تھی۔ وہ مستقل مزاجی اور اصرارِمسلسل سے اس لگن کو مکمل کرنےمیں لگا رہا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ میں نہ تو انجینئیر ہوں اور نہ ہی میرے پاس شریکِ کاروبار بننے کے لیے سرمایہ ہے اور نہ ہی بیچنے کی تربیت ہے۔ اُس کو یہ لگن تھی کہ وہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے“۔

اباجان نے مجھ سے پوچھا“۔ تمہارا کیا خیال ہے؟

” میرا خیال ہے کہ سعدیہ صحیح سمجھی۔اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ خیالات کےغیرمحسوس بہاؤ کو مادی فائدے یا نتیجہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے“۔

سعدیہ چلائ۔” اباجان میں نے یہ تو نہیں کہا۔ کیا میں نے یہ کہا ماں ؟“

ماں نے کہا۔ ” تم دونوں نے اس بات کو مختلف طر یقے سے دہرایا ہے۔ لیکن تم دونوں نے سمجھا ایک ہی طرح سے ہے۔ تم نے کہا خواہش۔ بھائ نے کہا غیرمحسوس خیال۔ تم نے کہا شدّت۔ بھائ نے کہا بہاؤ۔ تم نے کہا لگن۔ بھائ نے کہا فائدے یا نتیجہ “۔

” اب سوال یہ ہے کہ خیالات کے غیر محسوس بہاؤ یا خواہش کو ایک فائدے یا نتیجہ میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟“۔

” اماں ہم کیوں نا اس گفتگو کو صبع ناشتہ پر جاری رکھیں۔ مجھے میری فرینڈ جنیفرکے ساتھ ایک فلم دیکھنا ہے“۔ سعدیہ نے ماں سے گزارش کی۔

ابا جان نے مسکرا کر کہا“۔ ٹھیک ہے“۔

” اچھا۔ لیکن جانے سے پہلے یہ بتاؤکہ سوچ کیاہے؟

” سوچ ایک خیال ہے اگر طریقۂ سوچ ، مقررمقصد ، قائم مزاجی اور شدیدخواہش کو یک جا کردیں تو اس کا نتیجہ کامیابی ہے“۔

” یہ میری بیٹی ہے“۔ اباجان نے فخرسے کہا۔
 

تفسیر

محفلین


خواہش
پاول گیٹی ، ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی کا مالک تھا۔اس کی وفات اُنیس سوچھہتر میں ہوئی۔ وہ دنیا کے بڑے امیرلوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک ہمدردِ بنی نوعِ انسان ( فیلانتھروفیسٹ) بھی تھا۔ اس نے کروڑوں ڈالر انسان کی فلاح و بہبود کے لیے دئے۔ سانتامونیکا کے پہاڑوں میں گیٹی میوزیم ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ ملاقاتی اس جگہ سے لاس اینجلس کے مختلف روپ دیکھ سکتا ہے۔ بحرالکاہل ، سان گِبرئل کے پہاڑ ، لاس اینجلس شہر کی شاہراہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس (اُکلا)۔ جب آپ پہاڑی کے نیچے پہنچتے ہیں تو دو کمپیوٹر کنٹرولڈ ٹرام اُوپر لے جانے کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ اوپری سطح پر سولہ ٹن کا ’ ٹراورٹین‘ کا پتھر ہے۔ یہ خاص طور سے اٹلی سے منگوایا گیا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسٹورانٹ ہے اور سامنے ’ برآمدہ ‘ ہے اس برآمدے سےگزرکر آپ کُھلےاحاطہ میں پہنچتے ہیں آپ کے سامنے وسطی باغ ہے۔ الٹے ہاتھ پرمیوزیم اور اس کے برابر میں ایگزیبیشن ہال ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ گیٹی میوزیم کے بنانے کی قیمت ایک ِبلیین ڈالر سے زیادہ ہے۔ گیٹی میوزیم میں بیسویں صدی سے پہلے کی یورپی مصوری، ڈرائنگ، مصودہ ( مصودہ لفظ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جویریہ)، مجسمے اور امریکہ کے اُنیسویں اور بِیسویں صدی کے فوٹوگراف ہیں۔آج یہاں رمبرانٹ کے ‘ آخری مذہبی صورتیں‘ کی نمائش لگی تھی۔

” ہم آج گیٹی کے میوزیم کو دیکھیں گے“۔ سعدیہ نے کہا۔

سعدیہ تم بھول گئیں کہ اباجان ہم سے ’ مقصد حاصل کرنے کے اصول‘ کے دوسرے قدم کا تذکرہ کرنے والے ہیں؟

ماں نے کہا۔ ”اور ناشتہ کا کیا ہوگا؟“

سعدیہ بولی۔ " اماں میں نے اس مسئلہ کوحل کرلیا"۔

” وہ کیسے؟“ ماں چونک گئ۔

” ہم گیٹی کی میوزیم میں جائیں گے وہاں ایک ریسٹورانٹ ہے جہاں پر آپ تیار کیا ہوا ناشتہ ڈبوں میں لے سکتے ہیں۔ وہاں ایک پکنک کی جگہ ہے۔ جہاں آپ تالاب کے نزدیک بیٹھ کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ وہ جگہ پُرسکون ہے اور آپ بیٹھ کر باتیں بھی کرسکتے ہیں“۔

اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔” تم آج ضرور جاناچاہتی ہو۔ یا تمہاری خواہش ہے کہ آج جاؤ۔ یا صرف یہ اچھا ہوتا کہ آج تم جاتیں“۔

سعدیہ بڑی ہوشیار ہے۔ وہ سمجھ گئ کہ اباجان اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

سعدیہ نے کہا ۔” ابا جان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

اباجان نے میری طرف دیکھا اور کہا سعدیہ نے’ آرزو‘ اور’ خواہش‘ کے بجائے ’ چاہنا ‘ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا۔ اگر ہم ان الفاظ کو ’ ضرورت‘ اور ’ مقصد‘ کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے چھوٹا درجہ آرزو کو دیں گے۔آرزو سب سے کمزور ہے اور چاہت سب سے مضبوط ۔ چاہت کے لیے جس چیز کی کمی ہوتی ہے، اس چیز کو حاصل کرنے کی لگن۔ انسان کے دل میں کوئ چیز ہے جو اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اُ کساتی ہے۔

اباجان نے ہنس کرکہا۔” بیٹا تم صحیح کہتے ہو“۔

میں نے سعدیہ کا جملہ دُہرایا۔” اباجان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

سعدیہ نے اس جملے میں دوا لفاظ ایسے استمال کیے ہیں جو اس کے ارادہ کومقرر اور شدید کرتے ہیں۔

” سعدیہ بیٹا وہ کیا ہیں؟“

” آج اور ضرور“ سعدیہ نے کہا۔

سعدیہ کیا چا ہتی ہے؟

گیٹی کے میوزیم میں جانا۔

کب جانا چاہتی ہو؟ “

” آج“

”اس چاہت کو کونسا لفظ "شدید" کرتا ہے؟“

” ضرور“

اباجان نے کہا۔ ”میں تم کو اب ایک سچی کہانی سناتا ہوں“۔

بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ۔ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔

ماں نے کہا”سعدیہ بیٹی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟“

سعدیہ جلدی سے بولی”۔ میں نے ابھی تو ابو کے سوال کا جواب دیا تھا۔ اب تو بھیا کی باری ہے“۔

” سعدیہ کو اس سوال کا جواب نہیں پتہ“۔میں نے قہقہہ لگایا۔

” سوچ، مقرر، شدت“۔ سعدیہ نے اپنے کانوں کو پکڑ کر مجھے اپنی لمبی زبان دکھائ۔

جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔

” جیتنے والا منزلِ مراد ( definiteness of purpose) عزمِ عالی شان ( burning desire ) اور مکمل علمِ چاہت (knowledge of what one wants ) کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے“۔
 

تفسیر

محفلین

یقین و ایمان


“ ایمان تم جنت میں لے جائےگا اورایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لائے گا” ۔



ہم لوگ Self Realization Fellow Ship at Lake Shrine کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ یہ
Pacific Coast Highway and Sunset Blvd کےکونے پر واقع ہے۔1950 میں پاراماہانس یوگاندا نے اسے شروع کیا۔ ہر روز لوگ اس خوبصورت سینکچوری کی زیارت کرنے آتے ہیں۔اس دس ایکڑ کے باغیچے میں ایک قدرتی چشمے سے بنی ہوئ جھیل ہے جس کے تین طرف اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں راج ہنس (سوان) اور بطخیں تیرتی ہیں اور کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ایک حصے میں دنیا کے اولین مذاہب کے احترام میں ا یک کورٹ بنایا گیا ہے۔ جس میں ہندو، بدھ ، یہودیت ، عیسایت، اور اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ایک چھوٹی جگہ میں گاندھی کی متبرک راکھ بھی رکھی ہے۔

ہم نے ایک الگ سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ سعدیہ کو اس جگہ سے بہت محبت ہے اور جب کبھی بھی ہم آئے وہ ہمیشہ ماں سے ان کی شادی کا قصہ سننے پر اصرارکرتی ہے۔

” جب آپ پہنچیں تواباجان باہر پارکینگ لاٹ میں کھڑ ے آپ کا انتظار کررہے تھے“۔ سادہ نے پرجوش ہوکر کہا۔
ماں نے مسکرا کر کہا۔

” ہاں“۔

” اورانہوں نے آپ پر پروگرام تبدیل کروادیا جب کہ آپ اس سفید کشتی میں بیٹھ کریہاں آنا چاہتی تھیں۔

” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔

” ابا جان کو آپ کا انتظار یہاں کرنا تھا“۔

” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔

” ماں آپ نے سنہرے گنبد کے نیچے اس سفید محراب کے سامنے کھڑے ہوکر اباجان سے ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کیا“۔

” ہاں“۔ ماں نے کہا۔

” اور آپ چوبیس سال کی تھیں“۔ سعدیہ نے جوش میں کہا۔

” ہاں“۔ ماں نے کہا۔

” ماں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اباجان سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے“۔

” میں بھی“۔ماں نے کہا۔

” ابا جان۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اماں سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے”۔

” ہاں بیٹا، میں بھی“۔اباجان نے ہنس کر کہا۔

سعدیہ نے وہی جملے دُہرائے جو کہ اس نے دسیوں دفعہ پہلے بھی دہرائے تھے۔

ماں اور سعدیہ نے پکنک کا باکس نکال کر کھانا میز پوش پر لگانا شروع کیا۔

میں اور اباجان جھیل کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔

کھانے کے بعد اباجان نے کہا اب ہم اب ’ یقینِ کامل ‘ کا ذکر کریں گے۔

” یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔

تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔ اباجان نے کہا۔

” اباجان ، میں تو صرف 15 سال کی ہوں۔ آپ مجھ سے اردو میں بولیں نا۔ یہ تو یونانی معلوم ہوتی ہے۔ ہے نا بھیا“۔سعدیہ بولی۔

” ہاں اباجان۔ سعدیہ صحیح کہتی ہے“۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے میرا ساتھ دیا۔

اماں جان نے ہنس کر ابو سے کہا۔” بچوں کو کیوں ڈرا رہے ہو؟“

” تم ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔

ماں نے ہماری سمجھ کو سلجھانےکی ناکام کوشش کی۔

” بھائ جان، مدد یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں“۔ سعدیہ نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

میں نے کہا۔” ماں نے بتایا نا“۔

” ماں نے بتایا نا“۔ سعدیہ نے میری نقل اُتاری اور مجھےگھاس پردھکا دے دیا۔

” اچھا، اچھا۔ میں بتاتا ہوں“۔ اباجان نے کہا۔

” تبسم، تمہاری سہیلی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور ہر نماز کا اختتام اللہ سے دعا مانگنے پر کرتی ہے”۔

” یہ تو مجھے پتہ ہے اور وہ ایک نیک مسلمان ہونے کی دعا مانگتی ہے۔ تو! “۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

” کیوں؟“ اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔

سعدیہ کے دماغ میں بجلی کی طرح خیال پیدا ہوا“۔ اقرار آرزو سے ایمان، اظہارحلقی۔وہ اپنے آپ سے ایک نیک مسلمان بننے کا اقرار کرتی ہے اور کم از کم دن میں پانچ دفعہ اس اقرار کو دہراتی ہے“۔

اباجان اگرآپ نے پہلے ہی تبسم کی بات کی ہوتی تو میں جلدی سمجھ جاتی۔

میں نے کہا " امی سعدیہ کو سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے"۔

سعدیہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے بازو میں زبردست چٹکی لی۔" ہمholy shrine میں تھے۔ میں نے اپنی چیخ کو روک لیا" ۔
ابا جان نے کہا”۔” اگر آپ کسی بات کو بار بار دُہرائیں تو تحت الشعور اس پر یقین کرنے لگتا ہے“۔

سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔

کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔
 

تفسیر

محفلین

آٹوسجیشن


سعدیہ بہت دنو ں سے کیلیفورنیا سائنس سینٹر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ انسان کا اندرونی جسم3 ڈی فلم ایمیکس کے تھیٹرمیں دیکھے۔ ہم دونوں نے ہفتہ کو جانے کا پروگرام بنایا۔ امی اور اباجان کو ایکfund raising میں جانا تھا۔ ہم سب نے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا پروگرام بنایا۔

یہ فلم زندگی کی حیرت انگیز کہانی دکھاتی ہے۔ جو اندرونی کام ، بلا ارادہ انسانی جسم میں ہر وقت جاری رہتے ہیں ان کی تفصیل عجیب اور خوبصورت انداز سے دکھاتی ہے۔

explotorium میں سینکڑوںexhibits دیکھنے کے قابل ہیں۔کھانے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد دو بارہ آکر دیکھیں گے۔ لیکن ایک اکزی بیٹ پر میری نظر پڑی اور میں نے سعدیہ کی توجہ اس طرف کی۔ دو اسپیکر پر دو مختلف گانے ایک ہی وقت میں بج رہے تھے اور گانے کی آواز ایک سیدھے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی اوردوسرے گانے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔ جب آپ سیدھے ہاتھ کے اسپیکر کی طرف دیکھتے تو الٹے ہاتھ والے اسپیکر کا گانا پس منظر میں چلاجاتا۔ جب آپ الٹے ہاتھ والے اسپیکر کو دیکھتے تونے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔

” بھیایہ جادو کی طرح ہے نا“۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

میں نے سعدیہ سے مذاق میں کہا۔ " یہاں اگر کوئ میرا دوست اتفاق سے مل جائے تو اس کو کو مت بتانا کہ تو میری بہن ہے“ ۔

” وہ کیوں بھائ جان“۔ سعدیہ نے بڑی مصومیت سے پوچھا۔

دل نے کہا خاموش، دماغ نے کہا موقع اچھا ہے۔ میں نے سعدیہ کے ہاتھ کے پہنچ سے دور ہوکر کہا۔

” کیوں کہ تو بیوقوف اور ایک گدھی ہے“ ۔

سعدیہ نے چٹکی بھرنے کے لیے ہاتھ بڑایا۔ لیکن ہاتھ میری کمرتک نہیں پہونچ سکا۔

” آپ بالکل الّو ہیں۔ میں گھر چل کر ایک ایسی چٹکی ماروں گی کہ آپ کوزندگی بھر یاد رہے گی“۔ میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جب اتوار کو سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں توہر شخص ایک دوسرے سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔جب تم کزِن عایشہ سے ’ فیوزن’ بینڈ کے متعلق باتیں کر رہی ہوتی ہو تو کیا تم کو پتہ ہے کہ تمارے دوسری طرف کھڑے کزِن عمران اور کزِن سونیا کیا باتیں کررہے ہیں؟

” اگر میں ان کی طرف دیکھوں تو بتا سکتی ہوں۔ بھائ وہ تو یہی بات ہوئ جو ہم یہاں اسپیکر پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئ سمجھانے والا تو جواب نہیں ہوا۔ اب نہ صرف آپ الّو ہیں لیکن اب یہ بھی ثابت ہوگیا کی آپ گدھے بھی ہیں۔ یہاں اگر اتفاق سے میر ی کوئ سیہلی مل جائے تو دور چلے جایےگا۔ ورنہ مجھے تعارف کرانا پڑجائےگا“۔

” کیوں کیا تم اپنی سیہلی کا دنیا کے سب سے شکیل و جمیل، چنچل، فیاض، میٹھی باتیں کرنے والا اور ابھی تک غیرشادی شدہ بندے سے تعارف نہیں کراوگی؟“

” جی میں ان کو یہ سب بتاؤں گی اوراس تعریف کو اس طرح مکمل کروں گی کہ میرا بھائ نہ صرف الّو ہے بلکہ گدھا بھی ہے“۔ سعدیہ نے پیار سے کہا۔

” میری پگلی، دماغ ان آوازوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ کان نہیں۔ لیکن سائنس نےاس کی میکانیت کو اب تک مکمل طور پر نہیں جانا ہے“۔

سعدیہ نے کہا”۔ بھیا۔ سچ بتائیں کیا آپ کو یہ جواب پتہ تھا؟“۔

میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں ، میں یہاں آنے سے پہلے اس نمائش کے بارے میں پڑھا تھا“۔

” بھائ جان آپ نہ صرف الّو اور گدھے ہیں لیکن بدھو بھی ہیں“۔

” وہ کیوں“۔ میں نےحیرت سے کہا۔

” اس لیے کہ میں آپ کی قابلیت سے متاثر ہوچکی تھی“۔

” میں نے کہامجھے یہ پتہ ہے تجھ کو متاثر کرنے کے لیے مجھےکچھ بھی نہں چاہیے اگر میں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان بھی ہوتا تب بھی تو مجھ سے یہی کہتی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئ نہیں“۔

” بھائ جان۔ آپ کے خوابوں میں“۔ سعدیہ نے زبان د کھا کرکہا اور مجھ سے لپٹ گئ۔

میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان منہ کھولے کھڑا تھا۔

اچانک اماں جان کی آواز آئ ۔ اب اس بھائی بہن کی محبت کو ختم کرو۔ تم لوگوں کو بھوک نہں لگی“؟

اباجان نے کھانا منگواتے ہوئے کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔

” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور(consciousness) میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ negative) ہوں یا اثباتی (positive)، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور (sub-consciousness) میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔

اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟

سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔

میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔

شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔

” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“

” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔

” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“

خواہش < -- شدت < -- شدیدخواہش
(شعور) < -- ( آٹوسجیشن) < -- (تحت الشعور)
 
Top