پختون کی بیٹی - مکمل ناول

تفسیر

محفلین

تعلیم خصوصی


میں 101 Freeway سے Wilshire East پر نکلا اور پُل کے نیچے سےگزر کر پہلی ٹریفک لائٹ پر Westwood village کے لیے لفٹ ٹرن لیا۔ تین بلاک کے بعد ہم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس ( اُ کلا ) کے کیمپس میں داخل ہو رے تھے۔

اُکلا، امریکہ کی دس مشہور یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جگہ میرے لیے دوسرا گھر ہے۔ اباجان اور اماجان نے یہاں تعلیم پائ اور یہاں ہی دونوں پہلی بار ملے اور اب اباجان یہاں فلسفہ پڑھاتے ہیں اور ماں نفسیات۔ میں بھی یہاں پڑھتا ہوں اور دو سال کے بعد سعدیہ بھی یہیں پڑھی گی۔ یہ میں کیوں بتارہا ہوں؟ اس لیے کہ یہ ہماری فیمیلی کی ’ یونی‘ بن گئ ہے۔

اُکلا کیلیفورنیا کی پبلک یونیورسٹی ہے۔ اس کی فیکلٹی کااسٹاف33 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 5 نوبل پرائزیا فتہ ہیں۔ 26 ہزار انڈر گریجویٹ طالب علم اور تیرہ ہزارگریجویٹ طالب علم ہیں۔ اس کی لائبریری میں سات ملین کتابیں ہیں۔ اس میں ایک سو چوہتّر بلڈنگ ہیں جو چار سو اُنیس ایکڑ پر پھیلی ہیں۔

آج ہم اباجان سے تعلیمِ خصوصی پر گفتگو کریں گے۔ اور اکلا کے علاوہ لاس اینجلس میں اور کس جگہ کو یہ امتیاز مل سکتا ہے؟ میں اور سعدیہ کیرکا ف ہال کے سیکنڈ فلور پر کھلے ہوئے برآمدے میں اباجان اور اماجان کا انتظارکررہے ہیں۔ یہ کیمپس کے درمیان تین منزلہ لال اینٹوں اور کنکریٹ کی خوبصورت بلڈنگ ہے۔ سعدیہ نے اوپر سے اباجان اور ماں کو آتے دیکھا۔ اس نے کہا چلو اندر کافی ہاؤس میں آرام سے بیٹھتے ہیں۔

جیسے ہی سب بیٹھے۔ماں نے ہم سب کے لیے گرم چائے اور کوراسانٹ( فرنچ پپڑی دار پیسٹری ) کا آرڈر دے دیا۔
” سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔

سعدیہ نے کہا۔” جی جی“۔

” تم مجھے بتاؤ کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟۔“

سعدیہ اس سوال کے لیے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہا۔” علم کو حاصل کرنا اور کسی ہنر کو سیکھنا “۔

اباجان نے مجھ سے کہا”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اس کا کیا مطلب سمجھے؟“

” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔

” علم کو جاننااور سمجھنا دو مختلف درجے ہیں۔ علم کو بغیر جانے سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کو بغیر سمجھے اس کا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا۔

” تعلیم اور ’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟” سعدیہ نے کہا۔

” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔

اباجان نے کہا ۔” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“۔

” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا جواب مکمل تھا۔

” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔

” ایک قسم تعلیمِ عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیمِ مخصوصہ“۔

تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کو سمجھنا ‘ ہے۔ پروفیسر تعلیمِ عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کو کمانے میں نہیں کرتے۔

تعلیم مخصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔

اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لیے منظم کیا جاتا ہے ا ور اس کا رُخ مقرر خاتمہ کی طرف کیا جائے۔سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی ’ اندر سےابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص وہ ہو جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہے، تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

اباجان نے ا پنی بات کو جاری رکھا۔” میں تم کو ہنری فورڈ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جس نے امریکہ میں پہلی سستی، مضبوط اور کم خراب ہونے والی ماڈل ٹی کار بنائ۔ ہنری فورڈ ایک بہت مال دار شخص تھا۔ ایک دفعہ شکاگو کے ایک اخبا ر نے اس کو’ جاہل صلح پسند‘ کہا۔ فورڈ کو اپنے بارے یہ رائے زنی پسند نہیں آئ۔ فورڈ نے اخبار پر تحریر باعثِ ہتک کا مقدمہ کردیا۔ عدالت میں وکیلِ دفاع نے فورڈ سے کافی مشکل اور تفصیل وار سوال پوچھے۔تھوڑی دیر تک مسٹر فورڈ ان سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میری ڈیسک پر دسیوں الیکٹریک پُش بٹن ہیں، اگر مجھ کو اس سوال کا جواب چاہے ہوتا تو میں ایک بٹن کو دباؤں گا اور اس فیلڈ کا ایک ماہر میرے آفس میں اس کا جواب لےکر موجود ہوجائے گا۔ میں کیوں اپنے دماغ کو تعلیمِ عامہ سے بھردوں جب کہ میرے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ کو اس کے جواب سے آگاہ کر سکتے ہیں“۔

” سعدیہ بیٹی کیاعام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ ضروری ہے“۔ ابا جان نے سعدیہ سے سوال کیا۔

” نہیں ابا جان۔ عام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ جانا ضروری نہیں ہے“۔ سعدیہ نے مسکرا کر کہا۔

” بیٹا، تعلیمِ مکمل کیسے کہتے ہیں؟“

” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔ میں نے اباجان کے الفاظ دہرائے۔

 

تفسیر

محفلین

تصور

” انسان ہر وہ چیز کرسکتا ہے جس کو وہ سوچ سکتا ہے“۔ اباجان نے کہا۔

” وہ کیسے؟“سعدیہ نے سوال کیا۔

ابا جان نے سوچ کو ایک کارخانے سے تشبیہ دی اور عقل و شعور کو ایک کمہار سے۔

” آپ سوچ کو ایک کارخانہ سمجھ لیں۔ اس کارخانے میں خواہش سے ہم منصوبے بنا تے ہیں اور جس طرح ایک کمہار چکنی مٹی سے مٹکا بناتا ہے اس طرح عقل و شعور ، خواہش کو شکل و صورت دیتی ہے۔ خواہش کو ایک راہ میں ڈھالنا ، گھڑنا اور منصوبے پر عمل ہونا دماغ کے عقل و شعور میں ہوتا ہے۔ انسان نےعقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیےاور قدرتی قوتوں کو قابو کیا ہے ابا جان نے بتایا۔”سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ اگر ہم پرانے قیاس، خیال، سوچ اور منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں تو یہ سوچ ، ترکیبی سوچ ہے“۔

” سوچ موجدہ میں الہامی خیال، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ دوسرے انسانی دماغ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے”۔اباجان نے دوسری سوچ کے متعلق بتایا۔

اباجان نے پوچھا۔” تم نے’ خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس‘ کی کہانی سنی ہے؟ “

سعدیہ اور میں نے ایک ساتھ کہا۔” نہیں“۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے انہوں نے اپنے کالج کے نظامِ تعلیم میں بہت سے نقص دیکھے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ کالج کے منتظم ہوتے تو وہ ان کی اصلاح کر دیتے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک نیا کالج شروع کرے گا جس میں وہ اپنے منصوبوں کو بغیر پرانے رسمی طریقِ تعلیم کے نافذ کریں گے۔اس کام کو کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت تھی۔کہاں سے اتنی بڑی رقم ملے گی؟

خطیب تمام کامیابی کے اصول جانتا تھا۔ وہ جانتا تھاکہ مقصدِ مقرر سے کامیابی کی شروعات ہوتی ہے۔کوئ اور شخص اپنے آپ سے کہتا کہ یہ خیال تو اچھا ہے مگر میں کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کام کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ایسا دو سال سے سوچ رہا تھا۔ ایک سنیچر کی شام اس نے اپنے آپ سے کیا کہ دو سال سے میں دن رات اس کے متعلق سوچتا ہوں لیکن میں نے اس کے لیے کیا ،کیا ہے؟ ڈاکٹر نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ ایک ہفتہ میں ا یک ملین ڈالر حاصل کرلےگا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس رقم کو ایک ہفتہ میں حاصل کرے گا۔ ایک بھروسے اور یقین کی کیفیت اس پر طاری ہوگئ۔

اس نے فوراً مقامی اخباروں میں ایک اشتہار چھپوایا۔” اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کروں گا“۔اس کے بعد اس نے بیٹھ کرایک خطاب لکھا۔ اس کو اپنے منصوبے کی ایک ایک بات پتہ تھی۔ جب وہ خطبہ گاہ پر پہنچا تو اس کو خیال آیا کہ اس جوش و جذبہ میں وہ اپنے وعظ کوگھر بھول آیا ہے۔اس نے اس خطبہ کو اپنی خوابوں کی روح اور دل سے دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کس طرح سے ایک ملین ڈالرسے کالج کھولے گا جو نہ صرف لوگوں کو”درسی تعلیم”جو ان کے دماغوں کو روشن کرے بلکہ ’ ہُنر‘ کی بھی تعلیم دے گا۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس نے اپنا واعظ ختم کیا اور بیٹھ گئے۔ایک شخص سامعین میں سے منبر پر آیا اور ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر کہا۔ میرا نام فلیپ ارمر ہے اور مجھے تمہارا وعظ پسند آیا۔تم کل میرے آفس آؤ تو میں تم کو ایک ملین ڈالر دوں گا۔ ڈاکٹرگن زاؤلس دوسرے دن مسٹر ارمر کے آفس پہنچا۔ مسٹر ارمر نے ڈاکٹرگن زاؤلس کو ایک ملین ڈالر پیش کیے۔

آج اس کالج کا نام Illinois Institute of Technology ‘ ہے۔

” پہلے دو سال اور اس ہفتہ میں کیا فرق تھا؟“۔

” دیکھو ، جب خطیب ڈاکٹر نے فیصلۂ مقرر کیااور منصوبۂ مقرر بنایا تو 36 گھنٹے بعد اس کو اس کی خواہش کا صلہ ملا“۔
 

تفسیر

محفلین

منظم منصوبہ بندی


اماں جان کو بونا وینچر ہوٹل میں ارگینائزیشن پرایک سلائیڈ پریزینٹیشن کرنی تھی ۔بونا وینچر ہوٹل کا شمار پانچ اسٹار ہوٹلوں میں ہوتا ہے ۔ یہ بہت خوبصورت پچیس منزیلہ سلنڈریکل بلڈنگ ہے ۔ تمام بیرونی کھڑکیاں سلورکے رنگ کی ہیں مگرشیشے کی بنی ہوئ ہیں ۔یہ ہوٹل ڈاون ٹاون لاس انجلس کے فاینینشل ڈسٹریکٹ میں ہے ۔اسکا ریوالوینگ لا ؤنچ اور روف ٹاپ اسٹک ہاوس، ایل اے پرائم سے آپ لاس انجلس کا خوب صورت نظارہ کرسکتے ہیں ۔میں نے appetizer کے لئےlobster briscuit اور Main course کے لئے Newyork Sirlion Steak کے لئےcrème Brule آرڈرکیا ۔ سادیہ نے baked Oyster Rockefeller ، Chilean bass , tiramisu ۔ اماں اور اباجان نے oysters and seafood salad آرڈر کیا ۔

” ہر چیز، جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے وہ خواہش سے شروع ہوتی ہے“۔
خواہش کا پہلا قدم بلاوجود سے وجود میں تبدیل ہونا ، قوت متصورہ کے کارخانہ میں ہوتا ہے ۔جہاں پر اسکی تبدل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔قائداورمعتقد کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط ، انصاف پسندی ، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی ، خوش گوار شخصیت ، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا مہارت ، ذمہ داری اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں ۔ معتقد لوگ ، قائد کا کہا مانتے ہیں ۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں ۔ بہت دفعہ ایک قائد، معتقد میں سے ہی بنتا ہے ۔

وہ قائد ، اپنے مقصد میں کا میاب نہیں ہوتے ہیں جوکام کی تفصیل سے بھاگتے ہیں اور صرف وہ کام کرنا چاھتے ہیں جوانکی حیثیت کے برابر ہوں ہو، چھوٹا کام کرنا نہیں پسند کرتے ۔ وہ اپنی تمام قابلیت، یعنی اپنی تعلیم کے مطابق صلہ مانگتے ہیں اپنے کام کے مطابق نہیں ۔جومتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوے گھبراتے ہیں ۔ جن میں صورت متخیلہ نہیں ہوتی اور خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں ۔


منظم منصوبہ بندی کے اصول

1 ۔ جتنے ساتھیوں کی اپنے منصوبہ پر عمل کرنے کےلے ضرورت ہے ان کو اپنے مہتممِ دماغ علم یا ماسٹر مائنڈ کا پارٹنر بنالیں ۔

2 ۔ تمام شرکا اور شریکِ کار کو پتہ ہو نا چاہیے کہ اس شرکت میں انکی کیا ذمہ داری ہے ۔

3 ۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاے، تمام شرکا اور شریکِ کارکو کم از کم ہفتہ میں دو دفعہ ملنا چاہے ۔

4 ۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاے تمام شرکا اور شریکِ کار کو میل اور اتفاق سے رہنا چایئے ۔
 

تفسیر

محفلین

اراد ہِ مصمم اور فیصلہ


کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلا تؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور جب فیصلہ کرلیں تو اس فیصلہ کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔

جب تم نے اپنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلیا تو دوسروں کی رائے سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل مت کرو۔
دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو اور پھر بتاؤ۔

فیصلہ کی قیمت کا انحصار جرات پر ہے۔ دنیا کے وہ فیصلے جن سے تہذیب کی بنیادیں رکھی گئیں، ان فیصلوں کے نتائج کو حاصل کرنے میں جانیں تک خطرے میں تھیں۔

سقراط پر جب یہ دباؤ ڈالا گیا کہ اگر اس نے اپنے خیالات نہ بدلے اور جمہوریت کی باتیں کرتا رہا تو اس کو زہر پی کر مرنا پڑے گا۔ سقراط نے اپنے خیالات نہیں بدلے اور اس کو زہر کا پیالہ دیا گیا۔


ظلم سے آزادی کی خواہش آزادی لاے گی ۔
 

تفسیر

محفلین

ثابت قدم
ثابت قدمی کو صلہ میں تبدیل کرنے کے لیے اصرار اور خواہش کا ہونا لازمی ہے۔ قوتِ ارادہ سے ثابت قدم اور اصرار بنتے ہیں۔

ثابت قدمی کوسیکھا جاسکتا ہے۔ ثا بت قدمی کی بنیاد وضاحت پر ہے۔ ارادۂ شافی، خواہش، جرات، منصوبہ ، صحیح علم، مل کر کام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کے وجوہ ہیں۔ جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں،فلسفیوں ،کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ اور عزمِ شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دورِحاضر کے تمام کامیاب لوگوں کی ز ندگیوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجودہے۔

اُنیس سو بتیس میں’ محمت ایساد بے ‘ نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب لکھی اس کا کتاب نام ’ حیرت انگیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ ہے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی تھے۔وہ صوفی نہیں تھے۔ اُنہوں نے اسکول میں نہیں پڑھا اور اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ چالیس سال تک نہیں شروع کی۔ جب اُنہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اللہ تعالٰی کے پیغمبر ہیں اور ایک سچے مذہب کا بتارہے ہیں تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور خبطی، پاگل اور بےوقوف بھی کہا۔ بچوں نے اڑنگے لگائے اور عورتوں نے ان پر نے غلاظت پھینکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مکہ سے نکال دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مانے والوں سے ان کی جائیدادیں چھین لیں اور ان کو بھی مکہ سے نکال دیا۔10 سال تک اسلام کو پھیلالینے کی کوشش کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ گنے چنے لوگ تھے۔ جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ غربت کی اور تحقیر آمیز زندگی بسر کررہے تھے۔ مگر اس سے پہلے کہ دوسرے دس سال گزرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے عرب کے حکمران اور دنیا کے آخری صاحب الکتاب مذہب کے پیغمبر تھے۔ اس سے پہلے کے اس کا بل ٹوٹتا یہ مذہب ڈنیوب سے پایرینیس تک پھیلا۔

اس کے بل کی بنیاد تین چیزوں پر تھی۔ الفاظ کی قوت ، دعا کی اثر اور انسان کا ا للہ سے روحانی رشتہ۔
 

تفسیر

محفلین

ماسٹرمایئنڈ


” علم ایک طاقت ہے“۔اباجان نے کہا۔ کامیابی کے لیے طاقتِ علم کا ہونا ضروری ہے“

” منصوبے بغیر معقول طاقتِ علم کے غیرمؤثراور بے کار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا“۔

” دما غی قوت ، یہاں ایک منظم اوردانش مند علم کو مسئلۂ مرکوز پر توجہ کرنے کے معنی میں استمعال کی گئ ہے“۔

علم کے حاصل کرنے کے تین ذرائع ہیں۔

ایک۔ لا محدود قابلیت۔

دو۔ جمع کیا ہوا علم، پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج۔

تین۔ تجربات اور تحقیقات، سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے“۔

علم کو ان ذرائع سے حاصل کر کے منصوبۂ مقرر میں مننظم کرنا اور پھر منصوبوں کو عمل میں تبدیل کرنا، دماغ کی طاقتِ علم ہے۔

اگر منصوبہ وسیع ہے تو آپ کو دوسرے لوگوں کے دماغ کی طاقتِ علم کی مدد کی ضرورت گی“۔
” جب دو یا دو سے زیادہ لوگ ایک مقرر اور مخصوص مقصد کو حاصل کر نے کے لیے علم کی ہم آہنگی کرتے ہیں تو وہ ماسٹرمائنڈ کہلاتے ہیں“۔

انسان کے دماغ کو ایک بجلی کی بیٹری سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اگر دو بیٹریز کو سیزیز میں ملایا جائے تو آپ کو دوگنی بجلی ملتی ہے۔انسان کا دماغ بھی اسی طرح ہے۔

جب انفرادی دماغ مل کر کسی کام میں ایک تال اور سُرسے ملتے ہیں تواس سے پیدا کی ہوئ مجموعی طاقتِ اجتماع اُن سب کو دستیاب ہوتی ہے۔

گاندھی کی مثال لیں۔ وہ مہاتما اس لیے بنا کہ اس نے دو سوکروڑ لوگوں کی جسم اور جان کو ایک مقصد مقرر کے لیے ملا دیا۔ اور ان کی مجموعی طاقتِ اجتماع نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

گاندھی نے کہا میں تم کو ایک طلسم دیتا ہوں جب بھی تم کو شبہ ہو اور یا دھیان خود کی طرف جانے لگے تو اپنے ذہن میں ان کمزور اور غریب لوگوں کے چہرے لاؤ، جن کو تم نے دیکھا ہے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرو۔

یہ قدم جو تم اُ ٹھا رہے ہو کیا ان کی مدد کرےگا ؟

کیا ان کو اس سے کوئ فائدہ ہوگا ؟

کیا اس سے ان کو اپنی زندگی اور اپنی نصیب کو خود ڈھالنے کا موقع ملے گا ؟

دوسرے الفاظ میں کیا یہ راستہ اُن کی آزادی کی طرف لے جائے گا ؟

تب تم دیکھو کہ تمہارے شبہات اورخود شناسی غائب ہوجائے گی۔
 

تفسیر

محفلین

کامیابی کے اصول۔ ایک نظر ثانی

ہم لوگ ’ گارڈن آف دی ورلڈ ‘ کی سیر کرنے آئے ہیں۔ یہ جگہ لاس اینجلس کے ایک suburb میں ہے۔ ہم لوگ جاپانیز گارڈن میں ہیں۔ باغ کا رقبہ 5 ایکڑ ہے۔ اس جگہ میں پانچ مختلف گارڈن ہیں۔ فرانسیسی بٹرفلائی اور فاؤنٹین گارڈن، اٹالین گارڈن، انگلش روز گارڈن ، جاپانی باغ اور اسپین کے مشن کی کورٹ یارڈ جو کہ گارڈنوں کے درمیان ہے۔ سعدیہ نے گرم گرم چائے سب کو دی۔

” کیا ہماری گل پھر سے بلبل ہو سکتی ہے؟“۔ اباجان نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ” ہاں“ اوراس کا جواب بھی خود دے دیا۔” تم اس بات کو جانتے ہوکہ دنیا کا ہرکام ممکن ہے۔ ہزارہا لوگوں نے اس کو بار بار ثابت کیا ہے“۔

” توکیا پختون عورتوں کوآزادی دلانا ایک ممکن حقیقت ہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔

سعدیہ نے کہا۔” آزادی ایک فطری حق ہے اور جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئ طاقت آزادی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی ہے“۔

” ہم جا نتے ہیں کہ پختون عورتوں پر ظلم ہورہاہے۔ ظالم جانتا ہے۔ لیکن مظلوم کو اس کا پتہ نہیں“۔ ماں نے کہا۔

” مظلوم کو بتایا گیا ہے کہ وہ قوم اور گھر کی عزت کی ذمہ دا ر ہے۔اور یہ ذمہ داری اس سے قربانی مانگتی ہے۔یہ ظلم رسم و رواج کے نام پرکیا جارہا ہے“۔ میں نے ما ں کی بات میں اضافہ کیا۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔ ” تو ہم اس جدوجہد کا کس کوذمہ دار ٹھہرائیں؟“۔

” پختون عورتویں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں۔ یہ ذ مہ داری تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کی ہے“۔ میں نے کہا۔

اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” وہ چار اہم چیزیں کیا ہیں جو پختون عورتوں کو حاصل کرنی ہیں“۔

“ تقدیر پر خود مختیا ری ، خود اعتمادی ، سیاسی قوت، تنظیم”


سعدیہ نے کہا۔ ” ہمارا کام پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تقدیر پر خود مختیا ری حاصل کرانا ہے۔ ہرپختون کی بیٹی میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہے اور تمام پختوں عورتوں کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہے۔ان کا شعور بلند کرنا ہے ان کو منظم ہونا سیکھانا ہے۔ہماراکام ان کو وسیلہ مہیا کرنا ہے“۔

ان مقاصد کو حاصل کرنے کے کیا بنیادی اصول ہیں؟ اباجان نے مجھ سے سوال کیا؟

” سوچ جب مقصد مقرر ، مستقل مزاجی، اورخواہشِ شدید“۔

ہر کام کا آغاز سوچ سے ہوتاہے۔ ہم کو سوچ کی اہمیت کو ان کی ذہنوں ہیں نقش کرانا ہے۔ ان کو بتا دینا ہے کہ مقصدِ مقرر ، مزاج ِقائم اور خواہشِ شدید کس طرح سوچ کوبلندکرتی ہے اور اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے۔انسان کا دماغ جو سوچتا ہے اور اس پریقین کرتا ہے دماغ اس کو حاصل کر لیتا ہے۔ جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے سے نہیں ڈرتے۔ اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے“۔

”یقین ِکامل، سوچ کو کس طرح مضبوط کرتاہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔

” یقین ِکامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور اُن کے ملنے کو محسوس کر لیتا ہے اورتحت الشعور، سوچ کو ایک روحانی کیفیت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کو علمیت لامحدود میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ دعا اللہ کو پہنچتی ہے“۔ سعدیہ نے بڑے فخر سے کہا۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں کون سے تین جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں؟“

میں نے کہا۔” ایمان ، محبت، شہوت کے جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین جذبات ملتے ہیں وہ خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیال ایک دم سے تحت ا لشعور میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں روحانی کیفیت بن کر وہاں سے جواب لاتا ہے۔ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہََََََََ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کو جواب دینے کی ترغیب کرتی ہے“۔

” ایمان کا دوسرا کام کیا ہے؟“۔

” آٹو سیجیشن کیا ہے؟“

” جس طرح نماز میں اللہ تعالٰی سے شعوری طور سے دُعا مانگی جاتی ہے۔اور ایمان اس دُعا کو روحانی طور مضبوط کرتا ہے تاکہ دُعا تحت الشعوراللہ تعالٰی تک پہنچ جائے اسی طرح آٹو سیجیشن میں ہم ایک مقصدکو بار بار دُہراتے ہیں۔یہ دُہرانا، ہمارے مقصد کو شعور سے تحت الشعور میں منتقل کرتا ہے۔ تحت الشعور، یقینِ کامل کی وجہ سے اس مقصد کو حاصل میں تیزہو جاتا ہے“

” حواس خمسہ کیا ہیں ؟ اور اُن کے کام کیا ہیں؟“

آنکھیں، کان ، ناک ، منہ ، ہاتھ حواس خمسہ ہیں۔آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ کان کی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواس خمسہ سے دماغ کوترغیب ملتی ہیں اور دماغ ان کا جواب دیتا ہے۔

اباجا ن میری طرف متوجہ ہوئے۔” کیا ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم کو مکمل حل ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟“
میں نے کہا۔” اگر آپ کی کوئ خواہش ہے تواس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ انتظارنہ کریں کہ جب میرے پاس اس کو حل کرنے کے لیے مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا“۔

اباجا ن نے کہا۔ مگر ہمارے پاس اس مسئلہ کا حل بھی موجود نہیں؟“۔

” اس حل یا منصوبہ کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ چھٹی حس کی وجہ سے جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چمکے۔ اس غیبی مدد کو شاعر’ آمد ، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے۔کامیابی کو حاصل کرنے کا پہلا اصول اس مقصد کی خواہش شدید اور دوسرا اصول کامیابی کا یقین ہونا ہے“۔

اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” تعلیم کیا ہے؟ “۔

” علم کاحاصل کرنا ، اس کا سمجھنا اور اور اس کو استعمال کرنا ہے“


اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔”علم کی کتنی قسمیں ہیں؟“

” علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم عامہ اورعلم مخصوصہ“۔

” علم عامہ کیا ہے ؟“

” علم عامہ ،علم کا حصول اوراس کو سمجھناہے۔پروفیسر علم کو بخشتے ہیں۔ وہ علم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کمانے میں نہیں کرتے۔ وہ علم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔
” اور علم مخصوصہ کیا ہے؟“

” علم مخصوصہ ، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں علم کا استعما ل تعلیم مخصوصہ ہے۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔وہ علم مخصوصہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔


” تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے؟“

” ہزاروں لوگ مغالطے میں ہیں کہ تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے۔ تعلیم صرف ایک ’ صورتِ امکانی ‘ ہے یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو ’ مقصد مقرر‘ کے لیے’ منظم‘ کیا جائے ا ور اس کا رُخ ’ مخصوص اختتام‘ کی طرف کیا جائے“۔

” صحیح تعلیم سے کیا مراد ہے؟“۔

” سینکروں لوگ یہ سمجھتے ہیں اگر کوئ شخص سکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن اٹالیین لفظ ایڈوکو سے بنی ہے۔ جس کے معنی ہیں’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہو۔ تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کویہ تربیت دی ہے کہ تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہراس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

” علم کے حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں؟“

” علم کے حاصل کرنے کے چار ذرائع ہیں۔

خود کی تربیت اور تعلیم۔

لا محدود قابلیت۔

جمع کیا ہو علم۔ پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج، تجربات اور تحقیقات۔ سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے”۔

” سوچ کیا ہے؟”

” سوچ ایک کارخانہ ہے جس میں منصوبے بنتے ہیں۔ عقل و شعور میں خواہش ایک راہ کی طرف ڈھلتی ، گھڑتی اور عمل وار ہوتی ہے“۔

” کیا انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے؟“

” انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے۔ انسان نے عقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیا اور قدرتی قوتوں کو قابو میں کیا ہے“۔

” سوچ کی کتنی قسمیں ہیں؟“

سوچ دو طر ح کی ہوتی ہیں۔ایک اختراعی ترکیبی سوچ ہے۔ اور دوسری موجدہ سوچ کہلاتی ہے“

” اختراعی سوچ کیا ہوتی ہے؟“

اختراعی سوچ میں آپ پرانے خیال، منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں۔ یہ غیر موجدہ قوت ہے۔

” مجودہ سوچ کیا ہوتی ہے؟“

” مجودہ سوچ میں الہامی خیال ، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ غیر محدود دماغی قابلیت سے رابطہ قائم کرلیتا ہے“۔

” ہر وہ چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے اس کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے؟“

” خواہش سے شروع ہوتی ہے۔ خواہش کا پہلا قدم انتخاب ہے صفات کا اضافہ قوت متصورہ کے کارخانے میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدّل کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے“۔

” قائد یا لیڈر اورمعتقدکی صفات کیا ہیں؟“

” دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط، انصاف پسندی، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی، خوش گوار شخصیت، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا ماہر، ذمہ دار اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ، قائد کا کہا مانتے ہیں“۔

” قائد کیسے بنتے ہیں؟“

” اگر انسان قائد کی صفات کو حاصل کرے اور ان پر عمل کرے تو قائد بن سکتا ہے۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ معتقد بھی قائد بن سکتے ہیں“۔


” قائد ناکامیاب کیوں ہوتا ہے؟“

” کچھ قائد ناکامیاب اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ تفصیل کے ماہر نہیں ہوتے اورہر کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ا پنی قابلیت کاصلہ مانگتے ہیں اس کے استعمال کا نہیں۔معتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ان میں سوچ کی کمی ہوتی ہے۔ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے قائد سے غیروفاداری کرتے ، بے اعتدالی اور ذیادتی ، حوصلہ افزائ کے بجائے رُعب اور دبدبہ کا استمعال کرتے ہیں۔

” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟“

” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کوئ کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلاتؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور کیے ہوئے فیصلے کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔ جب تم ا پنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلو تو دوسروں کی رائے سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل نہ کرو۔ دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے اور پھر بتاؤ۔

” فیصلہ کی قیمت کیسے جانتے ہیں؟ “

” فیصلہ کی قیمت ، فیصلہ پر عمل کرنے کی جرات کے مطابق ہوتی ہے“۔

” خواہش کو صلہ میں کس طرح سے تبدیل کرتے ہیں؟“

” خواہش کو صلہ میں قائم مزاجی کے بغیر نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ قائم مزاجی اور اصرار، قوت ارادہ سے بنتے ہیں۔ ظلم سے آزادی کی خواہش صرف آزادی سے ہی مل سکتی ہے“۔

” کیا قائم مزاجی کو سیکھا جاسکتا ہے؟“

” قائم مزاجی کی بنیاد مقصد مقرر پر ہے اور خواہش ارادۂ شافی ، منصوبۂ مقرر ، صحیح علم ، مل کرکام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کی وجوہ ہیں“۔

” پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں میں کونسی کامیابی کی خصوصیت ایک جیسی ہوتی ہے؟”
” جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ ، اور عزم شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تجزیہ کریں اور تمام کامیاب لوگوں کی (اس دورِحاضر میں) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجود ہے“۔

” کیا کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ ہونا ضروری ہے؟“

“ کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بغیرمعقول طاقت کے غیرمؤثراور بیکار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ ماسٹر ماینڈ ، ایک سے زیادہ منظم اوردانش مند علم کے لوگ اجتماع پرتوجہ مسئلہ پر مرکوز کرتے ہں“۔​
 

تفسیر

محفلین
رجب کی پہلی تاریخ تھی۔شام ہوچکی تھی۔ نورا (ہاوس کیپر) نے چائے بنا کر سب کو پیش کی۔ وہ افغانی ہے۔ ابا اور اماں جان کے ساتھ پچیس سال سے ہے۔اس نے ہمیں پالنے میں ماں کی مدد کی ہے۔ اس کی ملاقات ابا اوراماں جان سے افغانستان میں ہوئ تھی۔ اور پھراس نے ابا اوراماں جان کے ساتھ امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔

سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا، مغرب میں تیزی سے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔

اباجان نے کہا۔ ہماری ساری گفتگو کا لبِّ لباب یہ ہے:

” کامیابی کے اصول بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استمعال ہو سکتے ہیں۔ یہ مقصد دولت ، شُہرت ، محبت اور علمیت بھی ہوسکتی ہے۔ جب ہم تصور اور آٹوسجیشن کے ذریعے خواہش کو شدید اور مقرر خواہش میں تبدیل کرتے ہیں، اس کو حاصل کرنے کے لیے مصنوبہ بناتے ہیں ، تعلیمِ خصوصی حا صل کرتے ہیں اورماسٹر ما ئنڈ کو جمع کرتے ہیں پھر یقین کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور ثابت قدمی سے اس فیلصہ پر قائم رہتے ہیں تو ہمیں مکمل کامیابی حاصل ہوتی ہے”۔
اماں نے کہا”۔ کل سے میری باری ہے۔ میں تم کو

پختون ولی

اسلام اور عورت

پختون کی نفسیات اور سیاست

اور مینیجمینٹ، ارگنائزیشن کے اصولوں

سے آگاہ کروں گی۔

اباجان کے کامیابی کے اصول ، میری پختون سے متعلق انفارمیشن تمہارا عزم مضبوط کریں گی۔ پھر مینجمنٹ اور ارگنائزیشن کو استعمال کرکے تم اپنےگول کوعملی جامہ پہنا سکوگے۔

اندھیرا ہوگیا تھا۔ ہرطرف تاریکی چھا رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا۔ ” کیا میں لائٹ کو آن کروں“؟

ماں نے کہا۔” بیٹا ، اوپرآسمان پر دیکھو”۔

آسمان میں گہرے اندھیرے کی وجہ سے ستارے اور بھی چمکنے لگے۔سارا آسمان ستاروں سے بھرا تھا۔ اچانک ایک ستارہ جنوب میں زمین کی طرف پرواز کرنے لگا۔

میں نے کہا۔ ”سعدیہ ، وہ دیکھو۔ شوٹینگ اسٹار“۔

نورا نے سعدیہ کے لمبے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے کہا۔ ”بیٹی ، جب ہم شوٹینگ اسٹار دیکھتے ہیں تو ہم اپنی خواہش کی کامیابی کی دُعا مانگتے ہیں“۔

ہم سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور ایک دائرہ بنایااور سعدیہ نے کہا۔ ” اللہ تعالٰی ، ہم تیرے حقیر بندے ہیں، ہم تہہ دل سے دُعا کرتے ہیں کہ تو ہماری پختون بہنوں پررحم فرما اور جو ظلم ان کے ساتھ ہو رہا ہے ان کو اس سے نجات دلا“۔
پھرسعدیہ کی آواز بھراگئ۔ اور اس کی دُعا ایک وعدے میں تبدیل ہوگئ۔ ” اے میرے معبود میں تجھ سے آج یہ وعدہ کرتی ہوں کہ گل کی پوتی اس ظلم سے آزاد ہوگی اور وہ حقیقت میں پختون کی بیٹی کہلائی گی“۔

اختتام ۔باب دوئم
 

تفسیر

محفلین

پختون کی بیٹی

تیاری

سید تفسیر احمد

باب سوئم۔اجتماع



1۔ پختون ولی
2۔ نَنَواتے
3۔ کانڑے یا تیگہ
4۔ بدل
5۔ میلمستیا
6۔ پختونخواہ اور پختون
7۔ اسلام
8۔ سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات
9۔ اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی
10 ۔حدود ارڈیننس( جرمِ زنا)
11 ۔ نظم و نسق
12 ۔پختون کی نفسیات
13۔ پختون کی سیاست
14۔ پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ
 

تفسیر

محفلین


خلیل جبران نے اپنی مشہور کتاب “ ایک آنسو ایک مسکراہٹ“ میں یہ لکھاہے”۔ سعدیہ نے ہنس کر کہا۔

اس نے اپنے سے ایک روح کو جدا کیا اور اس کوخوبصورتی کے صفات دیئے۔ اس نے روح کوخوش اسلوبی اور رحم دلی کی برکت دی۔ پھراس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیا اور فرمایا۔ ’ اس پیالہ سے اس وقت پینا جب تم ماضی اور مستقبل کو بھول جاؤ۔ وقتِ حال کی خوشی کے سوا کوئ خوشی نہیں ‘۔

پھراس نے اس روح کو غم کا پیالہ دیا اور فرمایا "ا گر اس پیالے سے پیوگے تو چند روز خوشی اور مستقل غم ہوگا۔ تب اس نے عورت کو ایسی محبت دی جو کہ دنیاوی دل جوئ کے خاطر وہ اس محبت کو کھودے گی اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی اور اللہ نے عورت کوجنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔

اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کہ اَن دیکھی ہوئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھائ کی خوبی دی۔ اس نے اس کو امید کا لباس پہنایا جس کوجنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اس کو پریشانئ دماغ کا جامہ پہنایا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔

اس کے بعد غصہ کی آگ ، جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروں کی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری مدتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔ مرد کو ایسی اندھی قوت دی جواس کو دیوانہ بنادیتی ہے اور وہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔ وہ ہنسا اور پھر رویا۔ اُس نے مرد کے لیے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور مرد کو اپنی نمائندگی میں لے لیا”۔

” ممکن ہے کہ دنیا نے مرد کویہ رعایت دی ہو ہے“۔

” مگر اللہ تعالٰی نے ہم عورتوں کو عقل مندی ، گہری سمجھ ، الفت و اچھائ اور امید بخشی ہے“۔

 

تفسیر

محفلین


” ماں”۔ سعدیہ نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔
اماجان جانتی ہیں کہ جب سعدیہ ایسا کرے یا وہ کچھ چاہتی ہو اور ہمیشہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہ اُ س کو ماں کوپیار کرنے کا بہانہ دیتی ہیں۔
” کیا بات ہے ، بیٹا ؟“۔ ماں سعدیہ کو پیار سے بیٹا کہتی ہیں۔
”مجھے پیج میوزیم جانا ہے۔ مجھے LaBrea Tarpit پر ایک مضمون لکھنا ہے”۔
” بھیا کے ساتھ چلی جاؤ“۔
” وہ راستہ بھر میرا دماغ چاٹ جائیں گے“۔
” بالکل غلط، ماں یہ میرا دماغ کھا جائےگی”۔ میں نے ماں کے گھر والے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
” اماں، ان کی شکل دیکھیں۔ جھوٹے ہیں نا“
” پگلی“
” پاگل“
” الّو“
” تم خود“
” الو“
” کچالو ، پکوڑے، سموسے۔اب مزا آیا۔ پھر کہو الّو“
” رس ملائ ، گلاب جامن اور قلاقند“
” مٹھائ کی دکان ، کانٹے“
” چنبیلی، خُوشبو“
” کدو، گاجر اور مولی“
” صبح، شبنم کا قطرہ اور اوس کا موتی“
اماں نے کہا۔ ” یہ طوطے کی طرح ٹیں ٹیں ختم کرو۔ اور جاؤ دونوں تیار ہوجاؤ“
سعدیہ نے مجھے اپنی زبان نکال کر دکھائی۔
 

تفسیر

محفلین

لاس اینجلس کے درمیان ایک جگہ LaBrea Tarpit کہلاتی ہے۔ پیج میوزیم اس کی احاطہ میں بنایا گیا ہے۔ یہ میوزیم دنیا کی سب سے بڑی ice age کی حیوانی اور نباتاتی fossil کی collection رکھتا ہے۔ اس جگہ پرآپ دس سے چالیس ہزار سال پہلے کا لاس اینجلس دیکھ سکتے ہیں۔ لاس اینجلس کے خشک دریا میں عظیم الج۔۔ثہ جانور اور ایسے شیرجن کےدانت ہاتھی کی طرح تھےگھومتے پھرتےتھے۔ لبریا ٹار پٹ، تارکول کی جھیل ہے۔ٹار ایک سیاہ اورگاڑہ تیل ہے یہ لکڑی یا کوئلہ کی اجاڑ کے عرق کشی سے بنتا ہے۔ یہ بہت چپکنے والا گاڑا تیل ہے۔اگر کوئ جانور اس کو چھوئے تو وہ اس میں چپک جائےگا، یقیناً نکلنے کی کوشش میں نڈھال ہوجائے گا اور بھر بھوک سے مرجائے گا۔ دوسرے جانور اس کوکھانے آئیں گے اور وہ بھی چپک جائیں گے۔ ہر دوسرے یا تیسرے سال ایک بڑا جانور اس میں چپک جاتا تھا۔ پیج میوزیم میں ان کے ڈھانچوں کی بحالی پر کام ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

جب سعدیہ نے اپنا اسائنمنٹ ختم کرلیا تواباجان نے کہا ۔” ہم لوگ یہاں ہیں تو قریب میں Beverley Hills میں LaCienga Bkvd. پر GayLord ریسٹورنٹ میں کھا نا کھالیتے ہیں“۔
ہم سب نے اقرار سے سر ہلایا۔

سعدیہ نے مختلف چیزوں تھالی منگوائ جس میں تندوری چکن ، روغنی گوشت، بکری کا گوشت پلاؤ ، لہسن نان اور پاپڑ شامل ہیں۔ پینے کو روح افزا اور میٹھے میں گلاب جامن۔

ماں نے بغیرگوشت کی تھالی منگوائ۔ جس میں مٹر پنیر، دال، بیگن کا بھرتہ، پلاؤ اور پوری تھی۔

اباجان نے تندوری تھالی منگوائ۔ جس میں تندوری چکن، بکری کےگوشت کے سیخ کباب، پیاز کلچا ، پلاؤ اور پاپڑ۔

میں نے اپنی پسندیدہ تھالی لیمب چاپ ، سبزی، پیاز کلچا منگوایا، پینے کو لسّی اورقلفی کھانے کے بعد۔
 

تفسیر

محفلین

اماں جان نے گفتگو شروع کی۔ آج ہم پختون ولی کاجائزہ لیں گے۔
پختون یا پٹھان کا اجتماعی رہن سہن کئ رسم و رواج کے مجموعے پر منحصر ہے جو ’ پختون ولی ‘ کہلاتا ہے۔
پختون ولی ، پختون کو ’ ننگ‘ یا ناموس (عزت) کے اصول بتاتے ہیں۔ پختون کے لیے ’ عزت‘ بہت اہم ہے۔
سعدیہ نے پوچھا”۔ پختون ولی کو کس نے اور کب لکھا؟“
ماں نے کہا۔” جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کو کسی ایک شخص نے نہیں لکھا۔ پانچ ہزار سال سے یہ رسم و رواج ایک پشت سے دوسری پشت کو سکھائے گیے ہیں“۔
” ماں بولی۔ ” پٹھان کے لیے ’ عزت‘ زبردست ذمہ داری ہے اور وہ عزت یا بے عزتی کو دنیا کی دوسرے معاشروں کی طرح نہیں دیکھتا۔ یہ قوانین پختون کے قول واعمال پر بہت اثر کرتے ہیں اور پشت در پشت پختون ولی کے رسم و رواج پاک سمجھے گیے ہیں“۔
پختون کا ایک بہت مشہور شاعرخوشحال خان خٹک کہتا ہے”۔ میں اس شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو اپنی زندگی عزت سے نہ گزارے۔لفظ عزت مجھ کو غصہ دلاتا ہے“۔
” ماں عزت کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟“
” پختون ولی کے رسم و رواج ، پختون پر چار ذمہ داریاں واجب کرتے ہیں“۔
” پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے ، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے اور مجرم کو پناہ دینا۔ یہ ’ نَنَواتے ‘ کہلاتاہے۔
دوسری، دو فرقوں کے درمیان خون خرابی کو روکنے کے لیے جرگہ کا التوائے جنگ فیصلہ۔ یہ ’ تیگہ ‘ کہلاتاہے۔
تیسری، انتقام لینے کا فرض۔ یہ ’ بدل ‘ کہلاتا ہے۔
چوتھی، مہمان داری ، عالی ظرفی، دلاوری، سچائ، سیدھا پن ، ملک سے محبت اوراس کی خدمت۔ یہ ’ میلمستیا ‘ کہلاتاہے“۔
پختون ولی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنےکہ پختون۔ تما م پختون لوگوں کو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ ان پر عمل نہ کرنے کا مطلب معیوب اور بے قدر ہونا ہے اور اس کی سزا فرد اور یا اس کے سار ے خاندان کو قبیلے سے نکال دینا ہے۔ پختون اور پختون ولی ایک بن چکے ہیں۔

 

تفسیر

محفلین


” کسی بھی پختون کے گھر میں کوئ بھی شخص اپنا پیچھا کرنے والے دُشمنوں سے پناہ لے سکتا ہے۔ پناہ لینے والا کسی بھی ذات، عقیدہ، رُتبہ کا ہو، دوست ہو اور یا دُشمن ہو“۔
” میں تم کو اس کی دو مثالیں دوں گی“۔ ماں نے کہا۔
پہلی مثال یہ ہے:
” ایک دفعہ پختونخواہ میں قرضہ دینے والے او ر قرضہ دارمیں جھگڑا ہوا اور قرضہ دینے والا مارا گیا۔ قرض دار نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے تمام راستے بند کردئے۔ جب نکلنے کی کوئ صورت نظر نہیں آئ تو قاتل نےگاؤں کے ٹاور کا رخ کیا اور ٹاور پر پہنچ کر چلایا۔ اللہ کے نام پر مجھ کو پناہ دو۔
ٹاور میں رہنے والے سردار نے قاتل سے معلومات کئیں اور اس کو پتہ چلا کہ جو شخص قتل ہوا وہ اس کا بھائ تھا۔ سردار نے کہا ۔” تم نے میرے بھائ کو قتل کیا ہے، مگر کیوں کہ اللہ کے نام پر تم نے پناہ مانگی ہے اس لیے اللہ کے نام پر میں تم کو پناہ دیتاہوں“۔ سردار نے قاتل کو اندر آنے دیا۔
جب تعاقب کرنے والے وہاں پہنچے تو سردار نے ان کو سختی سے چلے جانے کو کہا۔جب تعاقب کرنے والے چلے گئے اس نے قاتل سے کہا کہ میں تم کو ایک گھنٹہ کا وقت دیتا ہوں تم یہاں سے سلا متی سے چلے جاؤ۔
قاتل اُس وقت تو بچ گیا۔
 

تفسیر

محفلین


دوسری مثال یہ ہے۔
آٹھارہ سو ستّر میں کچھ مفرور لوگوں نے آدم خیل آفریدی کے ایک قبیلہ ’ جوواکیس‘ کے لوگوں سے پناہ لی۔ انگریزحکومت نے جوواکیس کے سرداروں کو حکم دیا کہ مفروروں کو حکومت کےحوالے کیا جائے ، جوواکیس کے لوگوں نے انکار کیا۔
حکو مت نے پانچ ہزار سپاہیوں کی فوج بھیجی۔ ہر دُرّہ اور وادی میں فوج نے قبضہ کیا۔ ہرٹاور کو برباد کیا ، بہت مویشی مارے گئے۔ لوگوں کا جاڑے کی سردی میں برا حال ہوگیا تب قبیلوں کے سردار انگریزی سپہ سالار کے پاس آئے اور ہتھیار ڈالنے کی شرط پوچھی۔
انگریز نے کہا۔نقد جرمانہ ، مُہم کی قیمت، کچھ ہتھیاروں کی حوالگی اور دو مشہور مفرور لوگوں کی سپردگی”۔
سرداروں نے کہا ۔” تمام دوسری شرطیں منظور ہیں لیکن جو لوگوں ہماری پناہ میں ہیں، ہم سپرد نہیں کریں گے۔ تم نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے، رکھ لو۔ ہم کہیں اور گھر بنائیں گے۔ لیکن جن کو ہم نے پناہ دی ان کی ہم حفاظت کریں گے۔ ان کو ہم سپرد نہیں کریں گے“۔
سعدیہ نے کہا ۔” ماں اگر پختون دو مجرموں کے لیے جان اور مال بربا د ہونے دیتے ہیں۔ شکست کھاتے ہیں اور ملک کو چھوڑ سکتے ہیں۔ایک بھائ اپنے بھائ کے قاتل کو جانے دیتا ہے۔
لیکن اپنی بیٹی اور بہن پر ظلم ہونے دیتے ہیں ، کیا گل ہمیشہ کے لیے مرگئ؟“
ماں نے سعدیہ کو دلاسہ دیا ۔” تم اپنے ہم عمر کے پختونوں سے صلاح لوگی۔ وہ عقل والی ہیں۔ لیکن وہ اُس معاشرہ میں پابند ہیں۔ ہر ماں باپ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد ان سے بہتر زندگی گزارے۔ اس نسل نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے معاشرے میں کیا تبدیلیاں چاہئیں۔ وہ اپنی گلُوں کے لیے ان حالات کو تبدیل کریں گی“۔

” اگر ایک پختون عورت اپنے باپ، اپنے شوہر، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں اور اپنے دیوروں کے لیے جان دے سکتی ہے۔ لیکن وہ اتنی کمزور ہے کہ ننھی کو بار بار مر نے دے“۔ سعدیہ نے پرسوز آواز میں کہا۔

 

تفسیر

محفلین

کانڑے یا ٹیگہ


مقابلہ کرنے والے دو قبیلوں کے درمیان خون خرابہ کوختم کرنے کی ایک دوسری رسم تیگہ کہلاتی ہے۔ تیگہ کے لغوی معنی ’ پتھر ‘ ہیں ۔دوسرے الفاظ میں جرگہ ایک دفعہ جب وقتی صلح کرتا ہے تو دونوں طرف لوگ اس کو توڑنے سے ڈرتے ہیں کیوں کہ اس کی سخت سزا ہے۔

جب دو مخالف فریقوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور گولیاں چلنے لگتی ہیں تو قبیلہ کا جرگہ خون خرابہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ مقامی قبیلہ کے سردار اور مذہبی علماء جمع ہوکر دونوں طرف کے لوگوں سے مل کر تیگہ کر دیتا ہے اس کا مطلب ہوا کہ دونوں طرف کے لوگوں نے اس جرگہ کے فیصلہ کومانا اور اگر کسی بھی طرف کے لوگوں نے تیگہ توڑا ان کو سخت جرمانہ دینا ہوگا۔ اس سے امن قائم ہوتا ہے اور دونوں اطراف کو موقع ملتا ہے کہ وہ آپس میں مل کر اور جرگہ کی رہنمائ سے انصاف اور انسانیت کے اصول کے مطابق کوئی سمجھوتا کرسکیں۔

اگر ایک طرف کے لوگ تیگہ کو توڑ تے ہیں تو جرگہ پھر قوت کے زور پر جرمانہ وصول کرتا ہے۔ تیگہ توڑ نے والے کا گھر جلا دیا جاتا ہے۔ان کو اپنےعلاقہ سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہ کام لشکر کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ لشکرگاؤں کی فوج ہوتی ہے۔
 

تفسیر

محفلین

بدل یا بدلہ
اپنی عزت اورsensitivity to insult پختون کی ایک خاصیت ہے۔ ہر پختون اپنے کو آپ کو کسی سے کم نہیں سمجھتا۔ ایک بے عز تی کا نتیجہ قتل ہوسکتا ہے۔کسی کا اس کی عورت سے چھپا عشق گھر کے کسی فرد کا یا ہمسایہ کا قتل ہونا۔تھوڑی سی ذیادتی یا ملکیت کے نقصان پر بھی انتقام لیا جاتا ہے۔

پختون یقین کرتا ہے کہ اسلامی شعریت کے مطابق آنکھ کا بدلا آنکھ، اور خون کا بدلہ خون ہے۔ اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ بے عز تی کا بدلہ لینے سے وہ بے عز تی دُھل جاتی ہے۔ وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ پختون اُس بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا جو کہ غلطی سے ہوئ ہو۔ جو پختون اپنی بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا اس کو قبیلہ میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اسٹار نے جس نے بہت عرصہ پختونخواہ میں گزارا، لکھتا ہے۔ ایک دفعہ ایک بڈھا ہسپتال میں آیا۔اُس کو cataract کی وجہ دھندلا دکھائی دیتا تھا۔

جب اُس کا نمبر آیا تو اس نے کہا ۔” مجھے میری آ نکھیں پھر سے دے دو تا کہ میں رائفل استمال کر سکوں“۔
ڈاکٹر نے پوچھا۔ ’کیوں؟“

بڈھے نے جواب دیا ۔” سولہ سال ہوگئے میں اب تک اپنے بیٹے کے قتل کا انتقام تک نہیں لے پایا“۔
 

تفسیر

محفلین

میلمستیا


میلمستیا پختون میں مہمان داری کی رسم ہے۔ یہ مہمان داری دشمن اور دوست اور اجنبی میں امتیاز نہیں کرتی۔

ہرگاؤں میں سب کے ملنے کی ایک جگہ ہوتی ہے جسے ’ ہجرہ ‘ کہتے ہیں۔ مہمان عموماً ہجرہ میں ٹھہرتے ہیں۔

میزبان ، مہمان کے لیے دنبہ یا بکرے کا گوشت اور حلوہ تیار کرتا ہے۔ اگر میزبان اس قابل نہیں کہ دنبہ یا بکرا کرے تو وہ مرغی بناتا ہے۔
ہر کلہ راشہ،
پہ خیر راغلے ،
ستڑے مہ شے ،
اور تکڑہ یے؟

ان کا مطلب ہے کہ ہمیشہ آؤ، خوش آمدید، امید ہے کہ تم تھکے نہ ہو۔ کیا تم اچھے ہو؟

مہمان خوشی سے کہتا ہے۔
پہ خیر اوسے،
خدائے دے مل شہ،
خوشحالہ اوسے،
خوار مہ شے۔

جن کا مطلب ہے۔ خدا تم کو حفاظت سے رکھے، خدا تمہارے ساتھ ہو، تم خوشحال اور خوش رہو، تم خراب نہ ہو۔ پہلے چائے پیش کی جاتی ہے اور پھر حلوہ ، پلاؤ اور دوسرے لوازمات۔ جب مہمان رخصت ہوتا ہے تو پہ مخہ دے خہ۔تمہارا سفر بغیر خطرہ اور اچھا رہے۔

ہر مہمان سارے گاؤں کا مہمان سمجھا جاتاہے۔ اور ہجرہ میں سب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔اور مہمان دسترخوان پرگاؤں کے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ پختون کا اصول ہے کہ مہمان خواہ اس کا پیٹ بھرا ہو پھر بھی گاؤں کے لوگوں کے ساتھ کم از کم چند لقمے کھائے۔ کھانے کے بعد نماز پڑھتے ہیں اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کے لیے دعا ما نگی جاتی ہے۔


ڈاکٹر پینل بنوں اور اس کے اردگرد کے علاقے میں مشنری ڈاکٹر تھا۔ وہ لکھتا ہے۔
” ایک موقع پر وہ اور اس کا ایک ساتھی ایک گاؤں میں رات کو دیر سے پہنچے۔ سردار گھر پر موجود نہیں تھا اس کا لڑکا بڑے خلوص سے ملا اور فوراً مرغ اور پلاؤ بنواکر پیش کیا۔ سردار رات کو گھر دیر سے پہنچا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ بنوں کے پادری صاحب اس کے مہمان ہیں اور اس کے لڑکے نے صرف مرغ اور پلاؤ کھانے میں پیش کیے اس نے فوراً باورچی سے دنبہ ذبح کروا کر پکوایا“۔

ماں نے مجھ سے پوچھا۔”پختون کی مہمان نوازی کی کیا خصوصیات ہیں؟“
میں نے جواب دیا۔
ایک۔ دوست ، دشمن یا اجنبی ہر شخص کے ساتھ مہمان نوازی۔
دو۔ ہجرہ میں مہمان کو ٹھہرانا۔
تین۔ حیثیت سے بڑھ کر کھانا بنانا۔
چار۔ مہمان، پورے گاؤں کا مہمان ہوتا ہے۔
پانچ۔ مہمان گاؤں کے بڑوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کم از کم چند لقمے کھائے۔
چھ۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کے لیے دعا ما نگی جاتی ہے۔
 

تفسیر

محفلین


پختونخواہ اور پختون


پاکستان کے شمال مغرب کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں 8 مشہور درّے ہیں۔ درّۂ خیبر، درّۂ مالاکنڈ ، درّۂ گنداب، درّۂ کوہاٹ، درّۂ لواری، درّۂ گومل ، درّۂ ٹوچی اور درّۂ بولان۔ پانچ دریا ہیں۔ پختونخواہ میں دریائے سوات، دریائے کُرم ، دریائے ٹوچی اوردریائے گومل بہتے ہیں۔ پختونخواہ میں رہنے والے پشتون، پختون اور پٹھان کہلاتے ہیں۔

پختون کون ہیں اور کہاں سے اس علا قہ میں آئے کسی کو اس کا صحیح پتہ نہیں۔ لیکن ان کے متعلق چار قیاس آرائیاں ہیں۔

مشہور عالم البیرونی نے جو دسویں صدی میں غزنی میں رہا اس نے’ تاریخ الہند ‘ میں پختون کے متعلق لکھا ہے۔ ” ایک باغی اور جنگلی قوم ہندوستان کے مشرق میں بستی ہے“۔

میجر راورٹی ای ریج وے نے اٹھارویں صدی میں اپنی کتاب ’ پٹھان‘ میں لکھا۔ پٹھان حضرت سلیمان کے سپہ سالار جری مایہ کے بیٹے افغانہ کی اولاد ہیں”۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جوزف کی اولاد ہیں۔ جوزف کا قبیلہ اُن دس یہودی قبیلوں میں شمار ہوتا ہے جو کھوئے ہوئے لوگ کہلاتے ہیں۔

بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ پختون کے نقش و نگا ر اُن قوموں سے جو دریائے سندھ کی دوسری طرف رہتی ہیں ملتے ہیں۔ان میں ترکی اور ایران بھی شامل ہیں۔

اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان قوم عرب سے قریب ہیں۔جب ہم عرب اور پٹھان قوم کی قبیلہ بندی اور سماجی استعمال کا مطالعہ کتے ہیں تو دونوں میں حیرت انگیز مشابہت ہے۔

اسلام سے پہلے عرب میں بھی آزادی سے عشق، شجاعت، برداشت، مہمان نوازی، اور انتقام لینا کے فرائض موجود تھے۔
پختون مرد عموماً ڈھیلی قمیض اور شلوار پہنتا ہے اور ایک بڑی پگڑی باندھتا ہے۔ اپنے کندھے پر ایک چادر اور ایک رائفل رکھتا ہے۔ پختون عورتیں عموماً چھاپے ہوئے کپڑے پہنتی ہیں۔

تمام حملہ آور ایرانی، یونانی، ترکی، مغل، افغانی، سکھ اور انگریز جنہوں نے شمالی ایشا کو فتع کیا پختون کو نہ ہرا سکے۔

پہاڑی پختون جن میں یوسف زئی ، مھمند ، آفریدی ، شنواری، اورکزئ ، طوری، بنگش، خٹک ، وزیر، اورمحسود ، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ وہ نئے قوانین کو بالکل نہیں مانتے۔ پختون بڑے مغرور لوگ ہیں۔

پختون لیڈر خان ولی خان نے ایک دفعہ کہا۔ ”میں پانچ ہزار سال سے پختون ہوں اور مسلمان چودہ سو سال سے اور پاکستانی صرف چالیس سال سے“۔

دو خیال۔

’ مہمان نوازی ‘ اور مجرموں کو پناہ دینا دونوں مختلف چیزیں ہیں، ایک چیز نہیں ہیں۔ پختون کے علا قہ اورپختون کی فلاح و بہبود کے لیے ان کو علیحدہ کرنا چائیے۔

’ آزادی ‘ کا مطلب قتل، بلیک میل، فدیہ یا randsom اور نشہ نہیں ہے۔ دنیا میں ہرجگہ تعلیم پھیلائ گئ، لوگوں کی فلاح و بہبود کی گئی اوران قبیلوں کی فوجوں کو ملک کی فوجوں میں نوکری دی گئ۔ اس کی مثال سنٹرل ایشیا کے ۔ ’ باسماچیز‘ ہیں۔ جب انہو ں نے tzarist فوج سے لڑائ کی ان کو شکست ہوئ۔ یہ قیبلے پختون لوگوں کی طرح تھے۔ مگر وقت کے ساتھ بدل گیے۔
 

تفسیر

محفلین

اسلام

علمِ فقہ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔
ایک - قرآن کا قانون بنانے والا حصہ
دو - سنّت۔ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری
تین - حدیث ، روایت پر

اس کے علاوہ اجماع یامطابقت، قیاس یایکسانیت۔ سببِ یکسانیت کو دلیل میں استعمال کرنا، اجتہاد۔ تجدریجی یکسانیت ،جو چیزیں ان چاروں اصول میں شامل ہوں، اسلامی قانون کے منبعے ہیں۔

فقہ کی بنیادیں ’ منفرد اور اس کا سماجی طور‘ کے لیے عمل کے اصول رائج کرتی ہیں۔ مجموعۂ قانون سماجی اطوارکو سات حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

1۔ لازم
2۔ قابل
3۔ تعریف
4۔ جائز
5۔ ناجائز
6۔ عیب
7۔ منع

اسلامی مدرسۂ قانون کی چار شاخیں جو اس وقت سنّی اسلام میں موجود ہیں۔

شمالی اور مغربی افریقہ میں مَالَکی، توریک؟؟؟؟؟ ایشیا میں حنّفی، شَافِعی مصر ، مشرقی افریقہ، جنوبی مغربی ایشیا اور حَنبلی سعودی عرب میں۔

ان شاخوں میں کچھ مذہبی ارکان اور ان کی تعمیل میں اختلا ف رائے ہے۔ شیعوں کا شرعی قانون فقۂ جعفری یا بارہ امام ہے۔

مسلم مُلا ،اسلام کو د ینِ مقرر قرار دیتے ہیں ، یعنی اللہ تعالی نے اسلام پر مذہب کو مکمل کردیا ہے اور اب یہ اصول اور احکام ہر دور اور زمانہ کے لیے ہیں۔اس لیے اسلامی فقہ میں کوئ تبدیلی جائزنہیں ہے۔

اسلام کا عظیم اور جلیل دور جو کہ ساتویں صدی سے بارویں صدی تک تھا مسلمانوں نے اجتہاد کو اپنایا۔ بارویں صدی میں امام ابنِ تیمیہ جو کہ اسلامی متعلمِ قانون اور فلاسفر تھا اس نے نئےعلمِ برتاؤ اور سمجھ دانی کو سماج کی ضرورت سے یکسانیت دکھائ۔ لیکن دوسرے علماء نےغیرمتحرک رویہ اختیار کرلیا۔ انہوں نے اسلامی قوانین کی ترقی کو روک دیا۔ جب الغزالی ، جمال الدین الافغانی اور محمد عبدہ جیسے علماء پیدا ہوئے تو انہوں نے پھر سے اسلامی فقہ میں جان ڈال دی اور اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے مارڈن زندگی کی انفرادی اور اجتماعی تضاد کو حل کرنے کا کام شروع کیا۔

ایک حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” مذہب وہ نہیں ہے جو آپ رسموں کی طرح باقاعدہ مشق کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ اپنا تے ہیں اورایک دوسرے سے حصہ کرتے ہیں“۔
 
Top