پختون کی بیٹی - مکمل ناول

تفسیر

محفلین

سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ذکر کر رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ شخص سارا دن مسجد میں گزارتا ہے اور دوسروں کو بھی تبلیغ کرتا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔کہ یہ اپنی روزی کیسے کماتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ایک خدا پرست تاجر اس کے اخراجات ادا کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ان دونوں میں تاجر کا درجہ بڑا ہے۔

ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” اگرکوئ تمہارے درمیان کسی کو غلطی کرتا دیکھے تواس کا فرض ہے کہ ہاتھوں (یعنی عمل، خوش اطوار اصرار سے) اس کو روکے۔ اگر نہیں تو پھر زبان سے یعنی اس کے خلاف بولے۔اگر تب بھی غلطی موجود رہے تو خاموشی سے ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور اگرسامنے نہیں تو دل میں کرے۔ دل میں ناپسندیدگی کا اظہار کا درجہ واثق کی نشانی ہے“۔

ایمان کی زندگی عبادت ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود کرنے سے خدا ملتا ہے۔ اکھٹا فضیلت اور اخلاقیت قرآن میں برابری، انصاف و عدل، ا یمان داری، بھائ بندی ، رحم، ہمددری، اتحاد، خود اختیاری۔

اسلام میں بھی فرد کے حقوق اوربہبودگئ رعایا میں رشتہ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے حقوق مانگے، فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔
 

تفسیر

محفلین

اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی
1
۔ اسلا م میں چار عورتوں تک شادی جائز ہے۔ " اگر یہ خوف ہے کہ تم یتیموں ( جن کو تم نے رکھا ) کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو جو تم کو اچھی لگیں ان دو یا تین یا چارعورتوں سے شادی کرلو۔اگر تم ان کو حق نا دے سکو تو ایک سے شاہی کرو۔ "(سورۃ ا لنساء )
2 ۔ اسلام میں عورت کو ڈاوری یا مہر یا والور دینا جائز ہے۔ " اور عورتوں کو ڈاوری کا تحفہ دو۔لیکن اگر اپنی مرضی سے اسکے کچھ حصہ تم کو دیں تو تم اس کو خوشی سے لے لو۔" (سورۃ ا لنسا ء )
3 ۔ اسلام میں لڑکی اپنی پہلی ماہواری کے بعد بالغ کہلاتی ہے۔ بعض علاقوں میں لڑکیوں کی ماہواری ٩ سال سے١٢سال کی عمرمیں ہوتی ہے۔ " کچھ اور تمہاری عورتیں جو کے ماہواری سےگزر چکی ہیں۔اگر تم کو شک ہو تو تین مہینہ کا انتظارکرو۔" (سورۃ ا لنسا ئ)
4 ۔" یتیموں کوجانچوں اگر وہ شادی کی عمر کے ہیں اور تم ان کو سمجھ دار سمجھتے ہو توان کو ان کی ملکیت واپس دے دو۔" (سورۃ ا لنسا ء )
5 ۔ " اورمرد بالغ جب ہوجاتا ہے جب وہ چالیس سال کا ہوجاتاہے۔"(سورۃ الاحقاف)

اسلام اور بدلہ۔

اسلام میں اللہ کی راہ میں بدلہ لینا جائز ہے۔
 

تفسیر

محفلین
حدود ارڈیننس( جرمِ زنا)

1 ۔ یہ قانون ، جرمِ زنا سارے پاکستان پر بارہ رجب اول تیرا سو ننانوے (١٩٧٩) کو نافذ ہوتا ہے۔
2 ۔ تطریف ۔
(١)۔بالغیت: مرد ١٨ سال اور بالغ عورت ١٦ سال،
(ب)۔حدد : سننہ یا قران سے سزالیگی ہیں۔
(ت) ۔شادی: جو کہ ذاتی قانون یا نالش ذاتی سے ختم نا کی گی ہو۔
شادی شدہ۔
محسن۔
(١) ایک مسلم بالغ عورت جو کہ پاگل نہیں ہے اور اس نے یک مسلم بالغ مرد سے ہم بستری کی جو کہ اس عورت سے شادی شدہ تھا اور پاگل نہیں تھا۔
(١١)ایک مسلم بالغ مرد جو کہ پاگل نہیں ہے اور اس نے یک مسلم بالغ عورت سے ہم بستری کی جو کہ اس مرد سے شادی شدہ تھی اور پاگل نہیں تھی۔
(ث)تازیر۔ کا مطلب وہ سزائیں جو کہ ۔ قانون" حد " سے باہر ہیں۔ اور تمام شرایئط و بیان جو کی یہاں نہیں لکھی ہیں بلکل ویسی ہیں جیسی کہ پاکستان کے پینل کوڈ یا کوڈ آف کریمنل پروسیجر۔اٹھارہ سو اٹھانوے۔
3 ۔ یہ ارڈیننس کی حکم سزا اپنی جگہ پر قایئم رہیں گی باوجود کہ دوسرے قانون جو اس وقت نافذ ہوں اسے اختلاف کریں۔
4 - زنا۔ ایک مرد اور عورت جو کہ شادی شدہ نہ ہوں دونوں کی مرضی سے ہم آپس میں بستری کریں۔
 

تفسیر

محفلین

نظم و نسق
دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کوئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، منصوبہ بندی، ذرائع منظمی ، رہبری عملداری اور سپردگی کی مشق کو جماعت منتظمان کہتے ہیں۔
منصوبہ بندی مقصدوں کی شناخت، وضع ، ذرائع جو کہ مقصد کو حاصل کرنے کے ضروری ہیں۔ منصوبہ بندی کیئ قسم کی ہوتی ہے۔ تذویری,بیو,ار اور بھی بہت سی دوسری قسم کی منصوبہ بندی ہوتی ہیں
تذویری پوری ارگینایئزیسن کے لیے ہوتی ہے۔۔ مقصدکیا ہے؟ مقصد کس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔
بیوپار کی منصوبہ بندی صرف product کے لیے ہوتی ہے۔ مقصد کیا ہے؟ مقصد کس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔
ذرایئع منظمی ذرائع کو اکٹھا کرنا اور ان کا مؤثر طریقہ سے استعمال کرنا ۔
رہبری جو لوگ آپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کو مقصد کا بتانا، مقصد کو حاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کرنااور ٹریننگ دنیا۔
عملداری دو یا دو سے زیادہ لو گوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کویئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کی شناخت کے لے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقصد پر پہنچنے تجاویزکی اطلا ع دہی اور پھر ان عمل کرنا۔
عملداری یاکنٹرولینگ نظم و نسق یا سسٹم ، کام کے طریقے یا پروسس کی اطلا ع اور ان پر نگاہ رکھنا اور ٹریکینگ دینا۔
سپردگی بہت سی صورتوں میں ایک ناظم ا پنے کا کام تھوڑا حصہ ایک یا زیادہ لوگوں میں باٹتا ہے۔ان لوگوں کو ان کاموں کی تکمیل کرنے کی پوری ذمہ داری بھی دیتا ہے۔جس کی وجہ سے ان نایئبوں کو ذرائع استمعال کرنے کا ا خیتاری مل جا تا ہے۔

 

تفسیر

محفلین

پختون کی نفسیات

ایک درمیانے قد کا آدمی ، جس کی آنکھیں حساس ہیں روشنی سے اور جس کے چَھلے دار تیلی بالوں کو خوبصورتی سے کنگا کیا گیا ہے۔با لوں کو پھرایک لال پکڑے سے پگڑی کی طرح باندھا ہے۔اس نے اپنے بالوں میں ایک پھول پہنا ہے ، آنکھوں میں سرمہ لگایا ہے اور اخروٹ کی چھال سے سرخ کیے ہونٹ ہیں۔اسکے ایک ہاتھ میں ستار ہے اور کندھے پر رائفل۔اس کی آنکھیں دلیر، خطرے سے نا وافتہ ہیں اور نہیں جانتی کہ اتنی دیر تک زندہ نہیں رہیں گی کہ جان سکیں موت کیا ہے؟
یہ بہادر پختون کا بیٹا جب خطرہ سے گزر رہا ہوتا ہے ہنستا ہے اور گانا گاتا ہے۔ یہ شکیل اور قوئ جواں مرد پختون جلد ہی ایک جنگ میں مرجائے گا۔ یہ مرد صر ف محبت کرنے، ہنسنے اور لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اس کو اور کچھ نہیں سکھایا گیا ہے۔ ایک دن وہ اپنی ماں کو بتاتا ہے کہ اس کو ایک لڑکی پسند ہے۔ ماں لڑکی کے ہاتھوں حنّا لگانے اپنی بہترین لباس میں ملبوس عورتوں کو لیکر لڑکی والوں کے ہاں جاتی ہے۔
ایک دن وہ گھر سے باہر نکلتا ہے۔ اور ہنستا ہوا اپنے ہی خون اورنسل کے مرد کی گولی کا شکار ہو جاتا ہے۔اسکی بیوی کو وراثت میں ایک خوشی کا لمحہ، دو لڑکے اور زندگی بھر کا غم ملتا ہے۔وہ شوہر کی رائفل کو لٹکا دیتی ہے اور بچوں کوستار دے د یتی ہے۔
وہ اپنے آنسوں چھپانا سیکھ لیتی ہے۔ وہ بڑے بیٹے کو بہت چاھتی ہے کیوں کہ اس میں باپ سے بہت مشابہت ہے۔ اور چھوٹے کو کیوں کہ وہ اپنے با پ کی طرح مسکراتا ہے۔ جب شام میں وہ تینوں آگ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں اور بچے پوچھتے ہیں " ۔ ہمارا باپ کون تھا؟۔" وہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ایک مشہور ڈاکٹر، فلاسفر، یا عالم تھا۔دہ صرف یہ کہتی ہے ۔ " وہ ایک بہت بڑا آدمی اور ایک بہادر سپاہی تھا" اور پھر وہ انکو وہ اُس جنگ گانے سننا تی ہے جس میں انکا باپ اور اپنے تین بھائیوں اور پانچ چچازاد بھائیوں کے ساتھ مارا گیا۔
پٹھان کا دل نازک ہے لیکن وہ اس کو چھپاتا ہے۔
وہ ایک اچھا سپاہی ہے جواپنی کردار کی کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دے گا۔" شیرین مت ہو۔" " لطا فت کی ، تو لوگ تم کو ہضم کر جایئیں گے اور حد د سے زیادہ تلخی کی تو وہ اُگل دیں گے "
حفاظتِ ذات : لطافت کو میں تلخی چھپانا ہے۔ و ہ تند مزاجی، مضبوط جسم اور نرم دل کا زندہ مجموعہ ہے لیکن یہ تو ایک شاعر ی کے لے ایک رنگین موضوع ہے۔ چہرے پہ کھردراپن۔ ۔" کیونکہ وہ تمہیں اپنی نم آنکھوں نہیں دیکھنا چاھتا۔وہ تمہیں اپنا کھردراپن دیکھاے بجاے اسکے کہ تم اسکی آنکھیں بیوی کے غم میں نم دیکھو"
اسکے ماں باپ اپنی زندگی کے تجربات سے اسکو آگاہ کرتے ہیں " کبوتر کی آنکھیں پیاری ہیں لیکن فضا شاہین کے لئے بنایئ گئ ہے۔ تم اپنی آنکھوں کو چھپاؤ اور اپنے پنجوں کو بڑھاؤ۔ "
لیکن کبھی جب وہ شام میں تنہا بیٹھتا ہے تو وہ کبوتر کیطرح کو کو کرتا ہے۔وہ شادی کے بغیر محبت کو مکمل نہی سمجھتا۔لیکن اگر وہ محبت کرنے کی جرائت کرتا ہے تو یہ جانتے ہوے کے اسکا قتل عام ہوگا۔
پٹھان اپنی بیٹی کے معشوق کو گولی مار دیگا لیکن وہ عشق کی عظمت کے گانے گائے گا۔ جب وہ محبت کا ساز بجاتا ہے توآنکھیں نم ناک ہوکر خوابوں میں ڈوب جاتی ہیں۔​
 

تفسیر

محفلین

پختون کی بیٹی کا مسئلہ

اباجان نے سب کو نچلی منزل کے زمین دوز(بیس مینٹ) کمرے میں جمع ہونے کا کہا۔ یہ کمرہ ہمارا انٹرٹینمیٹ روم ہے۔ اس میں ایک سارے گھر کی سہولیات ہیں۔ پورا کیچن، ڈایئنیگ ٹیبل، مشروبات کا بار، باتھ روم، جم ،گیم ٹیبل اور کمپوٹر روم اور سیٹیلائٹ کنشن ۔
اِنٹرٹینٹ مینٹ سینٹر میں ماڈرن پراجیکشن سسٹم ہے۔ جو پلازمہ کے اسکرین پر فلم کو دیکھاتا ہے۔سکرین ساؤنڈ اس کمرہ کو تھیٹر بنادیتا ہے۔دس لوگ آرامدہ صوفوں میں بیٹھ کر فلم دیکھ سکتے ہیں۔ ہم لوگ مگر چھہ ہیں۔ اباجان، اماجان، نورا، سکینہ، سعدیہ اور میں۔
نورا نے کھانے کی میز پر پھل، ڈرائ فروٹ، مٹھایئ ، اور چائے لگا رکھی تھی۔ میں نے سب کو پانچ منٹ دیے تاکہ وہ پیلٹ اور چائے لیے لیں۔ پھر میں نے کھڑے ہوکر کہا۔​
 

تفسیر

محفلین

خواتین و حضرات ، توجہ۔

اس کو پرواز بلندی کا ہے فخر اور امتیاز
حسن لاجواب عقلمند بھی تو ہے بے حساب

نڈراتنی کہ کرتی ہے حملہ اس جابر و فْقیر پر
لگاتاہے ڈاڑھی پر اپنی جو خضاب

رنج ہے بہت اسکو بہنوں کی تباہی کا
شرمسار، جب مسلمان کرتے ہیں عمالِ خرابِ

قلم کی بڑائ یا تلوار کی تیزی تو ایک طرف
دیکھیں اسکو جب وہ دشمن سے کرتی ہے خطاب

میں سعدیہ کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ سعدیہ پہلے میں آپ کو یہ مسئلہ اور اسکا حل پیش کر یں گی اس کے بعد دس منٹ کا وقفہ اور پھرسوال اور جواب کا سیشن ہوگا۔ تب تک آپ اپنے سوالوں کو کاغذ پر لکھ لیں۔"
میری بہن، میری دوست ، میری سردارنی سعدیہ۔ "
 

تفسیر

محفلین


سعدیہ نے ایک سویچ کو آن کیا اور اسکی سلایڈ پلازمہ اسکرین پر نظر آئ۔
پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ

سعدیہ نے گہری سانس لی۔ اسکا جسم تنا ہوا تھا۔"
بھیا نے کہا تھا کہ تین گہری سانس لینا اور پھر سب کودیکھنا۔ تم ہم سب سے ہر روز باتیں کرتی ہو۔ سوچو کہ یہ دن دوسرے دِنوں کی طرح ہے۔ جب بے چینی یا گھبراہٹ ہو میر ی طرف دیکھنا "۔
سعدیہ نے دوسری گہری سانس لی اور اپنی توجہ حاضرین کی طرف کی۔ابا جان کی آنکھوں میں بیٹی پر فخر تھا۔ اماجان کی آنکھوں میں پیار تھا۔ نورا کی آنکھوں میں چاھت تھی اور بھیا، بھیا کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ صرف سکینہ کی آنکھوں میں اشتیاق تھاا ور میں فیصلہ کیا اگرمیں نے بے چینی محسوس کی تو سکینہ کی آنکھوں سے آرام اور بہلاؤ حاصل کروں گی۔
سعدیہ نے تیسری گہری سانس لی۔
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
روح القدوس نےاپنے نور سےایک روح کوجدا کیا اور اسکو خوبصورت کی صفات دی۔
اللہ تعالیٰ نے اس روح کو خوش اسلوب اور رحم دلی کی برکت دی۔
پھر اس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیااور فرمایا۔' اس پیالہ سے اسوقت تک مت پینا جب تک کہ تم ماضی اور مستقبل کو نہ بھول جاؤ۔
وقتِ حال کی خوشی کے سوا کوئ خوشی نہیں۔
' پھر اللہ تعالیٰ اس روح کوغم کا پیالہ دیا اور فرمایا ' ا گر اس پیالے سے پیو تو چند روزا خوشی اور مستقیل غم ہوگا۔
تب روح القدوس نے عورت کو ایسی محبت دی جس کو وہ دنیاوی دل جوئ کے خاطر ، وہ کھودئے گی۔ اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی۔
اللہ نے عورت کو جنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کے نہ دیکھی ہوئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھائ کی خوبی دی۔
روح القدوس نے اس کو امید کا لباس پہنایا جس کو جنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اسکو پریشانی دماغ کا جامہ پہنا یا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔
اس کے بعداللہ تعالی نے غصہ کی آگ سے جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروں کی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری ، مددتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔
اللہ تعالی نے مرد کوایسا اندھی قوت دئی جواسکو دیوانا بنادتی ہے اور وہ اس خواہش تکمیل کیلئے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہنسا اور رویا۔ اُس نے مرد کیلے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور اس نے مرد کو اپنی نمائندگی میں لے لیا۔
سعدیہ نے سانس لی۔اور بولی۔
"خلیل جبران نے اپنی مشہور کتاب ' Prophet 'میں یہ لکھاتھا۔" سعدیہ نے ہنس کر کہا۔
"مرد کوبہت ریاعت حاصل ہے" ۔
" لیکن اللہ تعالی نے ہم عورتوں کو عقل مندی، گہری سمجھ ، الفت و اچھائ اور امید بخشی ہے۔
 

تفسیر

محفلین

خواتین و حضرات،
ہم اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ سینکڑوں لڑکیوں کی زندگی ہر سال تباہ ہوتی ہے۔وہ میری تمہاری بہن ہیں ۔
سلائیڈ پر لکھا تھا۔

پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ

آپ سوال کریں گے کہ کیا مسئلہ؟
پختون کی لڑکیوں کا کیا مسئلہ؟ " سعیدہ نے سلایڈ کوآگے بڑا یا۔

1 - کم عمری میں شادی
2 - بچہ کی پیدائش کے دوران مرنا
3 - شوہر اور اس کے خاندان کیطرف سے ظلم اُٹھانا۔
یہ تو بہت بھیانک خرابی ہے۔
٭
ماں باپ لڑکی کی کم عمر کی شادی کیوں کرتے ہیں اس کئی وجہ ہیں۔ سعیدہ نے گہرا سانس لیا۔
پہلی اور سب سی اہم وجہ ۔ بالغ ہو نے کی عمر۔ اسلامی قانون میں بالغیت کا تصور۔
دوسری اہم وجہ ۔ رسم و رواج ۔ پختونولی۔ پختون کے رسم و رواج۔ تیسری اہم وجہ ۔والور۔ لڑکیاں آمدنی کا زریع بن گی ہیں۔
چوتھی اہم وجہ ۔ غریبی۔ ایک پیٹ کم بھرنے کو۔
پانچویں اہم وجہ ۔ ا سلامی قانون۔ حکومت پاکستان کاا سلامی قانون جولڑکی کوسولہ سال کی عمر میں بالغ کرتا ہے
مگراس قانون کا صحیح معنی میں نفاظ نہیں ہے۔
چھٹی اہم وجہ ۔ کلچر۔ صوبہ سرحد کی حکومت کا رسمووں کی سرپرستی۔

پیدائش کے دوران ننھی ماں کیوں مرتی ہے

کم عمری۔ ہر تیرا سال کی لڑکی دماغی اور جسمانی طور پر بچے کی پیدایئش کیلئے تیار نہیں ہوتی۔

تعلمِ صحت کی کمی۔ اسپتال کی صولتوں کی غیر دستیابی۔ ڈاکٹر اور اسپتال دور دور ہیں۔

شوہر اور اس کے خاندان کا ظلم روائت۔ شادی کے بعد شوہر کے خاندان کا برتاؤ



مرسلہ: ہفتہ مارچ 31, 2007 7:09 am







تفسیر
منتظم اعلی


شمولیت: 24 فروری 2007
خطوط: 2223
ہمارا مقصد


پختون کی لڑکیوں کی فلاح و بہبود ی :
خان اور ملک کے ہاں پلنے والی لڑکیوں میں خود اختیاری کے بیج بونا جن کی عمریں انداز اً چھ سال سے بارہ سال کی ہیں۔ انکو زریعوں اور وسئلوں سے آگائ کرانا جن سے وہ مدد حاصل کرسکیں۔
تعلیم ۔اردو، پشتو اخبار اور باہر نکلے کی آزادی۔
ذرایئع۔ خان ذادیاں اور ملک ذادی، پختون کی لڑکیوںکو تعلییم و تربیت دیں گی۔
تعلیم ۔ وہ ان بچوں کو نئے آداب زندگی سکھلایئں گی۔ اردو زبان اب بہت مقبول ہو چکی ہے اور اسکا بولنا، لکھ نا بہت ضروری ہے، اور اخبار پڑنا کا پڑھنا ہمیں ہمارے شہر، ملک اور ہمارے معاشرے سے مطلق خبریں مہیا کرتا ہے۔پشتو۔بولنا، لکھنا،اورپشتو کا اخبار پڑسکنا بھی ضروری ہے۔ پشتو زبان ہم کو اپنے کلچر سے قریب رکھتی ہے۔
انگریزی۔ الفابیٹ ،اور دو سو سے تیں سو روزا میں استعمال ہونے والے اردو، انگریزی کامن الفاظ کا جاننا ، ریڈیو اور ٹلیویزن کو سننے اور سمجھنے میں مدد کرے گا۔ آجکل اردو اور پشتو زبانیں انگریزی کامن الفا ظ استمعال کرتی ہیں۔
سو تک گنتی کا گننا، آٹھ سے دس تک پہاڑے جانا ، جمع، تفریق، ضرب، اورتقسیم میں مہارت ہونا ۔ بازار میں سامان خریدنے کی قابلیت پیدا کرتاہے۔ اور دوسروں کی محتاجی سے بچا تاہے۔

وقت تکمیل

میرے خیال میں ابتدائ نتیجہ پہلے چھ سال میں نکلے گا اور ہم پندرہ پرسنٹ لڑکیوں کی کم عمری میں مرنے کو ختم کرسکتے ہیں ۔یہ چارٹ سے یہ عیاں ہوگا

مکمل تبدیلی کا اندازاً وقت

١٥ (%) - ٥٠ (%) - ٧٥ (%) - ٩٠ (%)
٦ سال - ١٢ سال - ١٨ سال - ٢٤ سال

کامیابی ہوسکنے کی وجہ
خان زادیاں اور ملک زادیاں کو پختون کی لڑکیوں تک رسائ حاصل ہے۔ پختون کی لڑکیوں اُ ن کی پاس میں پانچ سے چھ سال تک ہوتی ہیں۔
اب ہم دس منٹ کا وقفہ لیں گے۔ اس کے بعد میں آپ سوالوں کا جواب دوں گی۔

 

تفسیر

محفلین


پختون کی بیٹی

فتح
سید تفسیر احمد


1 . بلاوا
2 . گلابوں کا شہر
3 . فیشن شو
4 . تعارف
5 . مجھ سے شادی کرلو
6. اعلان
7. سیر سپاٹا
8 . ٹرینیگ
9 . میٹر ہارن
10 . چترال
11. افغانہ
.

 

تفسیر

محفلین


ہم نے بچپن میں ایک سو (goals) کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔
میری ننھی ہمشہ چاہتی تھی کہ وہ بھی سب کچھ کرے جو میں کروں۔
اِن گولز میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔
مشکل والے گولز کی فہرست میں
'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا،
انگلیش چینل میں تیرنا،
پانچ زبانوں میں بولنا
اورکسی کی محبت میں گرفتار ہوجاناتھا۔
آسان گولوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا،
پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا،
ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دوہنا، اور گلایئڈر اڑنا ۔
میں نے پچیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلئے ہیں۔

.
 

تفسیر

محفلین


بلاوا

ہفتہ کی صُبِح بہار تھی۔ میں سمند رکی طرف کے برآمدہ میں آرامدے کرسی پر آنکھ بند کئے لیٹا تھااچانک زلزلہ سا آیا۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے ہاتھ پیر چلائے اور میری آنکھیں کھل گیں۔میں نے گرتے گرتے سعدیہ کو پکڑ نے کی کوشش کی اور ہم دونوں فرش پر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ سعدیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے ٹھوسے مار رہی تھی اور زور زور سے ہنس رہی تھی۔ میرے پاس کویئ چارہ نہیں تھاکہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوں۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔
نورا نے برآمدے میں آکر مجھے فون دے دیا۔
" جی"
"سلام۔ میں سکینہ بول رہی ہوں۔ "
" سلام ۔ اچھا میں تو سمجھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں مدہم ستار بج رہا ہے" ۔
" کیا کہا آپ نے؟" لیکن فوراً سمجھ گی کہ میں کیاکہہ رہا تھا۔ اور وہ کِھل کِھلاکرہنس پڑی جیسے ستار نے ایک راگ سننایا۔
" میں نے آپ دونوں کوPasedena کے ہوٹل رٹز کارلٹن میں ایک استقبالیہ میں بُلانے کے لے فون کیا تھا۔" ستار پھر سے بجا۔
" میں آپ کی ملاقات میرے دوستوں سے کرانا چاہتی ہوں"۔
میں نے کہا۔" کب اور کتنے بجے"۔
" آج شام کو سات بجے"۔ اُس نے ہنس کر کہا۔
" تم کو ملنے کیلئے میں تو پختونستان بھی آسکتا ہوں۔"
" جھوٹا ، ایک دن میں بلاؤں گی، دیکھوں گی کہ آتے ہو؟۔" سکینہ نے قہقہ لگایا
" ڈریس فارمل۔"
" کس بات کا استقبالیہ؟ " میں نے پوچھا۔
" صوبہ سرحدکے شادی کے لباس کا فیشن شو"
" دوستور موافق، کیا میں شلوار کرتا پہنوں؟
"سعدیہ پہن سکتی ہے۔ تم نہیں"۔
" تم سعدیہ سے خود بات کرلو۔ االلہ حافظ"۔
"اللہ حافظ۔" اس کی شیرین آواز نے کہا۔
میں نے فون سعدیہ کو دیا۔


.
 

تفسیر

محفلین


گلابوں کا شہر


1770 ء تک ُPasadenaُ شوشون قبیلہ کا ملک تھا۔ ان کے گاؤں آرریو سیکو پہاڑوں میں اوراسکی وادیوں کے کناروں پر پھیلے تھے۔ Spain نے طاقت کے بل پر مقامی انڈین کو عیسائ بنا یا اور ان سے زبردستی کی مزدوری لینے لگے۔ 1833 ء میں میکسیکو نے اسپین کو ہرا کر سان گیبریل کے مشن کو سیکولر بنادیا۔ 1852 میں کیلفورنیا ، یونا ئیٹڈ اسٹیٹس کا ممبر بن گیا۔ پیسیڈینا کی پہلی ' گلابوں کی پیریڈ 1890میں ہوئ اور گلابون کی پیریڈ ا 'ٹورنامینٹ' شروع ہوا۔ ہر سال پہلی جنوری گلابوں کی پیریڈ کا ٹورنامینٹ ہوتا ہے ۔ مشہور کالج کیل ٹیک بھی پیسیڈینا میں ہے ۔ انیس سو تیس میں جیٹ پروپلشن لیب نے ایکس پلورر راکٹ بنایا۔ جے پی ایل اورناسا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہاں پر پاتھ فاینڈرپروگرام کے لئے لینڈ رووربنایا گیا تھا جو میریخ میں کامیابی سے اترا اورگاڑی کی طرح چلا۔

میں گاڑی چلارہا تھا اور سعدیہ پسینجرتھی۔ ہم ٹوٹین فری وے سے لیک اسٹریٹ پر نکلے اورنول پارک ایوینو پر موڑے۔ سڑک کے دونوں طرف کجھور کے درخت ہیں اور محلوں کی دیواریں رنگ بھرے پھولوں سے سجی ہیں۔ ہوا میں چنبلی کی خو شبو پھلی ہے۔ پیساڈینا دولت والے امیروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ وہ امیر لوگ جن کو دولت وراثت میں ملتی ہے 'پرانی دولت' والے امیر کہلاتے ہیں، جیسے راک فیلرپرانی دولت والے امیر ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی دولت خود کمایئ ہے وہ ' نئی دو لت' والے کہلاتے ہیںجیسے مایکروسافٹ کا بل گیٹس ۔ تقریباً ایک میل کے بعداس سڑک پر رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔ ماونٹ سین گیبریل کے دامن میں23 ایکر کے خوبصور ت باغ پر ایک عظیم الشان قعلہ کی طرح کی بلڈنگ رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔


.
 

تفسیر

محفلین

فیشن شو
ہم نے ہوٹل کے پیش دہلیز پرگاڑی روکی۔ خدمتگار نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں نے اُسکو گاڑی کی چا بی دی۔میں اور سعدیہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ پختون کا فیشن شو باہرجاپانی گارڈن میں تھا۔ راستہ میں سکینہ ملی۔ ہم نے سکینہ کو ہماری فرانسی رسم کے مطابق دونوںگالوں پہ پیار کیا۔
" تم سامنے کی نشیت پر بیٹھنامیںافغانہ کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں ہم ایک ماڈل کم ہیں۔ افغانہ اسکی جگہ لے گی"۔
میں نے قہقہ لگاکر کہا۔ "اللہ تمہارا حافظ ہوننھی"۔
میں نے گارڈن کا رُخ کیا۔ لال دروا زہ پر پگوڈا کیطرح چھت تھی۔دروا زہ کے دونوں طرف پتھرکا ایک مشرقی شیربیٹھا ہے۔ یہ چھوٹی وادی داخل ہونے پرصنوبر، میپل اور پھلوں کے درختوں سے بھری ہے۔میں پگوڈا میں داخل ہوا۔ شہر کے سو معزیز حضرات جھیل کیطرف منہ کئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں پہلی قطرمیںجاکر بیٹھ گیااوراپنے برابربیٹھے ہوئے جوان لڑکے سے اپنا تعارف کرایا ۔میںاسکو میرا نام بتاتا ہوں وہ مجھے اپنا نام بتاتا ہے۔ میں نام سے پہچان جاتا ہوںکہ یہ سکینہ کا چھوٹا بھایئ ہے۔ جھیل کے پانی پر بنے ہوے اسٹیج پر سکینہ نظر آتی ہے۔
وہ مائک پر اعلان کرتی ہے۔ "خواتین و حضرات میںآپ کی خدمت میں پختون کے 'پارٹی لباس' پیش کرتی ہوں"۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری پہلی ماڈل مس مِیرا"
ایک خوبصورت اورحسین لڑکی اسٹیج پرآئی۔
" مِیرا ،گھٹنوں تک لمبی ریشم اورشیفان کی سفید قمیض پہنے ہیں آستینں کھلی ہیں۔ قمیض کا نچلا حصہ سیاہی ملا سفید رنگ ہے۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشمی کشیدہ کاری کی گی ہے۔ مِیرا ، ملتی جُلتی سفید باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں۔ ڈوپٹہ پرنٹڈ شیفان کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔"

مِیرا، سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اوررآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی، پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری دوسری ماڈل مس عِفَت"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
عِفَت ، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہویئ ریشم کی گلابی قمیض پہنے ہیں۔ انکی ہرے رنگ کی پتلی شلوار کے پائنچوں اور سامنے کی طرف کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ گلابی رنگ کا ہے جس کا پَلّو ہرے رنگ کا ہے۔
عِفَت سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور میرا ، کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے پھر تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری تیسری ماڈل مس عمان"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"عمان ریشم اور شیفان کی فیروزی اوراعودے رنگ کی دوہری قمیض پہنے ہیں جس کے گلے اور دامن پر ہاتھ سے کشیدا کاری کی گی ہے۔ شلوارکریپ سِلک ٹایئ اینڈ ڈائ۔ ڈوپٹہ شیفان ڈائ اینڈ ڈائ"
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے ایک دفعہ اور تالیاں بجائیں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری چوتھی ماڈل مس آمینہ"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"آمینہ کھلے آستینوں کی گھٹنوں تک ریشمی شیفان کی لمبی نیلی قمیض پہنے ہیں۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشم میںکشیدہ کاری کی گی ہے۔ ملتی جُلتی نیلی باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں ۔باریک ڈوپٹہ پرنٹڈ ریشمی شیفان ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے۔"
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری مہمان ماڈل مس افغانہ"۔
افغانہ اسٹیج پرآئ۔
شان نے کہا۔" سبحان االلہ ۔ یہ تو سب سے پیاری لڑکی ہے۔ جیسے چاند نکل آیا" ۔
میں نے کہا ۔"اسٹیج پر سب سے پیاری تو اناؤنسر ہے۔"
شان نے غصہ سے کہا۔ "مسٹر، وہ میری بہن ہے" ۔
میں نے کہا۔" تو تعریف کرنا کوئ برائ بات تو نہیں۔تم نے میری بہن کو بھی تو پیاری لڑکی کہا۔"
"افغانہ تمہاری بہن ہے۔" شان نے حیرت سے کہا اور پھر چپ ہوگیا۔
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ ، ریشم، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہوی کالی قمیض پہنے ہیں۔ کالی رنگ کی پتلی شلوارکے پائنچوں پر ریشم کی کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ بھی کا لے رنگ کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اورگھونگرو پرنٹڈ ہیں"۔
افغانہ سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے خوب تالیاں بجایئں۔
"خواتین و حضرات میں اب ہم پندرہ منٹ کا وقفہ لیں گے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل یا شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرئیں گے"۔
اس وقفہ میں کچھ ویٹرس تھالوں میں چپلی کباب اور نان اور دوسرے روح افزا کا شربت لےکر گھوم رہے تھے۔ کچھ تھالوں میں گلاب جامن، جلیبی اور قلاقند تھے۔
میں نے ایک رکابی میں نان رکھااور اس پر چپلی کباب پھر کرسی پر بیٹھ کر مزے سے کھایا۔
وقفہ میں سعدیہ میرے پاس آئ ۔ میں نے اسکا شان سے تعارف کرایا۔ اس لڑکے کا نام شان ہے۔اس نے کہا کہ تم اسٹیج پر سب سے پیاری لڑکی ہواور یہ تم سے پسند کرتا ہے۔" شان کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ میں نے کہا تم دونوں باتیں کرو میں میٹھا کھانے جاتا ہوں۔

٭ ٭٭

"خواتین و حضرات میں ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل اور شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرتے ہیں"۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس مِیرا "۔
مِیرا اسٹیج پر آئ۔
" میرا نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا فیروزی لینگا اور گلابی چولی پہنی ہے۔ دونوںکاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںریشم کا کام ہے"۔
مِیرا سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس عِفَت"۔
عِفَت اسٹیج پر آئ۔
" عِفَت نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا ہرا لینگا اور اعودہ چولی پہنی ہیں۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر داباکا، ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے ۔ عِفَت بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوں میں کنگن اورپیروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میںمندی کا کام ہے " ۔
عِفَت سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے میر ا کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس عمان"۔
عمان اسٹیج پر آئ۔
"عمان نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا نارنگی لینگا اورپیلی چولی پہنی ہے۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیدا کاری ہے ۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں ریشم کا کام ہے ۔عمان کے بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مندی کا کام ہے اور عمان نے چنبیلی کا عطر لگایا ہے "
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس آمینہ"۔
آمینہ اسٹیج پر آئ۔
آمینہ، نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا چاندی کے رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوںخالص ریشم کی ہاتھ سے بناے گے ہیں ان پر ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص چاندی کا کام ہے۔آمینہ کے بالوں میںچاندی کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کا نوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور آمینہ نے بھی چنبیلی کا عطر لگایا ہے " ۔
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ اور رآہستہ سے مکمل دو دفعہ گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ ہماری مہمان مس افغانہ۔
افغانہ اسٹیج پر آئ۔
شان نے کہا۔" سبحان اللہ ۔ امیں آپ کی بہن سے شادی کروں گا۔ کیا آپ کی اجازت ہوگی" ۔
میں نے ہنس کر کہا ۔" پہلے اُسکا دل جیتو۔ پھراُس سے ہی اجازت لو۔ "
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا لال رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوں خالص ریشم کے ہاتھ سے بناے گے ہیںان پر ڈائمنڈ اور خالص سونے کا کام ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص سونے کا کام ہے ۔افغانہ کے بالوں میں سونے کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور افغانہ نے گلاب کا عطر لگایا ہے " ۔
افغانہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اور آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے زیادہ دیر تک تالیاں بجایئں۔

.
 

تفسیر

محفلین


تعارف

.
سکینہ نے کہا ۔ " اُپ اور سعدیہ اپنی گاڑی میں ہماری گاڑی کا پیچھا کریں۔ ہماری رہایش یہاں سے صرف پانچ منٹ ہے " ۔

کچھ منٹ بعد ہم سان مارینو کے علاقہ میں ایک حویلی میں داخل ہو رہے تھے۔ سکینہ نے مین گیٹ پر بٹن دبایا اور انٹرکام پر گارڈ سے بات کی۔ دروازہ کھلا اور ہماری دونوں کاریں حویلی میں داخل ہو گئیں ۔ مین گیٹ خود بہ خود بند ہو گیا۔ ہم نے سکینہ کی کار کا پورچ تک پیچھا کیا اور وہاں گاڑی روک دی۔ گاڑی سے نکل کر ہم مکان میں داخل ہوئے۔ اسٹیڈی سے گزرکر ہم ایک کو رڈو ر میں آکر بائیں ہاتھ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔کمرے میں میری عمر کے سات لوگ میز کے دونوں طرف بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر سب خاموش ہوگے۔ سکینہ میز کے شروع میں بیٹھی اور مجھے اپنے سیدھے ہاتھ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ادر سعدیہ کو الٹے ہاتھ پر بیٹھنے کو کہا۔ ہم ایک نیا پروگرام شروع کررہے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کو پروگرام کے لےے چنا ہے۔ سکینہ نے یہ کہہ کر سعدیہ کی طرف سے لوگوں کا تعارف شروع کیا۔

افغانہ جب تک شان امریکہ میں ہے افغانہ اسکے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیے گی۔
شان ، شان کوہا ٹ میں فلیڈورک کرتا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی مدد کرتا ہے جو شوہر اور خاندان کے ظلم کا شکار ہیں۔ کام بہت خطرناک ہے اس لے شان کا کام انڈر کور ہے۔
انور بوسٹن میں رہتے ہیں اور یہ نیٹ ورک انجینر ہیں۔ ان کی ہی مدد سے میں آپ لوگوں سے باتیں کرتی ہوں۔

اِرم نیویارک سے ہیں۔ انکی تعلیم انفارمیشن ٹیکنا لوجی میںہے۔ ارم ویب ماسٹر ہیں۔

نسیمہ میڈیکل اسٹوڈینٹ ہیںاور لاس انجیلس میں ہمارے پروگرام کے لئے فنڈ حاصل کرتی ہیں۔

سونیہ شکاگو سے ہیں ۔ یہ قانون کی طالبہ ہیں اور یہ' تبادلہ خیال کی نگراں ہوگی۔
اکرم برکلے یونیورسٹی میں صوبہ سرحد کی تاریخ پر' پی ایچ ڈی' کررہے ہیں۔

جمیل کولمبیا یونیورسٹی کے ٹیچر ٹرینیگ کالج کے اسٹودنٹ ہیں۔

نیدو صوبہ سرحد کی اسمبلی کی ممبر ہیں۔

یہ سب احباب پختون ہیں۔

سکینہ نے مائک میری طرف بڑھایا۔ میں نے میرے سامعین کی طرف دیکھا تمام جوان، قابل اور پڑھے لکھے احباب۔ان کو کیسے بتایا جائے کہ میرا طریقہ بہتر ہے اور اسکا نتیجہ کامیابی ہوگا؟۔ میں کیوں نا ان ہی سے کہلوادوں کہ یہ طریقہ مناسب ہے۔
میں نے سوال کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟"

طالب علم کو ایک مخصوص تربیت کے لئے تیار کرنا۔ " جمیل نے سرسری طور سے کہا۔

انور، ارم اور نسیمہ نے جمیل سے اتفاق کیا۔

اکرم نے کہا۔ " یہ صرف ایک تعریف ہے۔ طالب علم اسلے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاح کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے" ۔

سونیہ نے کہا ۔ " تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا ہے"۔

نیدو نے کہا ۔" تعلیم برین واشنگ کے لئے دہی جاتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کے عقائد بدلے جایئں"۔

میں نے کہا۔ "آپ لوگ کی تعریف صحیح ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے کے فائدے اور نقصان بتاتی ہیں ۔ خاصیت نہیں۔ جب ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں عقل و دماغ پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟"

شان بولا۔" ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے"

سعدیہ بولی۔" اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں"۔

جمیل نے قہقہ لگا کر کہا۔" خصوص تربیت برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔

سونیہ نے قہقہ لگا کر کہا۔"علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔

اکرم نے قہقہ لگا کر کہا۔" ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاع کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے بر ابر سوچ میں اصا فہ اور خیالات کا تجزیہ"

نیدو نے قہقہ لگا کر کہا۔ " برین واشنگ عقاید بدلنابرابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"

میں نے کہا۔ " دوسرے الفاظ میں یہ تعریف ' علم سے ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں' تمام دوسری تعریفوں کا مجموعہ ہے"۔

"ہمارا خیال ہے کہ اگر ہمارے ویب سائٹ ان تمام تعریفوں کا مجموعہ ہو تو ہم بہت جلد اس اور اسطرح کے غیر اسلامی اور نقصان دہ عقاید کو موجودہ دور کے انسانیت سے مطالق عقایئد میں تبدیل کرسکتے ہیں"۔

سکینہ نے کہا۔ "ہمارا پہلا مقصد ان لڑکیوں کو علم کے وہ اوزار دےنا ہے جو زبان، آداب اور تاریخ کہلاتے ہیں"۔

انور نے کہا۔" زبان سے آپ کا مطلب ا، ب، پ۔ ہم چھوٹے تھے۔ اماں مارتی تھیں ۔ہم روتے تھے یا ذیادتی کے خلاف جہاد "

انور کی بات پر سب ہنس پڑے۔

"پاکستان میں اردو بولی جاتی ہے۔ دفتروں اورعدالتوں میں انگریزی لکھی جاتی ہے ۔ پختونستان میں پشتو بولی جاتی ہے۔ اب دنیا میں اسی بھی کروڑں پاکستاں کی لڑکیاں ہیں جو اردو بولتی ہیں لیکن پڑ ھ نہیں سکھتیں۔ وہ رومن اردو ایٹرنیٹ میں استمال کرتی ہیں" سکینہ نے جواب دیا۔

"ہم پختون کی لڑکیوں کو آسانی والا اردو اور پشتوکا اخبار پڑھنا سیکھانا چاھتے ہیں۔ ہم انکو اردو کو رومن اسکریپٹ میں لکھنا سیکھا نا چاہتے ہیں۔ ہم انکو انگریزی کے وہ الفاظ سیکھا نا چاھتے ہیں جو پاکستان میں روز مرہ اخبار، ریڈ یواور ٹیلیویزن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ان کے علم کو حاصل کرنے کی وجہ ہونگے۔یہ چھ سال کا نصاب ہے۔اس کو جمیل خصوص تربیت کہتے ہیں ۔سکینہ نے زبان کی اہمیت بیان کی۔

"اور آداب!" ، سوینہ نے پوچھا۔

" ہاں آداب۔" سکینہ نے مسکرا کر کہا۔ " جس کو میں اچھی دھلائ کہتی ہوںدو الفاظ میں برین واشینگ۔ پختون والی کے کچھ آداب موجودہ زمانے میں معاشرہ کی بھلائ کے بجاے برائی کا سبب ہیں۔ اسلام کے کچھ آداب میں موجودہ زمانے سے اختلاف ہے۔ ہمیں ان لڑکیوں کو اجتہا سیکھانا ہے۔ ہم ان کا بدل سکھائیں گے۔ ان کو ملک کے مطالق اچھی باتیں بتائیں گے۔اور ملک کی تاریخ کی اچھی مثالوں سے روشناس کریں گے "۔ سکینہ نے کہا۔

" تاریخ! " نسیمہ نے پوچھا۔

" اکرم نے بلکل صحیح کہا کہ ماضی کو جانے بغیر نہ تو حال کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقبل کی پہچان۔ ہم ان کو آسان لفظوں میں سکھا نا چاہتے ہیں کے وہ کون تھے اور ا ب وہ کیا ہیں"۔

ارم نے سوال کیا۔ " ہم کسطرح سے خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے؟"

سیکینہ نے کہا "

ایک ، ہم میں سے جو بھی کسی خانذادی اور ملک ذادی کو جانتا ہے وہ اسکو ممبر بنانے کی کوشش کرے گا۔

دو۔ ویب سا ئیٹ پر تبادلہ خیال اور نظم و نثر کے دو سیکشن جوا ن خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کی کشش کے لئے ہیں۔ اس کو بھی استمعال کیا جاسکتا ہے۔
تین ۔ جب ایک خاندان میں ایک خان ذادی اس کام کے لئے تیار ہو گی تو وہ ا پنے خاندان میں اور دوسری لڑکیوں کو بھی راضی کرسکتی ہے"۔

چار۔ صوبہ سرحدمیں بارہ مشہور قبیلے ہیں۔ اور تقریاً اتنی ہی اُنکی شاخیں ہیں۔
" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اس پروگرم میںکیوں شامل ہوں گی؟ "

نیدو بولی ۔" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود چاہتی ہیں۔ وہ اس مصلہ سے بھی واقف ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ اگر پختوں کی عورت کو زمانے کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو تمام پختون کی عورتوں کو اس میں حصہ لینا ہوگا "۔

نسیمہ نے سوال کیا۔ " کیا اس پروگرام میں حصہ لینا خان ذدایوں اورملک ذادیوں کےلئے خطرناک ہے" ۔

" نہیں۔ کیونکہ ظاہری طور پر فوراً کوئ تبدیلی نہیں ہوگی جو کہ سرپرستوں کو خبردار کرے۔ خان ذادیاں اور ملک ذادیاں ان بچیوں کو اب بھی اپنی بہنوں کیطرح رکھتی ہیں۔" سکینہ بولی۔

جمیل نے مسکرا کر کہا۔ " یہ نہ صرف ایک عمدہ بلکہ نیک نیت کام ہے۔میں تیار ہوں "۔

ارم، نسیمہ اور سونیہ نے اپنے سر اثابت سے ہلائے
۔
"کسی بھی کام کو کرنے کے روپیہ پیسہ کی ضررورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے فنڈ ایڈورٹائزمینٹ سے حاصل کریں گے۔ ویب سایٹ پر این جی او اور ہمارے مقصد سے ملتی جلتی دوسری آرگینایئزیشن کیpaid ایڈورٹائزمینٹ کی جاسکتی ہے۔ "سکینہ نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ۔

.​
 

تفسیر

محفلین

مجھ سے شادی کر لو

سمندرکا پانی واپس جا چکا تھااورگیلی ریت پر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ سورج نے افق پر نارنجی کا رنگ اختیارکرلیا تھا۔ سعدیہ نے ایک سفید لمبا ڈریس پہنا ہوا تھا۔ اس کے لمبے کھلے بال ہوا سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ اُسے سمندر سے بہت محبت تھی۔ اس کو یہ معلوم تھا اُس جگہ جہاں سمندر کا کھارا پانی ریت سے ملتا ہے دنیا کے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بھیا نے کتنی دفعہ کہاتھا، سعدیہ اگر تم آپنے ذہن کو خاموش کرلو تو تم ہر چیز کی آواز کو سن سکتی ہو۔
" شان اور وہ آج یہا ں کیوں کھانا کھایئں گے؟ " وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر دل نے کہا انتظار کرو۔ حالانکہ اسکو اندازہ تھا کہ شان کا سوال کیا ہوگا؟۔
یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بیورلی ڈرایؤ پر رُک کر 'گنگاجن' رسٹورانٹ سے پِکنِک کی باسکٹ بنوالی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور کھاناشروع کیا۔ آلو بھرے سموسے، پاپڑ ، کباب کی پلیٹ جس میں سیخ کباب، تنگری کباب، چکن تکہ اور تندوری چکن تھا، گارلک نان اور قلاقند ۔ کھا نا بڑا مزے دار تھا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور چائے پی۔
سعدیہ سوچ میں غرق تھی کہ شان مجھے یہاں کیوں لایا ہے۔ اور شان اس سوچ میں تھا کہ سعدیہ میرے سوال کا کیا جواب دے گی؟ سوچ میں گم دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا۔
“شان“
“سعدیہ“
دونوں نے ایک دوسرے کا نام ایک ساتھ لیا۔
شان نے کہا۔" لیڈیز فرسٹ۔۔"
سعدیہ نے کہا " جناب پہلے آپ "
شان نے سعدیہ کو دونوں ہاتھ تھام کے اسکو کھڑا کیا۔سعدیہ کا چہرہ سمندر کیطرف تھا۔سورج آدھا غروب ہوچکا تھا اور سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سعدیہ کادل ، ریل کے اِنجن کیطرح دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ دل دھیرے چلے مگر دل نے اورذیادہ ڈھڑکنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی پوری توجہ دل سے ہٹا کر شان کیطرف کی۔
شان نے اپنا سیدھا گھٹنا ریت میں رکھ دیا اور سعدیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کہا۔ " تم سمند رکی جل پری ہو، میں پہاڑوں کا باغی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس ساحل سمندر سے محبت کرتی ہو۔اسلے میں یہ سوال تم سے کرنے یہاں لایا ہوں۔ میری محبت تمہارے لئے اس سمندر کی طرح گہری ہے اورمیری محبت اس سمندرکی طرح وسیع ہے۔ میں تم سے جدا نہیں رہ سکتا۔ میں تمہارا ہاتھ ہمشہ کیلے چاہتا ہوں ۔ سعدیہ تم اور میں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہوجائیں۔ مجھ سے شادی کر لو۔
سعدیہ نے تو صرف یہ سننا ۔"سمندر، جل پری، میں باغی، ساحل، محبت ، جدانہیں، ہاتھ، شادی" اور اس نے چلا کر کہا۔
" ہاں، میں، تم سے شادی کروں گی۔میں تمہاری بن جاوں گی۔تم میرے ہو جاوگے"۔
سعدیہ کا دل اب نارمل اسپیڈ سے چل رہا تھا۔
شان نے کھڑے ہو کر سعدیہ کوگلے سے لگا کر اس کے لبوں پر پیارکیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیارکرنے لگے۔

.
 

تفسیر

محفلین

اعلان

میں اگست میں گریجویٹ ہوگیا۔اباجان اور اماجان سے دنیا دیکھنے کے بارے میں کافی عرصہ سے بات چیت کررہا تھا ۔ پارٹ ٹایئم نوکری کی تنخواہ بھی اسی لئے جمع کررہا تھا۔ اباجان اور اماجان نے کہا تھاکہ وہ بھی اس میں مدد کریں گے۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں نے بچپن میں، سو 'goals' کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔اِن گول میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والوں گولوں کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میںگرفتار ہوجاناتھا۔ آسان والوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دونا، گلایئڈر میں اڑنا تھا۔ میں نے بیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلیئے ہیں۔

جب میں نے اعلان کیا کہ میں چلا۔کوئ بھی شخص میرے اس فیصلہ خوش نہیں تھا۔ اباجان اور اماجان کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن ان کے خیال میں یہ وقت سفر کے لے صحیح نہیں تھا۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں گرریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن وہ مجھے اپنی ساتھ پختونستان لئے جانا چاہتی تھی۔ سکینہ اُداس تھی۔ اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں اسکے گروپ کا حصہ بن جاؤں گا اور ہم دونوں کا مستقبل ساتھ ہوگا۔ میں سب کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ یہ صرف چار سال کی بات ہے۔ زندگی بھر نہیں۔ میں پچیس سال کا صرف ایک دفعہ ہونگا۔ میں اپنے گول مکمل کرنا چاھتا ہوں اس کے بعد میں آپ لوگوں کو کوہاٹ میں جوائین کرلوں گا۔
٭٭٭
سین وان ماؤنٹین کی قدموں میں ، اوراس کے شمال میں اور کولوراڈو پٹھار ریگستان کے مغرب میں "ر یج وے"ہے۔ میں جیمس ماونٹنیرینگ کے آفس پہنچا۔ کاونٹر پر ایک پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔اس کے گال سرخ سیب کی طرح تھے۔
"ہیلو۔" میں نے اسکے نیم ٹیگ پر نگاہ دوڑایئ۔ " جیسمین "
"ہای۔ میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟ " گال سرخ سیب نے کہا۔
میں نے دل میں کہا میرے ساتھ ڈنرپر چلو آج شام۔ مگر زبان نے کہا۔
“ میں جیمس انڈرسن سے ملنا چاھتا ہوں۔"
اس نے حیرت سے مجھ کو دیکھا۔ "کیا آپ کے پاس اپائنٹ منٹ ہے؟"
" نہیں"۔ میں نے کھسیا کے کہا۔
" کیا میں آپ سے پوچھتی سکتی ہوں کے آپ کو مسٹر جیمس انڈرسن سے کیا کام ہے؟"
میں ماونٹ ایورسٹ کو چڑھنا چاھتا ہوں۔ اس سے پہلے میںalps سویزر لینڈ میں ٹرنینگ چاھتا ہوں۔ اور اس سے پہلے میں ایروبیک اور جسمانی ٹرنینگ چاہتا ہوں"۔
وہ زور سے ہنسی اور اسکے لب گلاب کی پنکڑی کیطرح علحیدہ ہوگے"۔ میں یہاں تین ماہ سے کام کررہی ہوں مگر میں نے جیمس انڈرسن کو صر ف ایک بار دیکھا ہے۔ انکے کلائینٹ تو پہلے سے ہی کامیاب climber ہیں اور صرف مشورہ کے لے آتے ہیں۔ویسے تو ہم سب سرٹیفایئڈ ہیں " ۔
" تب تو میں جیسمین سے ٹرنینگ لوں گا "۔
وہ دوبارہ زور سے ہنسی۔ " تم کہاں پر ٹہرے ہو؟ "
" فی الحال تو کہیں نہیں۔ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں "۔
"میرا اپارٹمیٹ دو کمرے کا ہے اور میر ے اکیلے کے لیے منہگا ہے۔ چاہو توکرایہ کا آدھا آدھا حصہ کرلیں "۔
" تم تو فرشتہ ہو !" میں نے ہنس کر کہا۔
"میں آدھ گھنٹے میں یہاں سے فارغ ہوں گی۔ تب میں تم کو اپنی گاڑی میں لے چلوں گی"۔

.​
 

تفسیر

محفلین


سیر سپاٹا

پیارے بھیا۔

میں خیریت سے کو ہاٹ پہنچ گی ہوں۔ شان اور میں لاس انجلس سے پندرہ جولایئ کو آٹھ بجے نکلے ۔ لاس انجلیس سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ لندن کا وقت آٹھ گھنٹے آگے ہے۔اسلئے لند ن میں بارہ بجے رات کو پہنچے۔ ہم نے لندن میں دو دن قیام کیا اور شہر کی مشہور جگاہیں دیکھیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ددنوں دن موسم خوشگوار تھا۔ ورنہ اس مہینہ میں عموماً بارش، اور حبس ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اسلے ہم نے نارمن ٹوورس کو گھومنے کے لے بلایا۔ٹور سات گھنٹے کا تھا۔ ہم نے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ایبی، بِگ بین، ہاوس آف پارلیمینٹ، پیکاڈلی سرکس، ٹرافالگر اسکوائر ، نمبر ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ اور کنسنگٹن پیلس کی سیر کی۔

دوسر ے دن ہم نے لندن انڈر گراونڈسب وے لیکر ناٹینگ ہم ہلز گے ۔ اس علاقے میں بہت پاکستانیوں اور انڈین ہیں۔ ہم بازاروں میں گھومے ۔ ٹھیلے والوں سے دہی بڑے، چاٹ خرید کرکھایئ او رگول گپوں کا پانی پیا۔ اسکے بعد قلفی کھایئ۔ شام میں ہم نے افغان کچن میں چکن پلاؤ، کباب اور نان کھائے۔ یہ چیزوں کو کھانے میں بہت مزا آیا اور بھیا میں نے شان سے مرچوں کی بھی شکایت نہیں کی ساری رات پیٹ سے آوازیں آتی رہیںاور پیٹ میں درد بھی ہوا۔

لندن سے دوبیئ ہوتے ہوئے ہم کراچی اترے۔کراچی لاس انجلس کی طرح ایک بڑا شہر ہے۔ مگر گرمی اور حبس نے میرا بُرا حال کردیا۔ اور ہم نے پشاور کی ایر کیڈیشن ٹرین کراچی کے سنڑل اسٹیشن پکڑی۔ پشاور میں سکینہ اور نیدو لینے آیئں۔

میں اباجان اور اماجان سے آپ کے بارے میں ہر دوسرے دن سنتی ہوں مگربھیا میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ دن میں تو میں بہادر بنتی ہوںلیکن شام سے آپکی یاد آتی ہے۔ اور میں تکیہ میں منہ چھپا کر روتی ہوں۔ آپ مجھ سے ملنے کے لیے کب آئیں گے؟۔

آپکی ننھی۔ سعدیہ

.
 

تفسیر

محفلین

ٹرینینگ

" چلو، اُٹھو"۔
"کیا ہے؟ سونے دو"۔
" فِٹ نیس سینٹر جانا ہے"۔
" چلی جاؤ"
" اب اُٹھ بھی جاؤ۔ مجھ سات بجے دو سرے کلائیٹ کو ٹرین کرنا ہے"۔
" اس ہفتہ کا اسکیجول ۔ ویٹس۔ ایروبِکس۔ ایروبِکس ۔ریسٹ ۔ ویٹس اورایروبِکس۔ رن یا جاگینگ(آہستہ بھاگنا)۔ لمبے ایروبکس "
" میں نے پہاڑ پر چڑھنا سیکھنا ہے۔ویٹ لفٹر نہیں بننا"
"تم پہاڑ پر بھی چڑھنا سیکو گے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہو"۔
" پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ویٹس، ایروبِکس اور صحیح طریقے سے سانس لینا بہت ضروری ہے"۔
" اورھیڈ پریس، لیٹ ریز ، اسٹیندینگ رو، بیک ارچ، ریورس فلایئ، لیٹ پُل ڈاون، سیٹیڈ رو، بیک ارچ اوراَرم کرل ۔ ہر اکسرسایئس کا ایک سیٹ پہلے تین ہفتہ۔ اس کے بعد دو سیٹ"۔
" میں یہ سب کچھ نہیں سن رہا" ۔
" ایروبِکس کے لے تیس منٹ تک چلو یا بھاگو۔ اور اس کو بڑھا کر ایک گھنٹہ تک لے جاؤ ۔ اور یہاں تک کہ تم ایک گھنٹے تک تیس پاونڈ کا وزن لیکر چل سکو"۔
" آرام کے دن بہت پانی پئیو۔ کچھ اسٹریچنگ کرو ور مالش کرواؤ"۔
" چلو میں تم سے جیم تک دوڑ لگتی ہوں۔ اگر میں جیتی تو تم کو میرے لئے ناشتہ خریدنا ہوگا" ۔
.​
 

تفسیر

محفلین

میٹر ہارن

زرمٹ سویزرلینڈ کا شمار دنیا کے مشہور پہاڑی گاوں میں ہوتا ہے۔ زرمٹ چار طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک وادی میںواقع ہے۔ جسے ہی آپ لال سویز ٹرین سے اترتے ہیں۔ زرمٹ میں کار کے بجائے بغیرپییوں کی گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑکیں پتھر کی ہیں۔زرمٹ ٢٩ پہاڑوں میں تیراہزار فٹ سے اونچے پہاڑوں کا گھر ہے۔ یورپ کی دس میں سے نو بلند چوٹیاں زرمٹ کے اردگرد ہیں۔٩ اسنو اکی لفٹ اوران میں سے ایک لفٹ بارہ ہزار آٹھ سو تیئس فٹ کی بلندی تک جاتی ہے۔ ایک ہفتہ سے اس اونچا یئ اور آب و ہوا سے جسم اور ذہن کو عادی کرنے کیے لیئے ہم زرمٹ میں سے تھے اور پہلے تین دن ہرروز چا ر گھنٹے چہل قدمی کی۔

چڑھائی کا پہلا دن ۔ کیوںکہ میرا ایک سال سے کم کا ماونٹین پر چڑہنے کا تجربہ تھا۔ لیڈر نے ہارن لیریج راؤٹ چنا اس راستہ پر مشکل حصوں میں مستقیل رسّیاں موجود ہیں۔ ہم گروپ سے زرمٹ میں ملے اور فلو الپ ہٹ تک پیدل چلے۔ فلو الپ سے اونچایئ کے پہلے ماونٹین ہٹ تک کیبل کار میں سفر کیا۔ چڑھنے کے لے پہلا بیس اسٹیشن آٹھ ہزار ساتھ سو ننوے فٹ پر رِمپیش ھارن ہے۔ رِمپیش ہارن کی چوٹی تیرا ہزار سات سو تیہتر فٹ اونچی ہے۔ جیسمین نے کہا کے اس ہٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔اور واقعی وہ صحیح تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔

دوسرا دن ۔ رِمپیش ہارن ۔سورج نکلنے سے پہلے ہم سب اپنے چڑھایئ کے گیئر پہن چکے تھے۔ ہم نے گلیشیر پر چڑھنا شروع کیا۔گلیشیر کے بعد بغیر برف والا حصہ تہہ کیا۔ یہاں سے اوپردیکھو تو میڑہارن بڑا خوبصورت نظر آتا ہے۔ اور ماونٹ روزا ماسیف، زرمٹ کا گاوںاور ساسفی بھی دِکھتا ہے۔ شام کو ہم زرمٹ واپس آگئے۔

تیسرا دن۔ رِفّل ہارن کی اونچایئ نو ہزار چھ سو فٹ ہے ۔یہ اگرچہ زیادہ بلندی پر نہیں ہے لیکن یہاں ہم اپنے اپ کو میٹر ہارن کی چڑھایئ کیلے تیاری کرتے ہیں۔اس چھوٹی پہاڑی پر ہم مختلف چڑھا یؤں کی مشق کرتے ہیں۔میڑہارن یہاں سے اور بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔

چوتھا دن۔ ہارنلی ہٹ ۔ ہم کیبل کار کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں اور پھر کیبل ا سٹیشن سے دو گھنٹے چلنے کے بعد ہارنلی ہٹ پہنچتے ہیں۔ یہ دس ہزار چھ سو تیرانوے فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہٹ دو بلڈنگ ہیں ، ایک لال اور دوسری سفید۔ لال بلڈنگ کے سامنے سویزر فلیگ لہرارہا ہے۔ سہ پہر میں ہم ہارنلی پرمشق کرتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صبح ہم اندھرے میں یہاں سے گزریں گے۔ہم کھانے کی درمیان میٹرہارن پر چڑھنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیںاور صبح جلد اٹھنے کے کیلے سوجاتے ہیں۔

پانچواں دن ۔میٹرہارن کی چڑھائ۔ہم سورج کے نکلنے سے پہلے نا شتہ کرتے ہیں۔ ہم چھوٹی رسیوں کی مدد سے ٹیلوں پر چڑھایئ کرتے ہیں۔ ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم میٹرہارن چودہ ہزار چھ سوچورانوے فٹ کی چوٹی پر پہنچ جاتے یہاں میٹرہارن پر سویز۔اٹالین سرحد ملتی ہے۔ یہ دن بہت اچھا ہے ۔ سب اس اونچایئ سے چاروں طرف کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہارنلی ھٹ تک واپسی میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد کیبل کار کے اسٹیشن کو چلتے ہیں۔کیبل کار میں ایک مختصر سفر کے بعد ہم زرمٹ میں ہیں۔

.
 
Top