مجھے آپ کا یورپ کا سفر اور میٹرہارن کی چڑھائ کا پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ کو یاد ہے جب آپ نے سو' گول' پچیس سال کی عمر سے پہلے ۔'کرنے ' کے لے بنائے تھے! میں نے صرف ایک ہی گول بنایا تھا "ایسا اچھا کام کروں کہ سارا جہاں سعدیہ کو جان جائے گا "۔ اور میں نے کہا تھا کہ باقی گول میں بھی آپ کے ساتھ ہونگی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گی۔ میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ میں سوچتی ہوں، کیا جسمین آپ کی اسطرح سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ جیسے میں کرتی؟
میں پچھلے چھ ماہ سے 'افغانہ' ویب سایئٹ کے انگلش اور اردو رومن سیکشن پر کام کررہی ہوںاور کوہاٹ یونیورسٹی میںپشتو سیکھ رہی ہوں۔ بازار میں سب لوگ مجھے پختون سمجھتے ہیں۔ نسیمہ نے مجھے تربیت دے کر کہا کہ وہ اب صرف پشتو اور اردو کی ویب سایئٹ کو سنھبالے گی۔ بھیا اب میں بلکل اکیلی انگلش اور اردو رومن سیکشن کو سنھبالتی ہوں۔ تم دیکھنا۔ تم آپنی ساد پر فخر کرو گے!
لیکن اب مجھے بیچنی رہتی ہے۔ مجھے شان کو دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ فلیڈ میں ہوتا ہے اور دنوں تک اس سے بات نہیں ہو پاتی۔ اسکے کام میں بہت خطرہ ہے اور مجھے ہمشہ اس کی فکر رہتی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کام کرنا چا ہتی ہوں تا کہ میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔
ہمارے خانذادیوں کے نیٹ ورک میں اب تمام صوبہ سرحد کے ضلعوں میں کم ازکم ایک خان ذادی خفیہ ممبر ہے۔ کئی ضلعوں میں، مثلاً کوہاٹ میں تو ہر تحصیل سے ایک یا دو خانذادیاں ممبر ہیں۔
پچھلے مہنیہ ہمیں ایک مخبر سے پتہ چلا کہ چترال میں ' خا و' خاندان میں ایک بارہ سالہ لڑکی کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے اور اس نے ہماری خفیہ خان ذادی سے مدد مانگی ہے۔ بھایئ یقین کر یں کہ یہ خان ذایاںاپنے خاندان کے مردوں سی اتنی ڈرتی ہیںکہ ہمیں بھی اپنے نام اور پتہ نہیں بتا تیں۔ لیکن شان نے دوسرے زرائع سے ان کے متلعق معلومات جمع کی ہیں۔ مثال کے طورپر اس خانذادی نے نہ تو اپنا نام دیا اور نہ ہی تحصیل کا۔ تھوڑی دیر مخبر سے بات کرنے سے ہم کو لڑکی اور تحصیل کا نام پتہ چلا۔
اس صورت میں شان اس لڑکی کو اسلام آ باد تک پہنچانے کا انتظام کرے گا۔ پشاور سے ایک دوسری تنظیم اس لڑکی کو ملک کے کسی حصہ میں ایک خفیہ گھرمیں بھیج دے گی۔
شان کے ساتھی اکبر بھائ کو جاڑے دار بخارآیا تھا۔ شان کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ میں نے بڑی خوشامد کی شان بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ میں اسکے ساتھ جاؤں۔
میرا کام پشاورسے چترال کے راستہ کی نشان دہی کرنا تھا۔ چترا ل سے پشاور ، ہوایئ جہازکے سفر میں پہچان کر پکڑے جانے کا خطرہ تھا ،اور فلایئٹ صرف پہلی اپریل سے بیس اگست تک تھیں ۔ فلایٹ کا بھروسہ نہیں تھا ، کبھی پرانے فوکرجہازوں کی مرمت کی وجہ سے اور کبھی موسم خراب ہونے کی وجہ سے فلایٹ نہیںجاتی ۔ لیکن اچھے موسم میںپچاس منٹ میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ سڑک بہتر ذریعہ تھا۔درگایئ مالاکنڈ کےنال روڈ سوات تک ، دِیراور پھرلاری پاس(درّہ) ۔ لیکن درّہ سردی کے موسم میں بند ہوجاتاہے۔ اگرچہ دِیر سے چترال صرف ستر کلومیٹر ہے لیکن خراب سڑک موسم اور مڈ سلایڈ کی وجہ سے چودہ یا پندرہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ ٤*٤ ملیٹری چھوٹی جیپ گاڑی ہو نا بلکل ضروری ہے۔
" ہم پشاور سے۔' دیر' تک بس بھی لے سکتے ہیں"۔شان نے کہا ۔
" صرف ایک راستہ آنے جانے کاہے اگر ہمارا راز کھل گیا تو آسانی سے پکڑے جایئں گے۔ دوسرا راستہ شندور پاس سے گلگت جانے کا ہے جسکا سفر ٢٥ گھنٹے کا ہے۔ شا ن نے کہاکہ ہمیں جنگل کے متعلق معلومات ہونا چاہیں"۔
میں نے کہا ۔ ".جنگل میں جپسی قوم 'گو وجر' رہتی ہے"۔
" لڑکی کے متعلق ہمیں اور کیا پتہ ہے؟ "
میں نے شان کو بتایا کہ عمر ١٢سال کی ہے ۔ قد ٤ فٹ ٦ انچ کا، وزن ٤٠ پاونڈاور رمپور وادی میں رہتی ہے۔ زبان 'خوور' ہے۔ تھوڑی سی پشتو بولتی ہے او ر ا سکول جاتی ہے"۔
"کیا یہ لڑکی پکے ارادہ والی ہے ؟کیونکہ اگر اس نے ارادہ بدل دیا تو یہ سفر بہت مشکل ہوجائے گا"۔ شان جاناچاہتا تھا۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وقت کو بچانے کیلے ہوائی جہاز میں سفر کریں گے۔ اور ہمارے پاس واپسی کے تین ٹکٹ ہو ں گے۔ لڑکی ہمارا ۔"ٹارگیٹ" ہم سے علحیدہ سفر کرے گی۔ اگر اس کام میں کوئ روکاوٹ نہ ہویئ تو ہوائی جہاز سے ہی واپس لوٹیں گے ورنہ جنگل کا راستہ اخیتار کریں گے۔ میں ایک فرانسی عورت کا کردار کروں گی اور شان ایک گائیڈ کا۔ شان نے گائیڈ کااورایک ٹرانسپورٹ اپریٹرکا بھی پرمٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں نے اےک برقعہ اور ایک پاکستانی کپڑوں کا جوڑا رکھ لیا اورایک بارہ ، تیرہ سال کی عمرکے لڑکے اور لڑکی کی لئے ڈھیلی قمیض، اسکارف ، پتلون اور جوتے، بھی خرید کر رکھ لی ۔ انکے علاوہ تین ، پندرہ پندرہ، آدھے لیٹر والی واٹر ربوتل بھی رکھ لیں۔ ہائی اسکول میں، میں نے جنگلsurvival کی کلاس لی تھی اس لے مجھ کو پتہ ہے کی کیا چیزیں ضروری ہیں۔ میں نے آرمی واٹر فلاسک ، ٹارپ ، چار خیمہ کو لگانے والی سلاخیں، سو فٹ لمبی رسی اور latches ، تین space age کمبل، اور inflateable تکیے اور اور ایک چھوٹا مچھلی پکڑنے کا جال ، ڈفل بیگ میں رکھ لے۔اورsurvival کی دوسری اشیا ء بھی ۔ ایک دیڑھ فٹ کی metchet کو چمڑے کے کیس میں رکھ کر ڈفل بیگ کی بیرونی جیب میں رکھ لیا۔ شان ڈفل بیگ رکھے گا اور میں ایک بیک پیک رکھوں گی۔بیک پیک میں قطب نما، واٹر پروف ماچیس، سویز آرمی چاقو، پندرہ ، پندرہ پروٹین بار، نمک، کالا نمک، سرخ مرچ ، انٹی بایوٹِک گولیاں، فرسٹ ایڈ کا باکس اور واٹر کو صاف کرنے والی گولیاںبھی رکھ لیں۔
پی۔آی۔ اے نے موسم کی وجہ سے فلایٹ کنسیل کردی۔ شان نے وللی ایم تھرٹی ایٹ جیپ کرایہ پر لی۔ چترال جانے کے تین راستہ ہیں۔ پشاور سے چلیں اور اگرکویئ روکاوٹ نہ ہوتو چکدارہ، دیر اور لوآری درّہ سے تو بارہ گھنٹے کا راستہ ہے۔سادھو شریف، سوات ، دیر اور لوآری درہ سے دس گھنٹے کا راستہ ہے۔ اگر گلگت سے چلیں تو گوپس، پھندار اور شاندور درہ بیس گھنٹے میں پہنچیں گے۔ ہم پشاور میں تھے ہمارا راستہ چارشادہ، پہاڑوں میں باڑ خیلا ، ووچ، واردی پوست اور پھر چترال۔ راستہ بہت خوبصورت ہے۔ سٹرک پر درختوں کی لاین لگی ہے۔ فضا گنّے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔
ایک آدھ گھنٹے میں تخت بھائی سے گزرے شہر میں کافی چہل پہل ہے ۔تخت بھایئ کے کچھ میلوں کے بعد پہاڑوں کو سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک اب بل کھا تی ہویئ اوپر چڑھتی ہے۔سڑک کے ساتھ ساتھ دریاِ پنج کورا بھی سانپ کی طرح بل کھاتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ ہر موڑ پر گاڑی روک کر تصویرں لو۔ نقاب پہنی ہویئ ننھی بچیاں بکریوں کی چرواہا ہیں۔ کہیں لڑکے پانی کے تیز بہاؤ میں کھیل رہے ہیں۔کہیں لوگ چرخی، ٹوکری اور رسی کی مدد سے دریا کو پار کر رہے ہیں۔
پہلا پولیس چیک پوانٹ پیمرگارا ہے۔ پولیس گارڈ نے ہم کو ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ 'دیر' میں ایک گھنٹا ٹہریں گئے۔ ہاتھ منہ دھویں گے اورکھانا کھائیں گے۔ دیر پہنچ کر ہم ہوٹل المنصوٹہرتے ہیں۔ ہمارا کمرہ چھت پر ہے۔ یہاں سے آپ تیرچ میر جو ہندو کش کی تیئس ہزار فٹ بلند چوٹی کا نام ہے اور جس کا ترجمہ' بڑے بزرگ ' ہے کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ اس وقت ٹیمپریچر ْ٧٥ ہے۔اور موسم خوشگوار ہے۔ میں نے برقعہ پہنا اور ہم نے شہر کی میں ا سٹریٹ اور دریا کی پار کرنے کی جگہ کا جایزہ لیا۔اسکے بعدہم نے نیچے جانے والا دروازے کی کنڈی لگادی اور چار پایاں کھلے برآمدہ میں لگا دیں۔شان اور میں نے آسمان پر جنوبی ستا رہ تلاش کیا۔ میں شان کو بتایا کہ ستاروں کی مدد سے کسظرح سے صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ہم صبح ناشتہ کے بعد لوواری درہ کی طرف چلے۔ راستہ میں ہم نے سڑک کا جزیہ دیا۔ دوپہر تک ہم چترال کے شہر میں پہنچے۔ میں نے ہوٹل پی۔ٹی۔ڈی۔سی میں بُکینگ کرایئ تھی۔ ہوٹل بازار میں ہے۔ میں نے پاکستانی شلوار اور قمیض اور ڈوپٹہ پہن رکھا تھا۔ہم نے چابیاں لیں اور کمرے کھولے۔کمرے میں ہر چیز موجود تھی۔
ہم نے شہر کی بڑی سڑک پر چہل قدمی کی۔شاہی مسجدکے پاس دریا کے کنارے قلعہ چترا ل ' نو غورے 'کو دیکھا۔سہ پہر میں ہم گرم پانی کا چشمہ دیکھنے گے۔ پولو ، چترال ہی میں شروع ہواہے۔یہاں پولو امیروں کاکھیل نہیں ہے بلکہ سب لوگ کھیلتے ہیں۔ دو گھنٹے دور وادیوں میں چھپا کلاشی قبیلہ ہے۔یہ لوگ کافر ہیں اور انکے ابا واجداد سکندر اعظم کی فوج سے ہیں۔بہت حسین اور خوبصورت لوگ ہیں۔
شام کوواپسی پر ہمیں ایک گھبرا یا ہوا جوان لڑکا ہوٹل کے باہرملا۔اس نے شان کو روکا اور پشتو میں با تیں کرنے لگا۔ میں پیچھے دور کھڑی ہوگی۔ بات کو جلدی ختم کرکے وہ تیزی سے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گلی کے نُکّڑ پر غائب ہوگیا۔
شان نے کہا۔" لڑکی کے ماں اور باپ کو کسی طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہے ۔ صرف ڈفل بیگ اور بیک پیک لینے کا وقت ہے۔ تم کرایہ نمٹاؤاور قعلہ پر لڑکی سے مل کر میرا انتطار کرو۔ میںاوپر سے سامان لیکرآتا ہوں اور جیپ کو واپس کرکے تم دونوں سے ملتا ہوں۔ ہمیں جنگل کا راستہ لینا ہو گا"۔
قعلہ میں اندھیرا تھا۔ میں قعلہ کے باہر روک گی۔
میں نے جان کر بلند آواز سے انگلش میں کہا۔ " میرا نام افغانہ ہے"۔
ایک کانپتی ہوی لڑکی قعلہ کی دیوار کے پیچھے سے سامنے آئ۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور جنگل کا رخ کیا۔ اورہم دونوں درخت کے پیچھے چھپ گئے۔ تھوڑی دیر میں قلعہ کے سامنے ١یک سایہ نظر آیا۔ میں نے ایک پرندے کی آواز نکالی جس سے شان واقف تھا۔ شان تیزی سے ہماری طرف دوڑا۔
"ہمار ے پاس پندرہ منٹ کی lead ہے وہ سرچ پارٹی اسوقت دریا کے کنار ے پر ہوگی"۔ شان نے کہا۔
میں نے دفل بیگ سے ٹینیس شوزاور ڈھیلی پتلون اور قمیض نکال کر لڑکی کو دی اورکہاشلوارپر پہن لو۔شان نے ڈفل بیگ کندھے پر چڑھایا۔ میں نے قطب نما میں سمت دیکھی، بیک پیک پہنااور فلیش لایٹ سنھبالی۔
"ہم لوگوں مشرق کی طرف بھاگنے لگے۔ پندرہ منٹ بعد ہم لوگ تقریباً ایک میل دور تھے۔ لڑکی ہانپ رہی تھی۔ میں کہا کہ ہم ہر پندرہ منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام کریں گے۔ ہم درختوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گے۔
میں نے پانی کی ایک ایک بوتل باٹی اور کہا میں صر ف ہر دن ایک بوتل دوں گی اور خالی بوتل مجھ کو واپس کرنا۔ اسکا مطلب ہے ہر دفعہ جب ہم رُکیں تو صرف ایک بڑا گونٹ پینا، زیادہ نہیں۔ ہمارے پاس صرف ١٥ پانی کی بوتل اور ٥ ١ پروٹین بارہیں اور ہم کو'دیر'جانا ہے جو ایک سو پچاس میل دور ہے"۔
لڑکی نے شان سے پشتو میں کہا "کیا تم مرد نہیں ہو؟ یہ حکم چلاتی ہے"۔ شان نے کہا "یہ ہم کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔اس کا کہنا مانو"۔
میں نے ٹوٹی پشتو میں کہا۔" ہم اس علاقہ سے واقف نہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ میٹھا پانی کہاں ہوگا؟"۔
لڑکی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں نے قطب نما میں سمت دیکھی ، دریا پنج کورا کو سیدھے ہاتھ پر رکھا اور مشرق کیطرف تیزی سے چلنا شروع کردیا۔ ہم اندھیرے کی وجہ سے حفاظت سے تھے۔ جنگل کی نباتات کی وجہ ہے رفتار میں کمی آگی تھی۔ چھ گھنٹے بعد ہم رُکنے اور سونے کا منصوبہ بنایا۔ شان نے دو درخت ایسے تلاش کے جوایک دوسرے سے سات یا آٹھ فٹ د ور تھے اور ان کے درمیان صاف زمین تھی۔ہم نے کچھ سوکھے پتہ اٹھا کر چھوڑے پتہ شمال کیطرف اُڑے۔
" یہ کیوں کرتی ہو؟ " لڑکی نے پوچھا۔
"میں ہوا کا رخ معلوم کررہی ہوں"۔میں نے اسکو بتایا۔
ہمارا خیمہ جنوب شمال ہوگا۔اور ڈھکا ہوا حصہ جنوب میں ہوگا۔ شان نے کمر کی اونچائی کے مطابق رسی درختوں کے درمیان باندھ دی۔ میں نے ٹارپ رسی پرلٹکایا ۔ شان نے ٹا رپ کو خیمہ کیطرح دوسلاخوں کی مدد سے زمین میں گاڑ کر باندھا۔ اور درمیان میں تیسری سلاخ پہلی دو سلاخون کے درمیان برابر فاصلہ پر لگا کر اس سے بھی ٹارپ باندھ دیا۔ میں نے ایک دری ٹارپ کے نیچے بچھا ئی ،ور ڈفل بیگ اور بیک پیک کو اونچا لٹکادیا۔
" لڑکی نے پوچھا یہ کیوں؟ "
"تاکہ جانور گھسیٹ کر نہ لے جا یئں"۔ میں نے جواب دیا۔
شان نے اپنی گھڑی میں چھ بجے کا الارم لگا یا۔ ہم تینوں دری پر لیٹ کرسوگئے۔ صبح ، شان اور میری آنکھ الارم کے بجنے سے پہلے کھلی۔ صبح کی روشنی ہونے لگی تھی۔ ہم نے قریبی ٹیلہ پر چڑھ کرچاروں طرف دیکھا۔ دور دور تک صنوبر ، سرو کے درخت نظر آرہے تھے۔لیکن ایک طرف ہم پانی کی لہروں کی چٹانوں سے ٹکرانے کی آوازسن رہے تھے۔ درختووں کے درمیان سے اب ہم نے پانچ سو گز کے فاصلہ پر دریا کو بہتا دیکھا ۔
شان نے کہا ۔" چلو نہائیں"۔
اور ہم دوڑ کے دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کنارے پر بڑے پتھروں کے درمیان ایک پانی کا تلاب بند گیا تھا۔ شان نے اپنی قمیض اتاری اور میں نے اسکو گدگدی کرنا شروع کردیا۔ اس نے پیچھا چھوڑانے کی کوشش کی جب کام نہیں بنا تو مجھ کو گود میں لیکر تالاب میں پھنک دیا۔ پانی ٹھنڈا تھااور میں بھیگ گی۔ میں نے اپنے کپڑے اتار دے اور تیرنے لگی۔ شان پہلے تو ہچکچایا لیکن پھر وہ بھی کپڑے اتار کر پانی میں آگیا۔ اُ س نے میری طرف تیرنا شروع کیا۔ جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں کھڑی ہوگی میں نے اپنی باہیںشان کے گلے میں ڈال دیں۔ اُس نے مجھے اپنی باہوں میں لیکر میر ی پشانی کوچوما۔ پھر میری ناک پر پیار کیا اور میرے نیچلے ہونٹ کو پیار کیا۔ اور ہم دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیار کرنے لگے۔
میں نے شا ن سے کہا ۔"اب ہم لوگوں کو یہاں سے چل دینا چاہیے اس سے پہلے وہ ہم کو ڈھونڈ لیں"۔
ہم نے جلدی جلدی کپڑے پہنے لڑکی ا بھی تک سور ہی تھی۔
" چلو اُٹھو۔ جاؤ دریا میں منہ دھو کر آؤ"۔ میں چائے بناتی ہوں۔
" تم کیسے چائے بناو گی، آگ تو نہیں ہے"۔
" آگ بنانا سیکھے گی؟۔ اس نے کہا ہاں۔ دیکھو ہم اس درخت کے نیچے چولھا بناتے ہیں تاکہ دھواں اوپر کھلی فضا میں نا پہنچ سکے۔ اب تم اس چھوٹی کدال سے ایک آٹھ سے دس انچ چوڑا اور اتنا ہی گہرا گڑھا کھودو۔ میں بھی ایک گڑھا تمہارے گڑھے سے آٹھ سے دس انچ دور اتنا ہی چوڑا اور مگرتمہارے گڑھے سے دو سے چار انچ زیادہ گہرا کھودوںگی۔ میراگڑھا ہوا کے رخ میں ہے۔جب دونوں گڑھے تیار ہوجایئں گے ہم ددنوں گڑھوں کو نیچے سے ملادیں گے۔ ہوا میرے گڑھے سے داخل ہوکر تمہارے گڑھے میں نیچے سے داخل ہوگی اور آگ کو جلتا رکھے گی۔ ہم زمین کے اندر اس لئے آگ جلارہے ہیںکہ اس کو چھپانے میں آسانی ہوگی "۔
شان سوکھی چھال، سوکھی گھانس ، سوکھی لکڑیاں لیکر آیا۔
میں نے پہلے سوکھی چھال لڑکی کے گڑھے میں بچھایئ ۔
یہ سوکھی چھال سوختہ کہلاتی ہے۔ یہ چمک کے جلتی ہے۔
میں نے اس پرسوکھی گھانس بچھایئ۔یہ آگ کو سلگاتی ہے
اس پر میں نے سوکھی لکڑیاں رکھدیں۔ یہ ایندھن ہے میں نے ماچس سے آگ جلا دیئ۔
"اب تم جاؤ منہ دھو کر آؤ"۔
میں نے کیتلی میں تین کپ پانی ڈال کر آگ پرکھ دیا۔ جب لڑکی واپس آیئ۔ چائے تیار تھی اور شان نے تمام چیزیں ڈفل بیگ میں بھر لیں تھیں۔ ہم تینوں نے گرم گرم چائے پی اور ایک ایک پروٹین بارکھای۔ میں اور لڑکی نے آگ کے گڑھوں کو مٹی سے بھر دیا۔ اور ہمارے وہاں موجود ہونے کے نشانات مٹادیے۔ شان نے تین مضبوط سی بیت کی طرح شاخیں بنایئں۔کچھ پتھر جیب میں رکھنے کے لئے دے ا ورلڑکی سے ہنس کر کہا
" ہو سکتا ہے کہ تندوے سے ملا قات ہوجائے تو مڑنا یا جھکنا مت اور نا ہی بھا گنا۔ اپنے ہاتھ اوپراٹھنا تا کہ بڑی لگو۔ اگر وہ حملہ کی تیاری کرے تو اس پر پتھر پھنکنا۔ تمام بلی کے رشتہ دار بلیوں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ کبھی بلی کو پرندہ کی تا ک میں بیٹھا ہے؟"
لڑکی نے کہا۔ " ہاں دیکھا ہے نا اسکی دم ہلنے لگتی ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں" ۔
" اگر قریب آے تو لکڑی سے مارنا ۔ ہم سب اس کو ماریں گے"۔
اب ہم ایک گھنٹہ چلتے اور دس منٹ کا وقفہ لیتے۔ پانی پیتے اور ایک چوتھایئ پروٹین بار کھاتے۔ ہم چار گھنٹے کے بعد دوپیر کا کھاناکھا نے رُکے۔میں نے لڑکی سے آگ کے گھڑے بنانے کو کہا۔ شان شکار کی تلاش میں گیا۔ میں ایندھن جمع کی۔ شان نے جال میںچھ دریایئ مچھلیاں پکڑیں۔ ہم نے سب کو صاف کرکے آگ پر سینک کر پکا یا۔ تازی مچھلی بڑی مزے دار تھی۔
لڑکی نے مجھ سے سوال کیا ۔ "شان کے پاس گھڑی ہے لیکن تم کو بغیر گھڑی کے وقت پتہ ہوتا ہے"۔
میں نے درختوں سے دور ہو کر زمین پر ایک گول دایرہ بنایا۔ اس کے درمیان ایک نطف قطرکے برابر ڈھنڈی گاڑدی۔ قطب نما سے شمال معلوم کیا اور ڈھنڈی کا رخ اسکی طرف کردیا۔ سایہ ایک بجے پر تھا۔
" مگر تم تو یہ نہیں کرتی"۔
" میں دوسرے سایہ استمعال کرتی ہوں جیسے درخت ، پہاڑی وغیرہ"۔
اپنی موجودگی کے نشان مٹانے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ شام کو پھر ہم نے کیمپ کیااور دوپہرکی تیارکی ہویئ مچھلی کھایئ۔ دریا سے خالی بوتلیں بھریں۔ ہم تینوں روکے ہوے پانی میں تیرے ( کپڑوں کے ساتھ ۔ بھئی جان )۔ یہ لڑکی بہت متجس اور کھوجی تھی۔ اس نے مجھ سے معلوم کیا کہ اگر ہمارا قطب نما کھوگیا تو کیاہم بھی کھو جایئں گے۔
میں نے ہنس کر کہا ۔"نہیں۔ لوگوں نے ہمشہ ستاروں کی مدد سے سفر کیا ہے۔تم نے عقد ثریا (dipper) یا 'سات سہلیوں کا جھمکا ' کا نام سننا ہے"۔
" جی نہیں۔ شمالی ستارہ کا؟"۔
" جی ہاں"۔
" آسمان میں دیکھو کیا تم شمالی ستارے کو دیکھ سکتی ہو؟
"ہاے اللہ وہاں تو ہزاروں ہا ستارے ہیں مجھے کیا پتہ کون سا ہو گا؟ "
سات چمکتے ستاروں کو ڈھونڈو وہ سب سے زیادہ روشن ہونگے۔وہ سب مل کر ایک ہنڈل والے کھانا پکانے کے برتن کی طرح لگیں گے۔ ہنڈل میں تین ہوں گے اور چار پیالہ کی شکل بنایئں گے۔
" ہاں مجھے نظر آرہا ہے باجی۔اور پیالہ کے اوپر ایک بڑا اور ان سے بھی زیادہ روشن ستارہ ہے"۔
"یہ شمالی ستارہ ہے "۔ میں نے کہا۔
میں ' باجی ' کا نام سن کر چونک گی بھیا نے فلیڈ ورکر کی ٹرینگ میں کہا تھاکہ لڑکیوں سے ذاتی اورجذباتی رشتہ مت قائم کرناورنہ یہ تم دونوں کے لے تکلیف کا باعث ہوگا۔
"ہمارا کام انکو ظلم سے بچانا ہے ان سے دوستی نہیں"۔
یہ لڑکی تو اتنی بہادر ہے کہ اس نے ماں باپ بہن اور بھایئ کو ہمشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ بہت سمجھدار ہے۔ سیکھتی جلدی ہے۔ بہت مصوم ہے کہ خطرہ کا احساس نہیں۔ بہت پیاری ہے اور مجھے باجی کہتی ہے۔ مگر نہیں میں ذاتی اورجذباتی رشتہ نہیں قائم کروں گی۔
دن میں ہم نے تیز رفتار رکھی ۔ ہمارا ہرایک گھنٹہ کے بعددس منٹ کا آرام ہمیں طویل فاصلے کو آسانی کے ساتھ مکمل کرنے میں مدد دے رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی ۔ سرو، صنبور ، چنار اور جونیپر کے درختوں کی خوشبو سے جنگل مہک رھا تھا۔ سب سے پہلے شان نے تندوے کو دیکھا اس نے اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھا دے۔ میں جلدی لڑکی کو اپنا اور شان کے درمیان کی اور اپنے ہاتھ بلند کے۔ لڑکی نے فوراً ہماری نقل کی۔ شان اور میں نے تندوے کو بلند آواز میں ڈرانے کیلے چیغنا چلانا شروع کیا۔ تندوے نے ایک منٹ تک ہماری طرف دیکھا۔ پھر موڑ کر بھاگ لیا۔میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اس کو گلے سے چپٹا لیا۔
تیسرے روز ہمیں دو جوان گلہ بان نظر آے۔ شان نے ان سے بات کی۔
یہ نیچی ذات کے' گوجار' ہیں اور' دیر' تک جارہے ہیں۔ ان کی مطابق یہاں سے دو دن کا راستہ ہے۔
" کیا خیال ہے ؟ کیا ہم ان کے ساتھ چلیں؟" شان نے کہا۔
میں نے کہا ۔"کیا وہ ہماری حفاظت کریں گے؟"۔
" اگر وہ ہم کو اپنی مہمان گیری میں لیں تو ضرور حفاظت کریں گے"۔شان نے کہا
"میں گروپ کے سردار سے مل کر آتاہوں“۔
"کیا تم نے ان کو تندوے کے مطالق بتایا۔ہاں مگر تندوے threatened list پر ہے اور فورسٹ پولس ان کی گنتی رکھتی ہے اس لے اگر وہ آپکی بکریاں بھی لے جائے تو آپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے"۔
پاکستان میں تین کروڑ گوجر ہیں۔ گوجر ذات ، قوم، یا ایک برادری کو کہتے ہیں۔ گوجر، مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسایئ بھی ہوسکتاہے۔ گوجر برادری میں تین رتبہ ہیں۔ ایک گوجر وہ جو زمیندار ہیں اور زمین ، گائے، بھنیس ، بکری اوردنبہ کے گلّون کے ما لک ہیں۔ دوسرے گوجر وہ ہیں جو ایک جگہ رہتے ہیں اور زمیندارکے لئے زمین کی کاشت کاری اور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ تیسری کلا س کے گوجر خانہ بدوش گلّہ بان ہیں۔
گوجروں کا سردار مجھ سے مل کر بہت خوش ہواور جب اس کو پتہ چل کہ میں پشتو بھی بولتی ہوں تو وہ امریکہ کے مطلق سب کچھ جانا چاہتا تھا ۔ شام میں کھانا کھانے کے بعد گانے اور ناچ کی محفل جمی۔ چترالوں کو ناچ اور گانے کا بہت شوق ہے۔ اگرچہ وہ نسلی پٹھان نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنی مناست کے لحاظ سے ناچ کو اختیار کر لیا ہے۔ ہم نے دو دن گلہ بانوں کے ساتھ گزارے۔ ہم نے ان کے ساتھ ناچا، گایا اورلڑکی نے گلہ بانی سیکھی۔ ' دیر' میں ہم ان سے جدا ہوئے اور ٹیکسی میں کوہاٹ پہنچے۔ ہم نے لڑکی کو کراچی بھیج دیا ہے جہاں وہ ایک نئی زندگی شروع کرے گی۔
چھ سال کوہاٹ کے فلیڈآفس میں کام کرنے کے بعد سعدیہ اورشان، اپنی کالج کی تعلیم کومکمل کرنےلاس انجیلس چلےگے۔
وہ دونوں اب بایئس سال کے ہیں انکی ایک تین سالہ لڑکی ہےجس کا نام سکینہ ہے۔ سعدیہ اورشان نےچھ سال میں١یک سو ستر مصوم لڑکیوں کو ظلم سے بچایا۔ سکینہ 'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کی ڈاریکٹر ہے۔'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کی ممبر خان زادیاں ، ہرسال تقریباً پانچ سو لڑکیوں کو نئی تعلیم دے رہی ہیں۔ اس 'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کے ممبر پختونستان کے تمام ضلعوں اور تمام تحصیلوں میں ہیں۔ممبروں کی تعداد اب پانچ ہزار کے قریب ہے۔
سکینہ نے اپنے کزن تسلیم سے شادی کرلی ہے اس کے شوہر تسلیم نے شان کا کام سنبھال لیا ہے۔ سکینہ اور تسلیم کی بھی ایک لڑکی ہے اور اسکا نام سادیہ ہے سادیہ کے والدین ucla سے ریٹائرڈ ہو گے ہیں۔ نیدو نے سیاست چھوڑ دی اور اس نے اپنے گاؤں میں با لِغو وں کا اسکول کھول لیا۔وہ حکومت اور یو۔این کی مدد سے کوہاٹ کے ہرگاؤں میں با لغوں کا اسکول کھولے گی۔
جیسمین اپنی نوکری پرواپس لوٹ گی۔
اور میں ۔۔۔
میں ہر چھ ما ہ اپنی ننھی سے ملنے جاتا ہوں۔ میں کھٹمنڈو ، نیپال میں رہتا ہوں۔ میری اب تک یہ خواہش ہے کہ ماونٹ ایوریسٹ کو فتح کروں۔ خراب موسم کی وجہ سے میری دو کوششیں ناکامیاب ہو چکی ہیں۔ اس سال یہ میری تیسری کوشش ہوگی۔ میں مکمل یقین ہے کہ میں اس دفعہ کامیاب ہوں گا۔ اس کے بعد میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں سعدیہ کی جگہ کوہاٹ میں لے لوں گا اور میری پختون بہنوں کے لئے میری ننھی کا دعدہ پورا کروں گا۔