فاتح
لائبریرین
پرویز رشید کی راست گوئیاں – کچھ حیا کرو البکستانیو
10 مئی، 2015
محمد حمزہ بن طارق
آجکل پرویز رشید کے اردو زبان میں بولے گئے چند بہت ہی واضح اور حقیقت پر مبنی جملوں پر پرویز صاحب کو مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید اور رد عمل کا سامنا ہے-
اس مختصر ویڈیو کو جب میں نے دیکها تو یہی سمجهنا دشوار ہوگیا کہ انہوں نے تو آرٹس کونسل کراچی کے پلیٹ فارم کا بڑا خیال کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا-
مجهے وزیر صاحب سے یہ شکایت ہے کہ آپ نے پورا نہیں بلکہ ادهورا سچ بولا۔
آپ نے مدرسوں کو جہالت کدے قرار دیا حالانکہ میں نے خود عالمی ادارے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ میں پڑها کہ کس طرح سے چهوٹے چهوٹے معصوم بچوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور بڑی بڑی داڑھیوں والے مولانا حضرات مدرسوں کے بند کمروں میں انکی عصمت دری کرتے ہیں۔
یہ جنسی تشدد اور استحصال صرف لڑکوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اکثر کمسن لڑکیاں بهی انکی درندگی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔
اپنی عزت کهو دینے والے اور مسلسل قرآن کی تعلیم کے نام پر قوم لوط کے ملاوں کے ہاتهوں ریپ ہونے والے بچے بچیاں کبهی زندہ باہر آجاتے ہیں تو کبهی انکی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ لہذا یہ مدارس تو child abuse کی آماجگاہ ہیں۔
جس دردندگی اور بربریت سے یہ ملا پارٹی معصوم بچوں کو چهڑیوں سے مار کر انکی کهال اتار لیتی ہے کیا یہی طریقہ تها جس سے نبی رحمت دو جہاں (ص) نے اسلام متعارف کروایا تها؟ کیا ہم اس رسول (ص) کے ماننے والے نہیں جو کہتے تهے کہ “بچے جنت کے پهول ہیں” اور “بچوں سے شفقت سے پیش آو”؟
پهر یہ کونسا اسلام ہے جسکا درس ہمکو یہ ملا حضرات دیتے نظر آتے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک زمانہ تها جب مذہبی پیشوا کیمرے کے آگے آنا اور تصویر لینا اور لاوڈ اسپیکر کا استعمال کرنا حرام جانتے تهے مگر آج اپنی تمام بهونڈی مکروہ اور بهیانک شکلیں لے کر یہ لوگ ٹیلیویژن پر پرائم ٹائم ٹالک شوز میں آنا پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی تمام تر نفرتوں کے جزبات بهی لاوڈ اسپیکر کے ذریعے سے ہی بهڑکاتے ہیں۔ لہذا یہ مدارس منافق و مکار بنانے کی فیکٹریاں بهی ہیں۔
اب آجائیں چندے کے دهندے پر، سر سید احمد خان سے لاکھوں اختلافات مگر اس قدامت پسند زمانے میں بے شک وہ اشرافیہ کی ہی تعلیم کے حامی تهے اور نپولین کی طرح خواتین کی تعلیم کے مخالف تهے مگر اتنی عقل وہ بهی رکهتے تهے کہ چندے اور پیسے دنیاوی علوم پڑهانے کے واسطے صرف “علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” کے قیام کیلئے ہی مانگے تهے- وہ تقریباً آج سے دو سو سال پہلے مسلمانوں کو دو سو سال آگے پہنچانے کی کوشش کر رہے تهے مگر آج کے زکوٰۃ خور مولانا حضرات کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پتهروں کے زمانے میں واپس لوٹا دیا جائے۔
دنیا کی کونسی انسانی یا دینی یا تعلیمی درسگاہ خود کش بمبار تیار کرنا سکهاتی ہے؟ ماشاءاللہ انسانی بم تیار کرنے کا ٹهیکہ بهی انہیں انسان اور اسلام دشمن فیکٹریوں نے لیا ہوا ہے جو دارالحکومت میں بیٹھ کر بولتے ہیں کہ ہمارے پاس پانچ سو خواتین خودکش بمبار تیار ہیں تو جناب آپ تو قاتل بهی ہوئے۔
کیا آپ اس قرآن کو پڑهتے ہیں جو کہتا ہے “ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے” اور حدیث جس میں لکھا ہے ”علم حاصل کرنا تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے”؟
ایک بات تو بتائیں ،غزوہ بدر کے غیر مسلم قیدیوں کو حضور اکرم (ص) نے کیا اس شرط پر آزاد نہیں کیا تها کہ تم میں سے ایک قیدی دس مسلمانوں کو پڑهائے گا؟ کیا وہ کافر قیدی مسلمانوں کو اصول و فقہ کی تعلیم دے رہے تهے؟ نہیں اور ہرگز نہیں تو پهر مان لیجئے کے آپ ہی رانگ نمبر ہیں جو اپنے باطل مقاصد کی تکمیل کے لئے مذہب اسلام جسکا معنی ہی سلامتی ہے اسکا سوئے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کے مدارس جهوٹ اور مکر و فریب کے ساتھ ساتھ فتنے کی بدترین آماجگاہ ہیں جو انسانی تہزیب کے لئے خطرہ ہیں۔
قرآن تو تفرقے میں پڑهنے والوں پر لعنت کرتا ہے مگر آپ ہیں جو شیعہ اور احمدی کافر کی تسبیحات کا ورد کرواتے نہیں تهکتے، خود آپس میں دیوبندی بریلوی لڑائیاں بڑی مشہور ہیں اور ایک دوسرے پر کفر و قتل کے فتوے بهی دیتے ہیں۔
آپکے مدارس فرقہ وارانہ فسادات کی تربیت کی درسگاہیں ہیں۔
ریاست کو چاہیئے کے گلی گلی مدارس بند کروا کے سب کو ایک جگہ جمع کر کے اور بڑے مدارس کهولے جہاں مدارس میں جدید دنیاوی علوم کے ساتھ صوفیاء کرام کے طرزِ زندگی سے اسلام پڑهایا جائے اور سائنس کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔
اساتذہ حکومت کے مقرر کردہ ہوں اور کم از کم ماسٹرز کی ڈگری رکهتے ہوں اور ساتھ ہی لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور جمعہ کا خطبہ ریاست کی جانب سے چهپ کر آئے۔ ساتھ ہی سخت قوانیں بنائے جائیں اور انکی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے۔
انشاءاللہ ایسے ہمت والے اصلاحی اقدامات کرنے سے ہماری نسلیں پاکستانی تو بن ہی جائیں گی مگر اچهے انسان بهی تو بنانا ہے وہ بهی بن جائیں گے لیکن یہ سب باتیں پرویز صاحب مائک پر کریں یا میں یہاں لکھ دوں، ان سب پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے مگر جو لوگ اقتدار میں ہی ایسے نمونوں سے اتحاد کر کے آتے ہیں کیا وہ یہ جرات رکهتے ہیں کہ انکے ہی خلاف قدم اٹهائیں؟
میں نے تو سچ قلمبند کردیا مگر آپکو زبان کهولنے سے پہلے وزیراعظم صاحب سے پوچهنا چاہیئے تها پرویز صاحب!
حوالہ
10 مئی، 2015
محمد حمزہ بن طارق
آجکل پرویز رشید کے اردو زبان میں بولے گئے چند بہت ہی واضح اور حقیقت پر مبنی جملوں پر پرویز صاحب کو مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید اور رد عمل کا سامنا ہے-
اس مختصر ویڈیو کو جب میں نے دیکها تو یہی سمجهنا دشوار ہوگیا کہ انہوں نے تو آرٹس کونسل کراچی کے پلیٹ فارم کا بڑا خیال کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا-
مجهے وزیر صاحب سے یہ شکایت ہے کہ آپ نے پورا نہیں بلکہ ادهورا سچ بولا۔
آپ نے مدرسوں کو جہالت کدے قرار دیا حالانکہ میں نے خود عالمی ادارے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ میں پڑها کہ کس طرح سے چهوٹے چهوٹے معصوم بچوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے اور بڑی بڑی داڑھیوں والے مولانا حضرات مدرسوں کے بند کمروں میں انکی عصمت دری کرتے ہیں۔
یہ جنسی تشدد اور استحصال صرف لڑکوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اکثر کمسن لڑکیاں بهی انکی درندگی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔
اپنی عزت کهو دینے والے اور مسلسل قرآن کی تعلیم کے نام پر قوم لوط کے ملاوں کے ہاتهوں ریپ ہونے والے بچے بچیاں کبهی زندہ باہر آجاتے ہیں تو کبهی انکی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ لہذا یہ مدارس تو child abuse کی آماجگاہ ہیں۔
جس دردندگی اور بربریت سے یہ ملا پارٹی معصوم بچوں کو چهڑیوں سے مار کر انکی کهال اتار لیتی ہے کیا یہی طریقہ تها جس سے نبی رحمت دو جہاں (ص) نے اسلام متعارف کروایا تها؟ کیا ہم اس رسول (ص) کے ماننے والے نہیں جو کہتے تهے کہ “بچے جنت کے پهول ہیں” اور “بچوں سے شفقت سے پیش آو”؟
پهر یہ کونسا اسلام ہے جسکا درس ہمکو یہ ملا حضرات دیتے نظر آتے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک زمانہ تها جب مذہبی پیشوا کیمرے کے آگے آنا اور تصویر لینا اور لاوڈ اسپیکر کا استعمال کرنا حرام جانتے تهے مگر آج اپنی تمام بهونڈی مکروہ اور بهیانک شکلیں لے کر یہ لوگ ٹیلیویژن پر پرائم ٹائم ٹالک شوز میں آنا پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی تمام تر نفرتوں کے جزبات بهی لاوڈ اسپیکر کے ذریعے سے ہی بهڑکاتے ہیں۔ لہذا یہ مدارس منافق و مکار بنانے کی فیکٹریاں بهی ہیں۔
اب آجائیں چندے کے دهندے پر، سر سید احمد خان سے لاکھوں اختلافات مگر اس قدامت پسند زمانے میں بے شک وہ اشرافیہ کی ہی تعلیم کے حامی تهے اور نپولین کی طرح خواتین کی تعلیم کے مخالف تهے مگر اتنی عقل وہ بهی رکهتے تهے کہ چندے اور پیسے دنیاوی علوم پڑهانے کے واسطے صرف “علی گڑھ مسلم یونیورسٹی” کے قیام کیلئے ہی مانگے تهے- وہ تقریباً آج سے دو سو سال پہلے مسلمانوں کو دو سو سال آگے پہنچانے کی کوشش کر رہے تهے مگر آج کے زکوٰۃ خور مولانا حضرات کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پتهروں کے زمانے میں واپس لوٹا دیا جائے۔
دنیا کی کونسی انسانی یا دینی یا تعلیمی درسگاہ خود کش بمبار تیار کرنا سکهاتی ہے؟ ماشاءاللہ انسانی بم تیار کرنے کا ٹهیکہ بهی انہیں انسان اور اسلام دشمن فیکٹریوں نے لیا ہوا ہے جو دارالحکومت میں بیٹھ کر بولتے ہیں کہ ہمارے پاس پانچ سو خواتین خودکش بمبار تیار ہیں تو جناب آپ تو قاتل بهی ہوئے۔
کیا آپ اس قرآن کو پڑهتے ہیں جو کہتا ہے “ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے” اور حدیث جس میں لکھا ہے ”علم حاصل کرنا تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے”؟
ایک بات تو بتائیں ،غزوہ بدر کے غیر مسلم قیدیوں کو حضور اکرم (ص) نے کیا اس شرط پر آزاد نہیں کیا تها کہ تم میں سے ایک قیدی دس مسلمانوں کو پڑهائے گا؟ کیا وہ کافر قیدی مسلمانوں کو اصول و فقہ کی تعلیم دے رہے تهے؟ نہیں اور ہرگز نہیں تو پهر مان لیجئے کے آپ ہی رانگ نمبر ہیں جو اپنے باطل مقاصد کی تکمیل کے لئے مذہب اسلام جسکا معنی ہی سلامتی ہے اسکا سوئے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کے مدارس جهوٹ اور مکر و فریب کے ساتھ ساتھ فتنے کی بدترین آماجگاہ ہیں جو انسانی تہزیب کے لئے خطرہ ہیں۔
قرآن تو تفرقے میں پڑهنے والوں پر لعنت کرتا ہے مگر آپ ہیں جو شیعہ اور احمدی کافر کی تسبیحات کا ورد کرواتے نہیں تهکتے، خود آپس میں دیوبندی بریلوی لڑائیاں بڑی مشہور ہیں اور ایک دوسرے پر کفر و قتل کے فتوے بهی دیتے ہیں۔
آپکے مدارس فرقہ وارانہ فسادات کی تربیت کی درسگاہیں ہیں۔
ریاست کو چاہیئے کے گلی گلی مدارس بند کروا کے سب کو ایک جگہ جمع کر کے اور بڑے مدارس کهولے جہاں مدارس میں جدید دنیاوی علوم کے ساتھ صوفیاء کرام کے طرزِ زندگی سے اسلام پڑهایا جائے اور سائنس کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔
اساتذہ حکومت کے مقرر کردہ ہوں اور کم از کم ماسٹرز کی ڈگری رکهتے ہوں اور ساتھ ہی لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور جمعہ کا خطبہ ریاست کی جانب سے چهپ کر آئے۔ ساتھ ہی سخت قوانیں بنائے جائیں اور انکی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے۔
انشاءاللہ ایسے ہمت والے اصلاحی اقدامات کرنے سے ہماری نسلیں پاکستانی تو بن ہی جائیں گی مگر اچهے انسان بهی تو بنانا ہے وہ بهی بن جائیں گے لیکن یہ سب باتیں پرویز صاحب مائک پر کریں یا میں یہاں لکھ دوں، ان سب پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے مگر جو لوگ اقتدار میں ہی ایسے نمونوں سے اتحاد کر کے آتے ہیں کیا وہ یہ جرات رکهتے ہیں کہ انکے ہی خلاف قدم اٹهائیں؟
میں نے تو سچ قلمبند کردیا مگر آپکو زبان کهولنے سے پہلے وزیراعظم صاحب سے پوچهنا چاہیئے تها پرویز صاحب!
حوالہ