پسندیدہ اقتباسات

فہد اشرف

محفلین
شروع میں دنیا میں تھوڑے ہی ملک تھے۔لوگ خاصی امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔15 صدی میں کولمبس نے امریک دریافت کیا ،اس کے بارے میں دو نظریے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں ،یہ تو ہندوستان یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتاتھا غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت ہو نہیں پائے۔دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا بہرحال اگریہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین تھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
از ابن انشاء " اردو کی پہلے کتاب"سے اقتباس
کتاب کا نام شاید 'اردو کی آخری کتاب ہے'
 
صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرادئیے جاتے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی توفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی “شکر“ کا درجہ اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادی اذیت سے گذرجاتے ہیں۔
دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے،کیونکہ یہی مقام و وصال حق کا مقام ہے۔ تمام واصلین حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم و رضا گزرکر سجدہ شکر تک پہنچے۔یہی انسان کی رفعت ہے۔یہی شان عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو،دل یادوں سے زخمی ہو اور درنیاز سجدہ میں ہو کہ“اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تو ہے کہ تو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا تیری طرف سے آنے والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تو ہے۔ جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعث تسکین روح و دل بنایا۔“
واصف علی واصف کی کتاب “دل،دریا، سمندر سے اقتباس
 
اشفاق احمد کہتے ہیں،

میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے، میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں، میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔

بابا نے کہا، اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔

بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا، پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کر لو تو امر ہو جاؤ گے۔ یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سر جھکائے زار و قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا، اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔ آمین۔
 
آخری تدوین:
’انسان کو ان شہروں میں جہاں اس سے محبت کی گئی ہو، جہاں اس نے وقت گزارا ہو، جہاں اس پر مختلف کیفیات گزری ہوں، وہاں اسے دوبارہ نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ لوگ بدل چکے ہوتے ہیں، جا چکے ہوتے ہیں، نئی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہوتی ہیں، شہر وہ نہیں رہتے۔ بہت حماقت ہوتی ہے کہ خوشی کی تلاش میں آپ پھر وہیں جائیں‘۔ مستنصر حسین تارڑ
 

محمد فہد

محفلین
واصف علی واصف فرماتے ہیں، انسان عمل کے لیے علم حاصل کرتا ہے لیکن جوں جوں علم بڑھتا جاتا ہے عمل کے مواقع سمٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔آج کے انسان کا سب سے بڑا عمل حصول علم ہے اور یہ عمل اسکو فرائض کی بجاآوری کے عمل سے بہت دور کر دیتا ہے۔سڑک کے کنارے کمرے میں بیٹھ کر زندگی کا مفہوم سمجھنے والا اس زندگی کو نہیں سمجھ سکتا جو سڑک پر سے گذر رہی ہے۔۔
 

محمد فہد

محفلین
میں نے تمام دنیا پر نظر ڈالی، ہر شخص کسی نہ کسی چیز سے محبت کرتاہے مگر اس محبوب چیز کو اسی دنیا میں چھوڑ کر اکیلا قبر میں چلاجاتاہے۔ میں نے سوچا کہ میں نیکیوں اور اچھے کاموں سے محبت کروںتاکہ وہ قبر میں بھی میرے ساتھ جائیں اور مجھے اکیلا نہ چھوڑیں۔۔

امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم سے
 

نسیم زہرہ

محفلین
زندگی میں آزمائشیں تو آتی ہیں سب ہی کی زندگی حادثات اور تجربات کا مرکب ہوتی ہے مگر ہم نے اس مشکل سے نکلنے کی کتنی سعی کی کتنے ہاتھ پیر مارے اور تکلیف کے لمحات کو کیسے گزارا یہ بہت معنی رکھتا ہے، رورو کر گزارنے والوں کا وقت بھی گزر ہی جاتا ہے اور ہنستے مسکراتے حوادث سے کھیلنے والوں کا بھی مگر دونوں کا انجام بہت مختلف ہوتا ہے . ایک اپنے ارد گرد رہنے والوں کو ڈپریشن اور اذیت میں رکھتا ہے جبکہ دوسرا اپنے اردگرد والوں کو جینے کا حوصلہ سکھا دیتا ہے

فاطمہ عنبرین ( یقین ساحل گماں سمندر)
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کبھی فجر کی نماز کے بعد کسی ان پڑھ عام سے کپڑے پہنے کسی دیہاتی کو جسے وضو اور غسل کے فرائض سے بھی شاید پوری طرح واقفیت نہ ہو وہ جب نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنےکے لیے کھولے گا تو قرآن پاک کا غلاف کھولنے سے پہلے دو بار اسے آنکھوں سے لگائے گا اور چومے گا ۔
اس کی اس پاک کتاب سے عقیدت اور محبت دیدنی ہوتی ہے ۔وہ قرآن پاک میں لکھی عربی کی آیات کی معانی سے واقف نہیں ہوتا لیکن وہ جس محبت سے اسے پڑھ رہا ہوتا ہے وہ قابلِ رشک ہوتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 لچھے والا صفہ 32
 

سیما علی

لائبریرین
نقیبی صاحب ہم ایسے ہی ہیں دیہاتی جیسے ۔پر عقیدت اور محبت بہ درجہ اتم موجود ہے پروردگار سے ہر دم دعا ہے یہ قائم رہے ورنہ زاد راہ کے اور کچھ نہی :cry::cry::cry::cry::cry:
 

سیما علی

لائبریرین
میرا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہماری دعا قبول ہو جائے تو ہمیں اس بات پر خوشی نہیں ہوتی کہ دعا قبول ہو گئی ۔۔۔ الٹا ہمیں یہ غم لگ جاتا ہے کہ قبولیت کے اس لمحے میں ہم نے کچھ اور کیوں نہ مانگ لیا ۔۔۔

ممتاز مفتی
(لبیک)
 

سیما علی

لائبریرین
اشفاق احمد کہتے ہیں،

میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے، میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں، میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔

بابا نے کہا، اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔

بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا، پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کر لو تو امر ہو جاؤ گے۔ یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سر جھکائے زار و قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا، اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔ آمین۔
پروردگار ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں بانٹنے کی بھی آمین ثم آمین
 

سیما علی

لائبریرین
میں قدرت اللہ شہاب کیساتھ مسجدالحرام کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک قدرت اللہ نے پوچھا کہ:
" آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟"
" یہ کاپی ہے."
" یہ کیسی کاپی ہے؟"
" اس میں دعائیں لکھی ہیں. میرے کئی ایک دوستوں نےکہا تھا کہ خانہ کعبہ میں ہمارے لیے دعا مانگنا, میں نے وہ سب دعائیں اس کاپی میں لکھ لی تھیں.
دھیان کرنا! وہ بولے, یہاں جو دعا کی جائے وہ قبول ہوجاتی ہے. کیا مطلب؟ میری ہنسی نکل گئی. کیا دعا قبول ہوجانے کا خطرہ ہے. ہاں! کہیں ایسا نہ ہو جو دعا کی جائے وہ قبول ہوجائے. میں نے حیرت کیساتھ قدرت کیطرف دیکھا.
بولے, " اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر ہیں. عرصہ دراز ہوا انہیں بخار ہوجاتا تھا. ڈاکٹر, حکیم, وید, ہومیو سب کا علاج کر دیکھا کوئی افاقہ نہ ہوا. سوکھ کر کانٹا ہوگئے. آخر چارپائی پر ڈال کر کسی درگاہ پر لے گئے. وہاں ایک مست سے کہا, بابا دعا کرکہ انہیں بخار نہ چڑھے... انہیں آج تک پھر کبھی بخار نہ چڑھا. اب چند سال سے انکی گردن کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں. یہ اپنی گردن ادھر ادھر نہیں ہلا سکتے. ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مرض انہیں صرف اس صورت دور ہوسکتا ہیکہ انہیں بخار چڑھے. انہیں دھڑادھڑ بخار چڑھنے کی دوائیاں کھلائی جارہی ہیں مگر انہیں بخار نہیں چڑھا."
دعاؤں کی کاپی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی. میں نے اللہ کے گھر کیطرف دیکھا," میرے اللہ! کیا کسی نے تیرا بھید پایا ہے؟"
( ممتاز مفتی کی کتاب " لبیک " سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
پاکستان بننے کے بعد تو اسلام کو استعمال کرنے کا طوفان اُمڈ آیا ۔۔۔۔ آمر نے اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام کو استعمال کیا ۔۔۔۔ بی بی جمہوریت نے اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے اسلام کے نعرے لگائے ۔۔۔ سیاستیوں نے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے اسلام کو برتا ۔۔۔۔ مذیبی لیڈروں نے اپنی اہمیت قائم کرنے کے لیے اسلامی روپ دھارا ۔۔۔

ممتاز مفتی
(تلاش)
ممتاز مفتی صاحب کی تمام تصانیف میر ی پسندیدہ ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ مجھے تلاش پسند جن لوگوں کا خیال ہے کہ مفتی صاحب دین سے دور ہیں اپنی اس کتاب میں وہ ایسے تمام لوگوں کی سوچ کو مسترد کرتے ہیں۔وہ منافقت کہ سخت ترین مخالف ہیں سچے اور کھرے انسان ۔مالک انکے درجات بلند فرمائے آمین
 

سیما علی

لائبریرین
* اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے:
اشفاق صاحب کی تحریر کی شیدائی تو ہمیشہ سے ہوں مگر اس اقتباس پر فریفتہ ہوں دل و جان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ....
ایک بار لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں ایک بھارتی گلوکار نے کنسرٹ کیا۔رقص و موسیقی کی محفل میں پاکستان کے نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ مہمانوں کی تواضع ہر قسم کے مشروبات سے کی گئی جبکہ پاکستانی فلمی اداکاراوُں نے رقص کر کے بھارتی گلوکار کا ساتھ دیا اور دیکھنے والوں سے خوب داد وصول کی۔اس تقریب میں پاکستان کے نامی گرامی سیاستدان، اداکار، دانشور اور بڑی بڑی شخصیات مدعو سکیورٹی کا سخت انتظام تھا، مشہور فلسفی اشفاق احمد صاحب کو بھی دعوت نامی بھیجا گیا۔

اشفاق صاحب جب قذافی سٹیڈیم پہنچے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ دعوت نامہ ساتھ لانا بھول گئے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی کے عملہ سے کہا کہ وہ دعوت نامہ لانا بھول گئے ہیں انہیں اندر آنے دیا جائے۔ سکیورٹی والوں نے انہیں اندر آنے نہ دیا۔ انہوں نے بہت کہا کہ وہ ملک کی مشہور شخصیت ہین مگر سکیورٹی والوں نے نہ صرف انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا بلکہ دھکے مار کر وہاں سے ہٹا دیا اور کہا کہ بابا جی یہاں ہر کوئی مشہور بنا پھرتا ہے۔ جاوُ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ تنگ نہ کرو۔ بقول اشفاق صاحب مجھے بہت دکھ ہوا کہ ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا؟ کیا میری اتنی بھی اوقات نہیں تھی کہ مجھے ایک کارڈ کے بغیر پہچان لیا جاتا؟۔ میں بے عزتی کے احساس کی وجہ سے پوری رات سو نہیں پایا۔

صبح اٹھ کر جب اخبار دیکھا تو اخبار بھرا پڑا تھا گزشتہ رات کی تقریب کی خبروں سے سرخی تھی کہ ۔بھارتی گلوکار کارگل میں بھارتی فتح کا جشن منا کر چلا گیا، بیوقوف پاکستانی شراب کے نشے میں دھت ڈھول کی تھاپ پر بھارتی فتح کا جشن مناتے رہے۔ بھارتی گلوکار نے جان بوجھ کر اسی تاریخ کو شو کیا جب پاکستان نے کارگل سے فوج واپس بلائی تھی اور بھارت نے فتح کا اعلان کیا تھا۔ ۔ افسوس ناک بات یہ کہ پوری رات پاکستان کی خواتین بھی ناچتی رہیں اور پاکستان کو رسوا کرتی رہیں۔ تقریب میں شامل ہونے والی تمام شخصیات کے ناموں کے ساتھ تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ اور آخری لائن یہ تھی کہ اس تقریب میں اشفاق احمد بھی مدعو تھے مگر وہ اس ذلت آمیز تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ خبر پڑھ کر میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے ایسی جگہ سے دھکے مار کر نکلوا دیا جہاں میرا ملک بدنام ہو رہا تھا۔ اللہ نے مجھے ایک گناہ سے بچا لیا۔ اور میں اسکے اس احسان کا شکر ادا کرنے کی بجائے ساری رات غمگین رہا۔ جس بات کو میں اپنی بےعزتی سمجھ رہا تھا اس میں تو میری عزت تھی۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے رسوا کرے۔ اللہ سے بدگمان نہ ہونا۔ وہ سب جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے.☆☆☆
 

سیما علی

لائبریرین
آواز دوست مختار مسعود صاحب کی شاہکار تصنیف ہے، مختار مسعود جنکی کتابوں کے آغاز میں کوئی مقدمہ، کوئی تبصرہ یا کوئی توصیفی مراسلہ نہیں ہوتا اور قیمت کم سے کم رکھی جاتی ہے گویا لاگت تو کیا اس سے بھی کم قیمت پر پیش کی گئی ہو، اسی لئے انکی کتابیں مارکیٹ میں عموماً ناپید ہوتی ہیں، جو لوگ آواز دوست پڑھے بنا انکی دوسری کتابیں پڑھ لیتے ہیں وہ مختار مسعود صاحب کے اسلوب کو ثقیل بلکہ کسی حد تک خشک سے تعبیر کرتے ہیں مگر بقول عقیل عباس جعفری صاحب کہ مختار مسعود جس پائے کے ادیب ہیں قاری بھی اسی پائے کا چاہتے ہیں، لہذہ انکو پڑھنا ہے تو اپنے اندر وسعت پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ مختار مسعود سمجھ میں آئیں، اور وہ جہت پیدا کرنے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ سب سے پہلے “ آواز دوست “ پڑھی لی جائے، پھر مختار صاحب اور انکی کتابیں دونوں بھرپور طور پر سمجھ میں آجائیں گی ۔
‏‎مختار صاحب نے اس کتاب میں معروف ناول نگار ای ایم فاسٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے پانچ معرکتہ الآرا ناول لکھے پھر کچھ نہ لکھا، فاسٹر کا کہنا تھا، ایک عہد، ایک گھر ، ایک ماحول، ایک سکون ہوتا ہے جب وہ بیت جائے تو سوچنے کی وہ صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، پھر اوّل تو سوچ کو تحریر میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے اور اگر کوئی ڈھالنا چاہے بھی تو ویسا نہیں ڈھال سکتا ۔

‏‎مختار مسعود کی مادر علمی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہے جسکے تدریسی اور غیر تدریسی دونوں شعبے درخشاں روایتوں کے امین ہیں، مینار پاکستان کی تعمیر اور سقوط ڈھاکہ کا المیہ، ان دو مواقعوں نے انکے قلب و زہن کو متاثر کیا، مینار پاکستان کی تعمیر کا نعرہ مستانہ اور المیہ مشرقی پاکستان پر رنددھی ہوئی آواز چشم تصور میں انہیں علی گڑھ لے گئ جہاں انہیں وہ گھر، وہ عہد، وہ ماحول اور وہ سکون میسر آگیا اور “ آواز دوست “ تخلیق ہوئی ۔

‏‎کتاب کا آغاز خوبصورت انتساب سے ہوتا ہے
“ پرکاہ اور پارہ سنگ کے نام “
‏‎وہ پرکاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اگنے والی گھاس کی پہلی پتی تھی
‏‎اور
‏‎وہ پارہ سنگ جو والد مرحوم کا لوح مزار ہے ۔

‏‎اقبال سے انکی انسیت “ سبزہ نور ستہ “ کی ترکیب “ پرکاہ “ کی صورت نمایاں ہے، اللہ کی حمد ثنا کرتی ماں کی لحد کی سبز پتی اولاد کے لئے دعا کا درجہ ہے اور والد کے لوح مزار کی تحریر عمر بھی کی تربیت اور تنبیہہ کا استعارہ ۔
‏‎مختار مسعود صاحب سی ایس پی افسر تھے اور اس زمانے کے سی ایس پی افسر جب افسر واقعی افسر ہوتے تھے، مینار پاکستان تعمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے، جب یہ پروجیکٹ “ یاد گار پاکستان پروجیکٹ “ کے نام سے تھا، مختار مسعود صاحب نے یادگار کو مینار سے بدل دیا کہ یادگار زمان کو بیان کرتی ہے اور مینار امروز کو ، مینار اور اسلامی تہذیب کے ساتھ اسکے رشتے کو بیان کرتے ہوے انہوں نے جو گوہر افشانی کی ہے اسے بیان کرنا از حد مشکل ہے، اسے صرف محسوس کیا جاسکتا اور اس میں ڈوبا جاسکتا ہے، دمشق میں مسجد بنو امیہ کے شمالی مینار کو انہوں نے میناروں کا امام اور مینار پاکستان کو اس کا مقتدی قرار دیا ہے ۔

‏‎مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو انہوں نے قحط الرجال کا ساخشانہ قرار دیا ہے، اپنے درخشاں ماضی کے جناح، اقبال، سروجنی نائڈو اور گاندھی جیسے کردار انہیں پھر کبھی نظر نہ آئے اسلئے کہ عہد ، ماحول اور سکون سب کچھ بدل چکا تھا جس میں جسطرح کتاب تخلیق نہیں ہوسکتی اسطرح بڑے آدمی بھی تخلیق نہیں ہوسکتے، ایک ہجوم البتہ تخلیق پاتا رہتا ہے اور المیے جنم لیتے رہتے ہیں ۔

‏‎انہوں اپنے والد کے کہنے پر آٹوگراف بک لی
‏‎مگر والد نے یہ شرط لگائی کہ اس پردستخط انہی شخصیات کے لئے جائیں جو واقعتاً بڑی ہوں، گرہ میں بندھے والد صاحب کے الفاظ کو عملی جامع پہنانا چاہا تو معلوم ہوا کہ صاحب کمال تو بہت ہیں مگر صاحب جمال بہت ہی کم، اسی لئے انکی آدھی آٹو گراف بک خالی رہ گئی ۔

‏‎کتاب کیا کچھ بیان نہیں کرتی، قائداعظم جب علی گڑھ آئے تو انکی بگھی سے جتے گھوڑے ہٹا کر لڑکوں نے خودانکی بگھی کھینچی اور کشا کشایونیورسٹی میں لے آئے اور ایک روز ایک صبح ایسی بھی آئی جس روزکراچی میں ایک مہیب فطری سناٹا تھاجب قائد اعظم نے وفات پائی ۔ معروف نثر نگار ملا واحدی جنکی کتاب پڑھ کر ہمیں مطالعہ کا اور کتابیں پڑھ پڑھ کر لکھنے کا شوق پیدا ہوا انہی ملا واحدی ذکر ہے، انکا، انکی تحریر کا، تحریر کی روانی کا، زبان کا اور زبان کی سند کا ۔
‏‎اس کتاب کا اسلوب وہی ہے جو ملاواحدی کا ہے یعنی ٹکسالی اور اس ٹکسالی میں علم و دانش اور تجربہ و حکمت کے جو موتی پروئے گئے ہیں اس سبب یہ کتاب اردو ادب کی شاہکار کتابوں میں شمار ہوئی اور ہوتی رہیگی ۔

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا ! !
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
 

سیما علی

لائبریرین
“ زوال کے اسباب کا بھی پتہ چلتا ہے
ظلم ہو اور انصاف نہ ملے۔ رشوت چلے اور حقدار کو اس کا حق نہ ملے۔ اخلاق پست ہو جایئں اور صحت تباہ۔ لوگ لذات میں کھو کر مستقبل سے غافل ہو جائیں۔ اس کے بعد تمہیں کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تم خود اپنے سب سے خطرناک دشمن بن جاتے ہو۔ مجھےآئینہ میں اپنی صورت نظر آ رہی ہے۔ میں گھبرا کر کتاب بند کر دیتا ہوں......!!”

( مختار مسعود ۔ “لوحِ ایام” سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
“ اے میرے عزیز، تُو نے غلط قیاس کیا ، میرے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے ، میں اگر جانتا ہوں تو بس اتنا کہ ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا ۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا ہے جب ہم سے اگلوں نے ساحل پہ اُتر کر سمندر کی طرف پُشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں ۔ اب بپھرتا سمندر ہمارے پیچھے نہیں، ہمارے سامنے ہے ، اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے........!!”

( انتظار حسین ۔ ناول “آگے سمندر ہے” سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)

“ یہ مضمون منٹو صاحب نے اپنے انتقال سے قریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ آیئے منٹو کو انھی کے قلم سے جاننے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔”

“ منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے......!!”

( سعادت حسن منٹو ۔ رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء )
 

سیما علی

لائبریرین
کوارنٹین ۔ افسانہ
“ ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہر کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔
پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔
کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کی کثرت سے وہاں آ جانے پر ان کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پے در پے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرت اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں ،یعنی سینکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ وہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔
کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔
ان دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔ اگرچہ اس سے مجھے بے خوابی اور آنکھوں کے چندھے پن کی شکایت پیدا ہو گئی۔ کئی دفعہ بیماری کے خوف سے میں نے قے آور دوائیں کھا کر اپنی طبیعت کو صاف کیا۔ جب نہایت گرم کافی یا برانڈی پینے سے پیٹ میں تخمیر ہوتی اور بخارات اٹھ اٹھ کر دماغ کو جاتے، تو میں اکثر ایک حواس باختہ شخص کے مانند طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا ۔ گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں۔۔۔ اُف! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔ پلیگ! اور پھر۔۔۔ کوارنٹین!
انھیں دنوں میں نوعیسائی ولیم بھاگو خاکروب، جو میری گلی میں صفائی کیا کرتا تھا، میرے پاس آیا اور بولا، ’’بابوجی۔۔۔ غضب ہو گیا۔ آج ایمبولینس محلہ کے قریب سے بیس اور ایک بیمار لے گئی ہے۔‘‘
’’اکیس؟ ایمبولینس میں۔۔۔؟ ‘‘ میں نے متعجب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔
’’جی ہاں۔۔۔ پورے بیس اور ایک۔۔۔ اُنھیں بھی کونٹن (کوارنٹین) لے جائیں گے۔۔۔ آہ! وہ بے چارے کبھی واپس نہ آئیں گے؟‘‘
دریافت کرنے پر مجھے علم ہوا کہ بھاگو رات کے تین بجے اُٹھتا ہے۔ آدھ پاؤ شراب چڑھا لیتا ہے۔ اور پھر حسب ہدایت کمیٹی کی گلیوں میں اور نالیوں میں چونا بکھیرنا شروع کر دیتا ہے، تاکہ جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ بھاگو نے مجھے مطلع کیا کہ اس کے تین بجے اٹھنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرے اور اس محلہ میں جہاں وہ کام کرتا ہے، ان لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرے جو بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔ بھاگو تو بیماری سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اس کا خیال تھا اگر موت آئی ہو تو خواہ وہ کہیں بھی چلا جائے، بچ نہیں سکتا۔
ان دنوں جب کوئی کسی کے پاس نہیں پھٹکتا تھا، بھاگو سر اور منھ پر منڈاسا باندھے نہایت انہماک سے بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کا علم نہایت محدود تھا، تاہم اپنے تجربوں کی بنا پر وہ ایک مقرر کی طرح لوگوں کو بیماری سے بچنے کی تراکیب بتاتا۔ عام صفائی، چونا بکھیرنے اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتا۔ ایک دن میں نے اسے لوگوں کو شراب کثرت سے پینے کی تلقین کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس دن جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے پوچھا، ’’بھاگو تمھیں پلیگ سے ڈر بھی نہیں لگتا؟‘‘
’’نہیں بابوجی۔۔۔ بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہو گا۔ آپ اِتے بڑے حکیم ٹھہرے، ہزاروں نے آپ کے ہاتھ سے شفا پائی۔ مگر جب میری آئی ہو گی تو آپ کا دارو درمن بھی کچھ اثر نہ کرے گا۔۔۔ ہاں بابوجی۔۔۔ آپ بُرا نہ مانیں۔ میں ٹھیک اور صاف صاف کہہ رہا ہوں۔‘‘ اور پھر گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا، ’’کچھ کونٹین کی کہیے بابوجی۔۔۔ کونٹین کی۔‘‘
’’وہاں کوارنٹین میں ہزاروں مریض آ گئے ہیں۔ ہم حتّی الوسع ان کا علاج کرتے ہیں۔ مگر کہاں تک، نیز میرے ساتھ کام کرنے والے خود بھی زیادہ دیر اُن کے درمیان رہنے سے گھبراتے ہیں۔ خوف سے ان کے گلے اور لب سوکھے رہتے ہیں۔ پھر تمھاری طرح کوئی مریض کے منھ کے ساتھ منھ نہیں جا لگاتا۔ نہ کوئی تمھاری طرح اتنی جان مارتا ہے۔۔۔ بھاگو ! خدا تمھارا بھلا کرے۔ جو تم بنی نوع انسان کی اس قدر خدمت کرتے ہو۔‘‘
بھاگو نے گردن جھکا دی اور منڈاسے کے ایک پلّو کو منھ پر سے ہٹا کر شراب کے اثر سے سرخ چہرے کو دکھاتے ہوئے بولا، ’’بابوجی، میں کس لائق ہوں۔ مجھ سے کسی کا بھلا ہو جائے، میرا یہ نکمّا تن کسی کے کام آ جائے، اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ بابوجی بڑے پادری لابے (ریورینڈ مونت ل، آبے) جو ہمارے محلوں میں اکثر پرچار کے لیے آیا کرتے ہیں، کہتے ہیں، خداوند یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑا دو۔۔۔ میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
میں نے بھاگو کی ہمّت کو سراہنا چاہا، مگر کثرتِ جذبات سے میں رُک گیا۔ اس کی خوش اعتقادی اور عملی زندگی کو دیکھ کر میرے دل میں ایک جذبۂ رشک پیدا ہوا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ آج کوارنٹین میں پوری تن دہی سے کام کر کے بہت سے مریضوں کو بقیدِ حیات رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کو آرام پہنچانے میں اپنی جان تک لڑا دوں گا۔ مگر کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کوارنٹین میں پہنچ کر جب میں نے مریضوں کی خوفناک حالت دیکھی اور ان کے منھ سے پیدا شدہ تعفّن میرے نتھنوں میں پہنچا، تو میری روح لرز گئی اور بھاگو کی تقلید کرنے کی ہمت نہ پڑی۔
تاہم اس دن بھاگو کو ساتھ لے کر میں نے کوارنٹین میں بہت کام کیا۔ جو کام مریض کے زیادہ قریب رہ کر ہو سکتا تھا، وہ میں نے بھاگو سے کرایا اور اس نے بلا تامل کیا۔۔۔ خود میں مریضوں سے دُور دُور ہی رہتا، اس لیے کہ میں موت سے بہت خائف تھا اور اس سے بھی زیادہ کوارنٹین سے۔
مگر کیا بھاگو موت اور کوارنٹین، دونوں سے بالاتر تھا؟
اس دن کوارنٹین میں چار سو کے قریب مریض داخل ہوئے اور اڑھائی سو کے لگ بھگ لقمۂ اجل ہو گئے!
یہ بھاگو کی جانبازی کا صدقہ ہی تھا کہ میں نے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا۔ وہ نقشہ جو مریضوں کی رفتارِ صحت کے متعلق چیف میڈیکل آفیسر کے کمرے میں آویزاں تھا، اس میں میرے تحت میں رکھے ہوئے مریضوں کی اوسط صحت کی لکیر سب سے اونچی چڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ میں ہر روز کسی نہ کسی بہانہ سے اس کمرہ میں چلا جاتا اور اس لکیر کو سو فیصدی کی طرف اوپر ہی اوپر بڑھتے دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا۔
ایک دن میں نے برانڈی ضرورت سے زیادہ پی لی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نبض گھوڑے کی طرح دوڑنے لگی اور میں ایک جنونی کی مانند اِدھر اُدھر بھاگنے لگا ۔ مجھے خود شک ہونے لگا کہ پلیگ کے جراثیم نے مجھ پر آخرکار اپنا اثر کر ہی دیا ہے اور عنقریب ہی گلٹیاں میرے گلے یا رانوں میں نمودار ہوں گی۔ میں بہت سراسیمہ ہو گیا۔ اس دن میں نے کوارنٹین سے بھاگ جانا چاہا۔ جتنا عرصہ بھی میں وہاں ٹھہرا، خوف سے کانپتا رہا۔ اس دن مجھے بھاگو کو دیکھنے کا صرف دو دفعہ اتفاق ہوا۔
دوپہر کے قریب میں نے اسے ایک مریض سے لپٹے ہوئے دیکھا۔ وہ نہایت پیار سے اس کے ہاتھوں کو تھپک رہا تھا۔ مریض میں جتنی بھی سکت تھی اسے جمع کرتے ہوئے اس نے کہا، ’’بھئی اللہ ہی مالک ہے۔ اس جگہ تو خدا دشمن کو بھی نہ لائے۔ میری دو لڑکیاں۔۔۔‘‘
بھاگو نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا، ’’خداوند یسوع مسیح کا شکر کرو بھائی۔۔۔ تم تو اچھے دکھائی دیتے ہو۔‘‘
’’ہاں بھائی شکر ہے خدا کا۔۔۔ پہلے سے کچھ اچھا ہی ہوں۔ اگر میں کوارنٹین۔۔۔‘‘
ابھی یہ الفاظ اس کے منھ میں ہی تھے کہ اس کی نسیں کھچ گئیں۔ اس کے منھ سے کف جاری ہو گیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں۔ کئی جھٹکے آئے اور وہ مریض، جو ایک لمحہ پہلے سب کو اور خصوصاً اپنے آپ کو اچھا دکھائی دے رہا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ بھاگو اس کی موت پر دکھائی نہ دینے والے خون کے آنسو بہانے لگا اور کون اس کی موت پر آنسو بہاتا۔ کوئی اس کا وہاں ہوتا تو اپنے جگر دوز نالوں سے ارض و سما کو شق کر دیتا۔ ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا۔۔۔ ایک دن اس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجز و انکسار سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے گناہ کے کفارہ کے طور پر بھی پیش کیا۔
اسی دن شام کے قریب بھاگو میرے پاس دوڑا دوڑا آیا۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ ایک دردناک آواز سے کراہ رہا تھا۔ بولا، ’’بابوجی۔۔۔ یہ کونٹین تو دوزخ ہے۔ دوزخ۔ پادری لابے اسی قسم کی دوزخ کا نقشہ کھینچا کرتا تھا۔۔۔‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں بھائی، یہ دوزخ سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔ میں تو یہاں سے بھاگ نکلنے کی ترکیب سوچ رہا ہوں۔۔۔ میری طبیعت آج بہت خراب ہے۔‘‘
’’بابوجی اس سے زیادہ اور کیا بات ہو سکتی ہے۔۔۔ آج ایک مریض جو بیماری کے خوف سے بے ہوش ہو گیا تھا، اسے مردہ سمجھ کر کسی نے لاشوں کے ڈھیروں میں جا ڈالا۔ جب پٹرول چھڑکا گیا اور آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تو میں نے اسے شعلوں میں ہاتھ پانوں مارتے دیکھا۔ میں نے کود کر اسے اٹھا لیا۔ بابوجی! وہ بہت بُری طرح جھلسا گیا تھا۔۔۔ اسے بچاتے ہوئے میرا دایاں بازو بالکل جل گیا ہے۔‘‘
میں نے بھاگو کا بازو دیکھا۔ اس پر زرد زرد چربی نظر آ رہی تھی۔ میں اسے دیکھتے ہوئے لرز اٹھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا وہ آدمی بچ گیا ہے۔ پھر۔۔۔؟‘‘
’’بابوجی۔۔۔ وہ کوئی بہت شریف آدمی تھا۔ جس کی نیکی اور شریفی (شرافت) سے دنیا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی، اتنے درد و کرب کی حالت میں اس نے اپنا جھلسا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اور اپنی مریل سی نگاہ میری نگاہ میں ڈالتے ہوئے اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔‘‘
’’۔۔۔اور بابوجی‘‘ بھاگو نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اتنا تڑپا، اتنا تڑپا کہ آج تک میں نے کسی مریض کو اس طرح جان توڑتے نہیں دیکھا ہو گا۔۔۔ اس کے بعد وہ مر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا جو میں اسے اسی وقت جل جانے دیتا۔ اسے بچا کر میں نے اسے مزید دکھ سہنے کے لیے زندہ رکھا اور پھر وہ بچا بھی نہیں۔ اب ان ہی جلے ہوئے بازوؤں سے میں پھر اسے اسی ڈھیر میں پھینک آیا ہوں۔۔۔‘‘
اس کے بعد بھاگو کچھ بول نہ سکا۔ درد کی ٹیسوں کے درمیان اس نے رُکتے رُکتے کہا، ’’آپ جانتے ہیں۔۔۔ وہ کس بیماری سے مرا؟ پلیگ سے نہیں۔۔۔ کونٹین سے۔۔۔ کونٹین سے!‘‘
اگرچہ ہمہ یاراں دوزخ کا خیال اس لامتناہی سلسلۂ قہر و غضب میں لوگوں کو کسی حد تک تسلی کا سامان بہم پہنچاتا تھا، تاہم مقہور بنی آدم کی فلک شگاف صدائیں تمام شب کانوں میں آتی رہتیں۔ ماؤں کی آہ و بُکا، بہنوں کے نالے، بیویوں کے نوحے، بچوں کی چیخ و پکار شہر کی اس فضا میں، جس میں کہ نصف شب کے قریب اُلّو بھی بولنے سے ہچکچاتے تھے، ایک نہایت الم ناک منظر پیدا کرتی تھی۔ جب صحیح و سلامت لوگوں کے سینوں پر منوں بوجھ رہتا تھا، تو اُن لوگوں کی حالت کیا ہو گی جو گھروں میں بیمار پڑے تھے اور جنھیں کسی یرقان زدہ کے مانند درو دیوار سے مایوسی کی زردی ٹپکتی دکھائی دیتی تھی اور پھر کوارنٹین کے مریض، جنھیں مایوسی کی حد سے گزر کر ملک الموت مجسم دکھائی دے رہا تھا، وہ زندگی سے یوں چمٹے ہوئے تھے، جیسے کسی طوفان میں کوئی کسی درخت کی چوٹی سے چمٹا ہوا ہو، اور پانی کی تیزو تند لہریں ہر لحظہ بڑھ کر اس چوٹی کو بھی ڈبو دینے کی آرزومند ہوں۔
میں اس روز توہم کی وجہ سے کوارنٹین بھی نہ گیا۔ کسی ضروری کام کا بہانہ کر دیا۔ اگرچہ مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی رہی۔۔۔ کیوں کہ یہ بہت ممکن تھا کہ میری مدد سے کسی مریض کو فائدہ پہنچ جاتا۔ مگر اس خوف نے جو میرے دل و دماغ پر مسلّط تھا، مجھے پا بہ زنجیر رکھا۔ شام کو سوتے وقت مجھے اطلاع ملی کہ آج شام کوارنٹین میں پانچ سو کے قریب مزید مریض پہنچے ہیں۔
میں ابھی ابھی معدے کو جلا دینے والی گرم کافی پی کر سونے ہی والا تھا کہ دروازے پر بھاگو کی آواز آئی۔ نوکر نے دروازہ کھولا تو بھاگو ہانپتا ہوا اندر آیا۔ بولا، ’’بابو جی۔۔۔ میری بیوی بیمار ہو گئی۔۔۔ اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں۔۔۔ خدا کے واسطے اسے بچاؤ۔۔۔ اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی ہلاک ہو جائے گا۔
بجائے گہری ہمدردی کا اظہار کرنے کے، میں نے خشمگیں لہجہ میں کہا، ’’اس سے پہلے کیوں نہ آسکے۔۔۔ کیا بیماری ابھی ابھی شروع ہوئی ہے؟‘‘
’’صبح معمولی بخار تھا۔۔۔ جب میں کونٹین گیا۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ وہ گھر میں بیمار تھی۔ اور پھر بھی تم کوارنٹین گئے؟‘‘
’’جی بابوجی۔۔۔’’ بھاگو نے کانپتے ہوئے کہا۔ ’’وہ بالکل معمولی طور پر بیمار تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید دودھ چڑھ گیا ہے۔۔۔ اس کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں۔۔۔ اور پھر میرے دونوں بھائی گھر پر ہی تھے۔۔۔ اور سینکڑوں مریض کونٹین میں بے بس۔۔۔‘‘
’’تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھر لے ہی آئے نا۔ میں نہ تم سے کہتا تھا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو۔۔۔ دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اس میں سب تمھارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم سے جانباز کو اپنی جانبازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے ۔ جہاں شہر میں سینکڑوں مریض پڑے ہیں۔۔۔‘‘
بھاگو نے ملتجیانہ انداز سے کہا، ’’مگر خداوند یسوع مسیح۔۔۔‘‘
’’چلو ہٹو۔۔۔ بڑے آئے کہیں کے۔۔۔ تم نے جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالا۔ اب اس کی سزا میں بھگتوں؟ قربانی ایسے تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ میں اتنی رات گئے تمھاری کچھ مدد نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘
’’مگر پادری لابے۔۔۔‘‘
’’چلو۔۔۔ جاؤ۔۔۔ پادری ل، آبے کے کچھ ہوتے۔۔۔‘‘
بھاگو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ اس کے آدھ گھنٹہ بعد جب میرا غصہ رفو ہوا تو میں اپنی حرکت پر نادم ہونے لگا۔ میں عاقل کہاں کا تھا جو بعد میں پشیمان ہو رہا تھا۔ میرے لیے یہی یقینا سب سے بڑی سزا تھی کہ اپنی تمام خودداری کو پامال کرتے ہوئے بھاگو کے سامنے گزشتہ رویہ پر اظہارِ معذرت کرتے ہوئے اس کی بیوی کا پوری جانفشانی سے علاج کروں۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور دوڑادوڑا بھاگو کے گھر پہنچا۔۔۔ وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ بھاگو کے دونوں چھوٹے بھائی اپنی بھاوج کو چارپائی پر لٹائے ہوئے باہر نکال رہے تھے۔۔۔
میں نے بھاگو کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’اسے کہاں لے جا رہے ہو؟
بھاگو نے آہستہ سے جواب دیا، ’’کونٹین میں۔۔۔‘‘
’’تو کیا اب تمھاری دانست میں کوارنٹین دوزخ نہیں۔۔۔ بھاگو۔۔۔؟‘‘
’’آپ نے جو آنے سے انکار کر دیا، بابو جی۔۔۔ اور چارا ہی کیا تھا۔ میرا خیال تھا، وہاں حکیم کی مدد مل جائے گی اور دوسرے مریضوں کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھوں گا۔‘‘
’’یہاں رکھ دو چارپائی۔۔۔ ابھی تک تمھارے دماغ سے دوسرے مریضوں کا خیال نہیں گیا۔۔۔؟ احمق۔۔۔‘‘
چارپائی اندر رکھ دی گئی اور میرے پاس جو تیر بہ ہدف دوا تھی، میں نے بھاگو کی بیوی کو پلائی اور پھر اپنے غیر مرئی حریف کا مقابلہ کرنے لگا۔ بھاگو کی بیوی نے آنکھیں کھول دیں۔
بھاگو نے ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’’آپ کا احسان ساری عمر نہ بھولوں گا، بابوجی۔‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے اپنے گزشتہ رویہ پر سخت افسوس ہے بھاگو۔۔۔ ایشور تمھیں تمھاری خدمات کا صلہ تمھاری بیوی کی شفا کی صورت میں دے۔‘‘
اسی وقت میں نے اپنے غیر مرئی حریف کو اپنا آخری حربہ استعمال کرتے دیکھا۔ بھاگو کی بیوی کے لب پھڑکنے لگے۔ نبض جو کہ میرے ہاتھ میں تھی، مدھم ہو کر شانہ کی طرف سرکنے لگی۔ میرے غیر مرئی حریف نے جس کی عموماً فتح ہوتی تھی، حسبِ معمول پھر مجھے چاروں شانے چت گرایا۔ میں نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا، ’’بھاگو ! بدنصیب بھاگو! تمھیں اپنی قربانی کا یہ عجیب صلہ ملا ہے۔۔۔ آہ!‘‘
بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ نظارہ کتنا دل دوز تھا، جب کہ بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لیے علاحدہ کر دیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔
میرا خیال تھا کہ اب بھاگو اپنی دنیا کو تاریک پاکر کسی کا خیال نہ کرے گا۔۔۔ مگر اس سے اگلے روز میں نے اسے بیش از پیش مریضوں کی امداد کرتے دیکھا۔ اس نے سینکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے بچا لیا۔۔۔ اور اپنی زندگی کو ہیچ سمجھا۔ میں نے بھی بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کیا۔ کوارنٹین اور ہسپتالوں سے فارغ ہو کر اپنے فالتو وقت میں نے شہر کے غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر، جو کہ بدروؤں کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے، یا غلاظت کے سبب بیماری کے مسکن تھے، رجوع کیا۔
اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔
شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔
ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی، وہ یہ تھی کہ بازار میں گزرتے وقت چاروں طرف سے انگلیاں مجھی پر اٹھتیں۔ لوگ احسان مندانہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے۔ اخباروں میں تعریفی کلمات کے ساتھ میری تصاویر چھپیں۔ اس چاروں طرف سے تحسین و آفرین کی بوچھار نے میرے دل میں کچھ غرور سا پیدا کر دیا۔
آخر ایک بڑا عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں شہر کے بڑے بڑے رئیس اور ڈاکٹر مدعو کیے گئے۔ وزیر بلدیات نے اس جلسہ کی صدارت کی۔ میں صاحبِ صدر کے پہلو میں بٹھایا گیا، کیوں کہ وہ دعوت دراصل میرے ہی اعزاز میں دی گئی تھی۔ ہاروں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جاتی تھی اور میری شخصیت بہت نمایاں معلوم ہوتی تھی۔ پُر غرور نگاہ سے میں کبھی ادھر دیکھتا کبھی اُدھر۔۔۔ ’’بنی آدم کی انتہائی خدمت گزاری کے صلہ میں کمیٹی، شکر گزاری کے جذبہ سے معمور ایک ہزار ایک روپئے کی تھیلی بطور ایک حقیر رقم میری نذر کر رہی تھی۔‘‘
جتنے بھی لوگ موجود تھے، سب نے میرے رفقائے کار کی عموماً اور میری خصوصاً تعریف کی اور کہا کہ گزشتہ آفت میں جتنی جانیں میری جانفشانی اور تن دہی سے بچی ہیں، ان کا شمار نہیں۔ میں نے نہ دن کو دن دیکھا، نہ رات کو رات، اپنی حیات کو حیاتِ قوم اور اپنے سرمایہ کو سرمایۂ ملت سمجھا اور بیماری کے مسکنوں میں پہنچ کر مرتے ہوئے مریضوں کو جامِ شفا پلایا!
وزیر بلدیات نے میز کے بائیں پہلو میں کھڑے ہو کر ایک پتلی سی چھڑی ہاتھ میں لی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی توجہ اس سیاہ لکیر کی طرف دلائی جو دیوار پر آویزاں نقشے میں بیماری کے دنوں میں صحت کے درجہ کی طرف ہر لحظہ افتاں و خیزاں بڑھی جا رہی تھی۔ آخر میں انھوں نے نقشہ میں وہ دن بھی دکھایا جب میرے زیر نگرانی چوّن (54) مریض رکھے گئے اور وہ تمام صحت یاب ہو گئے۔ یعنی نتیجہ سو فیصدی کامیابی رہا اور وہ سیاہ لکیر اپنی معراج کو پہنچ گئی۔
اس کے بعد وزیر بلدیات نے اپنی تقریر میں میری ہمت کو بہت کچھ سراہا اور کہا کہ لوگ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ بخشی جی اپنی خدمات کے صلہ میں لفٹیننٹ کرنل بنائے جا رہے ہیں۔
ہال تحسین و آفرین کی آوازوں اور پُر شور تالیوں سے گونج اُٹھا۔
ان ہی تالیوں کے شور کے درمیان میں نے اپنی پُر غرور گردن اٹھائی۔ صاحبِ صدر اور معزز حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک لمبی چوڑی تقریر کی، جس میں علاوہ اور باتوں کے میں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی توجہ کے قابل ہسپتال اور کوارنٹین ہی نہیں تھے، بلکہ ان کی توجہ کے قابل غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر تھے۔ وہ لوگ اپنی مدد کے بالکل ناقابل تھے اور وہی زیادہ تر اس موذی بیماری کا شکار ہوئے۔ میں اور میرے رفقا نے بیماری کے صحیح مقام کو تلاش کیا اور اپنی توجہ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں صرف کر دی۔ کوارنٹین اور ہسپتال سے فارغ ہو کر ہم نے راتیں ان ہی خوفناک مسکنوں میں گزاریں۔
اسی دن جلسہ کے بعد جب میں بطور ایک لفٹیننٹ کرنل کے اپنی پُرغرور گردن کو اُٹھائے ہوئے، ہاروں سے لدا پھندا، لوگوں کا ناچیز ہدیہ، ایک ہزار ایک روپئے کی صورت میں جیب میں ڈالے ہوئے گھر پہنچا، تو مجھے ایک طرف سے آہستہ سی آواز سنائی دی۔
’’بابو جی۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
اور بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پُرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔
’’تم ہو۔۔۔؟ بھاگو بھائی!‘‘ میں نے بہ مشکل تمام کہا۔۔۔ ’’دنیا تمھیں نہیں جانتی بھاگو، تو نہ جانے۔۔۔ میں تو جانتا ہوں۔ تمھارا یسوع تو جانتا ہے۔۔۔ پادری ل، آبے کے بے مثال چیلے۔۔۔ تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔۔۔!‘‘
اس وقت میرا گلا سوکھ گیا۔ بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میری آنکھوں میں کھچ گئی۔ ہاروں کے بارِ گراں سے مجھے اپنی گردن ٹوٹتی ہوئی معلوم ہوئی اور بٹوے کے بوجھ سے میری جیب پھٹنے لگی۔ اور۔۔۔ اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہو کر اس قدرشناس دنیا کا ماتم کرنے لگا......!!

( راجندر سنگھ بیدی ۔ مجموعے “دانہ و دام” سے منتخب افسانہ بعنوان “کوارنٹین” )
 

سیما علی

لائبریرین
“The trouble with words is that they give us the illusory sense that we are making ourselves understood as well as understanding what others are saying. However, when we turn around and come face-to-face with our destiny, we discover that words are not enough....!!”

( Paulo Coelho. From the novel “Aleph” )
 
Top