پسندیدہ اقتباسات

ساقی۔

محفلین
آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں اور کوئی پیرا گراف دل کو چھو جائے تو شیئر کرنا مت بھولیئے






سمندر سب کے لیے ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اس میں سے موتی تلاش کر لیتے ہیں ، کچھ مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں اور کچھ کو سمندر سے کھارے پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا ۔
بادل سے برسنے والا پانی ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔
زرحیز زمین اسی پانی سے سبزہ اگا لیتی ہے ،
صحرا کی ریت اس پانی سے اپنی پیاس بجھاتی ہے اور وہی پانی چکنے پتھروں کو محض چھو کر گزر جاتا ہے ۔
اللہ کی رحمت ہر دل کے لیے ایک جیسی ہے
اب یہ ھم پر ہے کہ ہم پر اسکا کتنا رنگ چڑھتا ہے۔
" اور اللہ کا رنگ سب رنگوں سے بہتر ہے "

پیا رنگ کالا سے اقتباس
 

ساقی۔

محفلین
ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔

اشفاق احمد
زاویہ دوم سے اقتباس
 

ساقی۔

محفلین
آپ جانتے ہیں کہ ننھے سے بیج میں کتنی معمولی طاقت ہوتی ہے۔لیکن وہ گھٹن کے لمحے گذار کر زمین کا سینہ چیرنے میں بالآخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے ۔ اور بوجھ برداشت کرنے کے بعد اس میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ کرہ ارض کو پھاڑ کر باہر آجاتا ہے ۔

جو ہم مشکل پڑنے پر " بھیں بھیں " رونا شروع کر دیتے ہیں تو یہ بڑی ندامت کی بات ہے ۔ ایک ننھا بیج اگر گھٹن اور سختیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے تو ہمیں جان کے لالے کیوں پڑ جاتے ہیں ۔

(اشفاق احمد زاویہ 3 ۔ صفحہ 166)
 

ساقی۔

محفلین
زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہیے۔جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھول جانے کی عادت۔یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا لیتی ہے۔(امر بیل از عمیرہ احمد)
 

نوشاب

محفلین
وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھہ حالات ضرور بدل جائیں گے،
بس ذرا سا اندر ہی اندر مُسکرانے کی ضرورت ہے- یہ ایک راز ہے جو سکولوں، یونیورسٹیوں
اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا-



مسکرانا سیکھنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو اتنا"چیڑا“ (سخت) نہ بنا لیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں-


اشفاق احمد
 

ساقی۔

محفلین
کون کہتا ہے، انسان نےاس جدید دور میں میزائل، بم اور ڈرون ایجاد کر کے تباہی پھیلائی ہے- جتنا گہرا گھاؤ انسان کی زبان کسی انسان کے دل میں لگا سکتی ہے، اس کی کاٹ اور زخم کا مقابلہ، یہ نئے دور کے ہتھیار کسی صورت نہیں کر سکتے. کبھی کبھی میں سوچتا کہ ایٹم بم کے موجد کو شاید زبان کے زہر کا ٹھیک طرح سے ادراک نہیں ہوگا، ورنہ اسے دنیا برباد کرنے کے لئے اتنی محنت نہ کرنا پڑتی-”

پری زاد از ہاشم ندیم
 

ساقی۔

محفلین
باباجی کہتے ہیں پتر درد وہ ہوتا ہے جو ہمیں دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہوورنہ اپنا درد تو جانوروں کو بھی محسوس ہوتا ہے

اشفاق احمد
 

ساقی۔

محفلین
ایک مرتبہ اشفاق احمد اور ان کی اہلیہ بانو قدسیہ میں بحث چھڑ گئی کہ “محبوب ” کی تعریف کیا ہے۔ دونوں کافی دیر تک بحث کرتے رہے یہاں تک کہ رات ہوگئی اور وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ چنانچہ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے استاد کے پاس چلتے ہیں اور ان سے دریافت کرتے ہیں۔ وہ جب استاد کے پاس پہنچے تو وہ کھانا پکا رہے تھے۔ دونوں نے ان سے دریافت کیا :” حضرت یہ بتائیے کہ محبوب کسے کہتے ہیں”۔ استاد نے فرمایا:
“محبوب وہ ہے جس کا (بظاہر ) ناٹھیک بھی ٹھیک لگے”۔
 

ساقی۔

محفلین
مولانا وحید الدین سلیم کے مضمون سے انتحاب
x45emx.jpg
 

ساقی۔

محفلین
اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی.
اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا

" تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟"

میں نے تڑپ کر کہا

" میں سچ لکھوں گا اماں اور سچ کا پرچار کروں گا.
لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں.
میں انھیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا۔۔۔۔۔۔۔

میری ماں فکر مند سی ہو گئی.
اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا
اور کوئیلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا :
" اگر تو نے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا '
دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا.
ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!!

اشفاق احمد
 
Top