فارسی و اُردو میں ایک ضربالمثَل رائج رہی ہے کہ «قهرِ درویش به جانِ درویش»۔۔۔ یعنی درویشِ بےچارہ کا زور فقط اپنی ذات پر چلتا ہے، اور وہ کمزور شخص صِرف خود پر قہر کرنے کی قُدرت رکھتا ہے، لہٰذا اگر وہ کسی دیگر شخص پر بھی خشمگین ہو تو وہ خود ہی کو اپنے خشْم کا ہدف بناتا ہے۔۔۔ «پختونخوا» کے شاعر «کاظِم خان شَیدا» کی ایک بیت میں اُس ضربالمثَل کا استعمال نظر آیا ہے:
د دروېش قهر همېش په خپل صورت وي
ستا له جوره چه په خپل خاطر عتاب کړم
(کاظم خان شَیدا)
[اے یار!] میں تمہارے جَور و سِتم کے سبب جو خود کے قلب و جان پر عِتاب کرتا ہوں [تو اُس کا باعث یہ ہے کہ] درویش کا قہر ہمیشہ اپنے ہی جسم و جان پر ہوتا ہے۔