محمد عظیم الدین
محفلین
ہمیں تو یہ منطق آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اردو میں کوئی چٹکلا چھوڑے تو اہل ذوق کہتے ہیں کہ کیا فقرہ چست کیا ہے لیکن اسی فقرے کو اگر پنجابی میں کہہ دے تو کہتے ہیں "جگتاں کردا اے"۔ ہمارے ذاتی تجربے کیا بنیاد پر اس طرح کے ناانصافی والے رویے کی وجوہات تین طرح کی ہیں۔ ایک پنجابی زبان سے ناواقفیت، دوسری احساس کمتری اور تیسری بڑھاپا۔
پہلی وجہ پنجابی سے ناواقفیت ہونا کوئی بری بات نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں ہم بھی اس سے نا آشنا تھے۔ اور خود کو ایسے ماحول میں اجنبی محسوس کرتے تھے جہاں پنجابی میں چست فقروں (یعنی جگتوں) کا تبادلہ خیال ہو رہا ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں یا تو ہم ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے اور دل میں کہہ رہے ہوتے "ابے کمبختوں کچھ مجھے بھی تو سمجھاؤ"۔ خیر یہ صورت حال زیادہ دیر ہم سے برداشت نہ ہوئی کیونکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ محفل میں چست فقرے پر ہنستے ہوئے لوگ ہماری طرف دیکھنے لگتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ "لگ گئی اے" سو ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ہم نے بھی قہقہ لگانا شروع کردیا۔ جس کے نتائج زیادہ بھیانک نکلے۔ جیسے کہ ایسی ہی ایک محفل میں ہمارے قہقہ لگانے پر دوسرے حضرات کے قہقوں میں اضافہ ہوگیا تو کسی نے کان میں آکر کہا "اوئے چولا بزتی والی گل سی"۔ تب ہم نے تہیہ کر لیا کہ کچھ نہ کچھ تو پنجابی سیکھنی ہی پڑے گی۔ خیر کچھ دوستوں نے اور کچھ کمی پنجابی اسٹیج ڈراموں نے پوری کردی (واللہ جب سے واہیاتی شروع ہوئی ہے اسٹیج ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، مگر کوئی مانتا ہی نہیں)۔ اس طرح نہ صرف پنجابی کے چست فقروں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگ گئی بلکہ کچھ چست فقرے ہم بھی کہنے لگ گئے جیسے "شکل ویکھ لو، جویں کاں سُتّا ہوندا اے" وغیرو وغیرہ۔
پنجابی سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگ اکثر چست فقرے کسنے والوں کو اردو میں کوستے پائے جاتے ہیں مثلاً جاہل، اجڈ، گنوار، پینڈو، بد تہذیب وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں وہ لوگ خود ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ ایسے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ "پائی جی جے تہانو سمجھ نہیں آندی تے ایدے وچ ساڈا کی قصور اے"۔
دوسری وجہ احساس کمتری، یہ عموماً انھی لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خود پنجابی ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور اعلی پائے کے چست فقرے (بتانے کی ضرورت نہیں کے لکھاری کی مراد جگتیں ہے) کسنا جانتے ہیں۔ مگر ان کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ پنجابی بولنے پر لوگ ان کو ان پڑھ، جاہل، اجڈ وغیرہ وغیرہ کہیں گے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ ان بیچاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ گفتگو حتی الامکان اردو میں کی جائے لیکن کہیں کہیں مار کھا جاتے ہیں مثلاً "مارے نا گھر میں آج پرونے آئے ہوئے ہیں"۔ ہنسنے کی ضرورت نہیں یہ عام بول چال کا فقرہ ہے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے اکثر لوگ گلابی اردو بولنے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ اصل پنجابی بولی جائے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کے مخاطب کو پنجابی نہ آتی ہو ایسے میں یہ صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ"چھڈو مجھ تھلے جاندا کٹے تھلے"۔ قارئین اس سے غلط مطلب اخذ نہ کریں، خاص طور پر پنجابی سے ناواقف اس جملے کے ظاہری معنی پر تو بالکل نہ جائیں۔ کسی پنجابی دوست کی مدد لے کر اسے سمجھ لیں ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر ہی فتوی نہ لگ جائے۔
تیسری طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو خواہ مخواہ حد سے زیادہ سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بڑھاپے کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ان کے سامنے جتنے مرضی چست فقرے کسے جائیں مجال ہے جو ٹس سے مس ہو جائیں بلکہ آگے سے کہتے ہیں "اس میں ہنسنا کہاں تھا"۔ ایسے حضرات کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت پختہ ہوچکی ہوتی ہے اور زیادہ چھیڑ چھاڑ سے وہی جاہل، اجڈ، گنوار وغیر وغیرہ کا لیکچر شروع ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ایک نصیحت یہ ہے کہ اگر مخاطب پنجابی سے ناواقف ہو تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ "جناب میں نے تو فلاں صوفی بزرگ کا شعر پڑھا ہے" اس پر آپ کی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن اگر مخاطب پنجابی سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اس تیسری قسم کے لوگوں میں شامل ہے تو پھر آپ کو خود اس صورتحال سے نکلنا ہوگا۔ ویسے بھی تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔
ویسے جن لوگوں کو پنجابی کے محاورے اچھے لگتے ہیں اور وہ بوقت ضرورت ان کو استعمال بھی کرتے ہیں ان کو کسی بھی غیر معمولی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے اس کے لیے ایک تجویز یہ ہے کہ پنجابی محاوروں کا اردو ترجمہ (محاورتاً، فقط الفاظ کا ترجمہ مزید گھمبیر صورتحال پیدا کر سکتا ہے) ذہن میں رکھیں۔
قارئین کی آسانی کے لیے چند عام استعمال کے پنجابی محاورے اردو ترجمے کے ساتھ پیش خدمت ہیں ان کے اصطلاحی معنی خود تلاش کر کے اپنی ذمے داری پر استعمال کیے جائیں۔ الٹ نتائج کی ذمے داری لکھاری پرنہیں۔
تھک اچ پکوڑے تلنا
تھوک میں پکوڑے تلنا
اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا
اپنی چارپائی کے نیچے ڈنڈا پھیرنا، اسی طرح کے الفاظ سے ملتا جلتا ایک واہیات سا گانا بھی ہے۔ اس کا اس محاورے سے کوئی تعلق نہیں۔
آ جا کے کھوتی بوہڑ تھلے
آ جا کر گدھی برگد کے درخت کے نیچے کھڑی ہو جاتی ہے
جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی
جہاں کی گدھی تھی وہیں آکر کھڑی ہوگئی
کھوتی تھانیوں ہو آئی اے
گدھی پولیس اسٹیشن سے ہوآئی ہے
مجاں مجاں دیاں پیناں ہوندیاں نے
بھینسیں آپس میں بہنیں ہوتی ہیں
مج تھلے دد کینے چھڈیا اے
بھینس کے نیچے دودھ کس نے چھوڑا ہے
آٹا گندی ہلدی کیوں آے
آتا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے
کہنا دھی نوں تے سنانا نو نوں
بات کرنی بیٹی سے مگر طعنہ بہو کو
کھوتا کھوہ وچ
گدھا کنویں میں
ذات دی کوڑ کرلی ، شہتیراں نال جپھے
ذات کی چھپکلی ہے اور شہتیروں کے ساتھ گلے لگتی ہے۔
گجی گجی لومڑی تے پداں د ا سواد
اس کا ترجمہ ہمیں نہیں معلوم، قارئین میں سے کوئی بتا دے تو ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا
یہ فقظ چند محاورے ہیں، اس کے علاوہ بھی کچھ ذہن میں ہیں لیکن ڈر ہے کہ ہمیں ان محاوروں سمیت بین نہ کر دیا جائے لہذا یہ تجسس قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود تحقیق کر لیں۔ قارئین کے پاس اگر اس کے علاوہ ایسے محاورے ہیں جو روز مرہ میں استعمال ہوتے ہوں اور جن کے معنی ،ذو معنی نہ ہوں وہ ضرور دوسروں کی معلومات کے لیے شئیر کرکے اس کار خیر میں حصہ لیں۔
(قارئین سنجیدہ ہونے کے بجائے اس تحریر کو مزاح کے طور پر لیں۔ پھر بھی کوئی کیڑا زیادہ تنگ کرے "تے جو مرضی کہے جاؤ اسی کہیڑا مڑ جانا اے")۔
پہلی وجہ پنجابی سے ناواقفیت ہونا کوئی بری بات نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں ہم بھی اس سے نا آشنا تھے۔ اور خود کو ایسے ماحول میں اجنبی محسوس کرتے تھے جہاں پنجابی میں چست فقروں (یعنی جگتوں) کا تبادلہ خیال ہو رہا ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں یا تو ہم ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے اور دل میں کہہ رہے ہوتے "ابے کمبختوں کچھ مجھے بھی تو سمجھاؤ"۔ خیر یہ صورت حال زیادہ دیر ہم سے برداشت نہ ہوئی کیونکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ محفل میں چست فقرے پر ہنستے ہوئے لوگ ہماری طرف دیکھنے لگتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ "لگ گئی اے" سو ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ہم نے بھی قہقہ لگانا شروع کردیا۔ جس کے نتائج زیادہ بھیانک نکلے۔ جیسے کہ ایسی ہی ایک محفل میں ہمارے قہقہ لگانے پر دوسرے حضرات کے قہقوں میں اضافہ ہوگیا تو کسی نے کان میں آکر کہا "اوئے چولا بزتی والی گل سی"۔ تب ہم نے تہیہ کر لیا کہ کچھ نہ کچھ تو پنجابی سیکھنی ہی پڑے گی۔ خیر کچھ دوستوں نے اور کچھ کمی پنجابی اسٹیج ڈراموں نے پوری کردی (واللہ جب سے واہیاتی شروع ہوئی ہے اسٹیج ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، مگر کوئی مانتا ہی نہیں)۔ اس طرح نہ صرف پنجابی کے چست فقروں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگ گئی بلکہ کچھ چست فقرے ہم بھی کہنے لگ گئے جیسے "شکل ویکھ لو، جویں کاں سُتّا ہوندا اے" وغیرو وغیرہ۔
پنجابی سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگ اکثر چست فقرے کسنے والوں کو اردو میں کوستے پائے جاتے ہیں مثلاً جاہل، اجڈ، گنوار، پینڈو، بد تہذیب وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں وہ لوگ خود ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ ایسے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ "پائی جی جے تہانو سمجھ نہیں آندی تے ایدے وچ ساڈا کی قصور اے"۔
دوسری وجہ احساس کمتری، یہ عموماً انھی لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خود پنجابی ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور اعلی پائے کے چست فقرے (بتانے کی ضرورت نہیں کے لکھاری کی مراد جگتیں ہے) کسنا جانتے ہیں۔ مگر ان کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ پنجابی بولنے پر لوگ ان کو ان پڑھ، جاہل، اجڈ وغیرہ وغیرہ کہیں گے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ ان بیچاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ گفتگو حتی الامکان اردو میں کی جائے لیکن کہیں کہیں مار کھا جاتے ہیں مثلاً "مارے نا گھر میں آج پرونے آئے ہوئے ہیں"۔ ہنسنے کی ضرورت نہیں یہ عام بول چال کا فقرہ ہے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے اکثر لوگ گلابی اردو بولنے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ اصل پنجابی بولی جائے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کے مخاطب کو پنجابی نہ آتی ہو ایسے میں یہ صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ"چھڈو مجھ تھلے جاندا کٹے تھلے"۔ قارئین اس سے غلط مطلب اخذ نہ کریں، خاص طور پر پنجابی سے ناواقف اس جملے کے ظاہری معنی پر تو بالکل نہ جائیں۔ کسی پنجابی دوست کی مدد لے کر اسے سمجھ لیں ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر ہی فتوی نہ لگ جائے۔
تیسری طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو خواہ مخواہ حد سے زیادہ سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بڑھاپے کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ان کے سامنے جتنے مرضی چست فقرے کسے جائیں مجال ہے جو ٹس سے مس ہو جائیں بلکہ آگے سے کہتے ہیں "اس میں ہنسنا کہاں تھا"۔ ایسے حضرات کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت پختہ ہوچکی ہوتی ہے اور زیادہ چھیڑ چھاڑ سے وہی جاہل، اجڈ، گنوار وغیر وغیرہ کا لیکچر شروع ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ایک نصیحت یہ ہے کہ اگر مخاطب پنجابی سے ناواقف ہو تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ "جناب میں نے تو فلاں صوفی بزرگ کا شعر پڑھا ہے" اس پر آپ کی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن اگر مخاطب پنجابی سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اس تیسری قسم کے لوگوں میں شامل ہے تو پھر آپ کو خود اس صورتحال سے نکلنا ہوگا۔ ویسے بھی تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔
ویسے جن لوگوں کو پنجابی کے محاورے اچھے لگتے ہیں اور وہ بوقت ضرورت ان کو استعمال بھی کرتے ہیں ان کو کسی بھی غیر معمولی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے اس کے لیے ایک تجویز یہ ہے کہ پنجابی محاوروں کا اردو ترجمہ (محاورتاً، فقط الفاظ کا ترجمہ مزید گھمبیر صورتحال پیدا کر سکتا ہے) ذہن میں رکھیں۔
قارئین کی آسانی کے لیے چند عام استعمال کے پنجابی محاورے اردو ترجمے کے ساتھ پیش خدمت ہیں ان کے اصطلاحی معنی خود تلاش کر کے اپنی ذمے داری پر استعمال کیے جائیں۔ الٹ نتائج کی ذمے داری لکھاری پرنہیں۔
تھک اچ پکوڑے تلنا
تھوک میں پکوڑے تلنا
اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا
اپنی چارپائی کے نیچے ڈنڈا پھیرنا، اسی طرح کے الفاظ سے ملتا جلتا ایک واہیات سا گانا بھی ہے۔ اس کا اس محاورے سے کوئی تعلق نہیں۔
آ جا کے کھوتی بوہڑ تھلے
آ جا کر گدھی برگد کے درخت کے نیچے کھڑی ہو جاتی ہے
جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی
جہاں کی گدھی تھی وہیں آکر کھڑی ہوگئی
کھوتی تھانیوں ہو آئی اے
گدھی پولیس اسٹیشن سے ہوآئی ہے
مجاں مجاں دیاں پیناں ہوندیاں نے
بھینسیں آپس میں بہنیں ہوتی ہیں
مج تھلے دد کینے چھڈیا اے
بھینس کے نیچے دودھ کس نے چھوڑا ہے
آٹا گندی ہلدی کیوں آے
آتا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے
کہنا دھی نوں تے سنانا نو نوں
بات کرنی بیٹی سے مگر طعنہ بہو کو
کھوتا کھوہ وچ
گدھا کنویں میں
ذات دی کوڑ کرلی ، شہتیراں نال جپھے
ذات کی چھپکلی ہے اور شہتیروں کے ساتھ گلے لگتی ہے۔
گجی گجی لومڑی تے پداں د ا سواد
اس کا ترجمہ ہمیں نہیں معلوم، قارئین میں سے کوئی بتا دے تو ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا
یہ فقظ چند محاورے ہیں، اس کے علاوہ بھی کچھ ذہن میں ہیں لیکن ڈر ہے کہ ہمیں ان محاوروں سمیت بین نہ کر دیا جائے لہذا یہ تجسس قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود تحقیق کر لیں۔ قارئین کے پاس اگر اس کے علاوہ ایسے محاورے ہیں جو روز مرہ میں استعمال ہوتے ہوں اور جن کے معنی ،ذو معنی نہ ہوں وہ ضرور دوسروں کی معلومات کے لیے شئیر کرکے اس کار خیر میں حصہ لیں۔
(قارئین سنجیدہ ہونے کے بجائے اس تحریر کو مزاح کے طور پر لیں۔ پھر بھی کوئی کیڑا زیادہ تنگ کرے "تے جو مرضی کہے جاؤ اسی کہیڑا مڑ جانا اے")۔