پرانیاں یاریاں
ایس عمر دے بارے وچ میاں محمدؔ بخش رحمتہ اللہ علیہ نے کی خوب شعر کہے نیں۔
پچھلی عمرے وقت بڑھاپا تے جاگ پئیاں سَے پِیڑاں
ایتھے اثر نا کرن محمدؔ۔۔۔۔ سونف، جوّئین، ہریڑاں
۔۔
شیشی ڈُل گئی بھری بھرائی، فیر بھرنی کی بھرنی
عین گئی فیر کی محمدؔ۔۔۔۔ عینک نک تے دھرنی
۔۔
بھرے دُلانگ تُو تھم تھم کنداں، سر ہلے ہتھ کھڑکھن
اجے وی اوہو پرانیاں گلاں۔۔۔ دل تیرے وچ رَڑکن
مرحوم ظفر خان نیازی، سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کی فیس بک وال پر اسی تصویر پر یہ تبصرہ پڑھنے کو ملا تھا۔ چوہدری صاحب، توجہ درکار ہے ۔۔۔!
---------
میانوالی میں اس عمر کے بزرگوں کا عموما" یہی سٹائل ہوتا ہے - یہی تہہ بند کا انداز اور سر لپیٹنے کا ۔ ایک نے فیصل آبادی دھوتی باندھ رکھی ہے۔ اس کے پاؤں میں چپل بھی نہیں ہیں، ایک نے کھسے پہن رکھے ہیں؛ پس منظر میں کنے والے جوتی ہے جو زیادہ تر سرائیکی یا پشتون بیلٹ میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ایک نوجوان جو پیچھے کھڑا ہے ، سانولی رنگت کا ہے ، اس لئے سرائیکی علاقے کا گمان بڑھ جاتا ہے۔
ایک صاحب نے انتہائی دائیں والے بابے کی ٹوپی کی طرف اور ایک نے لکیر دار دھوتی کی طرف اشارا کیا ہے اورتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا علاقہ مختلف معلوم ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس عمر کے بابے اس طرح کا فیشن کرتے رہتے ہیں ، جو چیز مل جائے ، دوسروں کی پروا کیے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ ذرا دیکھیے تو کہ اس بابے کے پاؤں میں جوتا بھی نہیں۔
بہرحال چاروں ایک شاخ کے پرندے لگتے ہیں اور کمپنی کو انجائے کرتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کی دوستی میں خاموشی میں بھی گفتگو ہوتی ہے ۔ بیٹھنے کو اور مناسب جگہ نہیں ملی تو ایک چھوٹی سی دیوار پر ہی بیٹھ گئے ہیں - ایک بابے نے جس کے پاؤں زمین تک بھی نہیں پہنچ رہے ، اسی کے پیر میں جوتا بھی نہیں؛ اس نے اپنا بازو دوسرے بابے کے کندھے پر رکھا ہوا ہے اور اس کی ٹیک سے بیٹھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے ، بے تکلف دوستی ہے۔
---------
ارے بھئی، اب تو ایسا بے تکلف تبصرہ کرنے والے بھی ہمارے درمیان نہ رہے۔ اللہ بخشے!