خالد محمود چوہدری
محفلین
کیا پاکستان میں گندم۔۔ مکئی اور باجرے کی نسبت بہت سستی ہے ؟
یعنی گندم کی روٹی ، مکئی یا باجرے کی روٹی کی نسبت بہت سستی ہوگی؟
جی بالکل
کیا پاکستان میں گندم۔۔ مکئی اور باجرے کی نسبت بہت سستی ہے ؟
یعنی گندم کی روٹی ، مکئی یا باجرے کی روٹی کی نسبت بہت سستی ہوگی؟
داتا دربار از ناٹ سو فاراگر مفت ملتی ہوں
عثمان بھائی، بات صرف وقت کی نہیں ہے ذائقے کی بھی ہے۔ مسی روٹی اور آلو یا گوبھی بھرے پراٹھوں کی جو بات ہے وہ ہمیں پیزا میں نہیں لگتی۔ ہمیں سخت بھوک لگی ہو اور کوئی ہمارے سامنے پیزا رکھ دے تو کوفت سے ہماری آدھی بھوک تو ویسے ہی ختم ہو جائے گی۔ پیزا اور شارما ہمیں خاص طور پر پسند نہیں ہیں۔ البتہ کلب سینڈوچ اور برگر ہم کھا لیتے ہیں۔دراصل میں یہ جاننا چاہ رہا تھا اور یہ میرا اندازا ہے کہ مذکورہ پراٹھا بنانے میں کافی وقت اور خرچہ لگتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اتنے ہی افراد کا پیزا بہت کم وقت اور کم قیمت پر تیار ہوجاتا ہے۔
ہمیں بھی پسند نہیں جاسمن آپی۔پیزا۔۔۔۔ہائے مجھے بالکل پسند نہیں
کھانے اگر محض ذائقہ کی بنیاد پر مقبول ہوتے تو یہ تمام کھانے جو بھولے بسرے ہیں وہ موجودہ رائج کھانوں سے زیادہ مقبول اور دستیاب ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تو پس یہ دھاگہ۔عثمان بھائی، بات صرف وقت کی نہیں ہے ذائقے کی بھی ہے۔ مسی روٹی اور آلو یا گوبھی بھرے پراٹھوں کی جو بات ہے وہ ہمیں پیزا میں نہیں لگتی۔ ہمیں سخت بھوک لگی ہو اور کوئی ہمارے سامنے پیزا رکھ دے تو کوفت سے ہماری آدھی بھوک تو ویسے ہی ختم ہو جائے گی۔ پیزا اور شارما ہمیں خاص طور پر پسند نہیں ہیں۔ البتہ کلب سینڈوچ اور برگر ہم کھا لیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ پیزا آپ کا پسندیدہ ہے۔
مکئی کی روٹی تے سرسوں دا ساگ کیا یاد دلا دیا اب تو کھانا ہی پڑے گا ۔پنجاب کے بھولے بسرے پکوان
پنجاب کے روایتی پکوان سادہ مگر ذائقے سے بھرپور رہے ہیں۔ چونکہ دیہاتی ماحول میں گائے بھینسوں کا دودھ اور اس کی ذیلی پیداوار گھی اور مکھن کی صورت میں عام تھی اس لئے گھروں میں سالن پکانے کے لیے دیسی گھی استعمال ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور دیہاتوں نے شہروں کا روپ دھارنا شروع کیا تو تن آسانی اور پیداواری قلت کی وجہ سے دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے لے لی اور مزید وقت گزرنے کے ساتھ اور صحت کے مسائل سے آگہی اور تعلیم کے نسبتاً عام ہونے کے ساتھ خوردنی تیل کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ آج بھی پکانے کے لیے دیسی گھی کی شدید قلت اور دیہاتی زندگی میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی، مویشی پالنے کے جدید طریقوں سے لاعلمی اور زراعت کو ترجیح نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس قلت میں اور اضافہ ہوا۔
اس لیے آج کل پنجاب کے دیہات میں بناسپتی گھی زیادہ اورخوردنی تیل بہت کم استعمال ہو رہا ہے۔ روایتی مزیدار پکوان آج کل کھانے کو تو کم کم ملتے ہیں، تاہم یہاں ان کے ذکر سے ضرور لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ سرسوں کا ساگ، مکئی کی روٹی پنجاب کا پرلطف اور سادہ ترین کھانا سرسوں کی نرم و گداز گندلوں سے تیار کیا ہوا سالن… جس میں مکھن کی بہتات ہوتی ہے، مکئی کے آٹے سے بنی روٹی کے ساتھ کھانا پنجاب کی پہچان تھا۔ آج شہروں میں تو کیا دیہاتوں میں بھی یہ کھانا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہ بھی سہل انگاری اور تن آسانی ہی کہی جا سکتی ہے۔ سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور پکانے میں توجہ اور محبت درکار ہوتی ہے،جو شاید کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ روایتی ذائقہ اب عام نہیں رہا، تاہم ابھی بالکل ختم نہیں ہوا۔ بینگن کا بھرتا تنور ہماری پنجابی تہذیبی روایت کا جزو لازم رہا ہے۔ گھروں میں تنوریاں موجود تھیں جہاں خواتین خود روٹیاں پکاتی تھیں۔
ان کے علاوہ دیہاتوں میں تنور پیشہ کے طورپر بھی موجود تھے۔ جہاں اجرت کے طورپر گندھا ہوا آٹا لے کر روٹیاں لگائی جاتیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے پیسے دے کر تنور سے روٹیاں لگوائی جاتیں۔ انہی تنوروں میں بینگن کا بھرتا (آگ پر پکانا) تیار کیا جاتا ہے۔ بینگن کا پکا ہوا گودا نکال کر دہی میں ملایا جاتا ہے۔ ہری مرچیں اور پیاز ملا کر تنور کی روٹی سے کھایا جانا والا بھرتا مزہ ہی مزہ دیتا تھا۔ یہ ڈش بہت جلد تیار ہو جاتی ہے اس لیے گرمیوں میں بطور خاص پسند کی جاتی ہے۔ کڑھی پکوڑا، کڑھی پکوڑا بھی پنجاب کا مصالحے دار اور مزے دار پکوان رہا مگر آج کل سوغات بن چکا ہے۔ بیسن کے پکوڑے تلے جاتے جو خوب چٹ پٹے اورمصالحے دار ہوتے۔ چاٹی کی لسی میں بیسن کو پکال کر سالن تیار کیا جاتا۔ اس میں پکوڑے ڈالے جاتے اور تنوری روٹی سے کھانے کا لطف اٹھایا جاتا۔ کڑھی پکوڑا آج شہروں میں ہوٹلوں میں عام ملتا ہے مگر یہ روایتی دیہاتی کڑھی پکوڑے کے ذائقے کو چھو بھی نہیں سکتا۔ پنجیری مٹھائی پنجابی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔
گنے کے استعمال سے لیکر گڑ، شکر اور چینی کا استعمال پنجاب کی روایت ہے۔ کوئی تقریب مٹھائی کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ مٹھائیاں گھروں میں بھی تیار کی جاتی ہیں اور دکانوں میں بھی۔ پنجیری کا بطور خاص تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ گھریلو مٹھائی ہے اور ہر گھرمیں اپنی معاشی طاقت کے مطابق اپنے طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں گندم کا ان چھنا آٹا (whole wheat) بنیادی جزو ہے اس آٹے کو دیسی گھی میں خوب بھونا جاتا ہے۔ اس بھنے ہوئے آمیزے میں چینی یا شکر ملا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بادام، مغزیات، کھوپرا، گوند کتیرا، سونف، کمرکس، اجوائن، سونٹھ، الائچی اور اخروٹ کی گریاں ملائی جاتی ہیں۔
تاہم دیگر اہل خانہ بھی شوق سے یہ پنجیری کھاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزیدار ڈش بھی غائب ہو رہی ہے۔ شاید ڈرائی فروٹ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اس مزیدار مٹھائی کو پنجاب کے منظر نامے سے غائب کر کے چھوڑیں گی۔ پوٹوں (پوروں ) کی سویاں پنجاب کی نفاست (Delicacy) ہاتھ کی پوروں کی مدد سے بنی سویاں ایک مزیدار شیرینی (Desert) جو آج تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ راقم کے بچپن کی ایک خوبصورت یاد، خواتین اکٹھی ہو کر گرمیوں کی دوپہروں میں خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ سوجی کے گندھے ہوئے آٹے کو انگلیوں کی پوروں کی مدد سے باریک چاول نما بل دار سویاں تیار کرتیں۔ گندم کی بالیوں سے بنی خوبصورت چنگیروں میں سویاں کسی مشین کی سی تیزی سے گرتیں اور چنگیر سویوں سے بھر جاتی۔
ان کو خشک کیا جاتا اور پھرناشتے میں ان سویوں کو روایتی طریقے سے چینی کے شیرے میں پکایا جاتا۔ آج یہ ڈش تقریباً ناپید ہے۔ چڑوے پنجاب کی دوسری اہم فصل چاول، مونجی کے کاشت والے علاقوں میں فصل اٹھانے کے بعد چڑوے بنائے جاتے۔ ایک خاص طریقے سے مونجی بھگو کر بڑے بڑے چٹوئوں میں بھاری بھر کم ڈنڈوں سے خواتین یہ چڑوے بناتیں چھلکے الگ کئے جاتے اور چپٹے چڑوے تیار ہو جاتے۔ یہ میٹھا ملا کر بھی کھائے جاتے اور اس کی نمکو بھی بنتی، کمرشل بنیادوں پر شایدچڑوے آج بھی ملتے ہیں مگر گھر پر تیار کرنے کا عمل ختم ہو چکا ہے۔
غلام نبی شاکر
(’’میرا گمشدہ پنجاب ‘‘ سے اقتباس )
نوجوانوں میں جنک فوڈ کی مقبولیت سے ہم نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ دراصل آپ گھر میں کم وقت میں پیزا وغیرہ بنانے کی بات کر رہے تھے تو اس پر ہم نے کہا کہ بات صرف وقت کی نہیں اپنے اپنے ٹیسٹ اور پسند کی بھی ہوتی ہے۔کھانے اگر محض ذائقہ کی بنیاد پر مقبول ہوتے تو یہ تمام کھانے جو بھولے بسرے ہیں وہ موجودہ رائج کھانوں سے زیادہ مقبول اور دستیاب ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تو پس یہ دھاگہ۔
کھانا بنانے میں وقت، اس پر لگنے والے اخراجات اور سب سے بڑھ کر ملک میں رائج کاروباری طریقہ کار اس بات کو ممکن بناتے ہیں کہ کیوں ایک سوغات باوجود لزیز ہونے کے معاشرے میں محدود (بھولے بسرے) جبکہ ایک کم لزیز سوغات مقبول ہوتی چلی جاتی ہے۔
تلے ہوئے پراٹھے کے موازنے پر پیزا جنک فوڈ تو نہیں۔ صرف پنیر کی تہہ ہے جس سے تحفظات ہوسکتے ہیں۔ باقی تو سبزیاں اور چکن وغیرہ ہیں اور یہ bake کیا جاتا ہے۔نوجوانوں میں جنک فوڈ کی مقبولیت سے ہم نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ دراصل آپ گھر میں کم وقت میں پیزا وغیرہ بنانے کی بات کر رہے تھے تو اس پر ہم نے کہا کہ بات صرف وقت کی نہیں اپنے اپنے ٹیسٹ اور پسند کی بھی ہوتی ہے۔
شاید پیزا ناپسند ہونے کی یہی وجہ ہے کہ صرف بازاری پیزا کھایا ہے۔ کبھی گھر میں اپنے ٹیسٹ کے مطابق نہیں بنایا۔تلے ہوئے پراٹھے کے موازنے پر پیزا جنک فوڈ تو نہیں۔ صرف پنیر کی تہہ ہے جس سے تحفظات ہوسکتے ہیں۔ باقی تو سبزیاں اور چکن وغیرہ ہیں اور یہ bake کیا جاتا ہے۔
گھر میں اچھا پیزا بنانا مشکل ہے کہ صحیح پیزا انتہائی درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے۔شاید پیزا ناپسند ہونے کی یہی وجہ ہے کہ صرف بازاری پیزا کھایا ہے۔ کبھی گھر میں اپنے ٹیسٹ کے مطابق نہیں بنایا۔
گھر میں پیزا بنانا کافی مشکل ہے۔ میں نے بھی بازار کا پیزا ہی کھایا ہے۔شاید پیزا ناپسند ہونے کی یہی وجہ ہے کہ صرف بازاری پیزا کھایا ہے۔ کبھی گھر میں اپنے ٹیسٹ کے مطابق نہیں بنایا۔
السی کی پنیاں تو ہرگز بھولا ہوا پکوان نہیں ہے۔ ابھی چند دن میں میرے پاس ڈھیر ساری موجود ہوں گی۔ ان شاء اللہ
جے میرق حصہ نہ رکھیا تے اوہ والی گل دس دیاں گا ساریاں نوںالسی کی پنیاں تو ہرگز بھولا ہوا پکوان نہیں ہے۔ ابھی چند دن میں میرے پاس ڈھیر ساری موجود ہوں گی۔ ان شاء اللہ
تسی دس دیو۔۔۔جے میرق حصہ نہ رکھیا تے اوہ والی گل دس دیاں گا ساریاں نوں
جے میرق حصہ نہ رکھیا تے اوہ والی گل دس دیاں گا ساریاں نوں
گلاں ای کردے رہنا "او" گل نہ دسناتسی دس دیو۔۔۔