خورشیداحمدخورشید
محفلین
میری گذارش ہے کہ اس لڑی میں کوئی واقعہ یا کوئی بات جس نے آپ کو سوچنے پر مجبور کیا ہو شئیر کریں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میں پی ٹی وی کے ایک ڈرامے کا ذکر کروں گا۔
پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے اپنی مثال آپ ہیں۔ چونکہ ایک چینل تھا اس لیے پورے ملک سے ہر فیلڈ میں ماہر افراد چنے جاتے تھے۔ افرا تفری اور جلد بازی نہیں تھی اس لیے بہت محنت کی جاتی تھی۔ سندھی کلچر پر ایک خوبصورت ڈرامہ لگا تھا جس کا نام تھا چھوٹی سی دنیا۔ مزاحیہ انداز میں سنجیدہ معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ایک سین ملاحظہ کریں۔
دیہی بستی کے دو کردار ہیں۔ ایک کا نام صاحب ہے ۔ وہ پڑھا لکھا ہے۔ انگریزی لباس پہنتا ہے۔ انگریزوں کے طور طریقے اور زبان جانتا ہے۔ بستی کے لوگ اس سے بہت متاثر ہیں۔ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔
دوسرے کردارکا نام جانو جرمن ہے وہ فراڈ ہے اور اپنے آپ کو سمجھدار اور پڑھا لکھا ظاہر کرتا ہے۔ یہ صاحب سے جلتا ہے۔ اور اسے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔
بستی والوں کی نظروں میں گرانے کے لیے وہ صاحب کو انگریزی بولنے کے مقابلے کا چیلنج کرتا ہے۔ صاحب تیار ہوجاتا ہے۔ بستی کے دو ایماندار معمر بزرگ جج چن لیے جاتے ہیں اور مقابلے کے دن اور وقت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
مقابلے کے دن پنڈال بستی کے لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ دونوں کرداروں کو باری باری انگریزی بولنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جانو جرمن جناتی زبان بولتا ہے جو ججوں سمیت کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ جبکہ صاحب صحیح انگریزی بولتا ہے۔ جن میں سے چند الفاظ ججوں اور گاؤں والوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ گاؤں کے ایک بندے کو کہتا ہے کہ رمضان میرے لیے پانی کا ایک گلاس لاؤ۔
مقابلے کے اختتام پر ججوں کا فیصلہ یہ تھا۔
صاحب نے انگریزی میں ہماری زبان کی ملاوٹ کی۔ اس نے رمضان اور گلاس جیسے الفاظ ہماری زبان سے شامل کیے۔ جبکہ جانو جرمن نے ہماری زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور خالص انگریزی بولی۔ اس لیے آج کے مقابلے کا فاتح جانو جرمن ہے۔
ڈرامے کے اس سین سے میں نے سیکھا کہ!
۔۔۔ صرف ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ضروری نہیں کہ درست ہو۔
۔۔۔ ادھورے حقائق کی بنیاد پر درست ٖفیصلہ ممکن نہیں۔
۔۔۔ اگر فیصلہ کرنے والے معاملے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تو فراڈیے ان سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروالیتے ہیں۔
پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے اپنی مثال آپ ہیں۔ چونکہ ایک چینل تھا اس لیے پورے ملک سے ہر فیلڈ میں ماہر افراد چنے جاتے تھے۔ افرا تفری اور جلد بازی نہیں تھی اس لیے بہت محنت کی جاتی تھی۔ سندھی کلچر پر ایک خوبصورت ڈرامہ لگا تھا جس کا نام تھا چھوٹی سی دنیا۔ مزاحیہ انداز میں سنجیدہ معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ایک سین ملاحظہ کریں۔
دیہی بستی کے دو کردار ہیں۔ ایک کا نام صاحب ہے ۔ وہ پڑھا لکھا ہے۔ انگریزی لباس پہنتا ہے۔ انگریزوں کے طور طریقے اور زبان جانتا ہے۔ بستی کے لوگ اس سے بہت متاثر ہیں۔ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔
دوسرے کردارکا نام جانو جرمن ہے وہ فراڈ ہے اور اپنے آپ کو سمجھدار اور پڑھا لکھا ظاہر کرتا ہے۔ یہ صاحب سے جلتا ہے۔ اور اسے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔
بستی والوں کی نظروں میں گرانے کے لیے وہ صاحب کو انگریزی بولنے کے مقابلے کا چیلنج کرتا ہے۔ صاحب تیار ہوجاتا ہے۔ بستی کے دو ایماندار معمر بزرگ جج چن لیے جاتے ہیں اور مقابلے کے دن اور وقت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
مقابلے کے دن پنڈال بستی کے لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ دونوں کرداروں کو باری باری انگریزی بولنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جانو جرمن جناتی زبان بولتا ہے جو ججوں سمیت کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ جبکہ صاحب صحیح انگریزی بولتا ہے۔ جن میں سے چند الفاظ ججوں اور گاؤں والوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ گاؤں کے ایک بندے کو کہتا ہے کہ رمضان میرے لیے پانی کا ایک گلاس لاؤ۔
Ramzan, Bring me a glass of water please.
مقابلے کے اختتام پر ججوں کا فیصلہ یہ تھا۔
صاحب نے انگریزی میں ہماری زبان کی ملاوٹ کی۔ اس نے رمضان اور گلاس جیسے الفاظ ہماری زبان سے شامل کیے۔ جبکہ جانو جرمن نے ہماری زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور خالص انگریزی بولی۔ اس لیے آج کے مقابلے کا فاتح جانو جرمن ہے۔
ڈرامے کے اس سین سے میں نے سیکھا کہ!
۔۔۔ صرف ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ضروری نہیں کہ درست ہو۔
۔۔۔ ادھورے حقائق کی بنیاد پر درست ٖفیصلہ ممکن نہیں۔
۔۔۔ اگر فیصلہ کرنے والے معاملے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تو فراڈیے ان سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروالیتے ہیں۔