مثالی شخصیت
ایک حکایت ہے کہ ایک بزرگ تھے جو حکیم صاحب کے نام سے مشہورتھے۔ حکمت کرتے تھے۔ لوگوں کا دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دنیاوی مال و اسباب ان کے پاس بہت کم تھا لیکن اس کے باوجود ان کے گھر والے، رشتہ دار اور محلے کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔
ایک دوسرے بزرگ بھی اسی محلے میں رہتے تھے وہ بھی چاہتے تھے کہ سارے لوگ ان کی عزت کریں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہو۔ ایک دن وہ حکیم صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حکیم صاحب مجھے بھی وہ طریقہ بتائیں جس پر میں عمل کروں اور سارے لوگ میری بھی اسی طرح عزت کریں جیسی وہ آپ کی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا کہ بہت آسان طریقہ ہے میں ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں۔
حکیم صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی ۔ وہ بڑے احترام سے حاضر ہو گیا تو حکیم صاحب نے کہا کہ باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ وہ گیا ڈبہ اٹھاکے لایا۔ حکیم صاحب کو دیا اور ادب سے کھڑا ہوگیا۔حکیم صاحب نے کہا کہ اسے کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔بیٹے نے ایسا ہی کیا تو حکیم صاحب نے اسے گھر واپس بھیج دیا۔
اس کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کو کہا کہ بس یہی نسخہ ہے۔ بزرگ بہت خوش ہو گیا کہ یہ تو بہت ہی سستا نسخہ ہے صرف ایک گھی کے ڈبے کا خرچہ ہے۔ میں ابھی اس کو آزماتا ہوں۔
وہ خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ گھر جاکر اس نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی کہ جلدی سے میرے پاس آؤ۔ اس نے کہا ابا میں ایک ضروری کام میں مصروف ہو ں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بزرگ نے کہا کہ چھوڑو ضروری کام تم بس جلدی سے آجاؤ۔ تھوڑی دیر بعد بیٹا منہ بناتا ہوا آیا اور کہا کہ کیا مصیبت آگئی ہے۔ جلدی بتائیں مجھے دیر ہورہی ہے میں نے اپناضروری کام کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹا ! بس تھوڑی دیر کا کام ہے اس کے بعد تم چلے جانا۔ ایسا کرو کہ جاؤ اور باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ بیٹے نے کہا کہ کیوں اس کا کیا کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹے تم بس جاؤ اور ڈبہ لے آؤ۔ بہر حال بیٹا ڈبہ لے آیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ لیں ڈبہ اب میں جاؤں۔ بزرگ نے کہا کہ بس تھوڑی دیر اور۔ اب تم ایسا کرو کہ ڈبہ کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔ بیٹے نے کہا ابا جی یہ آپ کیا کہ رہےہیں۔ میں کیوں خواہ مخواہ گھی ضائع کردوں۔بزرگ نے کہا کہ بیٹا میں کہ رہا ہوں نا بس تم اسے ضائع کردو پھر چلے جانا۔ بیٹے نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتنا مہنگا گھی ہے جو اتنی مشکل سے پیسہ کما کے میں لایا ہوں میں کیوں اسے ضائع کردوں۔
بزرگ نے سوچا یہ تو میرا کام خراب کررہاہے۔ اس نے سختی سے بیٹے کو کہا کہ جو میں کہ رہا ہوں وہ کرو۔ بیٹے نے اپنی ماں کو بلایا اور کہا کہ اباجی کو سمجھائیں یہ آج کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ بزرگ کی بیوی نے جب ساری بات سنی تو وہ بھی بزرگ کو ڈانٹنے لگی کہ میاں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ یہ تم کیا کہ رہے ہو۔ بزرگ نے پھر سختی سے کام لینا چاہا تو بیٹے اور بیوی نے شور مچا کر محلے والوں کو بلا لیا اور ان کو ساری بات بتائی۔ محلے والوں نے بزرگ کو سمجھانا چاہا تو وہ ان سے بھی لڑنے لگے کہ میں ان کا بڑا ہوں میرے گھر والے میری بات کیوں نہیں مان رہے۔ آپ ان کو سمجھائیں۔ لوگوں نے کہا کہ واقعی بڑے میاں کے دماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ انہیں کسی حکیم کے پاس لے جائیں۔
گھر والے بزرگ کو اسی حکیم صاحب کے پاس لے گئے جن کے نسخے پر عمل کرتے کرتے بزرگ کا یہ حال ہوا تھا۔حکیم صاحب نے گھر والوں کو یہ کہ کے واپس بھیج دیاکہ آپ کے بزرگ ٹھیک ہوکر واپس آجائیں گے۔ ان کے جانے کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کا حال پوچھا تو بزرگ نے ساری کہانی ان کے گوش گذار کردی۔ حکیم صاحب نے بزرگ کو سمجھایا کہ جو میں نے تمہارے سامنے کیا تھا وہ تو علامتی تھا۔ اصل نسخہ تومیری اس زندگی میں ہے جو میں نے اب تک گذاری ہے۔ گھر والوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ میرے اب تک کے رویے نے ان کو یقین دلادیا ہے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ہمیشہ ان کی بھلائی کے لیے کروں گا اس لیے سارے لوگ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میری عزت کرتے ہیں۔