سیما علی
لائبریرین
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت 13 میں فرماتا ہے:
’’تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔
دیدۂ بینا رکھنے والوں کیلئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔
جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائل جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جارہا ہے کہ واقعہ کو غور دے دیکھو تو تمھیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں ۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائل جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحۂ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی، رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ، دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں ۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیص نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لئے لاٹھیاں تیار کی تھیں ۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔
جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے، وہ اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
صاحب تفہیم القرآن سورہ آل عمران کی آیت 13 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دوگنا ہے۔
’’تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔
دیدۂ بینا رکھنے والوں کیلئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔
جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائل جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جارہا ہے کہ واقعہ کو غور دے دیکھو تو تمھیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں ۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائل جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحۂ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی، رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ، دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں ۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیص نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لئے لاٹھیاں تیار کی تھیں ۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔
جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے، وہ اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
صاحب تفہیم القرآن سورہ آل عمران کی آیت 13 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دوگنا ہے۔