راحیل فاروق
محفلین
ایک پرانی غزل ہے۔ تقریباً ۲۰۰۷ء کی۔ ضرورت سے زیادہ حسبِ حال ہے۔ سو پیش کی جاتی ہے:
یہ بات بات پہ بندوق تاننے والے
نبیؐ کو جانتے بھی ہیں یہ ماننے والے؟
تمھارے شہر میں کیوں خوش لباس ہو گئے لوگ؟
نظر سے گر گئے کیا خاک چھاننے والے؟
سمندروں کو پلٹ کر نہ دیکھتے، اے کاش
ہم ایک بوند سے دامن کو ساننے والے
زہے نصیب! کہ ہوں آپ سے ملاقاتیں
پھر آ گئے ہیں نہ آنے کی ٹھاننے والے
خدا سے کیا جہلا کو ہے واسطہ راحیلؔ
اسے تو مانتے بھی ہیں تو جاننے والے!
نبیؐ کو جانتے بھی ہیں یہ ماننے والے؟
تمھارے شہر میں کیوں خوش لباس ہو گئے لوگ؟
نظر سے گر گئے کیا خاک چھاننے والے؟
سمندروں کو پلٹ کر نہ دیکھتے، اے کاش
ہم ایک بوند سے دامن کو ساننے والے
زہے نصیب! کہ ہوں آپ سے ملاقاتیں
پھر آ گئے ہیں نہ آنے کی ٹھاننے والے
خدا سے کیا جہلا کو ہے واسطہ راحیلؔ
اسے تو مانتے بھی ہیں تو جاننے والے!