پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

عاطف بٹ

محفلین
پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے​
پی لیا "جیم الف میم" خدا خیر کرے​
عشق پہلا ہے، نہ ہو جاؤں کہیں ڈر ہے مجھے​
"نون الف کاف الف میم" خدا خیر کرے​
شاعر: نامعلوم​
 

نایاب

لائبریرین
پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے​
پی لیا "جیم الف میم" خدا خیر کرے​
عشق پہلا ہے، نہ ہو جاؤں کہیں ڈر ہے مجھے​
"نون الف کاف الف میم" خدا خیر کرے​
شاعر: نامعلوم​
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب باندھا ہے
شام ، جام ، ناکام
پہلے عشق کی باتیں ہیں ۔ دل پر لگی گھاتیں ہیں ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
عشق پہلا ہے، نہ ہو جاؤں کہیں ڈر ہے مجھے
"نون الف کاف الف میم" خدا خیر کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
 

طارق شاہ

محفلین
پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے​
پی لیا "جیم الف میم" خدا خیر کرے​
عشق پہلا ہے، نہ ہو جاؤں کہیں ڈر ہے مجھے​
"نون الف کاف الف میم" خدا خیر کرے​
شاعر: نامعلوم​
بٹ صاحب
مسکراہٹ لانے والے اشعار ہیں، پیش کرنے کے لئے تشکّر !

انفرادیت لئے، اِن بالااشعار سے، میراجی کا یہ شعر یاد آیا کہ :

ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہے
میراجی

بہت خوش رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
توجہ حاصل کرنے کیلیے واقعی اچھے اشعار ہیں، لیکن کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ ان اشعار میں قافیہ کیا ہے؟ شاید شاعر کی توجہ اس طرف گئی ہی نہیں :)
 

نایاب

لائبریرین
ہر شاعر ہی توجہ کے لالچ میں اسی جملے کا سہارا لیتا ہے ۔
توجہ فرمائیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابلاغ ہی اس قدر مکمل ہے کہ قاری کیا شاعر بھی قافیہ پیمائی میں الجھنے سے بچ گیا ۔
 
توجہ حاصل کرنے کیلیے واقعی اچھے اشعار ہیں، لیکن کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ ان اشعار میں قافیہ کیا ہے؟ شاید شاعر کی توجہ اس طرف گئی ہی نہیں :)


جی وارث بھائی نشاندہی بالکل درست کی آپ نے. صبح چھوٹے بھائی نے یہ شعر پڑھا تو میں اسے بھی یہی بتارہا تھا. اس میں قافیہ جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے. شین کا قافیہ میم اور تیسرا قافیہ کاف. صرف ردیف ہے. لیکن بہر حال شعر میں لفظوں کا حسن بھی اہمیت رکھتا ہے. اور اسے قطعے کی جگہ دو الگ الگ اشعار بھی تو کہا جاسکتا ہے نا. اس سقم چھپانے کی غرض سے ہی سہی. :) :D
 

محمداحمد

لائبریرین
جناب مسلسل غزل، طرحی غزل، نعتیہ غزل وغیرہ کا تو سنا ہے مگر یہ آزاد غزل کیا ہوتی ہے؟
یہ کہیں وہ تو نہیں جو میسجز میں گردش کرتی رہتی ہے۔

بھیا کچھ لوگ ایسی غزلیں کہتے ہیں جن میں بحر کی پابندی تو ہوتی ہے لیکن قافیہ اور ردیف کی کوئی پابندی نہیں ہوتی اور وہ اسے آزاد غزل کہتے ہیں۔ میرے پاس فرحت عباس شاہ کی مرتب کردہ ایک غزلیات کی کتاب تھی۔ اس میں کچھ شعراء کی آزاد غزلیں پیش کی گئیں تھیں۔ اس وقت مثال کے لئے کوئی یاد نہیں آ رہی ۔ آپ یہ دھاگہ دیکھ لیجے اسی حوالے سے ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر شاعر ہی توجہ کے لالچ میں اسی جملے کا سہارا لیتا ہے ۔
توجہ فرمائیے ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ابلاغ ہی اس قدر مکمل ہے کہ قاری کیا شاعر بھی قافیہ پیمائی میں الجھنے سے بچ گیا ۔

نایاب صاحب قافیہ پیمائی اور چیز ہوتی ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ شاعر نے غیر ضروری طور پر قافیوں کا طومار باندھ رکھا ہے، جیسے پچیس پچیس تیس تیس اشعار کی غزلوں میں ہوتا ہے۔

لیکن قافیے کے بغیر کوئی شاعری نہیں ہوتی۔

ان اشعار میں کوئی نئی بات نہیں ہے، وہی جام وہی شام وہی عشق وہی ناکام۔ ہاں ان حروف کو توڑ کر ایک اچھوتا خیال ضرور باندھا جنابِ شاعر نے، اور اسکی داد مل رہی ہے۔

غلطی بہرحال غلطی ہوتی ہے، اور وہ ان اشعار میں موجود ہے۔ اب کوئی قرآن حدیث تو ہے نہیں کہ غلطی سے مبرا ہو یا غلطی کی نشاندہی کرنا کوئی غلطی ہے؟
 
نایاب صاحب قافیہ پیمائی اور چیز ہوتی ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ شاعر نے غیر ضروری طور پر قافیوں کا طومار باندھ رکھا ہے، جیسے پچیس پچیس تیس تیس اشعار کی غزلوں میں ہوتا ہے۔

لیکن قافیے کے بغیر کوئی شاعری نہیں ہوتی۔

ان اشعار میں کوئی نئی بات نہیں ہے، وہی جام وہی شام وہی عشق وہی ناکام۔ ہاں ان حروف کو توڑ کر ایک اچھوتا خیال ضرور باندھا جنابِ شاعر نے، اور اسکی داد مل رہی ہے۔

غلطی بہرحال غلطی ہوتی ہے، اور وہ ان اشعار میں موجود ہے۔ اب کوئی قرآن حدیث تو ہے نہیں کہ غلطی سے مبرا ہو یا غلطی کی نشاندہی کوئی غلطی ہے؟

پہلے سوچا کہ پسند کی ریٹنگ دی جائے لیکن زبردست اس لئے ریٹ کردیا کے بات سوا سولہ آنے اصول کی ہے. اس وقت شاعری کا سارا دار و مدار مضامین کی حد تک رہ گیا. جس میں شاعری کے قوانین کو اگر کوئی توڑا بھی جائے تو اہمیت نہیں دی جاتی. اگر انکو اہمیت دی جائے تو بہت سے شاعروں کے تو پر ہی کٹ جائیں گے.

ارے اللہ کے بندوں شاعری شاعری کے اصول سے نہ کر سکو تو نثر نگاری پر ہاتھ مار لو پھر :/
 

محمداحمد

لائبریرین
اسی دھن میں ہم نوید ظفر کیانی صاحب کے بلاگ پر پہنچ گئے وہاں بھی ایک ایسی ہی غزل ہے۔ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ ذرا دیکھئے۔

بے مہار غزل

بھونکنا مجھ پہ سرِ راہے شرافت کب تھی
تیرے کتے سے رقابت کب تھی

عشوہ و ناز و ادا
اتنے ہتھیار لئے پھرنا حسینوں کی ضرورت کب تھی

ہاتھ اوروں کی طرح بہتی ہوئی گنگا میں دھونے کی تمنا تھی شرافت کے نمونوں کو مگر
جرات کب تھی

کام کرنے کے عیوض اُس نے اگر بھیجی پھلوں کی پیٹی
ایک سوغات تھی ، رشوت کب تھی

ٹورنامنٹ میں سب کھیل کئے تھے شامل
ہاں مگر اُس میں سیاست کب تھی

مجھ کو کہتے رہے مکار تو یہ آپ کا حسنِ ظن تھا
میری تعریف تھی ، تشکیک کی صورت کب تھی

رات کے کھانے کی فہرست لکھی تھی ذرا اسٹائل سے
شاعری میں کوئی جدت کب تھی

میں جو افسر تھا تو چپڑاسی تھا میرا بھائی
جیسے ہُن اُس پہ برستا رہا ، ویسی میری قسمت کب تھی

میری پی آر نے ایوارڈ دلائے ہیں زمانے بھر سے
شاعری ذریعۀ عزت کب تھی

تھی مرے بھانجے کی تحقیق کہ غالب سے بہرحال بڑا شاعر ہوں
تم میں تسلیمِ حقیقت کی جسارت کب تھی
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک غزل یہ بھی ہے کسی کی۔
آزاد مکالماتی غزل​
کہا اس نے دسمبر کو کبھی جلتے ہوئے دیکھا​
کہامیں نے کہ چاہت کی حدوں کو چھو کے دیکھا ہے​
کہا اس نے بنائیں برف کا اک خوبصورت گھر​
کہا میں نے دسمبر میں ہوائیں سنسناتی ہیں​
کہا اس نے دسمبر کی چمکتی چاندنی دیکھی​
کہا میں نے کہ تیرے بعد میں نے کچھ نہیں دیکھا​
کہا اس نے دسمبر میں تری یادیں ستاتی ہیں​
کہا میں نے مری جاناں محبت کب بچھڑتی ہے​
کہا اس نے تری یادیں جلاتی ہیں مرا آنچل​
کہا میں نے دسمبر کو چلو پھر سے بلاتے ہیں​
 
ایک غزل یہ بھی ہے کسی کی۔
آزاد مکالماتی غزل​
کہا اس نے دسمبر کو کبھی جلتے ہوئے دیکھا​
کہامیں نے کہ چاہت کی حدوں کو چھو کے دیکھا ہے​
کہا اس نے بنائیں برف کا اک خوبصورت گھر​
کہا میں نے دسمبر میں ہوائیں سنسناتی ہیں​
کہا اس نے دسمبر کی چمکتی چاندنی دیکھی​
کہا میں نے کہ تیرے بعد میں نے کچھ نہیں دیکھا​
کہا اس نے دسمبر میں تری یادیں ستاتی ہیں​
کہا میں نے مری جاناں محبت کب بچھڑتی ہے​
کہا اس نے تری یادیں جلاتی ہیں مرا آنچل​
کہا میں نے دسمبر کو چلو پھر سے بلاتے ہیں​

احمد بھائی یہ تو نظم کی ایک صورت ہے. مجھے تو اس میں کچھ غلط محسوس نہیں ہوتا. بلکہ اچھی محسوس ہوتی ہے.
 
Top