نایاب
لائبریرین
محترم بھائی مزمل شیخ بسملاپنی کہہ لی سب نے میں شسدر رہا
ٹھیک کہتے ہیں آپ نایاب بھائی۔ اگر یہی معیار تھا اور قافیہ ردیف اور ایہام و ابہام کا سلسلہ بیکار تھا تو غالب، میر، فیض، مومن جیسے شعرا صرف خرافات ہی کہہ گئے ہیں۔اور مصحفی جن کا کلام ہی چھ جلدوں میں ہے وہ تو اعلی ترین ٹامک ٹوئیاں مار گئے ہیں۔ اور اقبال۔ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا
جی مکمل تو اترتا ہے لیکن شاعری کی تعریف پر نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک کے سبھی استاد شعرا متفقہ نے تخیل کو شاعر سے منسوب کیا ہے۔ نا کے شاعری سے۔2: بات پرانے ہے صرف الفاظ کی صورت نئی ہے۔ اچھوتا خیال اگر کسی نئے مضمون کو پیدا کرتا ہو تشبیہات کی کوئی ایسی حسین صورت ہو تو ٹھیک۔3: اگر شاعری غیر اصولی طور پر خیال باندھنے کا نام ہو جاتی تو شعرا اپنی عمر بھر استادی شاگردی میں ضائع نہ کرتے۔شاعری کسی بھی زبان کے محاوروں نثر، اور وقت کی زبان الفاظ و تراکیب کا اونچا ترین درجہ ہے۔ گویا شاعری کسی زبان کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضامین صرف اس میں تاثیر کے لئے ہوتے ہیں اگر صرف مضامین کو ہی دیکھا جائے اور الفاظ و تراکیب کی طرف توجہ نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کے اس زبان کا بیڑا غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ میرا نیا مضمون جو ’’شاعری، موسیقی اور علمِ عروض‘‘ کے نام سے ہے اس میں میں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ جس کلام سے اب تک قارئین لطف اندوز ہوتے آئے ہیں وہ وجود میں کیسے آیا یہ بات بھول کر صرف مضامین کو ترجیح دینا نا انصافی ہے۔
اگر کسی مصور نے قلم پکڑنا نہ سیکھا ہو تو وہ اپنے تخیل کی شکل کیسے بنائے گا؟
آمد اور تخیل میں کچھ فرق ہوتا ہے کیا ؟
یہ عظیم شعراء " تخیل " کے بل پر شاعری کیا کرتے تھے ؟
یا
" آمد " کے بل پر شاعری کہا کرتے تھے ۔ ؟
آپ کے اس مراسلے سے تو یہ تاثر ابھر رہا ہے
کہ یہ سب عظیم شعراء "تخیل " سے مدد لیتے حرفوں کو قافیہ ردیف عروض و بحر کی بھٹی میں تپا
اسے الفاظ بنا قاری کے سامنے شعر رکھ دیتے تھے ۔
مصوری ہو شاعری ہو یا سنگ تراشی یہ سب فنون " تخیل " سے کہیں آگے " آمد " پر استوار ہوتے ہیں ۔
نہیں تو صرف " نقل " کا درجہ رکھتے ہیں ۔