پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

نایاب

لائبریرین
اپنی کہہ لی سب نے میں شسدر رہا :)

ٹھیک کہتے ہیں آپ نایاب بھائی۔ اگر یہی معیار تھا اور قافیہ ردیف اور ایہام و ابہام کا سلسلہ بیکار تھا تو غالب، میر، فیض، مومن جیسے شعرا صرف خرافات ہی کہہ گئے ہیں۔​
اور مصحفی جن کا کلام ہی چھ جلدوں میں ہے وہ تو اعلی ترین ٹامک ٹوئیاں مار گئے ہیں۔ اور اقبال۔ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا​

جی مکمل تو اترتا ہے لیکن شاعری کی تعریف پر نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک کے سبھی استاد شعرا متفقہ نے تخیل کو شاعر سے منسوب کیا ہے۔ نا کے شاعری سے۔​
2: بات پرانے ہے صرف الفاظ کی صورت نئی ہے۔ اچھوتا خیال اگر کسی نئے مضمون کو پیدا کرتا ہو تشبیہات کی کوئی ایسی حسین صورت ہو تو ٹھیک۔​
3: اگر شاعری غیر اصولی طور پر خیال باندھنے کا نام ہو جاتی تو شعرا اپنی عمر بھر استادی شاگردی میں ضائع نہ کرتے۔​
شاعری کسی بھی زبان کے محاوروں نثر، اور وقت کی زبان الفاظ و تراکیب کا اونچا ترین درجہ ہے۔ گویا شاعری کسی زبان کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضامین صرف اس میں تاثیر کے لئے ہوتے ہیں اگر صرف مضامین کو ہی دیکھا جائے اور الفاظ و تراکیب کی طرف توجہ نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کے اس زبان کا بیڑا غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ میرا نیا مضمون جو ’’شاعری، موسیقی اور علمِ عروض‘‘ کے نام سے ہے اس میں میں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ جس کلام سے اب تک قارئین لطف اندوز ہوتے آئے ہیں وہ وجود میں کیسے آیا یہ بات بھول کر صرف مضامین کو ترجیح دینا نا انصافی ہے۔​

اگر کسی مصور نے قلم پکڑنا نہ سیکھا ہو تو وہ اپنے تخیل کی شکل کیسے بنائے گا؟​
محترم بھائی مزمل شیخ بسمل
آمد اور تخیل میں کچھ فرق ہوتا ہے کیا ؟
یہ عظیم شعراء " تخیل " کے بل پر شاعری کیا کرتے تھے ؟
یا
" آمد " کے بل پر شاعری کہا کرتے تھے ۔ ؟
آپ کے اس مراسلے سے تو یہ تاثر ابھر رہا ہے
کہ یہ سب عظیم شعراء "تخیل " سے مدد لیتے حرفوں کو قافیہ ردیف عروض و بحر کی بھٹی میں تپا
اسے الفاظ بنا قاری کے سامنے شعر رکھ دیتے تھے ۔
مصوری ہو شاعری ہو یا سنگ تراشی یہ سب فنون " تخیل " سے کہیں آگے " آمد " پر استوار ہوتے ہیں ۔
نہیں تو صرف " نقل " کا درجہ رکھتے ہیں ۔
 

فاتح

لائبریرین
محترم فاتح بھائی
میرا نہیں خیال کہ آپ کے نظروں سے یہ مراسلہ نہ گزرا ہو ۔ جس کے جواب میں " بہتان عظیم " کا حقدار قرار پایا ۔
جس مراسلے کو آپ " بہ کی بورڈ خود " قرار دے رہے ہیں ۔اس میں شاعری کو گھڑنے والے اوزار بیان کیئے گئے ہیں ۔
اور اس مراسلے میں شاعری کو بھی گھڑی جانے والی قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ سے پڑھنے کی درخواست ہے ۔
میں آپ کے خیال سے متفق نہیں۔۔۔وارث صاحب نے تو اپنے مراسلے میں گھڑنے کی بات نہیں کی تھی مگر لیجیے میں کر رہا ہوں کہ "ہاں! شاعری گھڑی جاتی ہے"
اور جس "آمد" نامی بکواس کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
شاعری کو آپ کیا الہام سمجھتے ہیں کہ جسے جبرائیل لے کر آ رہا ہوتا ہے شاعر پر بصورت وحی نازل کرنے؟ اگر نہیں تو اس کا کوئی معیار کوئی پیمانہ ہو گا یا نہیں؟ اگر نہیں تب آپ کے مراسلۂ بالا کو بھی "شاعری" کیوں نہ کہا جائے؟؟؟ کہ خیال تو بہرحال آپ نے بھی پیش کر دیا ہے۔۔۔
رہی بات ان حدود و قیود اور ضابطوں پیمانوں کی جنھیں آپ شاعری گھڑنے کے اوزار کہہ رہے ہیں تو وہ شاعری گھڑنے کے نہیں بلکہ گھڑی جانے کے بعد یہ جاننے کے پیمانے ہیں کہ درست گھڑی گئی یا نہیں۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
محترم بھائی مزمل شیخ بسمل
آمد اور تخیل میں کچھ فرق ہوتا ہے کیا ؟
یہ عظیم شعراء " تخیل " کے بل پر شاعری کیا کرتے تھے ؟
یا
" آمد " کے بل پر شاعری کہا کرتے تھے ۔ ؟
آپ کے اس مراسلے سے تو یہ تاثر ابھر رہا ہے
کہ یہ سب عظیم شعراء "تخیل " سے مدد لیتے حرفوں کو قافیہ ردیف عروض و بحر کی بھٹی میں تپا
اسے الفاظ بنا قاری کے سامنے شعر رکھ دیتے تھے ۔
مصوری ہو شاعری ہو یا سنگ تراشی یہ سب فنون " تخیل " سے کہیں آگے " آمد " پر استوار ہوتے ہیں ۔
نہیں تو صرف " نقل " کا درجہ رکھتے ہیں ۔
مجھے یقین تھا کہ آپ کی جانب سے تان اسی سکہ بند اصطلاح "آمد" پر ٹوٹے گی اور تبھی اس آمد نامی خرافات کے متعلق میں اپنے گذشتہ مراسلے میں عرض کر چکا۔
ویسے یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی نظر میں "آمد" کی تعریف کیا ہے؟
 
محترم بھائی مزمل شیخ بسمل
آمد اور تخیل میں کچھ فرق ہوتا ہے کیا ؟
یہ عظیم شعراء " تخیل " کے بل پر شاعری کیا کرتے تھے ؟
یا
" آمد " کے بل پر شاعری کہا کرتے تھے ۔ ؟
آپ کے اس مراسلے سے تو یہ تاثر ابھر رہا ہے
کہ یہ سب عظیم شعراء "تخیل " سے مدد لیتے حرفوں کو قافیہ ردیف عروض و بحر کی بھٹی میں تپا
اسے الفاظ بنا قاری کے سامنے شعر رکھ دیتے تھے ۔
مصوری ہو شاعری ہو یا سنگ تراشی یہ سب فنون " تخیل " سے کہیں آگے " آمد " پر استوار ہوتے ہیں ۔
نہیں تو صرف " نقل " کا درجہ رکھتے ہیں ۔

آمد اور تخیل میں فرق سمجھا دیں مجھے جناب۔ میں تو یہ شعر جانتا ہوں
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب کہیں آتی ہے اک مصرع تر کی صورت

اسی شعر کو لے لیجئے۔ کہنے کو تو اک چھوٹی سی بات کہہ دی شاعر نے۔ لیکن اسے با وزن مصرعوں میں کہا ہے یہ بات جنہیں پتا نہ ہو وہ کس طور کہہ سکتے ہیں کہ کلام نازل ہوتا اور آگے بڑھا دیا جاتا ہے؟
صد آہ شرر ریزے یک شعر دل آویزے۔ :)
نایاب بھائی ایسا نہیں ہوتا کے تسبیح لیکر بیٹھا جاتا ہو اور اشعار آتے آتے گنے جاتے ہوں۔ :)
 
آمد اور تخیل میں فرق سمجھا دیں مجھے جناب۔ میں تو یہ شعر جانتا ہوں
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی تصویر۔

اسی شعر کو لے لیجئے۔ کہنے کو تو اک چھوٹی سی بات کہہ دی شاعر نے۔ لیکن اسے با وزن مصرعوں میں کہا ہے یہ بات جنہیں پتا نہ ہو وہ کس طور کہہ سکتے ہیں کہ کلام نازل ہوتا اور آگے بڑھا دیا جاتا ہے؟
صد آہ شرر ریزے یک شعر دل آویزے۔ :)
نایاب بھائی ایسا نہیں ہوتا کے تسبیح لیکر بیٹھا جاتا ہو اور اشعار آتے آتے گنے جاتے ہوں۔ :)
ہم نے یہی شعر نہ جانے کیوں ایسا سنا ہے
خشک سیروں تن شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب کہیں آتی ہے اک مصرع تر کی صورت
 

شاکرالقادری

لائبریرین
افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں سبھی ۔۔۔۔ ہر کوئی اعتدال کی راہ چھوڑے بیٹھا ہے ۔۔۔۔کوئی اشعار گھڑ کر اقلیم شعر کو فتح کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی "آمد" کے درہائے نایاب کی تلاش میں غوطہ زن ہے ۔۔۔۔۔
بھائی لڑتے کیوں ہو۔۔۔۔۔!
شعر گھڑے بھی جاتے ہیں !
اور آمد کو بھی بہت سا دخل ہوتا ہے اس میں

کبھی ساری ساری رات کی ریاضت اور مشقت سے مصرعہ تر کی صورت پیدا نہیں ہوتی
تو کبھی
غیب سے مضامین بندھے چلے آتے ہیں

میں نے تو سوتے ہوئے عالم خواب میں بھی شعر کہنے کا تجربہ کیا ہے
اور جاگنے پر ان چند اشعار کو نوٹ کیا۔ چانچا ، پرکھا، نا پا ، تولا ۔۔ ماسوائے ایک آدھ معمولی فروگزاشت کے سب کچھ ہی تو ٹھیک نکلا
اب بتایئے جس گھڑی میں سو رہا تھا اس گھڑی شعر گھڑنے والی مشین بھی معطل تھی لیکن دو چار اشعار ہو گئے۔
اس کو کیا کہیں گے
چلیں اس کو ہم شاعر کی زبان میں آمد نہیں کہتے بلکہ محض "بکواس" قرار دے دیتے ہیں
مگر موسیقار، جو کہ سروں کا شاعر ہے وہ بھی اس کا قائل ہے
وہ اس کو "روح داری" کا نام دیتا ہے
 

نایاب

لائبریرین
میں آپ کے خیال سے متفق نہیں۔۔۔ وارث صاحب نے تو اپنے مراسلے میں گھڑنے کی بات نہیں کی تھی مگر لیجیے میں کر رہا ہوں کہ "ہاں! شاعری گھڑی جاتی ہے"
اور جس "آمد" نامی بکواس کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
شاعری کو آپ کیا الہام سمجھتے ہیں کہ جسے جبرائیل لے کر آ رہا ہوتا ہے شاعر پر بصورت وحی نازل کرنے؟ اگر نہیں تو اس کا کوئی معیار کوئی پیمانہ ہو گا یا نہیں؟ اگر نہیں تب آپ کے مراسلۂ بالا کو بھی "شاعری" کیوں نہ کہا جائے؟؟؟ کہ خیال تو بہرحال آپ نے بھی پیش کر دیا ہے۔۔۔
رہی بات ان حدود و قیود اور ضابطوں پیمانوں کی جنھیں آپ شاعری گھڑنے کے اوزار کہہ رہے ہیں تو وہ شاعری گھڑنے کے نہیں بلکہ گھڑی جانے کے بعد یہ جاننے کے پیمانے ہیں کہ درست گھڑی گئی یا نہیں۔ :)
مجھے یقین تھا کہ آپ کی جانب سے تان اسی سکہ بند اصطلاح "آمد" پر ٹوٹے گی اور تبھی اس آمد نامی خرافات کے متعلق میں اپنے گذشتہ مراسلے میں عرض کر چکا۔
ویسے یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی نظر میں "آمد" کی تعریف کیا ہے؟
محترم بھائی
آپ نے تسلیم کر لیا کہ شاعری گھڑی جاتی ہے ۔ یہ آپ کا ذاتی خیال ہے ۔ اور آپ اس خیال کو قائم رکھنے پھیلانے میں آزاد ہیں ۔
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ شاعری گھڑی جاتی ہے ۔ سو میں اپنے سوچ و خیال میں آزاد ہوں ۔
دوسری بات آپ نے " آمد " کو بکواس قرار فرماتے الہام اور وحی کو یکساں ذکر فرمایا ۔
تعجب تو ہوا مگر اگر
آپ جیسی صاحب علم ہستی آمد ۔ الہام اور وحی میں کچھ فرق نہیں کرتی
تو یہ اس بات کی دلیل کہ واقعہ آپ شاعری کو صرف " لفظوں " کا گھڑا جانا ہی سمجھتے ہیں ۔
آپ آزادی سے شاعری گھڑنے میں آزاد ہیں ۔ اور آپ کا اتباع کرنے والے بھی آزاد ہیں ۔
اب آپ جیسی استاد فن ہستی سے آمد الہام اور وحی کے بارے کیا بات کی جائے ۔
کیونکہ آپ اپنی دلیل میں انہیں یکساں درجے پر قرار دے چکے ۔ سو وقت کا زیاں ہوگا ۔
 

فاتح

لائبریرین
افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں سبھی ۔۔۔ ۔ ہر کوئی اعتدال کی راہ چھوڑے بیٹھا ہے ۔۔۔ ۔کوئی اشعار گھڑ کر اقلیم شعر کو فتح کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی "آمد" کے درہائے نایاب کی تلاش میں غوطہ زن ہے ۔۔۔ ۔۔
بھائی لڑتے کیوں ہو۔۔۔ ۔۔!
شعر گھڑے بھی جاتے ہیں !
اور آمد کو بھی بہت سا دخل ہوتا ہے اس میں

کبھی ساری ساری رات کی ریاضت اور مشقت سے مصرعہ تر کی صورت پیدا نہیں ہوتی
تو کبھی
غیب سے مضامین بندھے چلے آتے ہیں

میں نے تو سوتے ہوئے عالم خواب میں بھی شعر کہنے کا تجربہ کیا ہے
اور جاگنے پر ان چند اشعار کو نوٹ کیا۔ چانچا ، پرکھا، نا پا ، تولا ۔۔ ماسوائے ایک آدھ معمولی فروگزاشت کے سب کچھ ہی تو ٹھیک نکلا
اب بتایئے جس گھڑی میں سو رہا تھا اس گھڑی شعر گھڑنے والی مشین بھی معطل تھی لیکن دو چار اشعار ہو گئے۔
اس کو کیا کہیں گے
چلیں اس کو ہم شاعر کی زبان میں آمد نہیں کہتے بلکہ محض "بکواس" قرار دے دیتے ہیں
مگر موسیقار، جو کہ سروں کا شاعر ہے وہ بھی اس کا قائل ہے
وہ اس کو "روح داری" کا نام دیتا ہے
ہم جس زمانے میں تاش کھیلا کرتے تھے اکثر رات کو تاش ہی کے خواب آ رہے ہوتے تھے اور کئی مرتبہ ان خوابوں میں ایسی ایسی چالیں سیکھیں کہ جاگتے ہوئے دماغ لڑا کر بھی نہ سیکھ پائے تھے۔
دماغ نامی مشین اتنی پیچیدہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے نفسیات دانوں نے لاکھوں کتابیں لکھ ماریں۔۔۔ فرائڈ اور یونگ خواب اور دماغ کے تعلق سے اپنے مضامین اور کتب کے حوالے سے مشہور ترین نفسیات دان ہیں۔
آپ کو تو خواب میں ہونے والی "آمد" میں ایک آدھ معمولی فروگذاشت کرنی پڑی لیکن اگر کسی کو نہ بھی کرنی پڑے تب بھی اسے دماغ کی کارستانی ہی کہا جائے گا کوئی اترا ہوا صحیفہ نہیں۔
 
افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں سبھی ۔۔۔ ۔ ہر کوئی اعتدال کی راہ چھوڑے بیٹھا ہے ۔۔۔ ۔کوئی اشعار گھڑ کر اقلیم شعر کو فتح کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی "آمد" کے درہائے نایاب کی تلاش میں غوطہ زن ہے ۔۔۔ ۔۔
بھائی لڑتے کیوں ہو۔۔۔ ۔۔!
شعر گھڑے بھی جاتے ہیں !
اور آمد کو بھی بہت سا دخل ہوتا ہے اس میں

کبھی ساری ساری رات کی ریاضت اور مشقت سے مصرعہ تر کی صورت پیدا نہیں ہوتی
تو کبھی
غیب سے مضامین بندھے چلے آتے ہیں

میں نے تو سوتے ہوئے عالم خواب میں بھی شعر کہنے کا تجربہ کیا ہے
اور جاگنے پر ان چند اشعار کو نوٹ کیا۔ چانچا ، پرکھا، نا پا ، تولا ۔۔ ماسوائے ایک آدھ معمولی فروگزاشت کے سب کچھ ہی تو ٹھیک نکلا
اب بتایئے جس گھڑی میں سو رہا تھا اس گھڑی شعر گھڑنے والی مشین بھی معطل تھی لیکن دو چار اشعار ہو گئے۔
اس کو کیا کہیں گے
چلیں اس کو ہم شاعر کی زبان میں آمد نہیں کہتے بلکہ محض "بکواس" قرار دے دیتے ہیں
مگر موسیقار، جو کہ سروں کا شاعر ہے وہ بھی اس کا قائل ہے
وہ اس کو "روح داری" کا نام دیتا ہے

یہ برجستہ کلامی ہوئی۔ قادر الکلامی تو نہ ہوگی۔ سخن آزمائی کیا ہوتی ہے محترم استاد جی؟
 

فاتح

لائبریرین
محترم بھائی
آپ نے تسلیم کر لیا کہ شاعری گھڑی جاتی ہے ۔ یہ آپ کا ذاتی خیال ہے ۔ اور آپ اس خیال کو قائم رکھنے پھیلانے میں آزاد ہیں ۔
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ شاعری گھڑی جاتی ہے ۔ سو میں اپنے سوچ و خیال میں آزاد ہوں ۔
دوسری بات آپ نے " آمد " کو بکواس قرار فرماتے الہام اور وحی کو یکساں ذکر فرمایا ۔
تعجب تو ہوا مگر اگر
آپ جیسی صاحب علم ہستی آمد ۔ الہام اور وحی میں کچھ فرق نہیں کرتی
تو یہ اس بات کی دلیل کہ واقعہ آپ شاعری کو صرف " لفظوں " کا گھڑا جانا ہی سمجھتے ہیں ۔
آپ آزادی سے شاعری گھڑنے میں آزاد ہیں ۔ اور آپ کا اتباع کرنے والے بھی آزاد ہیں ۔
اب آپ جیسی استاد فن ہستی سے آمد الہام اور وحی کے بارے کیا بات کی جائے ۔
کیونکہ آپ اپنی دلیل میں انہیں یکساں درجے پر قرار دے چکے ۔ سو وقت کا زیاں ہوگا ۔
آپ الہام و وحی میں فرق سمجھا کر وقت کا زیاں نہ فرمائیں کہ اس فرق کو جاننے کے لیے ہم نے آپ سے درخواست کی بھی نہیں۔ ہمارا سوال یا درخواست تو محض یہ تھی کہ جس آمد کا آپ نے ذکر فرمایا ہے اس کی تعریف بیان فرما دیجیے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ہم جس زمانے میں تاش کھیلا کرتے تھے اکثر رات کو تاش ہی کے خواب آ رہے ہوتے تھے اور کئی مرتبہ ان خوابوں میں ایسی ایسی چالیں سیکھیں کہ جاگتے ہوئے دماغ لڑا کر بھی نہ سیکھ پائے تھے۔
دماغ نامی مشین اتنی پیچیدہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے نفسیات دانوں نے لاکھوں کتابیں لکھ ماریں۔۔۔ فرائڈ اور یونگ خواب اور دماغ کے تعلق سے اپنے مضامین اور کتب کے حوالے سے مشہور ترین نفسیات دان ہیں۔
آپ کو تو خواب میں ہونے والی "آمد" میں ایک آدھ معمولی فروگذاشت کرنی پڑی لیکن اگر کسی کو نہ بھی کرنی پڑے تب بھی اسے دماغ کی کارستانی ہی کہا جائے گا کوئی اترا ہوا صحیفہ نہیں۔
لو جی! مسئلہ حل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ جبریل ۔۔۔ وحی لایا کرتے ہیں الہام نہیں اور وحی کا سلسلہ تو کب کا بند ہو چکا ہے ۔۔۔ حتی کہ آجکل کوئی مدعی نبوت بھی موجود نہیں جسے وحی کا دعوی ہو ۔۔۔۔
ہم جسے آمد کا نام دیتے ہیں یہ وہی چیز ہے جس کو آپ دماغ کا کارستانی کہتے ہیں
تو گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ انسان کے لاشعور سے کچھ پیغامات بظاہر غیر ارادی طور پر اس کے شعور میں منتقل ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیچے میں انسان سے کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں اور ان افعال کے لیے وہ ایک معمول کی طرح مجبور ہوتا ہے ۔۔۔
توصاحب جن لوگوں سے ایسے لاشعوری پیغامات کے تحت اشعار موزوں ہوئے ہیں فن شعر گوئی کی تارخ میں اس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں
توارد ۔۔۔۔۔ سینکڑوں میلوں کے فاصلہ پر رہنے والے دو شعرا جن پر ایک ہی رات میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے اترے (اترے سے مراد۔۔۔ وحی نہیں) جب وہ طویل عرصہ کے بعد ایک دوسرے سے ملاقی ہوئے تو حیرت کے پہاڑ تلے دب گئے کہ ایک ہی تایخ کو ایک ہی رات میں ایک ہی تعداد میں ایکہ ہی قافیہ ردیف حتی کے ایک حرف کا بھی فرق نہیں پورا پورا قصیدہ کیسے ہو گیا۔۔۔۔
وہ عرب جنگجو ۔۔۔۔۔ جو مبارز طلب ہوتے ہوئے ہر تلوار کی صرب کے ساتھ ایک فی البدیہہ رجز پڑھتے تھے کیا دشمن کی تلوار انہیں شعر گھڑنے کا موقع دیتی تھی۔
اگر کسی کو تاش کے کھیل میں آمد ہو سکتی ہے تو شعر میں کیوں نہیں
 

نایاب

لائبریرین
آپ الہام و وحی میں فرق سمجھا کر وقت کا زیاں نہ فرمائیں کہ اس فرق کو جاننے کے لیے ہم نے آپ سے درخواست کی بھی نہیں۔ ہمارا سوال یا درخواست تو محض یہ تھی کہ جس آمد کا آپ نے ذکر فرمایا ہے اس کی تعریف بیان فرما دیجیے۔
محترم بھائی
جیسا کہ آپ نے تاش کے کھیل کی مثال دی ۔یہ آمد سے دور کہلائے گی
ہاں تاش کھیلتے وقت جو چال آپ اپنے خیال و وجدان کے بل پر چلیں گے ۔ وہ آمد کہلائے گی
آمد کو آپ لا شعوری کوشش کا ثمر بھی کہہ سکتے ہیں ۔
ایسی لاشعوری کوشش جس نے دماغ کو تحریک دیتے خیال و وجدان کو مصروف کرتے حل سامنے لا کھڑا کیا ۔
باقی آپ اساتذہ کا شکر گذار ہوں کہ آج کی گفتگو سے یہ علم حاصل ہوا کہ جتنے بھی بڑے شعراء گزرے ہیں ۔
وہ سب شاعری گھڑا کرتے تھے ۔ اور پھر اس کی نوک پلک سنوارا کرتے تھے ۔
 

فاتح

لائبریرین
لو جی! مسئلہ حل ہو گیا ۔۔۔ ۔۔۔ جبریل ۔۔۔ وحی لایا کرتے ہیں الہام نہیں اور وحی کا سلسلہ تو کب کا بند ہو چکا ہے ۔۔۔ حتی کہ آجکل کوئی مدعی نبوت بھی موجود نہیں جسے وحی کا دعوی ہو ۔۔۔ ۔
ہم جسے آمد کا نام دیتے ہیں یہ وہی چیز ہے جس کو آپ دماغ کا کارستانی کہتے ہیں
تو گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ انسان کے لاشعور سے کچھ پیغامات بظاہر غیر ارادی طور پر اس کے شعور میں منتقل ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیچے میں انسان سے کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں اور ان افعال کے لیے وہ ایک معمول کی طرح مجبور ہوتا ہے ۔۔۔
توصاحب جن لوگوں سے ایسے لاشعوری پیغامات کے تحت اشعار موزوں ہوئے ہیں فن شعر گوئی کی تارخ میں اس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں
توارد ۔۔۔ ۔۔ سینکڑوں میلوں کے فاصلہ پر رہنے والے دو شعرا جن پر ایک ہی رات میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے اترے (اترے سے مراد۔۔۔ وحی نہیں) جب وہ طویل عرصہ کے بعد ایک دوسرے سے ملاقی ہوئے تو حیرت کے پہاڑ تلے دب گئے کہ ایک ہی تایخ کو ایک ہی رات میں ایک ہی تعداد میں ایکہ ہی قافیہ ردیف حتی کے ایک حرف کا بھی فرق نہیں پورا پورا قصیدہ کیسے ہو گیا۔۔۔ ۔
وہ عرب جنگجو ۔۔۔ ۔۔ جو مبارز طلب ہوتے ہوئے ہر تلوار کی صرب کے ساتھ ایک فی البدیہہ رجز پڑھتے تھے کیا دشمن کی تلوار انہیں شعر گھڑنے کا موقع دیتی تھی۔
اگر کسی کو تاش کے کھیل میں آمد ہو سکتی ہے تو شعر میں کیوں نہیں
شعور ہو، تحت الشعور یا لا شعور۔۔۔ یہ سب "دماغ" کی ہی کارستانیاں ہیں۔ اور جو شے انسان کے دماغ میں ہی پرورش پا کر اس کے ایک حصے "لا شعور" سے دوسرے حصے "شعور" میں منتقل ہوئی وہ "اتری" کہاں؟
اور جہاں تک سینکڑوں میلوں کے فاصلہ پر رہنے والے دو شعرا پر ایک ہی رات میں کئی کئی سو اشعار کے ایک بھی حرف کے فرق کے بغیر قصیدے اترنے کا واقعہ ہے تو یہ مجھ لا علم کے علم میں تو نہیں۔۔۔ یہ شاید سنی سنائی کہانیاں ہیں جن کو عقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر دیگر ماورائی و جناتی قصوں کی طرح پھیلا دیا گیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ ہے تو "مع ثبوت" ہمیں بھی بتا دیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
فاتح میں یہاں کسی سے بحث نہیں کر رہا اپنا حاصل مطالعہ بیان کر رہا ہوں اور فی الحال میری تائید غالب کر رہا ہے :)
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

یہ غالب کی غیب سے مضامین کا خیال میں آنے سے کیا مراد ہے

اور یہ جوش ملیح آبادی کو کیا ہوا:
مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
شاعری کے باب میں بعض بزرگوں نے ایک خالص دینی مصلحت کی بناء پر، جسکی شرح کا یہاں موقع نہیں، یہ عجیب کلیہ وضع فرمایا ہے کہ صرف اس موزوں کلام پر شعر کا اطلاق ہوگا جو "بالقصد" کہا گیا ہو، اگر یہ کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ میں نے آج کی تاریخ تک، ایک مصرع بھی "بالقصد" موزوں کرنے کا ارتکاب نہیں کیا ہے، اس لئے آپ کو اختیارِ کامل حاصل ہے کہ میرے تمام کلام کو شاعری سے کلیۃ خارج فرما کر، میرے غیرِ شاعر ہونے کا اعلان فرما دیں، میں خوش میرا خدا خوش۔ [15]
 

شاکرالقادری

لائبریرین
فاتح میں یہاں کسی سے بحث نہیں کر رہا اپنا حاصل مطالعہ بیان کر رہا ہوں اور فی الحال میری تائید غالب کر رہا ہے :)
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

یہ غالب کی غیب سے مضامین کا خیال میں آنے سے کیا مراد ہے

اور یہ جوش ملیح آبادی کو کیا ہوا:
مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
شاعری کے باب میں بعض بزرگوں نے ایک خالص دینی مصلحت کی بناء پر، جسکی شرح کا یہاں موقع نہیں، یہ عجیب کلیہ وضع فرمایا ہے کہ صرف اس موزوں کلام پر شعر کا اطلاق ہوگا جو "بالقصد" کہا گیا ہو، اگر یہ کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ میں نے آج کی تاریخ تک، ایک مصرع بھی "بالقصد" موزوں کرنے کا ارتکاب نہیں کیا ہے، اس لئے آپ کو اختیارِ کامل حاصل ہے کہ میرے تمام کلام کو شاعری سے کلیۃ خارج فرما کر، میرے غیرِ شاعر ہونے کا اعلان فرما دیں، میں خوش میرا خدا خوش۔
[15]
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اور جہاں تک سینکڑوں میلوں کے فاصلہ پر رہنے والے دو شعرا پر ایک ہی رات میں کئی کئی سو اشعار کے ایک بھی حرف کے فرق کے بغیر قصیدے اترنے کا واقعہ ہے تو یہ مجھ لا علم کے علم میں تو نہیں۔۔۔ یہ شاید سنی سنائی کہانیاں ہیں جن کو عقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر دیگر ماورائی و جناتی قصوں کی طرح پھیلا دیا گیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ ہے تو "مع ثبوت" ہمیں بھی بتا دیں۔
میں کیا عرض کروں ادبیات عربی و فارسی کی تاریخ پر اگر نگاہ لطف ڈالیں تو شاید وہ ایسے کی واقعات آپ کے سامنے پیش کر دے
اور جہاں تک "مع ثبوت" کا تعلق ہے تو شاید تاریخ شعرو ادب سے متعلق کتابوں کے علاوہ کوئی ایسی شہادت میرے پاس موجود نہیں جس پر کوئی منصف فیصلہ دے سکے
ایک چھو ٹی ی ی ی ی ی ی سی مثال شاید ثبوت کے طور پر قبولیت پائے یا نہ پائے
خاقانی: کاین شبستان زحمت ما بر نتابد بیش از این
حافظ: خاک کویت زحمت ما برنتابد بیش از این
 
شعر کی تعریف

شعر کے لغوی معنوی جاننا اور بوجھنا وغیرہ کے ہیں اور جیسا کہ اوپر گزرا کہ علمِ عروض کسی "شعر" کو جانچتا ہے تو اس سے ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شعر ہے کیا؟ اور کس چیز کو شعر کہتے ہیں جس کو علمِ عروض جانچتا ہے۔ یہ ایک نزاعی مسئلہ ہے اور صدیوں سے علماء و ماہرینِ فن اس کا جواب دے رہے ہیں لیکن ابھی تک شعر کی ایک ایسی جامع تعریف متعین نہیں ہو سکی جو سب فریقین کیلیے قابلِ قبول ہو۔
کسی بھی شعر کی عموماً دو طرح کی تعریفیں کی جاتی ہیں، ایک منطقی اور دوسری عروضی اور عموماً ان دو تعریفوں کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے نزاعی صورتحال پیدا ہوتی ہے، ہم ان دونوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔
منطقی تعریف

منطقی تعریف عموماً شعر کی ایک جامع اور انتہائی وسیع تعریف ہوتی ہے جو کہ ماہرینِ علم منطق بیان کرتے ہیں، اور شعر کی اساس تخیل کو قرار دیتے ہیں۔
  • بو علی سینا نے "کتاب الشفا" کی بحثِ منطق میں لکھا ہے"منطقی کی نظر قافیے اور وزن کی طرف نہیں ہوتی، اسکے نزدیک تو یہ چاہیئے کہ وہ کلام مخیل ہو۔" [9]
  • مولانا شبلی نعمانی "شعر العجم" میں لکھتے ہیں "اب منطقی پیرایہ میں شعر کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔" [11]
  • مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری" میں قافیے اور وزن کی قید کو شعر کی تعریف سے اڑا دیا ہے اور شعر کی تخلیق میں تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے، تخیل، مطالعہ کائنات اور تفحص الفاظ۔ [12]
لیکن علمِ عروض کے ماہرین اور زیادہ تر شعراء کے قریب یہ سب تعریفیں موضوعی ہیں اور قابلِ قبول نہیں ہیں، اگر محض تخیل یا جذبات کو ہی "شعر" کا معیار قرار دے دیا جائے تو پھر ہر پُر از تخیل اور پُر از جذبات جملہ چاہے وہ موزوں ہو یا نہ ہو، مترنم یا ہم آہنگ (مقفیٰ) ہو نہ ہو یا قصداً کہا گیا ہو یا نہ، شعر کہلائے گا اور ہم کسی معروضی معیار سے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ فلاں جملہ یا بات شعر ہے یا نہیں۔
عروضی تعریف

علمِ عروض کے ماہرین دو جمع دو چار یعنی معروضی معیار کے قائل ہیں اور کسی بھی شعر کہلائے جانے کے امیدوار جملے کو ریاضی کے اصولوں پر وضع کردہ معیار پر جانچتے ہیں اور اس پر "ہاں" یا "ناں" کا حکم لگاتے ہیں۔ اور ابنِ رشیق کے تقریباً ہزار سال قبل بنائے گئے معیار کو ہی، کسی نہ کسی شکل، میں مانتے ہیں جو کہ کچھ یوں ہے:
شعر ایسا کلام ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو اور بالقصد (بالاارادہ) کہا گیا ہو - ابنِ رشیق
[13]
کسی بھی کلام کےشعر ہونے کیلیے اس تعریف میں تین معیار ہیں:
  1. وزن
  2. قافیہ
  3. قصد یا ارادہ یا کوشش
اور اب ہم تینوں معیاروں کو کسی قدر تفصیل سے دیکھتے ہیں لیکن جس ترتیب سے یہ تعریف میں آئے ہیں اس سے الٹی ترتیب میں۔
قصد یا ارادہ

شعر پر اس قدغن کا مقصد یہ ہے کہ شعر وہ ہے جو شعر کے ارادے اور نیت سے کہا جائے نہ کہ ہر کسی موزوں جملے کو شعر کہا جائے۔ بحروں کی ذیلی تعداد سینکڑوں میں ہے لہذا بے شمار جملے اور کلمے کسی نہ کسی بحر کے وزن پر پورا اترتے ہیں لہذا موزوں ہو جاتے ہیں لیکن ان کو اس قدغن کی رو سے شعر نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اس قدغن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی کئی ایسی آیات ہیں جو کسی نہ کسی وزن پر پوری اترتی ہیں، جیسے لاحول و لا قوۃ الا باللہ جو کہ بحرِ ہزج میں ہے اور رباعی کا ایک وزن'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔ اسکے علاوہ بحر الفصاحت میں اٹھارہ آیات لکھی ہیں جو کے کسی نہ کسی وزن پر پورا اترتی ہیں، [14] مثلاً
  • بسم اللہ الرحمان الرحیم (بحر سریع، وزن مفعولن مفعولن فاعلان)
  • انا اعطینک الکوثر (بحر متدارک، وزن فعلن فعلن فعلن فعلن)
  • لن تنالوا البر حتی تنفقو (بحر رمل، وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
اور مشرکینِ عرب قرآن کو شاعری بھی کہتے تھے حالانکہ نہ یہ شاعری ہے اور نہ ہی شاعری کی نیت اور ارادے سے کہا گیا ہے لہذا مسلمانوں کا ایمان تو ہے ہی لیکن اس تعریف کی رو سے بھی قرآن مجید کی موزوں آیات شاعری نہیں ہے کیونکہ "بالقصد" نہیں ہے۔
لیکن شعرا میں ایک عام خیال یہ ہے کہ جو کلام ارادے یا قصد یا کوشش سے کہا جائے وہ آورد ہے اور آمد کے مقابلے میں کم تر درجے کا ہے، مثلاً مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
شاعری کے باب میں بعض بزرگوں نے ایک خالص دینی مصلحت کی بناء پر، جسکی شرح کا یہاں موقع نہیں، یہ عجیب کلیہ وضع فرمایا ہے کہ صرف اس موزوں کلام پر شعر کا اطلاق ہوگا جو "بالقصد" کہا گیا ہو، اگر یہ کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ میں نے آج کی تاریخ تک، ایک مصرع بھی "بالقصد" موزوں کرنے کا ارتکاب نہیں کیا ہے، اس لئے آپ کو اختیارِ کامل حاصل ہے کہ میرے تمام کلام کو شاعری سے کلیۃ خارج فرما کر، میرے غیرِ شاعر ہونے کا اعلان فرما دیں، میں خوش میرا خدا خوش۔[15]
لیکن یہ غلط خیال عموماً اس وجہ سے پھیلا ہے کہ "بالقصد" کا مطلب "آورد" سے قریب لیا گیا ہے حالانکہ اس کا مطلب "شعر کی نیت" سے قریب لینا چاہیئے کیونکہ چاہے شاعر کو آمد ہو یا آورد، نیت اسکی شعر کہنے کی ہی ہوتی ہے۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/علم_عروض#cite_note-14
 
Top