بسمل! مجھے پہلے تمہاری بات پر یقین نہ تھا کہ تم انیس سال کے بچے ہو ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ تمہاری
بالک ہٹ
سے کم از کم تمہاری یہ بات ت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی
اب بچوں کی ضد سے کون لڑ سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔ تمہارے لیے اتمام حجت ہم نے کر دیا ۔۔۔ ۔ اکڑ بکڑ کی مثال تو ہم نے ایک دی ہے ناں جو بقول تمہارے ہمارے پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں ۔۔۔ اور تم نے فاتح والی بہتر تہتر کو کوٹ کر دیا ہمیں جھٹلانے کے لیے ۔۔۔
اگر آپ کو یوں لگا کے میں نے آپ کی بات کو جھٹلانے کی خاطر فاتح بھائی کا قول نقل کیا تو معذرت کے ساتھ کہوں ایسا نہیں تھا۔ مقصود یہ تھا کہ ہر کلام موزوں شاعری نہیں ہوتا۔
تم نے کہا تھا کوئی مثال دو ۔۔۔ ۔ جس میں قافیہ ردیف کے متعلق علم نہ رکھنے والا کوئی انسان ہو۔۔۔ ۔ اور اس پر قافیے والے اشعار نازل ہوئے ہوں ۔۔۔ ہم نے مثال دے دی ۔۔۔ ۔ اگر تم ان معصوم بچوں کے ہم آواز الفاظ پر مشتمل کلام کو شعر کے درجہ سے خارج کرتے ہوتو کرتے رہو ۔۔۔
جی بالکل۔ اگر آپ یہ کہیں میں
ایک دو تین
بڈھے بابا کی مشین
وغیرہ جیسی چیزوں کو شاعری مان لوں تو معذرت یہ میں نہیں کر سکتا۔ ہاں آپ کے بڑے ہونے کی وجہ سے اگر آپ کہیں کے خاموشی اختیار کرو تو ضرور۔
اس لیے کہ تمہاری ذہنی سطح ابھی ان معصوم بچوں سے قدرے بلند ہو گئی ہے۔۔۔ ان بچوں کو ابھی قافیہ ردیف کا علم نہیں ۔۔۔
بعض علم لاعلمی کی حالت میں ہی کیوں نہ ہوں وہ علم ہی ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کے انہیں قافیہ اور ردیف کی اصطلاح کا علم ہو۔
اور تم تو نجم الغنی پر بھی کمند ڈال چکے ہو اسے بھی اپنا نخچیر کر چکے ہو ۔۔۔ ۔
اب کسی چیز کا علم ہو تو کہ وہ غلط ہے تو اس کی تصحیح کو نخچیر کرنا سے کیا مراد؟ بے وجہ تو غلط نہیں کہا۔ اور اگر بے وجہ غلط کہا ہے تو میں تو کہتا ہوں کے کوئی عروضی آکر مجھے سمجھا دے میں کہاں غلط ہوں۔ دوسری بات یہ کے میں نے اپنی استادی جھاڑنے کے لئے نہیں بلکہ اپنا تردد دور کرنے کے لئے سوال کیا تھا۔ میں کوئی عروضی نہیں ہوں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوے جب مجھے عروض کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا۔
لیکن اس دور کا کوئی بھی سینئر شاعر شاید تمہاری قافیہ پیمائی کو شاعری تسلیم نہ کرے۔ ۔ ۔ غالب و اقبال تو دور کی بات ہے۔۔۔ اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں ۔۔۔ تم ان بچوں کی صلاحیت سے انکاری ہو ۔۔۔ ۔ کوئی تمہاری صلاحیتوں سے انکاری ہوگا ۔۔۔ میاں مشاعروں میں داد وصول کرنا اور بات ہے اور کسی ناقد کی تنقید سننا اور بات ہے
ہم نے تو ہمیشہ تمہاری صلاحیتوں کی داد دی نہ کے تمہارے گھڑے ہوئے اشعار کی
چلیں ٹھیک جیسا آپ کہیں لیکن لفظ ’’گڑھنا‘‘ کا مفہوم آپ کچھ اور سمجھ بیٹھے ہیں۔ جو میں کہہ رہا تھا اسے آپ نے سمجھنا گوارا نہ کیا۔ خیر۔ ایسا ہی ٹھیک۔
ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے تمہیں طبع موزوں سے نوازا ہے ۔۔۔ اس پر بھروسہ کرو اور شعر کی دیگر خوبیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ایک غزل میں چھ چھ مطلعے کہنے کی بجائے ڈھنگ کا ایک ہی مطلع کہہ دیا کرو تو بات بنے ۔۔۔ مشکل پسندی کا ڈنڈا لے کر استادی جھاڑنے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔ ۔
اللہ اکبر۔ استادی ؟ جناب میں نے ہمیشہ آپ کو۔ وارث بھائی کو۔ اعجاز صاحب استاد کہہ کر پکارا ہے۔ اپنے آپ کو استاد کیونکر سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے کوئی افسوس نہیں آپ میری ساری شاعری یا جو بھی نام دیں اسے ۔ کچرے کے ڈبے میں اٹھا پھینکیں۔ میں نے کبھی خود کے شاعر ہونے کا دعوی نہیں کیا حضرت۔