پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

فاتح

لائبریرین
اسی دھن میں ہم نوید ظفر کیانی صاحب کے بلاگ پر پہنچ گئے وہاں بھی ایک ایسی ہی غزل ہے۔ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ ذرا دیکھئے۔

بے مہار غزل

بھونکنا مجھ پہ سرِ راہے شرافت کب تھی
تیرے کتے سے رقابت کب تھی

عشوہ و ناز و ادا
اتنے ہتھیار لئے پھرنا حسینوں کی ضرورت کب تھی

ہاتھ اوروں کی طرح بہتی ہوئی گنگا میں دھونے کی تمنا تھی شرافت کے نمونوں کو مگر
جرات کب تھی

کام کرنے کے عیوض اُس نے اگر بھیجی پھلوں کی پیٹی
ایک سوغات تھی ، رشوت کب تھی

ٹورنامنٹ میں سب کھیل کئے تھے شامل
ہاں مگر اُس میں سیاست کب تھی

مجھ کو کہتے رہے مکار تو یہ آپ کا حسنِ ظن تھا
میری تعریف تھی ، تشکیک کی صورت کب تھی

رات کے کھانے کی فہرست لکھی تھی ذرا اسٹائل سے
شاعری میں کوئی جدت کب تھی

میں جو افسر تھا تو چپڑاسی تھا میرا بھائی
جیسے ہُن اُس پہ برستا رہا ، ویسی میری قسمت کب تھی

میری پی آر نے ایوارڈ دلائے ہیں زمانے بھر سے
شاعری ذریعۀ عزت کب تھی

تھی مرے بھانجے کی تحقیق کہ غالب سے بہرحال بڑا شاعر ہوں
تم میں تسلیمِ حقیقت کی جسارت کب تھی
ارکان کے اختلافِ طوالت سے قطر نظر ذیل کے دو مصرعے تو بہرحال بے وزن ہیں:
"جرات کب تھی"
"شاعری ذریعۀ عزت کب تھی"
 

نایاب

لائبریرین
نایاب صاحب قافیہ پیمائی اور چیز ہوتی ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ شاعر نے غیر ضروری طور پر قافیوں کا طومار باندھ رکھا ہے، جیسے پچیس پچیس تیس تیس اشعار کی غزلوں میں ہوتا ہے۔
شاعری کہا کسے جاتا ہے ۔ میرے محترم بھائی
کیا ایہام کی پناہ لیتے موضوع کو مجہول رکھتے قافیہ و ردیف کی آڑ میں قاری کو الجھانا
شاعری کہنا ہوتی ہے ۔ ؟
ایسی شاعری کہنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو قاری کے سر منڈھ دیتا ہے ۔
قاری بیچارہ ٹامک ٹوئیاں مارتے بزعم خود شاعری کو سمجھ نعرہ مستانہ لگاہی رہا ہوتا ہے
کہ دوسرا قاری " ایہام و جہل " کے بحر میں غوطہ لگاتے گوہر مقصود پاتا ہے ۔
اور شاعری " کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے " کی مثال بن مشہور و مقبول ہو جاتی ہے ۔
لیکن قافیے کے بغیر کوئی شاعری نہیں ہوتی۔
یہ شاعری میں قافیہ ردیف کہاں سے آئے ہیں ۔؟
یہ عروض و بحر کے الجھاوے کس نے پھیلائے ہیں ۔؟
شاعری قدیم ہے اور جانے کب سے کہی جا رہی ہے
اور یہ قافیے کب کی ایجاد ہیں ۔؟
ان اشعار میں کوئی نئی بات نہیں ہے، وہی جام وہی شام وہی عشق وہی ناکام۔ ہاں ان حروف کو توڑ کر ایک اچھوتا خیال ضرور باندھا جنابِ شاعر نے، اور اسکی داد مل رہی ہے۔
شاعری کی مکمل تعریف پر پورا اترتا ہے یہ کلا م
کہ بات پرانی ہے مگر خیال اچھوتا ہے
اور اچھوتے خیال ہی مقبول ہوتے شاعری میں نئی راہوں کو کھولتے ہیں ۔
شاعری صرف خیال باندھنے کا نام ہے ۔ اسے ترتیب لفظی میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے ۔؟
غلطی بہرحال غلطی ہوتی ہے، اور وہ ان اشعار میں موجود ہے۔ اب کوئی قرآن حدیث تو ہے نہیں کہ غلطی سے مبرا ہو یا غلطی کی نشاندہی کرنا کوئی غلطی ہے؟
اگر قران و حدیث کا ذکر نہ کیا جاتا تو شاید مجھے یہ سوالات اٹھانے کی جرات نہ ہوتی ،
لیکن شاعری کوئی حدیث یا آیت قرانی نہیں ہوتی ۔ کہ یہ اپنے لفظوں کے الٹ پھیر سے قابل گرفت ٹھہرے ۔
شاعری تو ویسے ہی سورت الشعراء کی روشنی سے اپنی جگہ مردود ٹھہرتی ہے ۔
کجا یہ کہ اس کا موازنہ قران و حدیث سے کیا جائے ۔
یہ قافیے ردیف بحر و عروض شاعری کو گھڑنے کے اوزار ہیں ۔
جو شاعری گھڑی جائے وہ شاعری کہاں ؟
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ صاحب
مسکراہٹ لانے والے اشعار ہیں، پیش کرنے کے لئے تشکّر !

انفرادیت لئے، اِن بالااشعار سے، میراجی کا یہ شعر یاد آیا کہ :

ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہے
میراجی

بہت خوش رہیں
بہت شکریہ شاہ جی
 
اس تنازع کو شاید اس ڈھنگ سے ختم کیا جا سکے۔۔۔​
ارسطو کی نگاہ میں تخیّل کو ابھارنے اور اکسانے والے کلام کو شعر کہتے ہیں۔
علم عروض کے ماہرین کی نگاہ میں شعر ایک ایسا کلام ہے جو موزون ، مقفا اور متساوی الارکان ہوتا ہے۔
بعض معاصر ادیبوں اور شعراء نے شعر کی تعریف میں کہا ہے کہ" تخیل اور آہنگ {نغمہ} پر مشتمل کلام کو شعر کہتے ہیں"۔
(اس تعریف کی بنا پر آزاد شعربھی کلاسیکل اور عروضی شعر کی طرح شعر کی تعریف میں داخل ہے۔)
مذکورہ بالا بیانات کی روشنی میں ارسطو اور ماہرین عروض کے شعر کے درمیان کچھ اس طرح کی نسبت ہے کہ موزون ، مقفا اور متساوی الارکان والا خیال انگیز کلام دونوں کی نگاہ میں شعر ہے اور خیال انگیز نثر فقط ارسطو کی نگاہ میں شعر ہے جبکہ خیال سے عاری موزون ، مقفا اور متساوی الارکان والا کلام جیسے علوم صرف ، نحو، فلسفہ، منطق وغیرہ کی منظومات عروض کے ماہرین کی نگاہ میں شعر ہے ۔
ارسطو اور جدید شعر کے درمیان کچھ اس طرح کی نسبت ہے کہ تخیل اور آہنگ والا کلام دونوں کی نگاہ میں شعر ہے جبکہ آہنگ سے عاری تخیل والا کلام فقط ارسطو کی نگاہ میں شعر ہے۔
عروض کے ماہرین اور جدید شعر میں کچھ اس طرح کی نسبت ہے کہ موزون ، مقفا اور متساوی الارکان والا خیال انگیز کلام دونوں کی نگاہ میں شعر ہے اور خیال سے عاری موزون ، مقفا اور متساوی الارکان والا کلام فقط عروض کے ماہرین کی نگاہ میں شعر ہے جبکہ وزن ، قافیہ اور تساوی الارکان سے عاری آہنگ والا مخیل کلام فقط جدید شعر کی نگاہ میں شعر ہے۔​
یعنی جو لوگ مذکورہ بالا اشعار کے شعر ہونے کے منکر ہیں، ان کی نگاہ اہل عروض کی نگاہ ہے۔​
جو لوگ اسے شعر مانتے ہیں، وہ اسے آزاد شاعری یا ارسطو کی نگاہ سے ملاحظہ فرما رہے ہیں۔​
محمد وارث صاحب اور نایاب صاحب متوجہ ہوں۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شاعری کہا کسے جاتا ہے ۔ میرے محترم بھائی
کیا ایہام کی پناہ لیتے موضوع کو مجہول رکھتے قافیہ و ردیف کی آڑ میں قاری کو الجھانا
شاعری کہنا ہوتی ہے ۔ ؟
ایسی شاعری کہنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو قاری کے سر منڈھ دیتا ہے ۔
قاری بیچارہ ٹامک ٹوئیاں مارتے بزعم خود شاعری کو سمجھ نعرہ مستانہ لگاہی رہا ہوتا ہے
کہ دوسرا قاری " ایہام و جہل " کے بحر میں غوطہ لگاتے گوہر مقصود پاتا ہے ۔
اور شاعری " کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے " کی مثال بن مشہور و مقبول ہو جاتی ہے ۔

یہ شاعری میں قافیہ ردیف کہاں سے آئے ہیں ۔؟
یہ عروض و بحر کے الجھاوے کس نے پھیلائے ہیں ۔؟
شاعری قدیم ہے اور جانے کب سے کہی جا رہی ہے
اور یہ قافیے کب کی ایجاد ہیں ۔؟

شاعری کی مکمل تعریف پر پورا اترتا ہے یہ کلا م
کہ بات پرانی ہے مگر خیال اچھوتا ہے
اور اچھوتے خیال ہی مقبول ہوتے شاعری میں نئی راہوں کو کھولتے ہیں ۔
شاعری صرف خیال باندھنے کا نام ہے ۔ اسے ترتیب لفظی میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے ۔؟

اگر قران و حدیث کا ذکر نہ کیا جاتا تو شاید مجھے یہ سوالات اٹھانے کی جرات نہ ہوتی ،
لیکن شاعری کوئی حدیث یا آیت قرانی نہیں ہوتی ۔ کہ یہ اپنے لفظوں کے الٹ پھیر سے قابل گرفت ٹھہرے ۔
شاعری تو ویسے ہی سورت الشعراء کی روشنی سے اپنی جگہ مردود ٹھہرتی ہے ۔
کجا یہ کہ اس کا موازنہ قران و حدیث سے کیا جائے ۔
یہ قافیے ردیف بحر و عروض شاعری کو گھڑنے کے اوزار ہیں ۔
جو شاعری گھڑی جائے وہ شاعری کہاں ؟

قبلہ آپ نے تو دیوان قلم بند کر دیا، سو جوابِ آں غزل سے توبہ بھلی، سو غلطی کی نشاندہی کیلیے میری توبہ کہ نہ جانے کون کون سے آبگینے کو ٹھیس پہنچ گئی۔ باقی فقط یہ کہ اگر کوئی انسان کوئی زبان سیکھتا ہے مثلاً "انگلش" تو اس کو برتنے، بولنے، پڑھنے، لکھنے کیلیے کوئی قواعد و ضوابط و شرائط و حدود و قیود مدنظر رکھے گا کہ مادر پدر آزاد برت، بول، پڑھ، لکھ لے گا اور پھر اس پر اصرار بھی کرے گا کہ یہ قاعدے، ضابطے، شرطیں، حدیں، قیدیں کیوں بنائی گئی ہیں۔ ان کے بغیر فنونِ لطیفہ تو ایک طرف، کوئی عام سا فن بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔

بیمار کو اتنا خطرہ، اتنا نقصان، بیماری سے نہیں ہوتا جتنا نیم حکیم سے ہوتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
قبلہ آپ نے تو دیوان قلم بند کر دیا، سو جوابِ آں غزل سے توبہ بھلی، سو غلطی کی نشاندہی کیلیے میری توبہ کہ نہ جانے کون کون سے آبگینے کو ٹھیس پہنچ گئی۔ باقی فقط یہ کہ اگر کوئی انسان کوئی زبان سیکھتا ہے مثلاً "انگلش" تو اس کو برتنے، بولنے، پڑھنے، لکھنے کیلیے کوئی قواعد و ضوابط و شرائط و حدود و قیود مدنظر رکھے گا کہ مادر پدر آزاد برت، بول، پڑھ، لکھ لے گا اور پھر اس پر اصرار بھی کرے گا کہ یہ قاعدے، ضابطے، شرطیں، حدیں، قیدیں کیوں بنائی گئی ہیں۔ ان کے بغیر فنونِ لطیفہ تو ایک طرف، کوئی عام سا فن بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔

بیمار کو اتنا خطرہ، اتنا نقصان، بیماری سے نہیں ہوتا جتنا نیم حکیم سے ہوتا ہے۔

محترم بھائی آپ نے تو " شاعری " کو زبان کے مترادف قرار دیتے " شاعری کو بھی ایسا فن قرار دے دیا جو کہ " گھڑا" جاتا ہے ۔
سو اب کیا بات کرنی ۔ ؟
جزاک اللہ خیراء کہ آپ کی تحریر کھل کر ہنسنے کا سبب بنی ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
قبلہ آپ نے تو دیوان قلم بند کر دیا، سو جوابِ آں غزل سے توبہ بھلی، سو غلطی کی نشاندہی کیلیے میری توبہ کہ نہ جانے کون کون سے آبگینے کو ٹھیس پہنچ گئی۔ باقی فقط یہ کہ اگر کوئی انسان کوئی زبان سیکھتا ہے مثلاً "انگلش" تو اس کو برتنے، بولنے، پڑھنے، لکھنے کیلیے کوئی قواعد و ضوابط و شرائط و حدود و قیود مدنظر رکھے گا کہ مادر پدر آزاد برت، بول، پڑھ، لکھ لے گا اور پھر اس پر اصرار بھی کرے گا کہ یہ قاعدے، ضابطے، شرطیں، حدیں، قیدیں کیوں بنائی گئی ہیں۔ ان کے بغیر فنونِ لطیفہ تو ایک طرف، کوئی عام سا فن بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔

بیمار کو اتنا خطرہ، اتنا نقصان، بیماری سے نہیں ہوتا جتنا نیم حکیم سے ہوتا ہے۔
محترم بھائی آپ نے تو " شاعری " کو زبان کے مترادف قرار دیتے " شاعری کو بھی ایسا فن قرار دے دیا جو کہ " گھڑا" جاتا ہے ۔
سو اب کیا بات کرنی ۔ ؟
جزاک اللہ خیراء کہ آپ کی تحریر کھل کر ہنسنے کا سبب بنی ۔
آپ دونوں کا بہت شکریہ کہ میں دن بھر کی مصروفیت کی وجہ سے ذہنی طور پر بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا اور آپ لوگوں نے مجھے اچھا خاصا ہنسا کر تھکن کے احساس کو دور کردیا! ;) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک غزل یہ بھی ہے کسی کی۔
آزاد مکالماتی غزل​
کہا اس نے دسمبر کو کبھی جلتے ہوئے دیکھا​
کہامیں نے کہ چاہت کی حدوں کو چھو کے دیکھا ہے​
کہا اس نے بنائیں برف کا اک خوبصورت گھر​
کہا میں نے دسمبر میں ہوائیں سنسناتی ہیں​
کہا اس نے دسمبر کی چمکتی چاندنی دیکھی​
کہا میں نے کہ تیرے بعد میں نے کچھ نہیں دیکھا​
کہا اس نے دسمبر میں تری یادیں ستاتی ہیں​
کہا میں نے مری جاناں محبت کب بچھڑتی ہے​
کہا اس نے تری یادیں جلاتی ہیں مرا آنچل​
کہا میں نے دسمبر کو چلو پھر سے بلاتے ہیں​

لوگ سمجھتے ہیں کہ مکالماتی شاعری کر کے شاید انہوں نے کوئی نئی صنف ایجاد کر لی ہے، جب کہ اس غزل میں صرف "آزاد" ہونے کے اور کچھ نیا نہیں ہے۔

صدیوں پہلے کی مکالماتی شاعری کے دو نمونے، جو ہر لحاظ سے اس سے بہتر ہیں اور ان میں فنی مہارت بھی زیادہ ہے کہ ایک ہی مصرعے میں سوال بھی ہے اور جواب بھی۔

شیخ ابو اسعید ابو الخیر کی ایک مکالماتی رباعی

گفتَم، چشمَم، گفت، بہ راہَش می دار
گفتم، جگرم، گفت، پُر آہَش می دار
گفتم، کہ دِلَم، گفت، چہ داری در دل
گفتم، غمِ تو، گفت، نگاہَش می دار

میں نے کہا کہ میری آنکھیں، اس نے کہا انہیں راہ پر لگائے رکھ،
میں نے کہا کہ میرا جگر، اس نے کہا اسے آہوں سے بھرا ہوا رکھ،
میں نے کہا کہ میرا دل، اس نے کہا دل میں کیا ہے،
میں نے کہا کہ تیرا غم، اس نے کہا کہ اس کی (غم کی) دیکھ بھال کر۔

امیر خسرو کی ایک مکالماتی غزل کے دو شعر

گفتم کہ روشن از قمر، گفتا کہ رخسارِ من است
گفتم کہ شیریں از شکر، گفتا کہ گفتارِ من است

میں نے کہا کہ چاند سے زیادہ روشن کیا چیز ہے، کہا کہ میرے رخسار۔
میں نے کہا شکر سے شیریں کیا چیر ہے، کہا کہ میری گفتگو

گفتم طریقِ عاشقی، گفتا وفاداری بوَد
گفتم مکن جور و جفا، گفتا کہ ایں کارِ من است

میں نے کہا کہ عاشقی کے کیا طور طریقے اور اصول و ضوابط ہیں، کہا کہ وفاداری کرتا رہ۔
میں نے کہا کہ پھر ہم پر جور و جفا مت کر، کہا یہی تو میرا کام ہے۔

انتہائی خوبصورت غزل ہے اور اسی طریق پر ہے، کبھی مکمل لکھوں گا۔
 

فاتح

لائبریرین
محترم بھائی آپ نے تو " شاعری " کو زبان کے مترادف قرار دیتے " شاعری کو بھی ایسا فن قرار دے دیا جو کہ " گھڑا" جاتا ہے ۔
سو اب کیا بات کرنی ۔ ؟
سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
:):)
ہمارے "محترم بھائی" یہ بھول گئے کہ یہ شاعری گھڑنے والی بات ہمارے "محترم بھائی" نے بقلم خود بلکہ بہ کی بورڈِ خود اس مراسلے میں گھڑی تھی :laughing:
یہ قافیے ردیف بحر و عروض شاعری کو گھڑنے کے اوزار ہیں ۔
جو شاعری گھڑی جائے وہ شاعری کہاں ؟
 

نایاب

لائبریرین
ہمارے "محترم بھائی" یہ بھول گئے کہ یہ شاعری گھڑنے والی بات ہمارے "محترم بھائی" نے بقلم خود بلکہ بہ کی بورڈِ خود اس مراسلے میں گھڑی تھی :laughing:

محترم فاتح بھائی
میرا نہیں خیال کہ آپ کے نظروں سے یہ مراسلہ نہ گزرا ہو ۔ جس کے جواب میں " بہتان عظیم " کا حقدار قرار پایا ۔
جس مراسلے کو آپ " بہ کی بورڈ خود " قرار دے رہے ہیں ۔اس میں شاعری کو گھڑنے والے اوزار بیان کیئے گئے ہیں ۔
اور اس مراسلے میں شاعری کو بھی گھڑی جانے والی قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ سے پڑھنے کی درخواست ہے ۔
قبلہ آپ نے تو دیوان قلم بند کر دیا، سو جوابِ آں غزل سے توبہ بھلی، سو غلطی کی نشاندہی کیلیے میری توبہ کہ نہ جانے کون کون سے آبگینے کو ٹھیس پہنچ گئی۔ باقی فقط یہ کہ اگر کوئی انسان کوئی زبان سیکھتا ہے مثلاً "انگلش" تو اس کو برتنے، بولنے، پڑھنے، لکھنے کیلیے کوئی قواعد و ضوابط و شرائط و حدود و قیود مدنظر رکھے گا کہ مادر پدر آزاد برت، بول، پڑھ، لکھ لے گا اور پھر اس پر اصرار بھی کرے گا کہ یہ قاعدے، ضابطے، شرطیں، حدیں، قیدیں کیوں بنائی گئی ہیں۔ ان کے بغیر فنونِ لطیفہ تو ایک طرف، کوئی عام سا فن بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔

بیمار کو اتنا خطرہ، اتنا نقصان، بیماری سے نہیں ہوتا جتنا نیم حکیم سے ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمارے "محترم بھائی" یہ بھول گئے کہ یہ شاعری گھڑنے والی بات ہمارے "محترم بھائی" نے بقلم خود بلکہ بہ کی بورڈِ خود اس مراسلے میں گھڑی تھی :laughing:

اجی صاحب چھڈو مٹی پاؤ، اب بندہ ایک زندگی میں کون کون سے فن سیکھے، لیکن ایک فن جو میں آج یہاں سیکھ گیا ہوں وہ یہ کہ اپنے الفاظ دوسروں کے منہ میں کیسے ٹھونسے جاتے ہیں :laugh:
 
اپنی کہہ لی سب نے میں شسدر رہا :)
شاعری کہا کسے جاتا ہے ۔ میرے محترم بھائی
کیا ایہام کی پناہ لیتے موضوع کو مجہول رکھتے قافیہ و ردیف کی آڑ میں قاری کو الجھانا​
شاعری کہنا ہوتی ہے ۔ ؟​
ایسی شاعری کہنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو قاری کے سر منڈھ دیتا ہے ۔​
قاری بیچارہ ٹامک ٹوئیاں مارتے بزعم خود شاعری کو سمجھ نعرہ مستانہ لگاہی رہا ہوتا ہے​
کہ دوسرا قاری " ایہام و جہل " کے بحر میں غوطہ لگاتے گوہر مقصود پاتا ہے ۔​
اور شاعری " کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے " کی مثال بن مشہور و مقبول ہو جاتی ہے ۔​
ٹھیک کہتے ہیں آپ نایاب بھائی۔ اگر یہی معیار تھا اور قافیہ ردیف اور ایہام و ابہام کا سلسلہ بیکار تھا تو غالب، میر، فیض، مومن جیسے شعرا صرف خرافات ہی کہہ گئے ہیں۔​
اور مصحفی جن کا کلام ہی چھ جلدوں میں ہے وہ تو اعلی ترین ٹامک ٹوئیاں مار گئے ہیں۔ اور اقبال۔ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا​
شاعری کی مکمل تعریف پر پورا اترتا ہے یہ کلا م
کہ بات پرانی ہے مگر خیال اچھوتا ہے​
اور اچھوتے خیال ہی مقبول ہوتے شاعری میں نئی راہوں کو کھولتے ہیں ۔​
شاعری صرف خیال باندھنے کا نام ہے ۔ اسے ترتیب لفظی میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے ۔؟​
جی مکمل تو اترتا ہے لیکن شاعری کی تعریف پر نہیں بلکہ مشرق سے مغرب تک کے سبھی استاد شعرا متفقہ نے تخیل کو شاعر سے منسوب کیا ہے۔ نا کے شاعری سے۔​
2: بات پرانے ہے صرف الفاظ کی صورت نئی ہے۔ اچھوتا خیال اگر کسی نئے مضمون کو پیدا کرتا ہو تشبیہات کی کوئی ایسی حسین صورت ہو تو ٹھیک۔​
3: اگر شاعری غیر اصولی طور پر خیال باندھنے کا نام ہو جاتی تو شعرا اپنی عمر بھر استادی شاگردی میں ضائع نہ کرتے۔​
شاعری کسی بھی زبان کے محاوروں نثر، اور وقت کی زبان الفاظ و تراکیب کا اونچا ترین درجہ ہے۔ گویا شاعری کسی زبان کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضامین صرف اس میں تاثیر کے لئے ہوتے ہیں اگر صرف مضامین کو ہی دیکھا جائے اور الفاظ و تراکیب کی طرف توجہ نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کے اس زبان کا بیڑا غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ میرا نیا مضمون جو ’’شاعری، موسیقی اور علمِ عروض‘‘ کے نام سے ہے اس میں میں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ جس کلام سے اب تک قارئین لطف اندوز ہوتے آئے ہیں وہ وجود میں کیسے آیا یہ بات بھول کر صرف مضامین کو ترجیح دینا نا انصافی ہے۔​
یہ شاعری میں قافیہ ردیف کہاں سے آئے ہیں ۔؟
یہ عروض و بحر کے الجھاوے کس نے پھیلائے ہیں ۔؟​
شاعری قدیم ہے اور جانے کب سے کہی جا رہی ہے​
اور یہ قافیے کب کی ایجاد ہیں ۔؟​
یہ قافیے ردیف بحر و عروض شاعری کو گھڑنے کے اوزار ہیں ۔​
جو شاعری گھڑی جائے وہ شاعری کہاں ؟​
اگر کسی مصور نے قلم پکڑنا نہ سیکھا ہو تو وہ اپنے تخیل کی شکل کیسے بنائے گا؟​
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر کسی مصور نے قلم پکڑنا نہ سیکھا ہو تو وہ اپنے تخیل کی شکل کیسے بنائے گا؟​

زندگی کا کوئی شعبہ، کوئی پیشہ، کوئی ہنر، کوئی فن، اصول و ضوابط اور ادب و آداب کے بغیر نہیں ہے۔ پیشوں میں ڈاکٹری ہو، انجینیرنگ ہو، کاروباری معاملات ہوں، حکومتوں کے اور دفتروں کے معاملات ہوں، ہنروں میں چاہے مٹی کے کھلونے بنانے کا ہنر ہی کیوں نہ ہو، فنون میں شاعری ہو، مصوری ہو، موسیقی ہو، ہر جگہ کچھ اصول ہیں، ضوابط ہیں، شرائط ہیں، حدود ہیں، قیود ہیں، ادب ہیں آداب ہیں جو کے سیکھنے پڑتے ہیں حتیٰ کہ بیت الخلا جانے کے بھی کچھ ادب و آداب ہیں جو ہر عقلمند ماں باپ اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں لیکن تان ٹوٹتی ہے تو شاعری پر۔
 
Top