فاتح
لائبریرین
ارکان کے اختلافِ طوالت سے قطر نظر ذیل کے دو مصرعے تو بہرحال بے وزن ہیں:اسی دھن میں ہم نوید ظفر کیانی صاحب کے بلاگ پر پہنچ گئے وہاں بھی ایک ایسی ہی غزل ہے۔ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ ذرا دیکھئے۔
بے مہار غزل
بھونکنا مجھ پہ سرِ راہے شرافت کب تھی
تیرے کتے سے رقابت کب تھی
عشوہ و ناز و ادا
اتنے ہتھیار لئے پھرنا حسینوں کی ضرورت کب تھی
ہاتھ اوروں کی طرح بہتی ہوئی گنگا میں دھونے کی تمنا تھی شرافت کے نمونوں کو مگر
جرات کب تھی
کام کرنے کے عیوض اُس نے اگر بھیجی پھلوں کی پیٹی
ایک سوغات تھی ، رشوت کب تھی
ٹورنامنٹ میں سب کھیل کئے تھے شامل
ہاں مگر اُس میں سیاست کب تھی
مجھ کو کہتے رہے مکار تو یہ آپ کا حسنِ ظن تھا
میری تعریف تھی ، تشکیک کی صورت کب تھی
رات کے کھانے کی فہرست لکھی تھی ذرا اسٹائل سے
شاعری میں کوئی جدت کب تھی
میں جو افسر تھا تو چپڑاسی تھا میرا بھائی
جیسے ہُن اُس پہ برستا رہا ، ویسی میری قسمت کب تھی
میری پی آر نے ایوارڈ دلائے ہیں زمانے بھر سے
شاعری ذریعۀ عزت کب تھی
تھی مرے بھانجے کی تحقیق کہ غالب سے بہرحال بڑا شاعر ہوں
تم میں تسلیمِ حقیقت کی جسارت کب تھی
"جرات کب تھی"
"شاعری ذریعۀ عزت کب تھی"