پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی اور فاتح بھائی، جدید مغربی ادب میں جو بے بحر کی مطلقا آزاد شاعری کی جاتی ہے، اس کے بارے میں آپ حضرات کیا فرماتے ہیں؟ اسے مغربی دنیا شاعری کی نام سے ہی یاد کرتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسی شاعری ہمارے ادبی ذوق اور روایت کا حصہ نہیں۔

ویسے میں بذاتِ خود بے بحر کی شاعری کو ناپسند کرتا ہوں۔

اول تو یہ کہ مغربی شاعری بھی اوزان وغیرہ سے خالی نہیں ہوتی، انکے بھی "میٹرز" ہوتے ہیں جن کو استعمال کرتے ہیں اور پھر قافیے کا عنصر بھی شامل رہا ہے۔

جدید مادر پدر آزاد شاعری اگر وہاں ہو رہی ہے تو یہاں بھی ہو رہی ہے لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نہ تو اسے اساتذہ فن نے شاعری تسلیم کیا ہے اور نہ عوام نے یعنی یہ مقبول نہیں ہوئی۔ جو صنف یہاں آج کل زیادہ مقبول ہے یعنی آزاد نظم تو وہ باقاعدہ وزن میں ہوتی ہے۔

آپ نے ذوق کی بات کی ہے تو بالکل درست کہا ہے، یہاں ہمارا اپنا ایک ذوق ہے، موزوں شعر مصرعے یا جملے یعنی جو آہنگ میں ہوتے ہیں اور مترنم ہوں وہی مقبول ہوتے ہیں اور اسی لیے یہاں وہیں بحریں یا آہنگ رائج ہیں جو ہمارے ذوق کی تسکین کرتے ہیں اور قافیہ کسی بھی کلام کو مترنم کر دیتا ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اقبال کہتے ہیں جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر ڈھلےڈھلائے شعر اترنے لگتے ہیں اورمیں انہیں بعینہ نقل کرلیتاہوں بارہاایساہواکہ میں نے ان اشعارمیں کوئی ترمیم کرناچاہی لیکن میری ترمیم اصل اورابتدائی نازل شدہ شعرکے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی اورمین نے شعر کوجوں کا توں رکھا
(بحوالہ اردوڈائجسٹ1992اپریل صفحہ 92)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
قبلہ و کعبہ جنابِ شاکر القادری صاحب اس اقتباس کے ساتھ ساتھ اس خاکسار کا ایک جملہ معترضہ بھی تھی ویکیپیڈیا پر علم عروض پر خاکسار کے اس نامکمل مضمون میں۔ میں چاہتا تو جوش کا یہ اقتباس دیتا ہی نہیں کیونکہ یہ میرے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن میں نے یہ حوالہ ضرور دیا وہاں کہ علمی بدیانتی نہ ہو لیکن یہ جملہ معترضہ بھی تو لکھنا ضروری تھا :)
قبلہ مجھے صرف جوش کو ہی کوکوٹ کرنا تھا آپ کے بیان کے ضرورت ہی نہ تھی
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں بحث کسی اور بات پر شروع ہوئی تھی اور آمد و آورد پر خواہ مخواہ جا نکلی، حالانکہ آمد پر کسی کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہے۔ آمد ہوتی ہے کسی کو نیند یا غنودگی کی حالت میں ہوئی تو یہ بات ماننے کے قابل ہے، کیونکہ میں بھی اس طرح کے تجربات سے گزر چکا ہوں، اور یہ بھی بجا ہے کہ اس حالت میں جو اشعار ہوئے لاکھ کوشش کے باوجود ان میں ترمیم نہ ہو سکی۔

لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ پہلے مراسلے میں جو اشعار ہیں ان میں قافیہ ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں۔ شاعر جب مصرعوں کو وزن میں رکھ سکتا ہے تو قافیے کے ساتھ کیا عناد تھا، یہ اشعار اگر وزن میں نہ ہوتے تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ شاعر نے وزن کا خیال کیا نہ قافیوں کا، لیکن وزن کی موجودگی اور قافیوں کی غیر موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ شاعر سے غلطی ہوئی۔ اس بات میں اب بھی کسی کو شک ہے تو میں بات کرنے کیلیے حاضر ہوں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرے خیال میں بحث کسی اور بات پر شروع ہوئی تھی اور آمد و آورد پر خواہ مخواہ جا نکلی، حالانکہ آمد پر کسی کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہے۔ آمد ہوتی ہے کسی کو نیند یا غنودگی کی حالت میں ہوئی تو یہ بات ماننے کے قابل ہے، کیونکہ میں بھی اس طرح کے تجربات سے گزر چکا ہوں، اور یہ بھی بجا ہے کہ اس حالت میں جو اشعار ہوئے لاکھ کوشش کے باوجود ان میں ترمیم نہ ہو سکی۔
اسی بات پر تو فاتح صاحب کو اعتراض ہے ۔۔۔ وہ کہتے ہیں شاعری صرف گھڑی جاتی ہے ۔۔۔۔ اور اب تک تمام شاعر لوگ اسے گھڑتے ہی رہے ہیں ۔۔۔ جس چیز کو آمد کہا جاتا ہے وہ محض بکواس ہے ۔۔۔۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ شاعری گھڑنے والے شاعر بھی موجود ہیں لیکن ایسے شعرائے بھی ہیں جو تلامیذ الرحمان کہلانے کے مستحق ہیں اور ان پر شاعری کا نزول ہوتا ہے اور آمد نام کی بھی کوئی چیز ہے جس سے اتنا بغص مناسب نہیں افراط تفریط کا شکار مت ہویئے اور اعتدال کی راہ لیجئے۔سو حضرت !آپ نے آمد کے وجود کو تسلیم کیا تو گویا ہماری تائید ہوئی ہم آپ کے شکر گزار ہیں
 

نایاب

لائبریرین
میرے خیال میں بحث کسی اور بات پر شروع ہوئی تھی اور آمد و آورد پر خواہ مخواہ جا نکلی، حالانکہ آمد پر کسی کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہے۔ آمد ہوتی ہے کسی کو نیند یا غنودگی کی حالت میں ہوئی تو یہ بات ماننے کے قابل ہے، کیونکہ میں بھی اس طرح کے تجربات سے گزر چکا ہوں، اور یہ بھی بجا ہے کہ اس حالت میں جو اشعار ہوئے لاکھ کوشش کے باوجود ان میں ترمیم نہ ہو سکی۔

لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ پہلے مراسلے میں جو اشعار ہیں ان میں قافیہ ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں۔ شاعر جب مصرعوں کو وزن میں رکھ سکتا ہے تو قافیے کے ساتھ کیا عناد تھا، یہ اشعار اگر وزن میں نہ ہوتے تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ شاعر نے وزن کا خیال کیا نہ قافیوں کا، لیکن وزن کی موجودگی اور قافیوں کی غیر موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ شاعر سے غلطی ہوئی۔ اس بات میں اب بھی کسی کو شک ہے تو میں بات کرنے کیلیے حاضر ہوں۔
محترم بھائی
" آمد " کو تسلیم جب کر لیا آپ نے تو پھر اس مراسلے پر اعتراض کیسا ؟
جبکہ آپ خود ہی لکھ رہے ہیں کہ " اوزان " پورے ہیں ۔
شاعر نے جان بوجھ کر قافیے سے پہلوتہی کی ۔ اور یہ شاعر کی غلطی ہے ۔
تو میرے محترم بھائی ہو سکتا ہے کہ شاعر کو اس قطعے کی اسی صورت میں آمد ہوئی ہو ۔
اور اس نے اسے قافیے میں پرونے کی کوشش بھی کی ہو لیکن قافیے میں بندھ کر ابلاغ ہی سکوت کا شکار ہو رہا ہو ۔
سو شاعر نے اسے ایسی ہی صورت میں قاری کے سامنے پیش کر دیا ۔
اور " آمد خیال " کو کسی قطع و برید سے محفوظ رکھا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم بھائی
" آمد " کو تسلیم جب کر لیا آپ نے تو پھر اس مراسلے پر اعتراض کیسا ؟
جبکہ آپ خود ہی لکھ رہے ہیں کہ " اوزان " پورے ہیں ۔
شاعر نے جان بوجھ کر قافیے سے پہلوتہی کی ۔ اور یہ شاعر کی غلطی ہے ۔
تو میرے محترم بھائی ہو سکتا ہے کہ شاعر کو اس قطعے کی اسی صورت میں آمد ہوئی ہو ۔
اور اس نے اسے قافیے میں پرونے کی کوشش بھی کی ہو لیکن قافیے میں بندھ کر ابلاغ ہی سکوت کا شکار ہو رہا ہو ۔
سو شاعر نے اسے ایسی ہی صورت میں قاری کے سامنے پیش کر دیا ۔
اور " آمد خیال " کو کسی قطع و برید سے محفوظ رکھا ۔

نایاب صاحب شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا۔

قبلہ کوئی بھی آمد حدود و قیود سے باہر اگر ہوتی ہے تو اسے ان حدود میں لے آیا جاتا ہے، میری بات پر یقین نہ ہو تو کسی ایسے آدمی سے پوچھ لیں جس پر آپ شعر و شاعری کے معاملات میں یقین رکھتے ہوں۔

جس چیز کو تبدیل نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ اس آمد کی نوک پلک سنوارنے کی بات ہے۔ یعنی وہ تمام حدود و قیود و اصول و ضوابط کے مطابق کلام ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی گنجائش بہرحال موجود ہوتی ہے۔ بہت سے ناموروں شاعروں کی مثالیں موجود ہیں کہ پہلے شعر انہوں نے کچھ اور طرح سے کہا، کچھ عرصے کے بعد اس کو بدل دیا، کتاب طبع ہونے کی باری آئی تو مزید بدل دیا۔ اور کچھ بالکل بھی ایسا نہیں کرتے، ایک ہی بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا ۔ میں بھی عموما اپنی اشعار تبدیل نہیں کرتا لیکن جہاں بہت ضروری ہو کر بھی لیتا ہوں، اس میں کیا ہے؟ یہ تو شاعروں کی مرضی اور صوابدید ہے کہ اپنے کلام سے جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ" کلام" تو ہو۔

اگر ہر آمد کو شاعری ماننا ہے تو بچے کی قلقاریاں اور بے ربط جملوں سے زیادہ سچی آمد کس کی ہو سکتی ہے؟ لیکن کیا کوئی سلیم الطبع آدمی اسے شاعری تسلیم کرتا ہے؟ آپ کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن مجھ سے زبردستی تو نہ منوائیں۔

میرے خیال میں اس موضوع پر میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا، لکم دینکم ولی دین۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب صاحب شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا۔

قبلہ کوئی بھی آمد حدود و قیود سے باہر اگر ہوتی ہے تو اسے ان حدود میں لے آیا جاتا ہے، میری بات پر یقین نہ ہو تو کسی ایسے آدمی سے پوچھ لیں جس پر آپ شعر و شاعری کے معاملات میں یقین رکھتے ہوں۔

جس چیز کو تبدیل نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ اس آمد کی نوک پلک سنوارنے کی بات ہے۔ یعنی وہ تمام حدود و قیود و اصول و ضوابط کے مطابق کلام ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی گنجائش بہرحال موجود ہوتی ہے۔ بہت سے ناموروں شاعروں کی مثالیں موجود ہیں کہ پہلے شعر انہوں نے کچھ اور طرح سے کہا، کچھ عرصے کے بعد اس کو بدل دیا، کتاب طبع ہونے کی باری آئی تو مزید بدل دیا۔ اور کچھ بالکل بھی ایسا نہیں کرتے، ایک ہی بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا ۔ میں بھی عموما اپنی اشعار تبدیل نہیں کرتا لیکن جہاں بہت ضروری ہو کر بھی لیتا ہوں، اس میں کیا ہے؟ یہ تو شاعروں کی مرضی اور صوابدید ہے کہ اپنے کلام سے جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ" کلام" تو ہو۔

اگر ہر آمد کو شاعری ماننا ہے تو بچے کی قلقاریاں اور بے ربط جملوں سے زیادہ سچی آمد کس کی ہو سکتی ہے؟ لیکن کیا کوئی سلیم الطبع آدمی اسے شاعری تسلیم کرتا ہے؟ آپ کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن مجھ سے زبردستی تو نہ منوائیں۔

میرے خیال میں اس موضوع پر میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا، لکم دینکم ولی دین۔
محترم بھائی
آپ نے اپنا قیمتی وقت آگہی پھیلانے میں صرف کیا ۔
اللہ اس کا بہتر اجر عطا فرمائے آمین
ہر اک اپنے خیال کے بیان کرنے میں آزادی رکھتا ہے ۔
"یہ تو شاعروں کی مرضی اور صوابدید ہے کہ اپنے کلام سے جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ" کلام" تو ہو۔"
کیا کلام کی تعریف یہ نہیں کہ استعارات تشبیہات کے لبادے میں لپٹا ہونے کے باوجود جامع واضح اور بلیغ ہو ۔
اور جس مراسلے پر آپ کے گراں قدر خیالات سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔
اس مراسلے میں یہ تمام گن بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔ سو قاری اسے اک اچھا " کلام " کیوں نہ کہے ۔ ؟
آپ پر اسے کلام تسلیم کرنے پر کوئی زبردستی نہیں ۔
اور مجھے اسے اک جامع کلام قرار دیتے اک اور " غیر متفق " پانے کی پرواہ نہیں ۔
خوش رہیں سدا اور علم کی تقسیم جاری رہے آپ کی ذات سے آمین
 
محترم بھائی
آپ نے اپنا قیمتی وقت آگہی پھیلانے میں صرف کیا ۔
اللہ اس کا بہتر اجر عطا فرمائے آمین
ہر اک اپنے خیال کے بیان کرنے میں آزادی رکھتا ہے ۔
"یہ تو شاعروں کی مرضی اور صوابدید ہے کہ اپنے کلام سے جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ" کلام" تو ہو۔"
کیا کلام کی تعریف یہ نہیں کہ استعارات تشبیہات کے لبادے میں لپٹا ہونے کے باوجود جامع واضح اور بلیغ ہو ۔
اور جس مراسلے پر آپ کے گراں قدر خیالات سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔
اس مراسلے میں یہ تمام گن بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔ سو قاری اسے اک اچھا " کلام " کیوں نہ کہے ۔ ؟
آپ پر اسے کلام تسلیم کرنے پر کوئی زبردستی نہیں ۔
اور مجھے اسے اک جامع کلام قرار دیتے اک اور " غیر متفق " پانے کی پرواہ نہیں ۔
خوش رہیں سدا اور علم کی تقسیم جاری رہے آپ کی ذات سے آمین

نایاب بھائی آپ شاعری کی جو تعریف بتا رہے ہیں وہ قافیہ, ردیف اور وزن وغیرہ کے بعد آتی ہے.
ٹھیک اسی طرح جیسے تصویر بنانے کے لئے سب سے پہلے تو قلم پکڑنا سیکھنا ضروری ہے. پھر اسکیچ اور پھر اس میں رنگ بھرنا آجائے.
جب یہ تینوں چیزیں آجائیں تو آپ نے اصول تو سیکھ لئے. اب تصویر میں کتنی خوبصورتی پیدا ہوسکتی وہ مصور کے اوپر ہے جس کی مثال شاعری میں فصیح اور بلیغ ہونے سی دی جاتی ہے.
آخر ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے شاعری خود بخود ہوجاتی ہے ؟
 
محترم بھائی
آپ نے اپنا قیمتی وقت آگہی پھیلانے میں صرف کیا ۔
اللہ اس کا بہتر اجر عطا فرمائے آمین
ہر اک اپنے خیال کے بیان کرنے میں آزادی رکھتا ہے ۔
"یہ تو شاعروں کی مرضی اور صوابدید ہے کہ اپنے کلام سے جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ" کلام" تو ہو۔"
کیا کلام کی تعریف یہ نہیں کہ استعارات تشبیہات کے لبادے میں لپٹا ہونے کے باوجود جامع واضح اور بلیغ ہو ۔
یہی تعریف ہے۔ لیکن یہ تعریف اس وقت کار آمد ہے جب آپ قافیہ اور ردیف بندی اور وزن وغیرہ کے بارے میں کچھ جانتے ہوں۔ ورنہ اس تعریف کا کوئی فائدہ نہیں۔

اور جس مراسلے پر آپ کے گراں قدر خیالات سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔
اس مراسلے میں یہ تمام گن بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔ سو قاری اسے اک اچھا " کلام " کیوں نہ کہے ۔ ؟
کیونکہ وہ شاعری کے معیار پر پورا اتر ہی نہیں رہا۔ چلیں ردیف کو تو گولی ماریں اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن قافیہ ایک فرض ہے۔ جسے ادا کرنا بھی فرض۔

آپ پر اسے کلام تسلیم کرنے پر کوئی زبردستی نہیں ۔
زبردستی تو تب ہو جب اس میں ایک اچھے کلام کی خصوصیات ہوں۔

اور مجھے اسے اک جامع کلام قرار دیتے اک اور " غیر متفق " پانے کی پرواہ نہیں ۔
خوش رہیں سدا اور علم کی تقسیم جاری رہے آپ کی ذات سے آمین
 

ساجد

محفلین
شاعری لکھنا میرے بس کی بات نہیں اور علمِ عروض سے کبھی میرا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا لیکن اچھی شاعری جب بھی پڑھنے کو ملتی ہے تو ، آپ سب اس بات پر مجھ سے اتفاق کریں گے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کوئی ایسی بات کہہ رہا ہے جو عام آدمی اپنی جملہ تخلیقی و ادبی صلاحیتیں بروئے کار لا کر نہیں لکھ سکتا۔ کلام و بیان کی یہ قدرت صرف شعراء کا خاصہ ہوتی ہے۔ ہم اردو کا کلاسیکی ادب دیکھیں تو کبھی کبھار نثر میں بھی شاعری کا گمان ہوتا ہے اور یہی بات اس ادب کی تاثیر کو دوام دے گئی۔ گویا کوزے میں دریا بند کرنے والا معاملہ ہوتا ہے۔
میں شاعری کے فن پر علمی و تحقیقی بات نہیں کرنے جا رہا نہ مجھ میں ایسی قدرت ہے بس شاعری کا عام سا قاری ہونے کے ناطے اپنے محسوسات کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نثر ہو یا شعر، صاحبِ تخلیق اپنی زندگی کے ذاتی مشاہدات اور معاشرے کے رویوں کے اظہار کے لئے ہر دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے اور مصور بھی اسی مقصد کے لئے مصوری کا سہارا لیتا ہے۔ گویا یہ کام کوئی الہامی نہیں بلکہ دنیاوی معاملات و مشاہدات ہی اس کی بنیاد ہیں اورمذہبی شاعری کی بھی تمام اصناف اسی علم پر تکیہ کرتی ہیں جو ہمیں معاشرے اور کتابوں سے ملتا ہے۔ غزل کی عشقیہ شاعری ، جنگ کی رزمیہ شاعری ، حجر کا کرب ، وصال کی خوشی ، نوحہ ، مرثیہ ، منقبت ، حمد ، نعت ، سہرا ، گیت ، کافی غرض شاعری کی کوئی بھی صنف انسان کے ذاتی مشاہدات سے حاصل ہونے والے علم اور معاشرتی رویوں سے عبارت ہے۔ اس کا الہام سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرے خیال میں اس پوری بحث میں ہم نے الہام اور آمد کو خلط ملط کر دیا ہے۔ آمد مکمل طور پر الہام سے مختلف ہے اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کی محتاج ہے اورشاعری کی بحث میں اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے الہام سے جوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ میں ، جو شاعری کی الف بے بھی نہیں جانتا ، کبھی کبھار ایسے خیالات کا اسیر ہو جاتا ہوں کہ جو مجھے اپنے خیالات کو شعر کی زبان میں کہلوانے پر مجبور کر دیتے ہیں حالانکہ عام حالات میں میں لاکھ کوشش کے باوجود شعر نہیں کہہ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی کا نام آمد ہے۔ جو آپ کی عمومی صلاحیت سے بڑھ کر کبھی کبھار آپ سے کوئی تخلیقی کام کرواتی ہے۔
اس پر بات پھر کبھی سہی۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی آپ شاعری کی جو تعریف بتا رہے ہیں وہ قافیہ, ردیف اور وزن وغیرہ کے بعد آتی ہے.
ٹھیک اسی طرح جیسے تصویر بنانے کے لئے سب سے پہلے تو قلم پکڑنا سیکھنا ضروری ہے. پھر اسکیچ اور پھر اس میں رنگ بھرنا آجائے.
جب یہ تینوں چیزیں آجائیں تو آپ نے اصول تو سیکھ لئے. اب تصویر میں کتنی خوبصورتی پیدا ہوسکتی وہ مصور کے اوپر ہے جس کی مثال شاعری میں فصیح اور بلیغ ہونے سی دی جاتی ہے.
آخر ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے شاعری خود بخود ہوجاتی ہے ؟
یہی تعریف ہے۔ لیکن یہ تعریف اس وقت کار آمد ہے جب آپ قافیہ اور ردیف بندی اور وزن وغیرہ کے بارے میں کچھ جانتے ہوں۔ ورنہ اس تعریف کا کوئی فائدہ نہیں۔

کیونکہ وہ شاعری کے معیار پر پورا اتر ہی نہیں رہا۔ چلیں ردیف کو تو گولی ماریں اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن قافیہ ایک فرض ہے۔ جسے ادا کرنا بھی فرض۔
زبردستی تو تب ہو جب اس میں ایک اچھے کلام کی خصوصیات ہوں۔
میرے محترم بھائی آپ کے سب سوالوں کے جواب اسی دھاگے میں موجود ہیں ۔ ملاحظہ فرما لیں ۔
شاعری کہنے کا مقصد کیا ہے ۔؟ شاعری پڑھنے سننے کا مقصود کیا ہوتا ہے ۔ ؟
کتنے قاری ایسے ہوتے ہیں جوان قافیے ردیف و وزن بارے علم رکھتے ہیں ۔
جن کی سماعتوں بصیرتوں میں شاعری رنگ گھولتی ہے ۔ اوروہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔
شاعری اور اس کے لوازمات کو فنون میں ہی رہنے دیں ۔ فرض نہ قرار دیں ۔
اور آپ اس قطعے کی تعریف کر چکے ہیں ۔ اور اسے ناپا تولا آپ نے بعد میں میرے بھائی
بہت ہی عمدہ۔ کیا بات ہے جناب۔
 
کتنے قاری ایسے ہوتے ہیں جوان قافیے ردیف و وزن بارے علم رکھتے ہیں ۔
جن کی سماعتوں بصیرتوں میں شاعری رنگ گھولتی ہے ۔ اوروہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔
قاری کے لیے ہرگز ان علوم سے آشنا ہونا ضروری نہیں۔۔۔ اور جو چیز قاری کو محظوظ کرتی ہے وہ شاعری کے یہی رموز و اصناف ہیں۔۔
 
شاعری لکھنا میرے بس کی بات نہیں اور علمِ عروض سے کبھی میرا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا لیکن اچھی شاعری جب بھی پڑھنے کو ملتی ہے تو ، آپ سب اس بات پر مجھ سے اتفاق کریں گے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کوئی ایسی بات کہہ رہا ہے جو عام آدمی اپنی جملہ تخلیقی و ادبی صلاحیتیں بروئے کار لا کر نہیں لکھ سکتا۔ کلام و بیان کی یہ قدرت صرف شعراء کا خاصہ ہوتی ہے۔ ہم اردو کا کلاسیکی ادب دیکھیں تو کبھی کبھار نثر میں بھی شاعری کا گمان ہوتا ہے اور یہی بات اس ادب کی تاثیر کو دوام دے گئی۔ گویا کوزے میں دریا بند کرنے والا معاملہ ہوتا ہے۔
میں شاعری کے فن پر علمی و تحقیقی بات نہیں کرنے جا رہا نہ مجھ میں ایسی قدرت ہے بس شاعری کا عام سا قاری ہونے کے ناطے اپنے محسوسات کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نثر ہو یا شعر، صاحبِ تخلیق اپنی زندگی کے ذاتی مشاہدات اور معاشرے کے رویوں کے اظہار کے لئے ہر دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے اور مصور بھی اسی مقصد کے لئے مصوری کا سہارا لیتا ہے۔ گویا یہ کام کوئی الہامی نہیں بلکہ دنیاوی معاملات و مشاہدات ہی اس کی بنیاد ہیں اورمذہبی شاعری کی بھی تمام اصناف اسی علم پر تکیہ کرتی ہیں جو ہمیں معاشرے اور کتابوں سے ملتا ہے۔ غزل کی عشقیہ شاعری ، جنگ کی رزمیہ شاعری ، حجر کا کرب ، وصال کی خوشی ، نوحہ ، مرثیہ ، منقبت ، حمد ، نعت ، سہرا ، گیت ، کافی غرض شاعری کی کوئی بھی صنف انسان کے ذاتی مشاہدات سے حاصل ہونے والے علم اور معاشرتی رویوں سے عبارت ہے۔ اس کا الہام سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرے خیال میں اس پوری بحث میں ہم نے الہام اور آمد کو خلط ملط کر دیا ہے۔ آمد مکمل طور پر الہام سے مختلف ہے اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کی محتاج ہے اورشاعری کی بحث میں اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے الہام سے جوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ میں ، جو شاعری کی الف بے بھی نہیں جانتا ، کبھی کبھار ایسے خیالات کا اسیر ہو جاتا ہوں کہ جو مجھے اپنے خیالات کو شعر کی زبان میں کہلوانے پر مجبور کر دیتے ہیں حالانکہ عام حالات میں میں لاکھ کوشش کے باوجود شعر نہیں کہہ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی کا نام آمد ہے۔ جو آپ کی عمومی صلاحیت سے بڑھ کر کبھی کبھار آپ سے کوئی تخلیقی کام کرواتی ہے۔
اس پر بات پھر کبھی سہی۔
اور ایہام کے بارے کیا فرمائیں گے جناب؟؟
 

نایاب

لائبریرین
قاری کے لیے ہرگز ان علوم سے آشنا ہونا ضروری نہیں۔۔۔ اور جو چیز قاری کو محظوظ کرتی ہے وہ شاعری کے یہی رموز و اصناف ہیں۔۔
نقوی بھائی
کیا کچھ "ایہام و ابہام " یکجا نہیں ہو رہے آپ کے تبصرے میں ؟
قاری جب ان علوم سے آشنا ہی نہیں تو پھر شاعری سے محظوظ ہونے میں یہ رموز و اصناف قاری کی کیا مدد کریں گے ۔ ؟
 
میرے محترم بھائی آپ کے سب سوالوں کے جواب اسی دھاگے میں موجود ہیں ۔ ملاحظہ فرما لیں ۔
شاعری کہنے کا مقصد کیا ہے ۔؟ شاعری پڑھنے سننے کا مقصود کیا ہوتا ہے ۔ ؟

کتنے قاری ایسے ہوتے ہیں جوان قافیے ردیف و وزن بارے علم رکھتے ہیں ۔
جن کی سماعتوں بصیرتوں میں شاعری رنگ گھولتی ہے ۔ اوروہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔
شاعری اور اس کے لوازمات کو فنون میں ہی رہنے دیں ۔ فرض نہ قرار دیں ۔
اور آپ اس قطعے کی تعریف کر چکے ہیں ۔ اور اسے ناپا تولا آپ نے بعد میں میرے بھائی

ایک بات میں آپ کو یہ کہوں گا کے ایسے بہت ہی کم شعرا ہیں جو اس وجہ سے شاعری کرتے ہوں کے ان پر وہ کیفیات گزر چکی ہیں۔ مثلاً ہجر و وصال کی شاعری۔ یا عشقیہ شاعری یا دیگر۔ ایسے بہت سے شعرا ہیں جن کا عاشقی اور محبت ہجر و وصال جیسی چیزوں سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا پھر بھی جو خیال وہ شاعری میں پیش کرتے ہیں وہ ایک ایسا خیال ہوتا ہے جو شاعر کی زندگی سے کسی درجے میں بھی جڑتا ہی نہیں۔ اس کے باوجود وہ اسی صنف میں شاعری کرتے ہیں کیوں؟ ؟
شاعری کا اصل مقصد زبان کی ترویج ہے جو میں شروع سے کہہ رہا ہوں کے اس میں جو مضامین ہوتے ہیں وہ صرف تاثیر کے لئے ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے جس پر میں فاتح بھائی سے بہت متفق ہوں کے شاعری گڑھی جاتی ہے محمد وارث بھائی سے بھی متفق قافیہ کے بنا شاعری نہیں ہوتی۔ اب شعرا جھینپ مٹانے کے لئے اسے الہام، آمد نزول یا اور کوئی نام بھی دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آمد جسے آپ آمد کہہ رہے ہیں وہ صرف اتفاق ہے جو مضمون ذہن میں آجائے۔ اس کی شاعری سے ہی کیا شرط؟ کبھی آپ نے ایسا سنا کے ایک شخص یا کوئی بچہ جس نے آج تک دیکھا یا جانا ہی نہ ہو کے شاعری کیا ہے۔ یا اس نے آج تک ایک شعر تک نہ پڑھا ہو اس پر غزل کی آمد ہوگئی ہو؟ اور بعد میں وہ بہت بڑا شاعر بن گیا؟ کیا کوئی بڑے سے بڑا شاعر اس کارنامے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں۔ شاعر ہوتا ہی تب ہے جب تمام اصولوں کو سمجھے، مختلف شعرا کا کافی کلام پڑھے اور شاعری پر محنت کرے ۔ اس کے بعد اس شاعر پر منحصر ہے کے وہ کلام میں معنوی اور لفظی کتنی خصوصیات پیدا کر سکتا ہے۔ اور ادب کا زوال بھی اسی وجہ سے ہوگا کے صرف مضامین رہ جائینگے الفاظ و تراکیب اور قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔
اور اسی حوالے سے ایک اور بات بھی کہوں کے اکثر شعرا کے اشعار کو نشانہ بنایا جاتا اپنی غیر منطقی بحث کو ثابت کرنے کے لئے۔ جیسے عروض سے جی چرانے والے رومی کو دلیل بناتے ہیں:
شعر میں گویم بہ از آبِ حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات۔

یا پھر غالب کے اس شعر کو :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

ارے اللہ کے بندوں شاعری کی اصطلاحات کو تو سمجھو۔ وہ امام تھے اس فن کے۔ اگر وہ ایسے اشعار نہ کہتے تو آگے کی نسلوں کو ”تجاہلِ عارفانہ“ اور ”شاعرانہ تعلّی“ کی مثالیں کہاں سے حاصل ہوتی؟ انہوں نے اپنی جانب میں اپنے کلام میں ہر طرح کی مثالیں رکھ چھوڑی ہیں اسی زبان اور اس فن کی ترویج کے خاطر۔ نا کے مضامیں باندھنے کی غرض سے۔
 
نقوی بھائی
کیا کچھ "ایہام و ابہام " یکجا نہیں ہو رہے آپ کے تبصرے میں ؟
قاری جب ان علوم سے آشنا ہی نہیں تو پھر شاعری سے محظوظ ہونے میں یہ رموز و اصناف قاری کی کیا مدد کریں گے ۔ ؟
گرچہ قاری آشنا نہیں ہوتا لیکن کلام کو لائق ستائش اور حسین نہ معنی واقعی یہی اصناف بناتے ہیں۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آخر ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے شاعری خود بخود ہوجاتی ہے ؟
بسمل! اس کا جواب تو تم نے خود ہی ایک جگہ پر میرے مراسلہ کے جواب میں دے رکھا ہے:
حضرت آپ روشناس کرائیں تو شکر گذار ہوںگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بھی ٹوٹا پھوٹا پوسٹ کرتا ہوں وہ الہامی طور سے ہے جس کا میرے ساتھی شعراء مذاق بھی اڑایا کرتے ہیں۔ آپ کی تفصیلی توجہ کا طلبگار ہوں۔
 
بسمل! اس کا جواب تو تم نے خود ہی ایک جگہ پر میرے مراسلہ کے جواب میں دے رکھا ہے:

تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ مجھے قافیہ ردیف وغیرہ کا کوئی علم نہ تھا ؟
بیشک وہ کلام فی البدیہ تھا لیکن شاعری کے قوانین کو پامال کرنے والا نہیں تھا.
اور اتنی ہی اہم بات یہ کے الہامی مضمون تھا. جب کے الفاظ و تراکیب. قافیہ و ردیف بندی. مقطع و مطلع کا امتیاز. یہ سب کچھ تو الہامی نہیں ہوتا.
صرف مضمون بنا محنت و سوچ بچار کے ذہن میں جنم لے چکا تھا. جس میں شاعرانہ شکل اور شعر کہلانے کی خصوصیت علم کی بنیاد پر پیدا کی جاتی (گویا گڑھی) جاتی ہے :)
اور بعض اوقات مضمون کو کہیں اور سے چن کر اس پر بھی شاعری ہوتی ہے. جیسے اقبال نے کیا. :) شاعری کے گڑھے جانے کی ایک عمدہ مثال حالی کی مسدس حالی بھی ہے. :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
سب کچھ الہامی نہیں ہوتا اور ہو بھی سکتا ہے ۔۔۔۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ ۔۔۔۔ دونوں طرح کی شاعری موجود ہے
کچھ لوگ شعر کہہ دیتے ہیں ۔۔۔۔ اور علم عروض انکے قدم چھوکر کہتا ہے ۔۔۔ حضور جو آپ نے ارشاد فرمایا بجا فرمایا
اور
کچھ لوگ علم عروض کے پاؤن پکڑ کر کہتے ہیں میں کلام گھڑنے لگا ہوں اس پر کرم فرمائیے گا کہ یہ موزوں ہو جائے

یہ عروض کی بے ساکھی پر چلنے والے تک بندیے ہوتے ہیں جن کے کلام میں بے ساختگی ، برجستگی تو نہیں ہوتی لیکن عروض کے قوانین پر فٹ بیٹھتا ہے

بس فرق یہی ہے
 
Top