ارے بہن جی۔۔۔نبیل بھیا اور سید عمران بھیا میں کانٹے دار مقابلہ دیکھتے ہیں کہ پہلے کون جیتے گا
پیرگراف کی تلخیص کریں اور مناسب عنوان بھی تجویز کریں۔
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گااور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشےکی ضرورت کیا تھی۔یہ سب کچھ کس قدر بےمعنی اور بے سود تھا۔
از نیلی جھیل
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
پیرگراف کی تلخیص کریں اور مناسب عنوان بھی تجویز کریں۔
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گااور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشےکی ضرورت کیا تھی۔یہ سب کچھ کس قدر بےمعنی اور بے سود تھا۔
از نیلی جھیل
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
عنوان: رومان کی موت!
جیون تلخیوں سے عبارت ہے۔ زندگی پھولوں کا بستر نہیں، کانٹوں کی سیج ہے اور سہانا مستقبل محض اک خواب ہے۔ مادہ پرستی اور مسابقت کی دوڑ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ انسان بالآخر شکست تسلیم کر لیتا ہے۔ دوستی اور رشتے داریاں نبھاتے نبھاتے انسان موت کی وادی میں اُتر جاتا ہے؛ دیکھا جائے تو حیات کا یہ سفر رائیگاں ہی معلوم ہوتا ہے۔
عنوان :سب مایا ہے
لڑکوں کی زندگی خوابوں سے بھرپور ہوتی ہے اور وقت دھیرے دھیرے حقیقت کی قینچی سے خواب کے پر کاٹ دیتا ہے تب مثالیت پسندی کے بجائے حقیقت میں رہنا پڑتا ہے ۔ ہم لوگوں کو خوش کرنے کے لیے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہیں مگر دنیا کسی بھی حال میں جینے نہیں دیتی ہے اور نہ کسی کو سمجھ سکتی ہے ۔ عمر کی بیشتر منازل طے کرنے کے بعد تنہائی مقدر ہوجاتی ہے اور علم ہوتا کہ سب مایا ہے
اب معراج فیض آبادی کو نیا شعر لکھنا پڑے گا۔یہاں پر کوئی اور رکن کوئی پیرگراف پیش کرے گا؟ یہ اتنا کٹھن کام تو نہیں۔ یا پھر میں ہی یہ کام دوبارہ کروں؟
’’علوم و فنون کی روح سے عاری معاشرہ‘‘تلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔
جون ایلیا
دسمبر 1958
ازراہِ تفنن: اس طرح تو ہم ہیڈنگز لکھتے تھے الگ سے تاکہ پیپر میں دھیان سے آگے خود سے تفصیل لکھ سکیں۔’’علوم و فنون کی روح سے عاری معاشرہ‘‘
ایک زمانے تک علوم و فنون کی ناقدری کرنے والا معاشرہ۔۔۔
جو آج مادّہ پرستی کی اس انتہائی پستی تک پہنچ گیا کہ۔۔۔
علم و ہنر کا مقابلہ گارے مٹی سے کھڑے محلات اور زبان کی چاٹ کو تسکین دیتے کھانوں سے کرنے لگا۔۔۔
گویا انسانیت سے بھرپور معاشرے کی روح نکل گئی ۔۔۔
اور وہ ایک بے روح زندہ لاش کی مانند ہوگیا ۔۔۔
جو مٹی چٹنی چاٹنے کو زندگی کا اہم ترین مقصد سمجھ بیٹھا!!!
عیش پسندی اوراسکا نتیجہ:تلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔
جون ایلیا
دسمبر 1958
تلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔
جون ایلیا
دسمبر 1958
وہ تو فاتحہ بھی پڑھ چکے۔ اب گڑھے مردے کون اکھاڑےمطالعۂ کتب کے شوقین کہاں غائب ہیں؟
مسلسل مطالعۂ کتب کرنے والے یہ کام احسن انداز سے کر سکتے ہیں۔
کوئی بھی اکھاڑ سکتا ہے۔ محفل میں اس کام کے لیے ابھی باقاعدہ عہدہ اعلان نہیں کیا گیا۔وہ تو فاتحہ بھی پڑھ چکے۔ اب گڑھے مردے کون اکھاڑے
پھر ٹھیک ہے۔ جو اکھاڑ سکتا ہے اکھاڑ لے۔کوئی بھی اکھاڑ سکتا ہے۔ محفل میں اس کام کے لیے ابھی باقاعدہ عہدہ اعلان نہیں کیا گیا۔
عنوان : نئی نسل کی بد ذوقی کا نوحہتلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دانش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل۔ جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے۔ اس نسل کا وجود بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔
جون ایلیا
دسمبر 1958
ہائے۔۔۔۔ ایسی تلخیص کسی آپ جیسے ظالم سے متوقع تھی۔ واہ۔۔۔۔عنوان : نئی نسل کی بد ذوقی کا نوحہ
تلخیص :
نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں
جون