تیرہویں سالگرہ پیراگراف کی تلخیص کریں اور مناسب عنوان تجویز کریں!

فرقان احمد

محفلین
ہائے۔۔۔۔ ایسی تلخیص کسی آپ جیسے ظالم سے متوقع تھی۔ واہ۔۔۔۔
احمد صاحب حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں؛ اس میں شک شبہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ کبھی کبھار منظرنامے سے اچانک غائب ہو جاتے ہیں؛ بس ان صاحب میں یہی ایک بہت بڑی خامی ہے جو کہ ہمارے علم میں ہے۔ اور بھی یقیناََ ہوں گی ویسے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
احمد صاحب حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں؛
کیا شک ہے۔

اس میں شک شبہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
بالکل۔۔ متفق

کبھی کبھار منظرنامے سے اچانک غائب ہو جاتے ہیں؛
عادتا غائب ہوتے ہیں۔ اب کیا بتائیں کہ کیوں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اجازت لے دیں تو میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔

بس ان صاحب میں یہی ایک بہت بڑی خامی ہے جو کہ ہمارے علم میں ہے۔
یہ تو وہ ہے جو آپ کو معلوم ہے۔

اور بھی یقیناََ ہوں گی ویسے۔
پھر وہی۔۔۔ معاملہ اجازت کا آن پڑا ہے۔ :p
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد صاحب حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں؛ اس میں شک شبہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ کبھی کبھار منظرنامے سے اچانک غائب ہو جاتے ہیں؛ بس ان صاحب میں یہی ایک بہت بڑی خامی ہے جو کہ ہمارے علم میں ہے۔ اور بھی یقیناََ ہوں گی ویسے۔ :)

فرقان بھائی!

اللہ آپ کا حسن ظن قائم رکھے۔

رہی بات غائب ہوجانے کی تو مثل مشہور ہے کہ :

قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
عادتا غائب ہوتے ہیں۔ اب کیا بتائیں کہ کیوں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اجازت لے دیں تو میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔
پھر وہی۔۔۔ معاملہ اجازت کا آن پڑا ہے۔ :p

ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ آپ کو اجازت دینا اپنے پروانہء موت پر خود دستخظ کرنے کے مترادف ہے۔ :):p
 

محمداحمد

لائبریرین
تلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
==============

علم حاصل کرنا ایک نیکی ہے، علم کو پھیلانا اس سے بھی بڑی نیکی ہے۔ علم کے بغیر زندگی میں اجالا، اعتماد اور اطمینان میسرنہیں آتا۔ انسان اندھیرے میں رہتا ہے۔ اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتا۔ علم روشنی ہے، جس کی مدد سے انسان بھلائی برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ غلط اور صحیح کو الگ کر سکتا ہے۔گُم راہی اور تباہی سے بچ سکتا ہے۔ سیدھا، سچاراستہ تلاش کر سکتا ہے۔ علم رکھنے والا انسان ٹھوکر کھا بھی جائے تو جلد سنبھل جاتا ہے اور پھر مضبوطی سے قدم جما کر چلنے لگتا ہے۔ علم کی روشنی خود بھی حاصل کرنی چاہیے اوردوسروں کو بھی پہنچانی چاہیے۔

علم کو وہی شخص پھیلا سکتا ہے جس نے خود عِلم حاصل کیا ہو اور جو جہالت کی تاریکی سے اُجالے میں آگیا ہو۔ عِلم حاصل کرنے کے لیے کتابیں پڑھنی ضروری ہیں۔ کتابیں علم حاصل کرنے کا بہت اچھا اور آسان ذریعہ ہیں۔ زندگی کے وہ تجربات جو برسوں کے بعد حاصل ہوتے ہیں وہ کتابوں کے ذریعے سے دنوں میں معلوم ہو جاتے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جو باتیں لوگ ایک عمر صَرف کرنے کے بعد سیکھتے اور سمجھتے ہیں وہ چند کتابوں کے مطالعے سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ مطالعے کی عادت بڑی اچھی اور مفید عادت ہے۔ جن نونہالوں کو شروع ہی سے مطالعے کی عادت پڑ جاتی ہے وہ بہت جلد علم حاصل کر لتے ہیں اور ان کی معلومات زندگی کے ہر کام میں اُن کی مدد کرتی ہیں۔کتابوں کا مطالعہ نہ صرف معلومات بڑھاتا ہے بلکہ ذہن کو تفریح بھی بخشتا اور دل کو خوش رکھتا ہے۔

حکیم محمد سعید - دیباچہ برائے مونٹی کرسٹو کا نواب (نونہال ادب)
 

محمد وارث

لائبریرین
مطالعۂ کتب کے شوقین کہاں غائب ہیں؟
مسلسل مطالعۂ کتب کرنے والے یہ کام احسن انداز سے کر سکتے ہیں۔ :)
شوقین تو یہیں ہیں لیکن اس کھیل کا مطالعہ سے ربط بنا نہیں پایا۔

واللہ، مجھے تو اس کھیل سے دسویں بارہویں کے پرچے یاد آ گئے، جن میں تلخیص کریں کا باقاعدہ سوال شامل ہوتا تھا، اس سے نفرت ہو جانا کوئی غیر معمولی فعل نہیں۔ :)
 
شوقین تو یہیں ہیں لیکن اس کھیل کا مطالعہ سے ربط بنا نہیں پایا۔

واللہ، مجھے تو اس کھیل سے دسویں بارہویں کے پرچے یاد آ گئے، جن میں تلخیص کریں کا باقاعدہ سوال شامل ہوتا تھا، اس سے نفرت ہو جانا کوئی غیر معمولی فعل نہیں۔ :)
میرا مشاہدہ ہے کہ مطالعہ کے عادی افراد کسی تحریر کا مدعا یا مرکزی خیال بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔ :)
 

م حمزہ

محفلین
شوقین تو یہیں ہیں لیکن اس کھیل کا مطالعہ سے ربط بنا نہیں پایا۔

واللہ، مجھے تو اس کھیل سے دسویں بارہویں کے پرچے یاد آ گئے، جن میں تلخیص کریں کا باقاعدہ سوال شامل ہوتا تھا
، اس سے نفرت ہو جانا کوئی غیر معمولی فعل نہیں۔ :)
آج بھی ویسا ہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تلخیص کیجیے۔ عنوان بھی دیجیے۔
==============

علم حاصل کرنا ایک نیکی ہے، علم کو پھیلانا اس سے بھی بڑی نیکی ہے۔ علم کے بغیر زندگی میں اجالا، اعتماد اور اطمینان میسرنہیں آتا۔ انسان اندھیرے میں رہتا ہے۔ اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتا۔ علم روشنی ہے، جس کی مدد سے انسان بھلائی برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ غلط اور صحیح کو الگ کر سکتا ہے۔گُم راہی اور تباہی سے بچ سکتا ہے۔ سیدھا، سچاراستہ تلاش کر سکتا ہے۔ علم رکھنے والا انسان ٹھوکر کھا بھی جائے تو جلد سنبھل جاتا ہے اور پھر مضبوطی سے قدم جما کر چلنے لگتا ہے۔ علم کی روشنی خود بھی حاصل کرنی چاہیے اوردوسروں کو بھی پہنچانی چاہیے۔

علم کو وہی شخص پھیلا سکتا ہے جس نے خود عِلم حاصل کیا ہو اور جو جہالت کی تاریکی سے اُجالے میں آگیا ہو۔ عِلم حاصل کرنے کے لیے کتابیں پڑھنی ضروری ہیں۔ کتابیں علم حاصل کرنے کا بہت اچھا اور آسان ذریعہ ہیں۔ زندگی کے وہ تجربات جو برسوں کے بعد حاصل ہوتے ہیں وہ کتابوں کے ذریعے سے دنوں میں معلوم ہو جاتے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جو باتیں لوگ ایک عمر صَرف کرنے کے بعد سیکھتے اور سمجھتے ہیں وہ چند کتابوں کے مطالعے سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ مطالعے کی عادت بڑی اچھی اور مفید عادت ہے۔ جن نونہالوں کو شروع ہی سے مطالعے کی عادت پڑ جاتی ہے وہ بہت جلد علم حاصل کر لتے ہیں اور ان کی معلومات زندگی کے ہر کام میں اُن کی مدد کرتی ہیں۔کتابوں کا مطالعہ نہ صرف معلومات بڑھاتا ہے بلکہ ذہن کو تفریح بھی بخشتا اور دل کو خوش رکھتا ہے۔

حکیم محمد سعید - دیباچہ برائے مونٹی کرسٹو کا نواب (نونہال ادب)
عنوان: رب زدنی علما
تلخیص: کتاب انسان کی بہترین دوست اور علم حاصل کا بہترین ذریعہ ہے۔
 
ایک نئے سلسلے کا آغاز کرتے ہیں :) مجھے اُمید ہے کہ سب اس میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں گے :) آپ سب نے کرنا کچھ اسطرح ہے :)
اس پیراگراف کو پڑھیں
اس کو تین بار پڑھ لیں تو بہتر ہے
اس کا مفہوم بیان کریں مگر اسکی اک شرط ہے
عنوان بہترین ہونا چاہیے
سات مثبت ریٹنگز جس کے عنوان نے حاصل کرلیں (سب سے پہلے) وہ پیراگراف پیش کرکے اپنی مرضی کے محفلین کو ٹیگ کرے گا ، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا ، میں سب سے پہلے فرقان احمد بھیا کو ٹیگ کرتی ہوں ، وہ عنوان تجویز کریں اور باقیوں کو بھی دعوت دیں ، جس کی ریٹنگز زیادہ ہوجائیں گے وہی سلسلہ چلائے گا
---------------------------------------------------------------------------------------

"بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ تاہم ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔ یوں تو سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ "



موج ِخوشی و نا خوشی
بارش رحمت بھی ہے اور زحمت بھی ، تاہم یہ زحمت نا ہو تو ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ خوش ہوں تو خوشی کو سرخوشی میں بدل دیتی ہے اور غم میں ڈوبے ہوں تو نا خوشی اندر تک اتر جاتی ہے ، اس کے ایک ایک قطرے اور ایک ایک بوند آپ کا خون نچوڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ حساس طبیعتوں پر یہ کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوتی ہے ۔ کچھ لوگ اس کو اوڑھ کر اس کے مداوا کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس کو ساجھا کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔
محمد علم اللہ
 
Top