ناصر علی مرزا صاحب کی توجہ خاص طور پر ’’مطلوب ہے‘‘ ۔
بندہ پھول جاتا ہے کہ میں نے نیکی کی ہے۔ ترغیب کی بات پر میری زندگی کا حاصل جان لیجئے۔
میں نے الحمد للہ چھ بچوں کی شادیاں کیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں۔ اور جہیز نہ لیا نہ دیا۔
ایک فریق سے (جس کی طرف سے جہیز کے مطالبے کا امکان تھا) میں نے بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’بہن! اگر میری بیٹی کو دل سے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہیں تو جب جی چاہے دو چار دس مہمان لے کر آ جائیں اور بیٹی کو لے جائیں ۔ اور اگر دیگچیاں اور رضائیاں اور کرسیاں اور صوفے اور فرج اولیت رکھتے ہیں تو کوئی ایسا گھرانہ ابھی دیکھ لیجئے۔‘‘ وہ چیں بہ جبیں تو ہوئیں تاہم انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹے کے (اس وقت ہونے والے) سسر نے مجھ سے کہا: ’’میں فرنیچر کا آرڈر دینے والا ہوں، آپ یہ بتائیے کہ فرنیچر براہ راست آپ کے ہاں پہنچا دیا جائے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں صاحب۔ اپنی دولت یوں ایک بچی کو نہ دے دیجئے جس پر آپ کی چاروں بچیوں اور بیٹے کا حق مقرر ہے‘‘۔ انہی دنوں میرے بیٹے کا فون آ گیا کہ ابو جی مجھے خبر ملی ہے وہ لوگ جہیز وغیرہ تیار کر رہے ہیں، ان کو منع کر دیں‘‘۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نکاح کے بعد بھی سمدھی صاحب بضد تھے کہ میں تو سامان بنواؤں گا۔ پڑھے لکھے صاحب تھے (اللہ مغفرت فرمائے) سمجھانے پر سمجھ گئے اور اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹی کا رشتہ برادری سے باہر ہوا۔ دو طرفہ رضامندی کا اظہار ہو چکا تھا۔ دعائے خیر کے دن وہ لوگ میرے مہمان ہوئے۔ لڑکے کے بڑے بھائی (ایم اے اسلامیات اور پیشہ تدریس) مجھے کہنے لگے: چاچو جہیز کے بارے میں کچھ؟ میں نے کہا: مجھے یہ فرمائیے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ بولے: شریعت میں تو کوئی جہیز نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، ہم نیا کام کیوں کریں!۔
اہم بات جو یہاں بتانے کی ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بچیاں بچے اولادوں والے ہو گئے۔ ایک نواسی تو انیس برس کی ہو گئیں۔ کسی بھی طرف سے کبھی کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور نہ اس بنا پر کوئی گھریلو ناجاقی یا طعن و تشنیع ہوئی ہے۔
ایک اور اہم تر بات ۔۔ میرے اسی بیٹے کی سالی کے نکاح کی بات بعد میں چلی۔ لڑکے نے پہلے کہہ دیا کہ جہیز کو اس معاملے سے نکال باہر کیا جائے۔ وہ میاں بیوی بھی ماشا اللہ خوش ہیں۔ انہیں پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ میں اس لڑکے سے ملا تو پوچھا: میاں آپ کو جہیز سے انکار کی کیا سوجھی؟ بولا: وہی سوجھی انکل، جو آپ کو اور بھائی کو سوجھی تھی (’’بھائی‘‘ سے مراد پیرا بیٹا تھا)۔
بعد میں اپنے ہی محلے میں ایک لڑکے کی ماں نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور لڑکی والوں کو پہلے بتا دیا کہ جہیز تیار نہ کریں۔
اللہ کریم ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ کچھ ہلنا جلنا تو کرنا پڑتا ہے، باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔