محمد یعقوب آسی
محفلین
میرا تعلق اصلآ اس طبقے سے ہے جس میں بچپن کے بعد بڑھایا آتا ہے۔ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔
میں اپنے والدین آخری اولاد ہوں، سب سے چھوٹا اور لاڈلا۔ مگر مجھ پر جیسی کڑی گزری شاید میرے سارے بہن بھائیوں پر نہیں گزری ہو گی۔ ابا اپنے ایک قریبی رشتے دار کی سات یا نو ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔ جیب چھوٹی مگر دل بڑا پایا تھا۔ ’’گھر چل رہا ہے، بس ٹھیک ہے، بندہ خود کو گرنے کیوں دے!‘‘ ان کی زندگی کا فلسفہ ہی یہ تھا۔ میں نے غریبوں والے ٹاٹ سکول میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر خستہ چوبی بنچوں والے ایک سکول سے دسویں کا امتحان دیا۔ سکول کے آدھے بچے بنچوں پر بیٹھتے تھے اور آدھے ٹاہلی اور کیکر کی گھنی چھاؤں میں کھلی زمین پر یا پھر سردیوں کی دلربا دھوپ کا مزہ شور زدہ گراؤند میں بیٹھ کر لیتے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہتی۔
گاؤں سے سکول تک یہی کوئی پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ روزانہ پیدل آنے جانے سے اس کے ایسے عادی ہوئے کہ وہ فاصلہ فاصلہ لگتا ہی نہیں تھا۔
میں اپنے والدین آخری اولاد ہوں، سب سے چھوٹا اور لاڈلا۔ مگر مجھ پر جیسی کڑی گزری شاید میرے سارے بہن بھائیوں پر نہیں گزری ہو گی۔ ابا اپنے ایک قریبی رشتے دار کی سات یا نو ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔ جیب چھوٹی مگر دل بڑا پایا تھا۔ ’’گھر چل رہا ہے، بس ٹھیک ہے، بندہ خود کو گرنے کیوں دے!‘‘ ان کی زندگی کا فلسفہ ہی یہ تھا۔ میں نے غریبوں والے ٹاٹ سکول میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر خستہ چوبی بنچوں والے ایک سکول سے دسویں کا امتحان دیا۔ سکول کے آدھے بچے بنچوں پر بیٹھتے تھے اور آدھے ٹاہلی اور کیکر کی گھنی چھاؤں میں کھلی زمین پر یا پھر سردیوں کی دلربا دھوپ کا مزہ شور زدہ گراؤند میں بیٹھ کر لیتے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہتی۔
گاؤں سے سکول تک یہی کوئی پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ روزانہ پیدل آنے جانے سے اس کے ایسے عادی ہوئے کہ وہ فاصلہ فاصلہ لگتا ہی نہیں تھا۔
مشکلیں اتنی پڑین مجھ پر کہ آساں ہو گئیں