آصف اثر
معطل
یہاں پاکستان سے مراد ہندوؤں کو افغان فاتحین سے بچانے کا وہ علاقہ ہے جسے بطور دیوار کھڑا کرنا تھا۔پاکستان دو تین سال کا نہیں بلکہ دہائیوں پہلے کا منصوبہ تھا۔
یہاں پاکستان سے مراد ہندوؤں کو افغان فاتحین سے بچانے کا وہ علاقہ ہے جسے بطور دیوار کھڑا کرنا تھا۔پاکستان دو تین سال کا نہیں بلکہ دہائیوں پہلے کا منصوبہ تھا۔
قومیت علاقائی یا لسانی نہیں ہوتی۔ آپ بیشک سندھی ، پنجابی، پٹھان،بلوچی ہوں۔ لیکن سب کی قومیت صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی!الفاظ نہ پکڑیئے۔ یہی شکایت آپ کو شاید ہم سندھ کے شہری علاقوں سے بھی ہو کہ ہم اپنے آپ کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟
یہ قوم کے نمائندے نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں کیوں کہ ان کا کام یس سر ہوتا ہے اپنی قوم کی حفاظت نہیں۔ آرڈر کون دے رہا ہے اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔قومیت علاقائی یا لسانی نہیں ہوتی۔ آپ بیشک سندھی ، پنجابی، پٹھان،بلوچی ہوں۔ لیکن سب کی قومیت صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی!
اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت وغیرہ؟پاکستان کو معرض وجود میں لانے کا مقصد ہندوستان پر افغانستان کی سرزمین سے ہونے والے حملوں کے تاریخی تسلسل کو روکنا تھا۔
زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں کے بعد یہی اسرائیلی فوج قوم کی حفاظت کیلئے طلب کی جاتی ہے۔ جسے عام حالات میں سخت نفرت کا سامنا ہے۔یہ قوم کے نمائندے نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں کیوں کہ ان کا کام یس سر ہوتا ہے اپنی قوم کی حفاظت نہیں۔ آرڈر کون دے رہا ہے اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔
14 اگست 1947ء سے پیشتر جب پاک و ہند پر برطانیہ کا قبضہ تھا، برطانیہ کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی تھی کی شمال مغربی سرحد پر روس کا اقتدار نہ بڑھ جائے یا خود افغانستان کی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے اندر گڑبڑ پیدا نہ کرا دے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ہند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک، معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن (Durand Line) یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل ،کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے 100 سال تک دستبردار ہو گیا۔اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت وغیرہ؟
اس کا ایک تاریخی ثبوت ہندوستان کے اندر وہ مسلمان ریاستیں اور صوبے ہیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بفرزون میں نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپ کرلیے گئے، کیوں کہ بفرزون بن چکا تھا اور یہ اضافی تھے۔اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت وغیرہ؟
یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے بات کہ پاکستان ٹرانزیشن ایریا میں ہے یعنی مشرق میں ہندوستان، مغرب میں افغان اور ایران، اور پاکستان ان کے درمیان۔ پاکستان بننے سے قبل بلکہ کئی صدیوں قبل یہ علاقہ غیر مستحکم تھا۔ مغرب سے آنے والی افغانی، ازبگ، منگول وغیرہ اسی راستے کا استعمال کرتے رہے ہیں لیکن تاریخ کسی بھی قسم کی سازش کا پتہ نہیں دیتی جس سے پاکستان ہندوستان کو محفوظ کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہو اگرچہ اس پر کافی بحث موجود ہے کہ پاکستان کے معرضِ وجود آنے کے کیا محرکات تھے۔
اس تحریر میں ایسا کچھ بھی نہیں جس سے یہ قیاس کر لیا جائے جو آصف اثر صاحب کا بیانیہ ہے۔14 اگست 1947ء سے پیشتر جب پاک و ہند پر برطانیہ کا قبضہ تھا، برطانیہ کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی تھی کی شمال مغربی سرحد پر روس کا اقتدار نہ بڑھ جائے یا خود افغانستان کی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے اندر گڑبڑ پیدا نہ کرا دے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ہند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک، معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن (Durand Line) یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل ،کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے 100 سال تک دستبردار ہو گیا۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا، پاکستان کی حکومت نے اپنے آپ کو برطانيہ کا اصلی وارث سمجھتے ہوئے یہ معاہدہ برقرار رکها اور کئی سال تک افغانستان کی حکومت کو مالی معاوضہ ديا جاتا رہا۔ کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ کابل کی فرماں روائی میں ہے۔ کیونکہ بقول اس کے اس علاقے کے لوگ افغانوں کے ہم نسل پشتون تھے اور ہم زبان تھے۔ جب کہ سکھوں کے دور سے پہلے تک یہ علاقہ افغانستان کا علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔
حوالہ
پاکستان کو معرض وجود میں لانے کا مقصد ہندوستان پر افغانستان کی سرزمین سے ہونے والے حملوں کے تاریخی تسلسل کو روکنا تھا۔
ڈیورنڈ لائن کو پختونوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اور نہ سات سمندر پار سے آنے والے لٹیروں کو یہ اختیار حاصل تھا۔ جب کہ روس اور برطانیہ میں اس لائن کی طے شدگی ضرور ہوئی ہوگی لیکن دریائے سندھ کے بجائے پختون خطے کو دولخت کرنے کا اقدام برطانویوں کی پالیسی تھی۔14 اگست 1947ء سے پیشتر جب پاک و ہند پر برطانیہ کا قبضہ تھا، برطانیہ کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی تھی کی شمال مغربی سرحد پر روس کا اقتدار نہ بڑھ جائے یا خود افغانستان کی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے اندر گڑبڑ پیدا نہ کرا دے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ہند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک، معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن (Durand Line) یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل ،کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے 100 سال تک دستبردار ہو گیا۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا، پاکستان کی حکومت نے اپنے آپ کو برطانيہ کا اصلی وارث سمجھتے ہوئے یہ معاہدہ برقرار رکها اور کئی سال تک افغانستان کی حکومت کو مالی معاوضہ ديا جاتا رہا۔ کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ کابل کی فرماں روائی میں ہے۔ کیونکہ بقول اس کے اس علاقے کے لوگ افغانوں کے ہم نسل پشتون تھے اور ہم زبان تھے۔ جب کہ سکھوں کے دور سے پہلے تک یہ علاقہ افغانستان کا علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔
حوالہ
یہ جاسم کا مؤقف ہے۔اس تحریر میں ایسا کچھ بھی نہیں جس سے یہ قیاس کر لیا جائے جو آپ کا بیانیہ ہے۔
یہ معاہدہ 1893 میں سو سال کیلئے ہوا تھا۔ اس کا مطلب 1993 کے بعد یہ علاقہ معاہدہ کے تحت واپس افغانستان کو جانا چاہئے تھا۔ڈیورنڈ لائن کو پختونوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اور نہ سات سمندر پار سے آنے والے لٹیروں کو یہ اختیار حاصل تھا۔ جب کہ روس اور برطانیہ میں اس لائن کی طے شدگی ضرور ہوئی ہوگی لیکن دریائے سندھ کے بجائے پختون خطے کو دولخت کرنے کا اقدام برطانویوں کی پالیسی تھی۔
سر انتہائی احترام سے، ایسا کہنے کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے (مہاجر) تو پاکستان کے لیے قربانی دی ہے۔ تو میں اس میں تقسیم یا تعصب کی بات کیوں کروں؟ میں حلفا کہتا ہوں کہ تمام عمر مجھے پنجاب میں کبھی اس قسم کے تعصب کا سامنا نہیں ہوا جس کا ذکر ہم سندھ، بالخصوص کراچی کے حوالے سے سنتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک رد عمل کے نتیجے میں سامنے آئی لیکن اس پلیٹ فارم کی توانائی اس پر صرف کیوں نہ کی گئی کہ مہاجر کو مہاجر کے بجائے پاکستانی کہا جائے۔ حتی کہ علیحدہ مہاجر صوبے تک کی بات سامنے آنے لگی۔ میں پہلے جو بھی تھا لیکن وطن کے لحاظ سے میری پہچان پاکستان ہے، اور مذہب کے لحاظ سے مسلمان۔ باقی سب ایک خاص مطلب پرست ٹولے کا پروپیگنڈا ہے۔ یہی پروپیگنڈا کچھ بدبختوں نے اس نعرے "جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نو لگ گیا داغ" کے ساتھ پنجاب میں پھیلانے کی کوشش کی لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ عوامی سطح پر اس کو کوئی خاص پذیرائی ملی ۔۔۔ کم از کم مجھے ذاتی حیثیت میں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مختلف تعصبات کو فقط ایک بدبخت ٹولہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ سمجھدار لوگوں کو کم از کم اس سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔الفاظ نہ پکڑیئے۔ یہی شکایت آپ کو شاید ہم سندھ کے شہری علاقوں سے بھی ہو کہ ہم اپنے آپ کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟
کوئی اگر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ڈیورنڈ لائن کی کوئی حیثیت نہیں تو اس رو سے برطانیہ کے افغانیوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر افغانستان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ یہ محض تاریخ کا سانحہ کہلائے گا کہ افغانستان پاکستان کا حصہ نہیں۔ڈیورنڈ لائن کو پختونوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اور نہ سات سمندر پار سے آنے والے لٹیروں کو یہ اختیار حاصل تھا۔ جب کہ روس اور برطانیہ میں اس لائن کی طے شدگی ضرور ہوئی ہوگی لیکن دریائے سندھ کے بجائے پختون خطے کو دولخت کرنے کا اقدام برطانویوں کی پالیسی تھی۔
معذرت خواہ ہوں، تدوین کر دی ہے۔یہ جاسم کا مؤقف ہے۔
میں قطعا اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ آپ کی رائے ہے اس کا احترام ۔۔ اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ جس کو جو سمجھ آئے اس کی مرضی۔یہاں پر سیاق وسباق سمجھنا ضروری ہے۔ افغان ایک قوم ہے جو ہزاروں سال سے وجود رکھتی ہے جب کہ پاکستان ابھی ستر سال ہوئے بنا ہے۔
جب پاکستان نہیں بنا تھا اس وقت بھی پختون اپنی اسی سرزمین پر آباد تھے۔ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کا مقصد ہندوستان پر افغانستان کی سرزمین سے ہونے والے حملوں کے تاریخی تسلسل کو روکنا تھا۔ پاکستان دو تین سال کا نہیں بلکہ دہائیوں پہلے کا منصوبہ تھا۔
وہ مسلمان جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، اور وہ جو پہلے سے پنجاب، پختون خواہ، سندھ اور بلوچستان وغیرہ میں آباد تھے، دونوں میں فرق ہے۔ ایک طرف اس گھر کی میزبان قومیں تھی جب کہ دوسری جانب ہجرت کرنے والے مسلمان بھائی۔
پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ ان میزبان قوموں خصوصا پختونوں نے کلمہ طیبہ اور تہذیبی و تمدنی آزادی کی بنیاد پر کیا تھا لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا صرف نام استعمال کیا جارہا ہے باقی حکومت وہی انگریز لارڈز کا تسلسل ہے۔ ہم پاکستان کے نہیں بلکہ اس لابی کے مخالف ہیں جو اپنے آقاؤں کے ترتیب شدہ گائڈ لائن پر چل رہی ہے۔
بالکل صحیح اور معقول بات۔ آپ کا تعلق کسی بھی علاقہ سے ہو۔ آپ جونسی بھی زبان بولتے ہوں۔ آپ کی ثقافت اور تاریخ جوبھی ہو۔جب آپ ایک بار پاکستان کے شہری بن گئے تو آپ کی قومیت اب صرف پاکستانی ہے۔میں پہلے جو بھی تھا لیکن وطن کے لحاظ سے میری پہچان پاکستان ہے، اور مذہب کے لحاظ سے مسلمان۔
اگر پاکستان سب کا ہے تو یہ کھیل تماشا بھی فوری بند ہو جانا چاہیے۔ جن لوگوں کا کام سرحدات کی حفاظت ہے وہ سرحدات کی حفاظت کرے اور جن کا کام قانون سازی ہے وہ قومی امنگوں کے ترجمان بنے لیکن ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند کرکے صرف رہنا چاہتے ہیں، جینا نہیں۔میں قطعا اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ آپ کی رائے ہے اس کا احترام ۔۔ اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ جس کو جو سمجھ آئے اس کی مرضی۔
میری گذارش صرف اتنی ہے کہ پاکستان موجودہ دور میں ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے بارے میں شکوک شبہات پیدا کرنا، خاص کر ایسے موقعے پر جب ہر طرف سے دشمن پاکستان کو نوچنے کے در پر ہو، انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ جو شخص پاکستان میں رہتا ہے وہ پاکستانی ہے اگر اس کو یہ پسند نہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی شناخت کو چھوڑ کر وہاں چلا جائے جہاں کی شناخت پر اس کو فخر ہے۔
جس خاص، اہل اقتدار، ٹولے کی بات آپ کر رہے ہیں ان سے گلہ ہمیں بھی ہے۔ لیکن کیا اس کے لیے مناسب ہے کہ افغان حکومت یا ہندوستان یا کسی اور ملک سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی جائے؟ یہ تو وہی بات ہے کہ جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا۔ افغانستان میں ہندوستان کیا کھیل، کھیل رہا ہے، یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں، اس کے باوجود ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کو فروغ دینا واضح طور پر بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ ملک کی خرابی کو ملک میں رہ کر ٹھیک کریں، دشمن کو دعوت نہ دیں کہ وہ آپ کا ساتھ دے، ورنہ خدانخواستہ ملک نہ آپ کا رہے گا نہ اس کے باسیوں کا بلکہ وہی دشمن جو ابھی ہمدرد نظر آ رہا ہے، وہی ان "ناراض" لوگوں کی گردن مارے گا۔ اس وقت بچانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
تاریخ میں اس بات کے کہیں بھی شواہد نہیں ملتے کہ وہ اس لیے ہڑپ کر لیے گئے کہ وہ بفر زون کے سوا تھے۔ تاریخ قیاس آرائیوں پہ نہیں بلکہ واقعات پہ چلتی ہے کیونکہ اس کا کوئی مذہب، رنگ، نسل اور زبان نہیں ہوتی۔ اگر ایسے کوئی تاریخی واقعات اس دور میں ہوئے ہیں جس پر اس دور کے مصنف نے کوئی پردہ اٹھانے کی، کوئی تحریک چلانے کی کوشش کی ہے تو مجھے بھی اس سے فیض یاب فرمائیں اور اگر یہ سب کچھ اندر کھاتے ہوا ہے اور کسی کو کوئی خبر نہیں ہوئی تو پھر اس کی تاریخی کوئی حیثیت نہیں۔اس کا ایک تاریخی ثبوت ہندوستان کے اندر وہ مسلمان ریاستیں اور صوبے ہیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بفرزون میں نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپ کرلیے گئے، کیوں کہ بفرزون بن چکا تھا اور یہ اضافی تھے۔
آپ کی پی ٹی ایم بلاوجہ بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جب فاٹا کی عوام کے حقوق کیلئے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا پیش کردہ بل 26ویں آئینی ترمیم بغیر کسی مخالفت کے پاس ہو چکا ہے توپھر مسئلہ کیا ہے؟ فاٹا میں جب تک الیکشن نہیں ہوتے، سول حکومت کا قیام عمل میں نہیں آتا، تب تک وہاں کمان فوج کے ہاتھ میں رہے گی۔ بجائے اس الیکشن کی تیاری کے آپ لوگ فوجی چیک پوسٹس سے پنگے لے رہیں جو آپ کی ہی سیکورٹی کیلئے لگائی گئی ہیں۔اگر پاکستان سب کا ہے تو یہ کھیل تماشا بھی فوری بند ہو جانا چاہیے۔ جن لوگوں کا کام سرحدات کی حفاظت ہے وہ سرحدات کی حفاظت کرے اور جن کا کام قانون سازی ہے وہ قومی امنگوں کے ترجمان بنے لیکن ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند کرکے صرف رہنا چاہتے ہیں، جینا نہیں۔