عبداللہ محمد
محفلین
ایک صاحب آجکل پاکستان میں وزیر اعظم لگے ہوئے ہیں وہ کچھ روز قبل فاٹا میں فرما رہے تھے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات درست ہیں لہجہ ٹھیک نہیں۔ اچھا سوری
ممکن ہے اس مرتبہ خاکیان کو عوام سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پیش آ جائے ۔۔۔!ان گھرانوں کے علاوہ جن کا کوئی بچہ فوج میں ہے، یا وہ علاقے جو انگریز دور ہی سے غلام ابن غلام چلتے آرہے ہیں، باقی پورے خیبرپختون خوا میں فوج کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد عوام فوج کے آنے پر خوش تھی لیکن ان کا فرعونیت، ہتک آمیز اور ظلم و تشدد پر مبنی رویہ اور تجربات دیکھ کر وہ ساری آرزو نفرت میں بدل دی گئی۔ ان بے چاروں کو بھی جو طالبان کے ساتھ صرف ایک بار بھی وقت گزاری کے لیے بیٹھے ہوں، کو ایسی ایسی سزائیں دی گئیں کہ جس کا سوچنا محال ہے۔
پشتون قوم میں غضب یہ ہے کہ وہ سادہ لوح اور ہنس مکھ بہت ہے لیکن یہی اچھائی ان کے لیے عذاب بنادی جاتی ہے۔ لیکن جو عذاب بناتا ہے اسے خود پھر معافی بہت کم ملتی ہے۔ یہی پشتون تاریخ ہے۔
فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
یہ جاہل اور بلیک میل مافیا ملک کو توڑنے پر ہی راضی نظر آتی ہے۔ جس پر انہیں میں موجود پاکستان دشمن عناصر کام کررہے ہیں۔
کل ترجمان فوج نے اسی آگ کو کم کرنے کیلئے پشتو میں بیان بازی بھی کی ہے۔فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
یہ بندہ کب سے پاکستان کا نمائندہ ہوگیا؟کل ترجمان فوج نے اسی آگ کو کم کرنے کیلئے پشتو میں بیان بازی بھی کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا پختون عوام کیلئے پشتو میں پیغام
فوج اپنی ہی عوام سے انتقام لینا بند کردے۔ یہی قوم فوج پر مہربان ہو جائے گی۔
ترجمان فوج، عسکری اداروں کا نمائندہ تو ہےیہ بندہ کب سے پاکستان کا نمائندہ ہوگیا؟
عسکری ادارے پاکستان کب ہوگئے؟ترجمان فوج، عسکری اداروں کا نمائندہ تو ہے
عسکری ادارے ریاست پاکستان کا سب سے اہم ستون ہیں۔عسکری ادارے پاکستان کب ہوگئے؟
باقی ستون نہیں شائد؟عسکری ادارے ریاست پاکستان کا سب سے اہم ستون ہیں۔
باقیوں کے پاس ڈنڈا نہیں ہےباقی ستون نہیں شائد؟
عسکری ادارے بنیادی طور پر انتظامیہ کے ماتحت ہوتے ہیں اور انہیں سول حکومت کی ہدایات کا پابند ہونا چاہیے۔ انہیں براہ راست ریاستی ستون قرار دینا غلط ہے۔عسکری ادارے ریاست پاکستان کا سب سے اہم ستون ہیں۔
ہر ناکام ریاست کی اسٹیبلشمنٹ میں تین بڑے مفاد پرست ٹولے پائے جاتے ہیں:انہیں براہ راست ریاستی ستون قرار دینا غلط ہے۔
دراصل، قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لیے مسلسل جدوجہد کی جائے تو کسی بھی معاشرے میں اصلاح احوال کے آثار دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ کسی وقت یوں لگنے لگ جاتا ہے کہ ترقیء معکوس کی صورت ہے تاہم ہمیں بہرصورت خوش گمانی کا معاملہ رکھتے ہوئے اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنی چاہیے۔ یہ ٹولے ناکام ہوں گے اور ہماری کاوشیں رنگ لائیں گی، جلد یا بدیر ۔۔۔! کسی حد تک بہتری کی صورت بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان ٹولوں میں بھی اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ہر ناکام ریاست کی اسٹیبلشمنٹ میں تین بڑے مفاد پرست ٹولے پائے جاتے ہیں:
جب تک یہ تین مفاد پرست ٹولے ریاست پر قابض ہیں۔ فرشتوں کی حکومت بھی آجائے تو کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی
- صنعتی یا مالیاتی ٹولہ: یہ ہرآنے والی حکومت و مالی کرپشن کا جھانسا دےکر خرید لیتے ہیں اور یوں اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
- دفاعی یا عسکری ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کو بذریعہ بلیک میل مختلف سکینڈلز میں پھنسا کر اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
- سول بیروکریسی ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ یہ سابقہ حکومتوں کے وفادار اور نظام میں تبدیلی کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن جاتے ہیں
مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے اور وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم نےعصر حاضرکےتقاضوں کے مطابق نصاب بنانے کیلیے کمیٹی بنائی ہے جو مدارس کیلیے نصاب تیار کرے گی، مدارس کے نصاب میں دین اور اسلام ہوگا لیکن نفرت انگیز مواد نہیں۔
اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو 1980ء میں 2861 ہوگئی اور آج 30 ہزار سے زیادہ ہے، جہاد افغانستان کے بعد پاکستان میں مدارس کھولے گئے اور جہاد کی ترویج کی گئی، آرمی چیف کی ہدایت ہے کہ اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں، مدارس کے نصاب میں تبدیلی نہیں ہوگی لیکن منافرت پھیلانے والا مواد بھی نہیں ہوگا۔
دہشت گردی سے فارغ، اب انتہاپسندی کا خاتمہ
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عسکریت پسندی کی طرف لے جانے والے مدارس کی تعداد 100 سے بھی کم ہے، بیشتر مدارس پرامن ہیں، مدرسے کے ایک طالبعلم نے آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے، لیکن ان مدارس کے بچوں کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہوتے ہیں، اسلام کی تعلیم جیسی ہے چلتی رہے گی لیکن نفرت پر مبنی مواد نہیں ہوگی، دوسرے فرقے کے احترام پر زور دیا جائے گا، نصاب میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مضامین بھی ہوں گے، ہر مدرسے میں چار سے 6 مضامین کے اساتذہ درکار ہوں گے، اس سے متعلق بل تیار ہورہا ہے، پھر نصاب پر نظرثانی ہوگی، دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہورہے ہیں، اب انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔
کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے وسائل درکار
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ نائن الیون کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوا جس کے نتیجے میں جغرافیائی معیشت شروع ہوئی، کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں، 1979 کے بعد افغانستان میں جہاد کا ماحول بنا، اس کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے اور جہاد کی فضا قائم ہوئی، پہلے بھی کس نے منع کیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ مرکزی دھارے میں نہ لایا جائے، کیا پرانے فیصلوں پر ہی عمل کرتے رہیں یا غلطی کی اصلاح کرلیں، طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کا حق ہے، افواج پاکستان نے طے کرلیا ہے کہ معاشرے کو انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے پاک کرنا ہے۔
جناب قومی فوج پروفیشنل ہوتی ہے وحشی نہیں۔گستاخی معاف۔مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ لارڈ میکالے کے مکتب سے نکلے ہوئے نوے ہزار پروفیشنلز صرف ایک دشمن کے سامنے اپنے ہتھیار نا صرف پھینک دیتے ہیں بلکہ دو تین سال قید بھی کاٹ کر آتے ہیں۔ جبکہ مدارس سے نکلے ہوئے مٹھی بھر طالبان پوری دنیا کی فوجوں کو مار مار کے ان کی پتلونیں گیلی کر دیتے ہیں۔
یہ بھوٹان والے نیم پاگل ہو گئے ہیں۔
جناب قومی فوج پروفیشنل ہوتی ہے وحشی نہیں۔
بھائی صرف مثال دی تھی کہ فوج ہر ملک کی “ظالم” ہی ہوتی ہے۔ جو افواج اپنے شہریوں پر ظلم نہیں کرتی وہ یہی کام کسی اور ملک میں جا کر کر آتی ہیں
پاک فوج مخالفین کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیلتی۔ یہ فرق ہے۔وحشی اور ظالم میں کیا فرق ہوتا ہے ؟