پی ٹی ایم کیلئے مہلت اب ختم ہوگئی، ترجمان پاک فوج

ایک صاحب آجکل پاکستان میں وزیر اعظم لگے ہوئے ہیں وہ کچھ روز قبل فاٹا میں فرما رہے تھے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات درست ہیں لہجہ ٹھیک نہیں۔ اچھا سوری
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی ایم پر الزا م تراشی: تاریخ سے نابلد ہونے کی نشانی ہے!
29/04/2019 سید مجاہد علی



پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے آج دبنگ انداز میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی ہے جس میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو للکارا گیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں میں کسی سیاسی جلسے کی تقریر جیسا جوش موجود تھا اور آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل نے کسی ماہر سیاسی قائد ہی کی طرح قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ کیا اور ان کا حل بھی پیش کردیا۔ تاہم نہ تو اس وقت غصیلے الفاظ کےساتھ ایک ہی سانس میں بھارت اور پشتون تحفظ موومنٹ کا ذکر کرنے کی حکمت سمجھ آسکی ہے۔ اور نہ ہی یہ اندازہ ہو سکا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت یا ملک دشمن عناصر کو روکنے کے لئے میجر جنرل صاحب کا یوں جوش و خروش سے تقریر کرنا اور چیلنج دینے کے لہجے میں بات کرنا کیوں ضروری تھا۔

یہ پریس کانفرنس پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کے انداز خطابت کے علاوہ اپنے موضوعات کے اعتبار سے بھی اہم تھی۔ اس میں ان امور پر بات کی گئی جن کا فوج سے براہ راست تعلق نہیں ہو سکتا۔ ملک کا دفاع ہو یا بعض گروہوں کی مملکت کے خلاف سرگرمیاں یا مدرسوں میں نیا نصاب متعارف کروانے کے علاوہ انہیں مین اسٹریم میں لانے کے لئے وزارت تعلیم کے تحت کرنے کا معاملہ، ان امور پر ملک کی حکومت ہی فیصلے کرنے کی مجاز ہے ۔ جبکہ فوج بھی کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح ان پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ البتہ میجر جنرل آصف غفور کی باتوں سے ایک بار پھر یہ واضح ہؤا ہے کہ پاک فوج تمام قومی امور کو اپنے فرائض کا حصہ سمجھتی ہے اور ان پر اظہار خیال کو بھی فوج کا استحقاق سمجھا جاتا ہے۔

یہ طرز عمل البتہ فیض آباد دھرنے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آبزرویشن کے برعکس ہے جس میں فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے علاوہ، ان کے بارے میں اظہار خیال کو بھی غلط قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلہ میں خاص طور سے میجر آصف غفور کے ہی ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ سیاسی بیان دینے سے گریز کرے۔ اس فیصلہ میں جس بیان کو سپریم کورٹ نے نوٹ کیا تھا، وہ 2018 میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان کی گواہی تھی۔

یوں لگتا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کو سپریم کورٹ کی فیصلہ کے مندرجات سے آگاہی نہیں ہوئی یا پھر وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دیئے گئے ریمارکس کو خاطر میں لانے کے لئے تیا رنہیں ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ پاک فوج کے علاوہ حکمران پارٹی نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ لیکن کسی فیصلہ کے خلاف صرف اپیل دائر کردینے سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کوئی فیصلہ کالعدم نہیں ہوجاتا۔ یہ فیصلہ اسی وقت تبدیل ہوگا جب سپریم کورٹ خود ہی نئے شواہد اور دلائل کی روشنی میں اسے بدلنے یا منسوخ کرنے کا فیصلہ صادر کردے۔ اس تناظر میں میجر جنرل آصف غفور کی سیاسی تقریر نما پریس کانفرنس غیر مناسب اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے اور مشورہ کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔

اس بحث سے قطع نظر پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کو غور سے پڑھا جائے تو اس میں تین باتیں نوٹ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں دو ٹوک انداز میں کہی گئی ہیں جبکہ بعض بین السطور موجود ہیں:

1۔ میجر جنرل آصف غفور نے قومی معاملات پر فوج کی دلچسپی اور کمٹمنٹ کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی تائید کی ہے کہ فی الوقت تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم کو فوج کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ بات بالواسطہ طور سے ہی کہی گئی ہے لیکن اسے پاک فوج کے ترجمان کے الفاظ اور لب و لہجہ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس وضاحت سے ملک میں سامنے لائے جانے والے ان مباحث کی تردید ہوتی ہے کہ فوج موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اب معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان آرمی چیف کا اعتماد کھوتے جارہے ہیں۔

پریس کانفرنس میں اگر اس تاثر کو زائل کرنے کی بالواسطہ کوشش کی گئی ہے تو یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ خارجہ معاملات ہوں، سیکورٹی کے مسائل ہوں یا ملک کے دفاع کا سوال ہو، پاک فوج خود کو ان تمام شعبوں میں براہ راست جوابدہ سمجھتی ہے اور وہی حکمت عملی اختیار کرے گی جو ا س کے نزدیک مناسب اور قومی مفاد میں ہوگی۔ اس حوالے سے کم از کم میجر جنرل آصف غفور نے آج کی پریس کانفرنس کے دوران کی گئی باتوں میں پارلیمنٹ یا منتخب حکومت کے کسی کردار کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

2۔ فروری میں پلوامہ سانحہ کے بعد بھارت کے ساتھ بڑھنے والی کشیدگی کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو اسے اسی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا جیسا فروری میں ہی لائن آف کنٹرول پر فضائی جھڑپ کے دوران دیا گیا تھا۔ میجر جنرل آصف غفور نے خود ہی 1971 کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب نہ وہ حالات ہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ ہی پاکستانی میڈیا کمزور ہے‘۔ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔ فوج بھی پاکستان کے خلاف ہر جارحیت کا جواب دینے کے لئے تیار ہے اور ملک کا میڈیا بھی اتنا باشعور اور طاقت ور ہے کہ وہ دنیا پر بھارت کا اصل روپ آشکار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

3۔ پاک فوج کے ترجمان نے پشتون تحفظ موومنٹ کا خاص طور سے ذکر کیا اور متنبہ کیا کہ انہیں دی جانے والی مہلت اب ختم ہو چکی ہے۔ اب فوج کے خلاف کہی گئی باتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ پی ٹی ایم کے مٹھی بھر نوجوان پشتون عوام کو بھڑکا رہے ہیں ۔ انہیں واضح کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے وفادار ہیں یا کسی دوسرے ملک کے۔ پاک فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کی قیادت پر بھارتی ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے فنڈز لینے کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر اپنے وسائل کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ ان کی حب الوطنی کی تصدیق ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم نے لاپتہ لوگوں کی فہرستیں فراہم کی ہیں لیکن میرا مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کی فہرست بھی فراہم کریں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ہمسایہ ملک سے پاکستان کے خلاف سرگرم ٹی ٹی پی کے ساتھ ملوث ہیں۔

اس پریس کانفرنس میں چند بنیادی حقوق کے لئے مہم چلانے والے پشتون نوجوانوں کی تنظیم کو غدار قرار دیا گیا ہے۔ اور ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف دشمن ملک کی ایجنسیوں سے رقم لیتے ہیں بلکہ طالبان پاکستان کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں تحفظ مانگنے اور مشکوک لوگوں کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کا مطالبہ کرنے والے نوجوانوں کے خلاف پاک فوج نے سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ پاکستان ماضی میں الزام تراشی کرنے اور کسی بھی گروہ یا قومیت کی حب الوطنی کو چیلنج کرنے کے افسوس ناک نتائج بھگت چکا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے خود ہی 1971 کی جنگ اور حالات کا ذکر کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور فوج بھی بدل چکی ہے۔

لیکن انہوں نے جس طرح کسی ثبوت کے بغیر پشتون تحفظ موومنٹ پر الزام تراشی کی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے، اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ فوج کی سوچ اور کام کرنے کے طریقہ میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے حقوق کی بات کرنے والی عوامی لیگ اور اس کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی اسی طرح غدار قرار دیا گیا تھا۔ اپنے بنیادی حقوق کے لئے احتجاج کرنے والے لوگوں کو تب بھی اسی طرح طاقت سے دبایا گیا تھا جس کی دھمکی اب پی ٹی ایم کو دی گئی ہے۔ اس لئے دوسروں کو حالات اور وقت تبدیل ہونے کی خبر دینے سے پہلے خود اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کو طاقت سے کچلنے کا کوئی طریقہ کامیاب ہونے کا امکان نہیں۔

فوج کے پاس اگر پشتون تحفظ موومنٹ یا اس کے لیڈروں کے خلاف بیرونی طاقتوں سے رقوم لینے اور تحریک طالبان پاکستان سے تعاون کرنے کے ثبوت موجود ہیں تو پریس کانفرنس میں الزام تراشی کی بجائے عدالت میں متعلقہ لوگوں کے خلاف مقدمے چلا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیوں نہیں کیا جاتا؟ لاپتہ افراد کے بارے میں پی ٹی ایم کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ جن لوگوں کوکسی الزام اور مقدمہ کے بغیر غائب کردیا گیا ہے، انہیں سامنے لایا جائے اور عدالتوں میں ان کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق مقدمے چلائے جائیں۔ ملک کے قانون کو تسلیم کرنے والوں اور اس کے عدالتی نظام کو قبول کرنے والوں کو پاک فوج کے ترجمان کی طرف ’غدار‘ قرار دینے کا طریقہ ملک میں انتشار اور بے چینی کے ایک نئے دور کا پیامبر ہو سکتا ہے۔

آج کی پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد شاید یہی پیغام دینا تھا کہ فوج اب پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کرم ایجنسی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بھی پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف اسی انداز میں بات کی تھی۔ اب میجر جنرل آصف غفور نے فوج کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں بھارتی جارحیت اور مدرسوں کی اصلاح کے بارے میں کی گئی باتیں دراصل اس پیغام کے عذر کے طور پر کی گئی ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ دشمن کے ایجنڈے کے مطابق پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ گویا بھارت کو شکست دینے لئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف نئی کارروائی کی نوید دی جا رہی ہے۔ اگر سوچ، طریقہ اور الزام تراشی کا ڈھنگ آزمودہ اور پرانا ہے تو اس بات کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے کہ تاریخ خود کو نہیں دہرائے گی؟

فوج اس غلط فہمی سے نکل آئے تو بہتر ہے کہ ملک پر دسترس اور جمہوری نظام کو یرغمال بنانے کے ہتھکنڈوں کو قبول کر لیا گیا ہے یا عام لوگ انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے جس پاکستانی میڈیا کی مہارت، جرات اور بے باکی کے قصیدے سنائے ہیں، اس کے بیان کئے ہوئے قصے گمراہ کن ہیں۔ کیوں کہ یہ ’میڈیا‘ عوام کے حقوق کا محافظ نہیں بلکہ حقوق غصب کرنے والوں کا ترجمان بنا ہؤا ہے۔ فوج کے ترجمان قصیدہ خوانوں کے قصیدے پڑھ کر سچ تک پہنچنے کی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

سچ اس ’ فکری سراب ‘سے بہت زیادہ سنگین اور بھیانک ہے جس پر یقین کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے حالات پر مکمل کنٹرول کا تاثر عام کرنے کی کوشش کی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
ان گھرانوں کے علاوہ جن کا کوئی بچہ فوج میں ہے، یا وہ علاقے جو انگریز دور ہی سے غلام ابن غلام چلتے آرہے ہیں، باقی پورے خیبرپختون خوا میں فوج کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد عوام فوج کے آنے پر خوش تھی لیکن ان کا فرعونیت، ہتک آمیز اور ظلم و تشدد پر مبنی رویہ اور تجربات دیکھ کر وہ ساری آرزو نفرت میں بدل دی گئی۔ ان بے چاروں کو بھی جو طالبان کے ساتھ صرف ایک بار بھی وقت گزاری کے لیے بیٹھے ہوں، کو ایسی ایسی سزائیں دی گئیں کہ جس کا سوچنا محال ہے۔
پشتون قوم میں غضب یہ ہے کہ وہ سادہ لوح اور ہنس مکھ بہت ہے لیکن یہی اچھائی ان کے لیے عذاب بنادی جاتی ہے۔ لیکن جو عذاب بناتا ہے اسے خود پھر معافی بہت کم ملتی ہے۔ یہی پشتون تاریخ ہے۔
فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
یہ جاہل اور بلیک میل مافیا ملک کو توڑنے پر ہی راضی نظر آتی ہے۔ جس پر انہیں میں موجود پاکستان دشمن عناصر کام کررہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ان گھرانوں کے علاوہ جن کا کوئی بچہ فوج میں ہے، یا وہ علاقے جو انگریز دور ہی سے غلام ابن غلام چلتے آرہے ہیں، باقی پورے خیبرپختون خوا میں فوج کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد عوام فوج کے آنے پر خوش تھی لیکن ان کا فرعونیت، ہتک آمیز اور ظلم و تشدد پر مبنی رویہ اور تجربات دیکھ کر وہ ساری آرزو نفرت میں بدل دی گئی۔ ان بے چاروں کو بھی جو طالبان کے ساتھ صرف ایک بار بھی وقت گزاری کے لیے بیٹھے ہوں، کو ایسی ایسی سزائیں دی گئیں کہ جس کا سوچنا محال ہے۔
پشتون قوم میں غضب یہ ہے کہ وہ سادہ لوح اور ہنس مکھ بہت ہے لیکن یہی اچھائی ان کے لیے عذاب بنادی جاتی ہے۔ لیکن جو عذاب بناتا ہے اسے خود پھر معافی بہت کم ملتی ہے۔ یہی پشتون تاریخ ہے۔
فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
یہ جاہل اور بلیک میل مافیا ملک کو توڑنے پر ہی راضی نظر آتی ہے۔ جس پر انہیں میں موجود پاکستان دشمن عناصر کام کررہے ہیں۔
ممکن ہے اس مرتبہ خاکیان کو عوام سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پیش آ جائے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کے خلاف پکنے والا لاوا شائد اگلی نسل کے بعد ہی ٹھنڈا ہوسکے وگرنہ نوجوان سر پر کفن باندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اوپر سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت اور پختہ سیاسی شعور جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
کل ترجمان فوج نے اسی آگ کو کم کرنے کیلئے پشتو میں بیان بازی بھی کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا پختون عوام کیلئے پشتو میں پیغام

فوج اپنی ہی عوام سے انتقام لینا بند کردے۔ یہی قوم فوج پر مہربان ہو جائے گی۔
 

آصف اثر

معطل
کل ترجمان فوج نے اسی آگ کو کم کرنے کیلئے پشتو میں بیان بازی بھی کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا پختون عوام کیلئے پشتو میں پیغام

فوج اپنی ہی عوام سے انتقام لینا بند کردے۔ یہی قوم فوج پر مہربان ہو جائے گی۔
یہ بندہ کب سے پاکستان کا نمائندہ ہوگیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
بھاگ لگے رہن۔۔۔
عاصمہ شیرازی صحافی

بات بہت آگے نکل گئی ہے، وہاں جہاں سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ ڈر ہے کہ دہلیز سے لگا بیٹھا ہے، خوف ہے گھر کر رہا ہے، اندیشے، وسوسے اور خیال جان نہیں چھوڑتے۔۔۔ سچ کی ہمت نہیں اور جھوٹ کی عادت نہیں۔۔۔ سر پھرے مصلحت اور انقلابی مفاد کا بھیس بدل رہے ہیں۔۔۔

جناب والا۔۔۔ مائی باپ! آپ کی دستار سلامت، آپ کی عزت قائم اور آپ کا مرتبہ بلند رہے۔۔۔ جان کی امان ہو تو رعایا کچھ عرضیاں لکھنا چاہتی ہے۔

جناب عالی تھانیدار صاحب! آپ کا اقبال بلند ہو، کیسا ماحول تھا ایک زمانہ تھا کہ کسی کی جرات نہیں تھی آپ کے سامنے بولنے کی، بات کرنے کی، آواز اٹھانے کی، جو آپ کہتے تھے وہی ہوتا تھا، گاؤں کا ہر قانون، ہر کام آپ کے کہنے سے تشکیل پاتا تھا، کس کو اندر کرانا ہے، کس کو باہر لانا ہے، کس پر پرچہ کرانا ہے، کس کو پھینٹی لگانی ہے سب آپ کے اشارہ آبرو سے طے پاتا تھا۔

تھانیدار صاحب! ماجے کی بھینس آپ نے کھلوائی، چوری مانے پر ڈلوائی اور مار دونوں کے ساتھ کمی کمینوں نے بھی کھائی، پھر آپ نے صلح بھی کرائی۔۔۔ کیسی واہ واہ ہوئی۔۔۔

جناب کا اقبال بلند ہو۔۔ ممولے کو شاہین سے لڑانا ہو، چیونٹی کو ہاتھی کے مقابل کھڑا کرنا ہو اور سانپ کو نیولے سے بھڑوانا ہو، جناب کی لیاقت یکتا ہے۔ مجال ہے کہ چڑیا آپ کے تھانے کی حدود میں آپ کی اجازت کے بغیر پر مار جائے یا سائبیریا کے پرندے سردیوں میں آپ کی اجازت کے بغیر چھٹیاں گزارنے یہاں آ سکیں، آپ کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا ہے۔۔۔۔

مگر جناب! جان کی امان پاؤں تو ایک گزارش کرنا تھی۔۔ اب حالات وہ نہیں رہے، بیٹے کی جوتی پیر میں پوری آ جائے تو ذرا احتیاط کرنی چاہیے۔۔

جناب! آپ کی ٹیکنیک وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑی پرانی ہو رہی ہے، نئی نسل بڑی خراب ہے، بڑی لمبی زبان اور بڑی گھُوڑی یاداشت رکھتی ہے، پہلے والے لوگوں جیسی نہیں، شہباز کو ممولا اور سردار کو سرباز دکھاتی ہے، بڑے جذبے میں ہے جی۔۔۔ کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں، دنیا ہاتھ میں لیے پھرتی ہے، دھمکی اور دھونس کو دلیل اور دانش میں بدل دیتی ہے، نو گز لمبی زبان ہے ہر بات کا تڑ تڑ جواب دیتی ہے، ہاں آپ نے گالیوں شالیوں سے قابو کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ طریقہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔

جناب عالی! میری مانیں یا تو پرانوں پر گزارہ کر لیں یا ان کو میز پر لائیں۔۔۔ آس پاس کے گاؤں ان کو شہ دے رہے ہیں۔ یہ نئے نوجوان نہ تو قابو آتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں، کچھ آپ کی تکنیک بھی پرانی ہے اور کچھ یہ سمجھ دار بھی بہت ہیں۔

سرکار! علاقے میں چودھراہٹ کے لیے ان کو اعتماد دیں، کچھ سنیں، کچھ سنائیں، کچھ لیں اور کچھ دیں۔۔۔ ورنہ یہ سارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے تو گاؤں میں خدانخواستہ کوئی سانحہ ہی نہ ہو جائے۔

باقی تھانیدار صاحب ! آپ نے دنیا دیکھی ہے اور دنیا نے آپ کو بھی دیکھ لیا ہے ۔۔۔۔بھاگ لگے رہن تے سر سلامت رہن ۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
عسکری ادارے ریاست پاکستان کا سب سے اہم ستون ہیں۔
عسکری ادارے بنیادی طور پر انتظامیہ کے ماتحت ہوتے ہیں اور انہیں سول حکومت کی ہدایات کا پابند ہونا چاہیے۔ انہیں براہ راست ریاستی ستون قرار دینا غلط ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انہیں براہ راست ریاستی ستون قرار دینا غلط ہے۔
ہر ناکام ریاست کی اسٹیبلشمنٹ میں تین بڑے مفاد پرست ٹولے پائے جاتے ہیں:
  • صنعتی یا مالیاتی ٹولہ: یہ ہرآنے والی حکومت کو مالی کرپشن کا جھانسا دےکر خرید لیتا ہے اور یوں اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
  • دفاعی یا عسکری ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کو بذریعہ بلیک میل مختلف سکینڈلز میں پھنسا کر اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
  • سول بیروکریسی ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہےکیونکہ یہ سابقہ حکومتوں کا وفادار اور نظام میں تبدیلی کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن جاتا ہے
جب تک یہ تین مفاد پرست ٹولے ریاست پر قابض ہیں۔ فرشتوں کی حکومت بھی آجائے تو کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی :)
 

فرقان احمد

محفلین
ہر ناکام ریاست کی اسٹیبلشمنٹ میں تین بڑے مفاد پرست ٹولے پائے جاتے ہیں:
  • صنعتی یا مالیاتی ٹولہ: یہ ہرآنے والی حکومت و مالی کرپشن کا جھانسا دےکر خرید لیتے ہیں اور یوں اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
  • دفاعی یا عسکری ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کو بذریعہ بلیک میل مختلف سکینڈلز میں پھنسا کر اپنی برادری کے مفاد میں استعمال کرتا ہے
  • سول بیروکریسی ٹولہ: یہ ہر آنے والی حکومت کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ یہ سابقہ حکومتوں کے وفادار اور نظام میں تبدیلی کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن جاتے ہیں
جب تک یہ تین مفاد پرست ٹولے ریاست پر قابض ہیں۔ فرشتوں کی حکومت بھی آجائے تو کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی :)
دراصل، قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لیے مسلسل جدوجہد کی جائے تو کسی بھی معاشرے میں اصلاح احوال کے آثار دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ کسی وقت یوں لگنے لگ جاتا ہے کہ ترقیء معکوس کی صورت ہے تاہم ہمیں بہرصورت خوش گمانی کا معاملہ رکھتے ہوئے اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنی چاہیے۔ یہ ٹولے ناکام ہوں گے اور ہماری کاوشیں رنگ لائیں گی، جلد یا بدیر ۔۔۔! :) کسی حد تک بہتری کی صورت بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان ٹولوں میں بھی اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
 
مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے اور وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم نےعصر حاضرکےتقاضوں کے مطابق نصاب بنانے کیلیے کمیٹی بنائی ہے جو مدارس کیلیے نصاب تیار کرے گی، مدارس کے نصاب میں دین اور اسلام ہوگا لیکن نفرت انگیز مواد نہیں۔

اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو 1980ء میں 2861 ہوگئی اور آج 30 ہزار سے زیادہ ہے، جہاد افغانستان کے بعد پاکستان میں مدارس کھولے گئے اور جہاد کی ترویج کی گئی، آرمی چیف کی ہدایت ہے کہ اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں، مدارس کے نصاب میں تبدیلی نہیں ہوگی لیکن منافرت پھیلانے والا مواد بھی نہیں ہوگا۔

دہشت گردی سے فارغ، اب انتہاپسندی کا خاتمہ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عسکریت پسندی کی طرف لے جانے والے مدارس کی تعداد 100 سے بھی کم ہے، بیشتر مدارس پرامن ہیں، مدرسے کے ایک طالبعلم نے آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے، لیکن ان مدارس کے بچوں کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہوتے ہیں، اسلام کی تعلیم جیسی ہے چلتی رہے گی لیکن نفرت پر مبنی مواد نہیں ہوگی، دوسرے فرقے کے احترام پر زور دیا جائے گا، نصاب میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مضامین بھی ہوں گے، ہر مدرسے میں چار سے 6 مضامین کے اساتذہ درکار ہوں گے، اس سے متعلق بل تیار ہورہا ہے، پھر نصاب پر نظرثانی ہوگی، دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہورہے ہیں، اب انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔

کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے وسائل درکار

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ نائن الیون کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوا جس کے نتیجے میں جغرافیائی معیشت شروع ہوئی، کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں، 1979 کے بعد افغانستان میں جہاد کا ماحول بنا، اس کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے اور جہاد کی فضا قائم ہوئی، پہلے بھی کس نے منع کیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ مرکزی دھارے میں نہ لایا جائے، کیا پرانے فیصلوں پر ہی عمل کرتے رہیں یا غلطی کی اصلاح کرلیں، طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کا حق ہے، افواج پاکستان نے طے کرلیا ہے کہ معاشرے کو انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے پاک کرنا ہے۔


گستاخی معاف۔مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ لارڈ میکالے کے مکتب سے نکلے ہوئے نوے ہزار پروفیشنلز صرف ایک دشمن کے سامنے اپنے ہتھیار نا صرف پھینک دیتے ہیں بلکہ دو تین سال قید بھی کاٹ کر آتے ہیں۔ جبکہ مدارس سے نکلے ہوئے مٹھی بھر طالبان پوری دنیا کی فوجوں کو مار مار کے ان کی پتلونیں گیلی کر دیتے ہیں۔
یہ بھوٹان والے نیم پاگل ہو گئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
گستاخی معاف۔مدارس کے نصاب کو تبدیل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ لارڈ میکالے کے مکتب سے نکلے ہوئے نوے ہزار پروفیشنلز صرف ایک دشمن کے سامنے اپنے ہتھیار نا صرف پھینک دیتے ہیں بلکہ دو تین سال قید بھی کاٹ کر آتے ہیں۔ جبکہ مدارس سے نکلے ہوئے مٹھی بھر طالبان پوری دنیا کی فوجوں کو مار مار کے ان کی پتلونیں گیلی کر دیتے ہیں۔
یہ بھوٹان والے نیم پاگل ہو گئے ہیں۔
جناب قومی فوج پروفیشنل ہوتی ہے وحشی نہیں۔
امریکہ نے پاک فوج کو جہادی پالیسی دے کر ملک و قوم کی کئی دہائیاں برباد کر دیں۔ اب اللہ اللہ کرکے یہ ۸۰ کی دہائی والی جہادی پالیسی ختم ہو رہی ہے تو قوم کو خوش ہونا چاہیے۔ اسی میں ملک کا مستقبل ہے۔
 
جناب قومی فوج پروفیشنل ہوتی ہے وحشی نہیں۔

بھائی صرف مثال دی تھی کہ فوج ہر ملک کی “ظالم” ہی ہوتی ہے۔ جو افواج اپنے شہریوں پر ظلم نہیں کرتی وہ یہی کام کسی اور ملک میں جا کر کر آتی ہیں
:confused3:

وحشی اور ظالم میں کیا فرق ہوتا ہے ؟
 
Top