پی ٹی ایم کیلئے مہلت اب ختم ہوگئی، ترجمان پاک فوج

فرقان احمد

محفلین
اصولا تو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مگر یہ پی ٹی ایم والے ایک عرصہ دراز سے براہ راست پاک فوج پر حملے کر رہے ہیں۔ جس کا سدباب ترجمان فوج کیلیے کرنا ناگزیر ہے۔
پاک فوج ٹویٹر کا چارج چھوڑ دے ۔۔۔! کئی تنخواہ داروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پچھلے دنوں بند ہوئے اور پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی الگ ہوئی ۔۔۔! دراصل، ہماری ایجنسیاں شک شبہ کی بنیاد پر کئی افراد کو اٹھا لیتی تھیں اور ان میں سے مبینہ طور پر کئی افراد اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ اُن کے حوالے سے سوال اٹھانا کیسے غلط ہو گیا ۔۔۔! پی ٹی ایم کا کون سا مطالبہ ناجائز ہے؟ یہ جوابات کون دے گا؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی ایم کا کون سا مطالبہ ناجائز ہے؟ یہ جوابات کون دے گا؟
پی ٹی ایم کے تمام مطالبات جائز ہیں اور تحریک انصاف حکومت ان کو سپورٹ کرتی ہے۔ مطالبات پر کام بھی کر رہی ہے۔
مسئلہ پی ٹی ایم کے مطالبات میں نہیں طرز سیاست میں ہے۔ ان کو جو مسائل ہیں وہ سیاسی نوعیت کے ہیں جو عام بات چیت سے حل ہو سکتے۔ مذاکرات کی بجائے پی ٹی ایم والوں نے براہ راست فوج مخالف بیانیہ اپنایا ہوا۔ اور اس میں اتنی شدت آچُکی ہے کہ پاک فوج میں موجود ان کے اپنے پشتون بھائیوں کو بھی نہیں بخشا۔
 

فرقان احمد

محفلین
پی ٹی ایم کے تمام مطالبات جائز ہیں اور تحریک انصاف حکومت ان کو سپورٹ کرتی ہے۔ مطالبات پر کام بھی کر رہی ہے۔
مسئلہ پی ٹی ایم کے مطالبات میں نہیں طرز سیاست میں ہے۔ ان کو جو مسائل ہیں وہ سیاسی نوعیت کے ہیں جو عام بات چیت سے حل ہو سکتے۔ مذاکرات کی بجائے پی ٹی ایم والوں نے براہ راست فوج مخالف بیانیہ اپنایا ہوا۔ اور اس میں اتنی شدت آچُکی ہے کہ پاک فوج میں موجود ان کے اپنے پشتون بھائیوں کو بھی نہیں بخشا۔
اس جواب سے تو کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس جواب سے تو کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم والوں کے مطالبات منفرد نہیں ہیں۔ اختر مینگل کی بی این پی جو اس وقت حکومت میں ہے کے بھی ہو بہو یہی مطالبات ہیں۔ ان کو بھی بلوچستان میں مِسنگ پرسن، غیر ضروری فوجی مداخلت اور اس جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ اور ان کا تحریک انصاف حکومت سے اتحاد بھی انہی نکات پر ہوا تھا۔
اس لئے یہ تاثر غلط ہے کہ تحریک انصاف حکومت اس حوالہ سے کوئی پیش رفت نہیں کر رہی۔ سیکورٹی اداروں کے خدشات دور کرکے یہ تمام مسائل رفتہ رفتہ حل کئے جاسکتے ہیں۔
مگر اس کے لئے پہلے ضروری یہ ہے کہ نیت صاف ہو۔ پاک فوج ریاست پاکستان کا ادارہ ہے۔ پی ٹی ایم والے اس ریاستی ادارے سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ ان کے جو جائز مطالبات ہیں وہ فوج و حکومت تسلیم کرتے ہوئے حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ایسے میں ان کے فوج مخالف بیانیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اصل معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم والوں کے مطالبات منفرد نہیں ہیں۔ اختر مینگل کی بی این پی جو اس وقت حکومت میں ہے کے بھی ہو بہو یہی مطالبات ہیں۔ ان کو بھی بلوچستان میں مِسنگ پرسن، غیر ضروری فوجی مداخلت اور اس جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ اور ان کا تحریک انصاف حکومت سے اتحاد بھی انہی نکات پر ہوا تھا۔
اس لئے یہ تاثر غلط ہے کہ تحریک انصاف حکومت اس حوالہ سے کوئی پیش رفت نہیں کر رہی۔ سیکورٹی اداروں کے خدشات دور کرکے یہ تمام مسائل رفتہ رفتہ حل کئے جاسکتے ہیں۔
مگر اس کے لئے پہلے ضروری یہ ہے کہ نیت صاف ہو۔ پاک فوج ریاست پاکستان کا ادارہ ہے۔ پی ٹی ایم والے اس ریاستی ادارے سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ ان کے جو جائز مطالبات ہیں وہ فوج و حکومت تسلیم کرتے ہوئے حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ایسے میں ان کے فوج مخالف بیانیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔
جس سے گلہ ہے، اسی کا نام لیں گے ۔۔۔! اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے ۔۔۔! اُن کا فوج مخالف بیانیہ بے جا نہیں ہے ۔۔۔! ریاست ہم سب کی ہے۔ ادارے کے نام پر کب تک ہم خود کو بے وقوف بناتے رہیں گے ۔۔۔! ماضی کے سانحات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس میں فوج کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا ۔۔۔!
 

جان

محفلین
آصف غفور صاحب کا لہجہ اس پریس کانفرنس انتہائی ناشائستہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تحریک شروع کیوں ہوئی؟ یہ نہیں کہ اسے فنڈنگ کون دیتا ہے۔ جب آپ اپنی حرکتوں سے کسی کو دشمن بنا لیں گے تو دشمن کا دشمن ہمیشہ دوست ہوتا ہے یا جز وقتی طور پر بن جاتا ہے۔ دشمن کی فنڈنگ مسئلے کا "ایفیکٹ" ہے، "کاز" نہیں۔ "کاز" فوج کی اپنی حرکتیں ہیں۔ فوج ہمیشہ سپریشن سے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے جس سے مزید بغاوت کا عنصر پھیلتا ہے اور اس بغاوت کے عنصر کو جو درحقیقت ان کی حرکتوں کا "ایفیکٹ" ہوتا ہے "کاز" بنا کر مزید سپریشن کی طرف جاتی ہے جس سے نتائج مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے نکلتے ہیں۔ دوسری اہم بات اس پریس کانفرنس کی یہ تھی کہ آصف غفور صاحب نے ایڈمٹ کیا کہ بندے اٹھانا انہی کا ہی کام ہے۔ اور آصف غفور صاحب چاہتے ہیں کہ اس کا ان سے کوئی شکوہ بھی نہ کرے کیونکہ فوج کی بدنامی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوج ایسے کام کرتی کیوں ہے جس سے اس کی بدنامی ہو؟
جمہوریت میں یہی حسن ہے کہ وہ علاقائی ریپریزینٹیشن کا موقع فراہم کرتی ہے جس سے کچھ نہ کچھ دے دلا کر مسئلے کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
آصف غفور صاحب کا لہجہ اس پریس کانفرنس انتہائی ناشائستہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تحریک شروع کیوں ہوئی؟ یہ نہیں کہ اسے فنڈنگ کون دیتا ہے۔ جب آپ اپنی حرکتوں سے کسی کو دشمن بنا لیں گے تو دشمن کا دشمن ہمیشہ دوست ہوتا ہے یا جز وقتی طور پر بن جاتا ہے۔ دشمن کی فنڈنگ مسئلے کا "ایفیکٹ" ہے، "کاز" نہیں۔ "کاز" فوج کی اپنی حرکتیں ہیں۔ فوج ہمیشہ سپریشن سے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے جس سے مزید بغاوت کا عنصر پھیلتا ہے اور اس بغاوت کے عنصر کو جو درحقیقت ان کی حرکتوں کا "ایفیکٹ" ہوتا ہے "کاز" بنا کر عوام کو ہیروازم کی کہانی سنا کر مزید سپریشن کی طرف جاتی ہے جس سے نتائج مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے نکلتے ہیں۔ دوسری اہم بات اس پریس کانفرنس کی یہ تھی کہ آصف غفور ساحب نے ایڈمٹ کیا کہ بندے اٹھانا انہی کا ہی کام ہے۔ اور آصف غفور صاحب چاہتے ہیں کہ اس کا ان سے کوئی شکوہ بھی نہ کرے کیونکہ فوج کی بدنامی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوج ایسے کام کرتی کیوں ہے جس سے اس کی بدنامی ہو؟
جمہوریت میں یہی حسن ہے کہ وہ علااقائی ریپریزینٹیشن کا موقع فراہم کرتی ہے جس سے کچھ نہ کچھ دے دلا کر مسئلے کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔۔۔! ارے صاحب!کبھی تو اختلاف کا موقع عنایت فرمائیے ۔۔۔! ہماری تو حسرت ہی رہ گئی ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
ریاست ہم سب کی ہے۔ ادارے کے نام پر کب تک ہم خود کو بے وقوف بناتے رہیں گے
متفق۔ ریاست اپنی ہے تو ادارے بھی اپنے ہیں اور اس میں کام کرنے والے لوگ بھی اپنے۔ اسی لئے پی ٹی ایم کا پشتون بیانیہ درست نہیں۔
فوج کی پالیسیز پر تنقید بیشک کریں۔ لیکن پشتون کارڈ کھیلے بغیر۔ کیونکہ فوج تمام پاکستانیوں کا مشترکہ ادارہ ہے۔
 

جان

محفلین
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔۔۔! ارے صاحب!کبھی تو اختلاف کا موقع عنایت فرمائیے ۔۔۔! ہماری تو حسرت ہی رہ گئی ۔۔۔! :)
اختلاف کے لیے جاسم صاحب ہی کافی ہیں۔ :D
مجھے جو کچھ ابھی تک سمجھ آیا ہے وہ یہ کہ تاریخ اور سیاست کو جب انسان غیر جانبدارانہ اور اصول معاشرت کے ساتھ پڑھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہے تو نظریاتی اختلاف کی گنجائش کم ہوتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج ہمیشہ سپریشن سے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے جس سے مزید بغاوت کا عنصر پھیلتا ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے۔ فوج جہاں بھی جاتی ہے وہاں کے مقامی اسی طرح کا ردعمل دیتے ہیں۔ اب چاہے وہ کشمیر ہو، فلسطین ہو یا پاکستان۔ اس معاملہ میں پاک فوج سے مختلف رویہ کی توقع رکھنا خود فریبی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے۔ فوج جہاں بھی جاتی ہے وہاں کے مقامی اسی طرح کا ردعمل دیتے ہیں۔ اب چاہے وہ کشمیر ہو، فلسطین ہو یا پاکستان۔ اس معاملہ میں پاک فوج سے مختلف رویہ کی توقع رکھنا خود فریبی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
بات چاہے بنگلے کے اُکھڑے پلستر سے شروع ہو، آپ اسے اسرائیل کے محور پہ گھما کے دم لیتے ہیں ۔۔۔! :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بات چاہے بنگلے کے اُکھڑے پلستر سے شروع ہو، آپ اسے اسرائیل کے محور تک پہنچا کر دم لیتے ہیں ۔۔۔! :)
بھائی صرف مثال دی تھی کہ فوج ہر ملک کی “ظالم” ہی ہوتی ہے۔ جو افواج اپنے شہریوں پر ظلم نہیں کرتی وہ یہی کام کسی اور ملک میں جا کر کر آتی ہیں۔ مثال: امریکی افواج کے عراق اور افغانستان میں مظالم
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی صرف مثال دی تھی کہ فوج ہر ملک کی “ظالم” ہی ہوتی ہے۔ جو افواج اپنے شہریوں پر ظلم نہیں کرتی وہ یہی کام کسی اور ملک میں جا کر کر آتی ہیں۔ مثال: امریکی افواج کے عراق اور افغانستان میں کارنامے
جی ہاں، جی ہاں! ہمیں سب سمجھ آ رہی ہے ۔۔۔! :)
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل، بات پلٹ کر یہیں آتی ہے کہ یہ پہاڑ ایسے مسائل کون حل کرے گا؟ اس کا ایک سادہ سا جواب ہے، سیاسی قیادت چاہے وہ جیسی تیسی بھی کیوں نہ ہو۔۔۔! جس ادارے نے بندے اٹھائے ہیں، اور اب وہ لاپتہ ہیں، وہ واپڈا نہیں ہے اور نہ ہی محکمہ زراعت ۔۔۔! ظاہری بات ہے کہ خاکیان نے بوجوہ انہیں اٹھایا؛ انہیں ان پر شبہ تھا تاہم اس کے لیے غیر قانونی طریقہ ہائے کار اختیار کیے گئے ۔۔۔! سیاست دانوں نے یہ افراد لاپتہ نہیں کروائے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔ یہ لاپتہ افراد بھی بہرصورت انسان تھے۔ اگر خطا کار تھے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ اب ہمارے عزیز از جان خاکیان نہیں چاہتے کہ عدالتیں ان سے سوال پوچھیں، وہ یہ بھی پسند نہیں فرماتے ہیں کہ فوجی افسران کو پارلیمانی کمیٹیاں طلب کریں۔ انہیں یہ بھی سخت ناگوار گزرتا ہے کہ کوئی لاپتہ افراد کے حوالے سے جلسہ جلوس نکالے۔ انہیں یہ بھی برداشت نہیں ہے کہ کوئی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تبصرہ بھی کرے۔ اب تو ایسے تبصرے کرنے والوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے باقاعدہ طور پر ۔۔۔! یعنی ان کا جاہ و حشم دیکھ کر کوئی سوال کی ہمت بھی نہ کر پائے۔ سب ہاتھ باندھے دربار آصف غفوریہ میں احترام اور عقیدت کے ساتھ کھڑے رہیں اور ان کا 'خطاب' سنتے چلے جائیں۔۔۔! دراصل، یہاں آ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں مسٹر ڈھول سپاہیا۔ اس صورت حال میں سیاسی جماعتیں، پارلیمان، اعلیٰ عدلیہ اور سول سوسائٹی مدد کو آ سکتی ہے تاہم اس کے لیے ملٹری اسٹیبلشیہ کی غلامی اور ان کے 'سحر' سے باہر نکلنا ہو گا ۔۔۔!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس صورت حال میں سیاسی جماعتیں، پارلیمان، اعلیٰ عدلیہ اور سول سوسائٹی مدد کو آتی ہے تاہم اس کے لیے ملٹری اسٹیبلشیہ کی غلامی اور ان کے 'سحر' سے باہر نکلنا ہو گا ۔۔۔!
آپ ہمیشہ کی طرح مسئلہ کی جڑ کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں۔ البتہ حل تجویز کرتے وقت ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ میں شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے۔ باتوں سے ماننے والی نہیں۔ اور جیسی قوم ہے ویسی اس کی افواج۔ وہ بھی دیگر قوم کی طرح مہا ڈھیٹ ثابت ہوئے ہیں۔
عام عوام کی عسکری اداروں پر شدید تنقید، احتجاج وغیرہ کا عسکری قیادت پر رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ ذرا سوچئے : جو عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے سیاسی لیڈران کو تھوڑے سے اختلاف پربا آسانی گھر، جیل، ملک سے باہر یا دنیا سے ہی باہر بھیجنے پر قادر ہیں۔ ان کے نزدیک عام عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔
مشرقی پاکستان میں بغاوت کے دوران اگر بھارتی افواج مداخلت نہ کرتی تو آج بھی وہاں ڈھول سپاہیا کی ہی حکومت ہوتی۔ بنگالیوں کی قسمت اچھی تھی جو آزاد ہو گئے۔ جبکہ مغربی پاکستانی آج بھی غلامی کا طوق سجائے گھوم رہے ہیں :(
pic_0d94e_1504769919.jpg._3
 

فرقان احمد

محفلین
آپ ہمیشہ کی طرح مسئلہ کی جڑ کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں۔ البتہ حل تجویز کرتے وقت ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ میں شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے۔ باتوں سے ماننے والی نہیں۔ اور جیسی قوم ہے ویسی اس کی افواج۔ وہ بھی دیگر قوم کی طرح مہا ڈھیٹ ثابت ہوئے ہیں۔
عام عوام کی عسکری اداروں پر شدید تنقید، احتجاج وغیرہ کا عسکری قیادت پر رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ ذرا سوچئے : جو عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے سیاسی لیڈران کو تھوڑے سے اختلاف پربا آسانی گھر، جیل، ملک سے باہر یا دنیا سے ہی باہر بھیجنے پر قادر ہیں۔ ان کے نزدیک عام عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔
مشرقی پاکستان میں بغاوت کے دوران اگر بھارتی افواج مداخلت نہ کرتی تو آج بھی وہاں ڈھول سپاہیا کی ہی حکومت ہوتی۔ بنگالیوں کی قسمت اچھی تھی جو آزاد ہو گئے۔ جبکہ مغربی پاکستانی آج بھی غلامی کا طوق سجائے گھوم رہے ہیں :(
pic_0d94e_1504769919.jpg._3
بھئی، وہ کیا ہے نا کہ ہم سے چیری بلاسم کی ڈبیا ہمہ وقت جیب میں نہیں رکھی جاتی ہے ۔۔۔! بصد معذرت عرض ہے ۔۔۔!
 

آصف اثر

معطل
جاسم محمد
کیا آپ اسی "پاکستانی فرشتوں" کی وہ شرم ناک اور انسانیت سوز ویڈیوز دیکھنا پسند کریں گے جس میں اسی فوج کے ٹرینڈ درندے مظلوم و مجبور بے گناہ انسانوں پر ظلم کے پہاڑ تھوڑ رہے ہیں؟
کیا ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے یا نہیں؟
کون لائے گا؟ کب؟
حکم دینے والوں اور پالیسی طے کرنے والوں پر یا سب پر؟
کن عدالتوں میں ان پر کونسے مقدمات درج ہونے چاہیے؟
قتل، اغوا، لوٹ مار، ہتک عزت، حبس بے جا، دہشت گردی یا سب مقدمات؟
اب تک کیوں ایسا نہیں ہوا؟
پشت پناہی کون کررہے ہیں؟ وغیرہ
 

جان

محفلین
آپ ہمیشہ کی طرح مسئلہ کی جڑ کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں۔ البتہ حل تجویز کرتے وقت ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ میں شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ قوم لاتوں کی بھوت ہے۔ باتوں سے ماننے والی نہیں۔ اور جیسی قوم ہے ویسی اس کی افواج۔ وہ بھی دیگر قوم کی طرح مہا ڈھیٹ ثابت ہوئے ہیں۔
عام عوام کی عسکری اداروں پر شدید تنقید، احتجاج وغیرہ کا عسکری قیادت پر رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ ذرا سوچئے : جو عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے سیاسی لیڈران کو تھوڑے سے اختلاف پربا آسانی گھر، جیل، ملک سے باہر یا دنیا سے ہی باہر بھیجنے پر قادر ہیں۔ ان کے نزدیک عام عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔
مشرقی پاکستان میں بغاوت کے دوران اگر بھارتی افواج مداخلت نہ کرتی تو آج بھی وہاں ڈھول سپاہیا کی ہی حکومت ہوتی۔ بنگالیوں کی قسمت اچھی تھی جو آزاد ہو گئے۔ جبکہ مغربی پاکستانی آج بھی غلامی کا طوق سجائے گھوم رہے ہیں :(
pic_0d94e_1504769919.jpg._3
میں اس سے متفق نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں جب جمہوری نظام نافذ کیا گیا تو قوم اس وقت جمہوریت سے پوری طرح واقف نہیں تھی اس کی چند وجوہات ہیں۔
  • قیامِ پاکستان کی تحریک میں مسلم لیگ 1937 تک ایک ایلیٹ جماعت تھی یعنی قیامِ پاکستان کی اولین تحریک میں صرف وڈیرے اور سپانسر کرنے والے کاروباری حضرات شامل تھے۔ اس الیکشن میں شکست کے وقت مسلم لیگ کو احساس ہوا کہ ہمیں اپنی روٹ لیول تک رسائی کو یقینی بنایا جائے اس کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا اور محلے کے مذہبی رہنماؤں کو باقاعدہ بتایا گیا کہ آپ نے مسجد میں جمعہ کے خطبوں میں مسلمانوں کو کیا بتانا ہے۔ جب مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ عوام کے سامنے پیش کیا تو مسلمانوں نے اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ یہ کوئی انقلابی نظریہ تھا بلکہ یہ اس نظریے کی کنفرمیشن تھا جو مسجدوں میں انہیں بتایا گیا تھا اور یوں مسلم لیگ جیت تو گئی لیکن جمہوریت کی روح عوام میں منتقل نہ ہو سکی۔
  • دوم قیام پاکستان سے قبل انگریز جو انڈیا پہ قابض تھے وہ درحقیقت فوج کے ذریعے ہی وہاں حکومت کر رہے تھے اور انہوں نے طاقت کے ذریعے ہی انڈینز (ہندو اور سملمان) کو اپنے ماتحت رکھا ہوا تھا تو یہ فوجی غلامی کا دور وہیں سے شروع ہوا اور فوج کو حکومت کرنے کا چسکا بھی۔
  • سوم قیامِ پاکستان کو حقیقی جامع پہنانے کے لیے مسلمانوں کو محمد بن قاسم، غزنوی، صلاح الدین ایوبی، مغل بادشاہان وغیرہ وغیرہ پہ وقت کی ضرورت سمجھ کر ہیروازم پہ مبنی تاریخ پڑھائی گئی تاکہ ان کا جذبہ سلامت رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی وہی تاریخ پڑھائی جارہی ہے اور خاکیان اسی ہیرو ازم کے اصول پہ حکومت کر رہے ہیں۔ در حقیقت عوام بھی اسی "فیلیسی" کا شکار ہو گئی ہے کہ کوئی مشکل میں ہیرو بن کر ان کی مدد کو آئے گا۔ اسی لیے وہ ابھی بھی خود کچھ نہیں کرنا چاہتی بلکہ صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی ہے۔
  • چہارم چونکہ مسلم لیگ نے مذہبی نعرہ پہ الیکشن جیتے تھے تو قوم ابھی بھی اسی کشمکش میں ہے کہ ہم مسلمان پہلے ہیں اور پاکستانی بعد میں۔ غور کریں کے پاکستان کے باسیوں میں کچھ کو ایران سے محبت ہے، کچھ کو افغانستان سے، کچھ کو عربوں سے، تو ایسی صورت میں ملک میں جب نیشنلزم کمزور ہو تو کوئی کوئی نہ کوئی ان سے فائدہ ضرور اٹھاتا ہے چاہے وہ اندر سے ہو یا باہر سے۔ اس کے علاوہ مذہبی نعرہ سے الیکشن جیتنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ قوم ابھی بھی اسی سوچ میں مبتلا ہے کہ ملک میں "اسلامی نظام" کا نفاذ ہو حالانکہ قیام پاکستان کے وقت بیشتر مذہبی جماعتیں اس کے خلاف تھیں۔ خاکیان اسی لیے "اسلام" کا نام استعمال کر کے مذہبی سپورٹ حاصل کرتے ہیں۔
  • پنجم مسلم لیگ میں قائداعظم کے معیار کا کوئی دوسرا لیڈر موجود نہ تھا، اس لیے قائداعظم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد وہ مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے جو اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ لیڈر شپ کی کمی اور لیاقت علی خان کا اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے خواجہ ناظم الدین جیسے کمزور سیاسی رہنما کو گورنر جنرل بنانا، بتدریج سیاسی نظام کے زوال کا سبب بنا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیا آپ اسی "پاکستانی فرشتوں" کی وہ شرم ناک اور انسانیت سوز
فرشتہ کس کو کہا؟ مشرقی پاکستان میں اسی فوج کے عبرت ناک مظالم نے بنگلہ دیش بنا دیا تھا۔
میں اس کے حل کی بات کر رہا ہوں کیونکہ خالی لفظی تنقید، فوج مخالف بیانات یا عملی مظاہروں سے عسکری قیادت پر رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ افواج پاکستان نےاپنے ماضی سےسبق حاصل نہیں کیا۔ اور نہ ہی ملک کی اجتماعی سیاسی قیادت اس قابل ہے کہ فوج کے سامنے کھڑی ہو سکے۔
اس کا اب ایک ہی حل بچاہے کہ قوم ٹینکوں کے آگے لیٹنے (لفاظی کرنے) کی بجائے عسکری اداروں کا بائیکاٹ شروع کرے۔ یہی قوم جو رات کو فوج کے خلاف بک بک کر کے سوتی ہے۔صبح اُٹھ کر اپنے بچے اسی فوج میں بھرتی کروانے کیلئے ماری ماری پھرتی ہے۔ کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ان کی اولادوں کا فوج میں مستقبل بن گیا تو ان کی زندگیاں کامیاب ہو جائیں گی۔
جب تک قوم فوج سے متعلق اس دوغلے اور منافقانہ رویہ سے باہر نہیں نکلتی۔ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔
جی ہاں! ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس میں کوئی شک؟ :) ہم محض اپنے حصے کی شمع جلانے میں مصروف ہیں۔ ہم اپنی ممکنہ صلاحیت سے بڑھ کر کیا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں اور کسی کو ہم سے یہ توقع کیوں ہے؟ :) ہمیں صرف یوں کرنا ہے کہ اپنی سمت درست رکھنی ہے، اور اپنے تئیں حق بات کہتے چلے جانا ہے ۔۔۔ اور بس! :)
 
Top