چئیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

جاسم محمد

محفلین
اچھا ہم یہاں تو چودہ پنکچر تو نہیں کہہ سکتے نا۔۔۔۔۔؟؟؟
اِس وقت پوری اپوزیشن تحریک انصاف بنی ہوئی ہے۔
جب وہ حکومت میں تھے اور اسی طرح سینیٹ انتخابات کو خفیہ رکھنے پر عمران خان شور مچاتے تھے تو آجکل کی اپوزیشن ہنسی ٹھٹھہ کرتی تھی۔ ہن آرام اے؟:p
 

آورکزئی

محفلین
اِس وقت پوری اپوزیشن تحریک انصاف بنی ہوئی ہے۔
جب وہ حکومت میں تھے اور اسی طرح سینیٹ انتخابات کو خفیہ رکھنے پر عمران خان شور مچاتے تھے تو آجکل کی اپوزیشن ہنسی ٹھٹھہ کرتی تھی۔ ہن آرام اے؟:p
ہاہاہا۔۔۔ ٹھیک ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کو سیاسی دھچکا
خلیل احمد نینی تا ل والا
جناب صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنانے کے لئے پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری نے بڑے طریقے سےکام کیا تھا پہلے بلوچستان میں صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی اور مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری کو ان کے عہدے سے ہٹایا اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ (ق) لیگ کی جھولی میں ڈال دی تھی۔ اسی طرٖح 2018 میںجب سینیٹ کے انتخاب ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان میں وہ حصہ نہ مل سکا جس کی اسے امید تھی،اس وقت نواز شریف اور آصف زرداری کی دوستی ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ایک اندرونی اتحاد ہوا اور عمران خان اور زرداری باہم مل گئے اور اس طرح چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مسلم لیگ (ن) ہار گئی۔

بہت سے دوست اس کو جانتے ہیں کے پی ٹی آئی اورپی پی پی کو قریب لانے میں چند معتبردوستوں نے کردار ادا کیا تھا مگر 2018کے الیکشن میں اس میں شگاف پڑ گیا اورجونہی احتساب کا عمل شروع ہوا دونوں جماعتوں کےٖفاصلے بڑھ گئے۔دوسری طرف 2018کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان صاحب متحرک ہوئےاور تمام پارٹیوں سے اتحاد بنانے میں مصروف ہوگئے،مولا نا صاحب کو نواز شریف اور مریم نواز یقین دلاتے رہے کہ فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور زرداری صاحب کو بھی راضی کرنے کی مولانا صاحب کو ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔

بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اس دور سے گزرے ہیں میاں صاحب نے چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد رکھی اور وہیں سے پاکستانی سیاست میں پیسہ کا کھیل شروع ہوا عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے اسمبلی کے ممبران کو خریدا گیا اور اے ایس آئی اور تحصیل دار کی سطح پر 3,3نوکریاں دی گئیں جو ایم پی ایز نے لاکھوں روپے میں فروخت کیںآج وہی نواز شریف مظلوم بنتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا میں جمہوریت کی لڑائی لڑرہا ہوں ۔

اسی طرح بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے لگی توسب اسمبلی ممبران کوسوات لے جایاگیا جہاں ان پر بارش کی طرح پیسہ خرچ کیا جس طرح چھانگا مانگا میں خرچ کیاگیا تھا۔کسی صحافی نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ اسمبلی ممبران نوکریاں بیچ رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بھائی کل ان کو الیکشن بھی لڑنا ہے۔ بلاول بھٹو کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری جب کہ مریم نواز کے نواز شریف ہیں دونوں ایک دوسرے کے کندھے استعمال کرنے کے لئے با ہم سیاسی راہ رسم بڑ ھاتے ہیں اگر مریم نواز بلاول بھٹو کی افطاری میں شرکت کرتی ہیں تو دوسری طرف بلاول بھٹو جیل میں جاکر ملاقات کرتے ہیں۔لیکن ذہنی طور پر ایک دوسرے سے ہر گز مخلص نہیں ہیں۔آصف علی زرداری یہ سمجھتے ہیں کہ جعلی بینک اکائونٹس کے نئے مقدمات میاں نواز شریف کی طرف سے ان کی کمر میں چھرا گھو پنے کے مترادف ہیں جبکہ نواز شریف اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جیل پہنچانے کے لئے آصف زردازی نے سیاسی وزن ان کے پلڑے میں نہیں ڈالا اور میثاق جمہویت کو ثبوتاژ کیا ہے۔

اب جبکہ ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈوی والااور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریکیں ناکام ہوچکی ہیں۔ مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اجلاس سے پہلے جب سینیٹروں کودعوت پر بلایا تھا تو64ارکان نے شرکت کی تھی چنانچہ یقین ہو گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی مگر عین خفیہ ووٹ ڈالنے کے وقت 14ارکان پھسل گئے اور تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50ووٹ آئے جبکہ منظوری کے لئے 53ووٹ کی ضرورت تھی۔ جبکہ حکمراںجماعت اور اس کے اتحادی سینیٹروں کی تعداد 36ہے اور صادق سنجرانی کو 45ووٹ حاصل ہوئے۔

گویا حزب اختلاف کہ9سینیٹرز نے صادق سنجرانی کو ووٹ دے کر اپنی پارٹیوں سے بے وفائی کی۔ اسی طرح سلیم مانڈوی والا کے خلا ف جو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے حق میں 36ووٹ آئے جبکہ انہیں ہٹانے کے لئے53درکار تھے لہٰذا سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین اپنے عہدوں پر برقرار رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے،اگر ایک طرف حزب اختلاف کو شکست ہوئی ہے تو دوسری حزب اقتدار کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنوانے میں آصف علی زرداری کا بڑا ہاتھ تھا سلیم مانڈوی والا بھی پی پی پی کے نہایت اہم رکن ہیں جس کی وجہ سے بعض تجزیہ نگار جو نتیجہ اخذ کر رہے ہیں اس کے بارے میں کچھ کہناابھی مناسب نہیں۔میرے خیال میں چیئر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کی ناکامی میں جمہوریت کی فتح نہیں بلکہ اس واقعے سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما ذاتی مفاد اور اپنی اناکی خاطر قومی اداروں کے وقار کوبھی قربان کر دیتے ہیں،محسوس یہ ہوتا ہے پی ٹی آئی نے بھی مسلم لیگ (ن)کی طرح چھانگا مانگا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سوات کی طرح کی سیاست شرع کر دی ہے،جو پاکستان کے لئے سرا سر نقصان دہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چئیرمین سینیٹ تنازع: کچھ کرنا نہیں، کہنا منع ہے
02/08/2019 سید مجاہد علی

گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے گزشتہ روز چئیرمین سینیٹ کے لئے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میر حاصل بزنجو کے خلاف آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی انجینرنگ کا الزام لگانے کا نوٹس لیا ہے۔ ایک وکیل کی دائر کردہ درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ طارق سلیم چوہان نے سینیٹر حاصل بزنجو کو 8 اگست کو عدالت میں حاضر ہو کر اپنے گزشتہ روز والے بیان کی وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے۔

ملکی سیاست اور اس میں ایجنسیوں کے کردار کے پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس قسم کے دعوے ملک کی درجنوں بلکہ سینکڑوں عدالتوں میں دائرکیے جاسکتے ہیں تاکہ ’غیر ذمہ داری‘ سے ملک کی اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ پر سینیٹ کے چئر مین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ملوث ہونے کا الزام لگانے والے بلوچ لیڈر کو دن میں تارے دکھائے جاسکیں۔ گوجرانولہ کے محب وطن اور قومی اداروں کی محبت میں گرفتار وکیل صاحب کے لئے شاید آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا وضاحتی ٹوئٹ کافی نہیں تھا جس میں انہوں نے نے نہ صرف حاصل بزنجو کے اس الزام کو مسترد کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے والے جنرل فیض کے آدمی تھے بلکہ ملک کے سیاست دانوں کو جمہوری اقدار کا مناسب سبق دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ جنرل آصف غفو ر کا کہنا ہے کہ ’پریمیئر قومی ادارے کے سربراہ پر الزامات بے بنیاد ہیں اور معمولی سیاسی فوائد کی خاطر پورے جمہوری عمل کو بدنام کرنا جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہے‘ ۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ کے بیان سے تو یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں اب قومی مفاد کی تشریح کے علاوہ جمہوریت کے خد و خال سمجھنے کے لئے بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ گزشتہ روز چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے جو کچھ ہؤا، اور جس طرح صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کے 64 سینیٹرز کی تعداد خفیہ رائے شماری کے عمل میں 50 رہ گئی، وہ بھی جمہوری اقدار اور ان کی تفہیم کے حوالے سے ایک یادگار واقعہ تھا۔ عام طور سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے اسے مسترد کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے یا خفیہ طور پر برائیاں کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔

البتہ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے یہ انہونی بھی دیکھ لی گئی کہ قرارداد پیش کرتے ہوئے 64 سینیٹرز سینے پر ہاتھ رکھ کر اعلان کررہے تھے کہ وہ صادق سنجرانی کو سینیٹ چئیرمین کے عہدہ سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن جب خفیہ طور پر ووٹ دینے کا وقت آیا تو ان کا ضمیر اچانک بیدار ہوگیا اور انہیں خیال آیا کہ کسی کی دل شکنی کرنا بری بات ہے لہذا چند منٹ پہلےکیے گئے اپنے فیصلے سے ’رجوع‘ کرتے ہوئے 14 ’باضمیر اور انسان دوست‘ سینیٹرز نے اپنی غلطی کی تصحیح کرلی اور صادق سنجرانی کی حمایت میں ووٹ دے دیا۔

یاووٹ کی پرچی پر ٹھپہ لگاتے ہوئے پورے انصاف سے کام لیتے ہوئے صادق سنجرانی کے خلاف بھی ووٹ دیا تاکہ پارٹی سے کیا ہؤا وعدہ غلط ثابت نہ ہو اور ساتھ ہی اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی حمایت والے خانے پر بھی ٹھپہ لگادیا۔ اب یہ پریزائیڈنگ افسر کی غلطی ہے کہ وہ ان نیک نیت سینیٹرز کے ارادوں کو بھانپ نہیں سکا کہ ان کے ووٹ مسترد کردیے گئے۔ اس طرح اپوزیشن کی قرارداد مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکی۔

میر حاصل بزنجو نے بھی ان نیک نیت سینیٹرز کی پارٹی وفاداری کے ساتھ انسان دوستی کو سمجھنے کی بجائے شکست کے غم میں الزام آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر عائد کردیا۔ ان کا خیال ہو گا کہ جس طرح جنرل صاحب نے میجر جنرل ہوتے ہوئے فیض آباد دھرنا دینے والوں میں لفافے بانٹے تھے، اسی طرح اب رینک میں ترقی کے بعد وہ شاید سینیٹرز کو نوازنے لگے ہوں۔ وہ اسی خیال میں مگن تھے کہ صحافی نے سوال داغ دیا کہ ’خفیہ رائے شماری کے دوران یہ 14 ارکان کون تھے جنہوں نے آج آپ کا ساتھ نہیں دیا‘ ۔ اس پر حاصل بزنجو فوری طور سے بول اٹھے کہ ’یہ سب جنرل فیض کے لوگ ہیں، جانتے ہیں آپ جنرل فیض کو؟ آئی ایس آئی کے چیف ہیں‘ ۔

حاصل بزنجو نے جنرل فیض کا نام لیتے ہوئے اس بات کی تسلی کرلی تھی کہ صحافی پہچان میں غلطی نہ کریں۔ البتہ میجر جنرل آصف غفور کے ٹوئٹ سے ایک تو یہ پتہ چلا کہ جو کام درپردہ کیا جاتا ہے، اسے کھلم کھلا ظاہر کرنا منع ہے۔ یعنی کوئی کام کیا جاسکتا ہے لیکن اسے کہنا اچھی بات نہیں ہے، اس سے قومی مفاد مجروح ہوتا ہے۔ جیسے 14 سینیٹرز نے ’انسان دوستی‘ کی نیت سے خفیہ ووٹ دیتے ہوئے اپنی رائے ضرور تبدیل کی لیکن فساد خلق کے خوف سے اس کا اعلان نہیں کیا۔

کیوں کہ جمہوریت کایہی اصول مقدم ہے۔ اس اصول کی تفہیم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ 14 سینیٹرز جنرل فیض کے آدمی ہوں یا نہ ہوں البتہ میجر جنرل آصف غفور کے ’اسکول آف ڈیموکریسی‘ کے طالب علم ضرور ہیں۔ جنرل صاحب اپنے عسکری فرائض انجام دیتے ہوئے بھی قومی مفاد اور جمہوریت کے مختلف پہلوؤں پر درس دیتے رہتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان کی باتوں کی گہرائی اور قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے ان کی ضرورت کو نہیں سمجھتے تو اس میں آئی ایس پی آار یا اس کے سربراہ کا کیا قصور ہے؟ کچھ لوگ تو سبق اچھی طرح یاد کررہے ہیں۔ ان میں شبلی فراز و فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے علاوہ بھٹکی ہوئی اپوزیشن کے 14 سینیٹرز بھی شامل ہو چکے ہیں۔

سینیٹ میں گزشتہ روز دن دہاڑے جو ڈرامہ رچا گیا ہے اس کے بعد حکومت کی طرف سے خفیہ رائے دہی میں اعلانیہ مؤقف سے رجوع کرنے والے سینیٹرز کو ہیرو کا درجہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اب میر حاصل بزنجو کی شکل میں ایک ولن بھی تلاش کرلیا گیا ہے۔ انہیں یہ سادہ اصول فراموش کرنے پر اب سیشن جج اور اس کے بعد نہ جانے کہاں کہاں پیش ہونا پڑے کہ کہی سنی بات سچ بھی ہو تو بھی اس کا کھلم کھلا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ قومی ادارے اگر قوم کے بہترین مفاد میں کچھ مشورے دیتے ہیں یا کوئی نیک کام کرتے ہیں جیسا کہ جنرل فیض نے نومبر 2017 میں ’غریب مظاہرین‘ کو گھر کا کرایہ دینے کے لئے لفافے تقسیم کردیے یا اس سے پہلے درون خانہ باتیں سامنے لانے پر ڈان لیکس کے معاملہ میں نواز شریف کی حکومت کے علاوہ ڈان کو سبق سکھانے کا اہتمام کیا گیا تو اس میں آئی ایس آئی پر الزام دھرنے اور اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور دیگر معاملات کی طرح سینیٹ کی ووٹنگ کو بھی ’ہونی ہو کر رہتی ہے‘ کہہ کر ٹال دیاجائے۔

میجر جنرل آصف غفور نے یاد دہانی کے لئے اب جمہوریت کے کچھ اصول واضحکیے ہیں اور قوم کے لیڈروں کو یاد دلایا ہے کہ ’معمولی سیاسی فائدے‘ کے لئے الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔ درس و تدریس اور تنبیہ کے اس ماحول میں البتہ یہ سوال تو اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اگر میر حاصل بزنجو نے معمولی سیاسی فائدے کے لئے ’الزام تراشی‘ کی ہے تو حکومت کے ترجمان کس ’فائدے‘ کے لئے آپے سے باہر ہوکر اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود ناکام ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں؟ وزیر اعظم نے کس سیاسی قوت کی بنیاد پر صادق سنجرانی کو یقین دلایا تھا کہ حکومت ان کے خلاف عدم اعتماد منظور نہیں ہونے دے گی؟ اور شبلی فراز کے پیش نظر قوم کا کون سا وقار تھا کہ وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان تک سے ملنے چلے گئے؟

جن سینیٹرز کو پوری قوم جھوٹے، بے ضمیر اور ووٹ چوری کرنے والا سمجھ رہی ہے، حکومت کے نمائندے کون سے وقار اور سیاسی فائدے کے لئے انہیں ’نامعلوم ہیروز‘ کا درجہ دے رہے ہیں۔ میجر جنرل صاحب یہ بتادیں تو قوم کی رہنمائی کا حق ادا کریں گے کہ کیا حکومت کی خوشی کا اظہار ’ایسا بڑا سیاسی فائدہ‘ ہے جس کے لئے جھوٹ کو درست اور دھوکہ کو حق قرار دینے کی کوشش جائز ہوجاتی ہے؟

سینیٹ اور ملک کے سیاست دانوں کے منہ پر کل جو کلنک لگا ہے، اسے صرف چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی دھو سکتے ہیں۔ وہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے محفوظ رہے ہیں۔ اب انہیں چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں کہ وہ ایک ایسے ایوان کی سربراہی کرنے سے معذرت خواہ ہیں جہاں کہا کچھ اور کیا کچھ جاتا ہے۔ ان کا یہ ایک قدم انہیں ہمیشہ کے لئے جمہوری اقدار کا ہیرو بنا سکتا ہے۔ ورنہ نصف سینیٹ کے عدم اعتماد کے بعد نہ انہیں کوئی احترام نصیب ہو گا اور نہ ہی سینیٹ کو باوقار ادارہ سمجھا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن کچھ عرصے بعد پھر سے عدم ا اعتماد لانے کی کوشش کرے۔ مریم نواز اس کا اشارہ دے بھی چکی ہیں۔
 
Top