نواز شریف ہارس ٹریڈنگ کے بانی ہوں اور عمران خان ولی اللہ بن کر رہیں؟
03/08/2019 آصف محمود
سینٹ میں جو کچھ ہوا، مجھے شاہد خان اورکزئی یاد آ گئے۔ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ شاہد اورکزئی صاحب کو لوگ ان کی پیٹیشنز کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن ان کی ایک اور وجہ تعارف بھی ہے۔ مجھے ان کی شخصیت کے اس پہلو کا اس وقت علم ہوا جب وہ خود عدالت تشریف لے گئے اور کہا کہ نواز شریف ان کے پیسے نہیں دے رہے اس لیے عدالت سے درخواست ہے وہ انہیں میاں صاحب سے پیسے لے کر دے۔ میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے کون سے پیسے دبائے ہوئے تھے؟
یہی اصل کہانی ہے۔ یہ 1993 ء کے انتخابات کی بات ہے۔ اس زمانے میں شاہد اورکزئی نواز شریف صاحب کے میڈیا کنسلٹنٹ ہوا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ نے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی نے 89 نشستیں جیتی تھیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کو حاصل ہونے والے کل ووٹ پیپلز پارٹی سے زیادہ تھے۔ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی سے قریبا چار لاکھ ووٹ زیادہ لیے تھے اس لیے میاں صاحب کا خیال تھا کہ حکومت بنانا ان کا حق ہے۔
میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے ذمے لگایا کہ اگر وہ فاٹا کے سات اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید لیں تو میاں صاحب انہیں ایک کروڑ پچھتر لاکھ روپے دیں گے۔ شاہد اورکزئی نے میاں صاحب کے حکم پر ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی اور ان کا دعوی ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنالی۔ چنانچہ میاں صاحب نے کہا بس اب اس ووٹ کو عزت دی جا سکتی ہے پیسے نہیں دیے جا سکتے۔ شاہد اورکزئی عدالت چلے گئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے نواز شریف کے کہنے پر لوگوں کی وفاداریاں خریدیں۔
میں نے اپنا کام کر دیا۔ اب میاں صاحب اپنا کام نہیں کر رہے۔ عدالت میں شاہد اورکزئی نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے ان سے ایک کروڑ پچھتر لاکھ کی ڈیل کی تھی لیکن اب تک انہوں نے صرف ایک کروڑ پانچ لاکھ ادا کیے ہیں اور باقی کے ستر لاکھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے درخواست کی کہ میاں نواز شریف سے ہارس ٹریڈنگ کے بقایا جات جو کہ ستر لاکھ روپے بنتے ہیں، لے کر انہیں دیے جائیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ میرے علم میں نہیں۔
تاہم جتنا واقعہ میں نے یہاں بیان کیا ہے، یہ ریکارڈ پر ہے۔ چھانگا مانگا سے لے کر مری تک، نواز شریف نے ہمیشہ ہی ووٹ کو عزت دی ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے جس کی بازگشت عدالت تک پہنچی۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں الیکشن کے الزامات بہت سوں کو دیے جاتے ہیں لیکن اعزاز صرف میاں نواز شریف کو حاصل ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بچہ جمورا بن کر اقتدار تک ان کا پہنچنا عدالت کے رو برو ایک حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔
کل سینٹ میں جو کچھ ہوا اس پر سیخ پا ہونے کا حق ایک عام شہری کو تو حاصل ہے کہ مقدس ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا ضمیر کیا ہوا؟ قرارداد پیش ہوئی تو یہ 64 تھے، ووٹنگ ہوئی تو 50 رہ گئے لیکن یہ آنسو مسلم لیگ ن کیسے بہا رہی ہے؟ کیا اس کی تکلیف یہ ہے کہ جس واردات کے جملہ حقوق کبھی ان کے نام محفوظ ہوتے تھے اسی واردات نے اب ان کے پاؤں جلا دیے ہیں۔ پہلے مگر مچھ کے آنسو ضرب المثل تھے، اب ن لیگ کے آنسواس مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ کی آلودگی نواز شریف کے دامن سے لپٹی ہو یا عمران خان کے دامن سے، ہر دو صورتوں میں یہ ایک آلودگی ہی رہے گی لیکن اس آلودگی کو معاشرے میں متعارف کرانے والی قیادت شریف اگر معصوم سی عفیفہ بن کر دہائی دینے لگے تو یہ رویہ بذات خود مضحکہ خیز حد تک شرمناک رویہ قرار پائے گا۔ ہارس ٹریڈنگ کے بانی نواز شریف ہیں۔ کیا کبھی وہ اس نامہ اعمال پر نادم ہوئے؟ اقوال زریں سنا دینا الگ بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف جب جلاوطنی کے بعد واپس تشریف لائے انہوں نے 146 لوٹوں کو ٹکٹ دیا تھا۔
میاں صاحب ایک تاجر ہیں، حساب سودو زیاں کے ماہر۔ ان سے منسوب ایک روایت ہے کہ جس کو میں نے پیسوں سے خرید نہ لیا ہواس پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا۔ سوال یہ ہے زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن پر انہوں نے کیسے اعتبار کر لیا؟ وہ روایتی انداز سے معاملہ فرما چکے ہوں تو الگ بات ہے ورنہ سامنے کی بات ہے کہ جس معرکے میں سرخرو نواز شریف نے ہونا ہو زرداری اس معرکے میں اپنی توانائیاں کیوں جھونکیں گے؟ مولانا فضل الرحمن ہماری سیاست کے زیرک ترین کردار ہیں۔
وہ اپنے کارکنان کو ایک ایسے معرکے کا ایندھن کیوں بنائیں گے جس میں سارا فائدہ صرف نواز شریف کا ہو؟ نواز شریف کے جس بیانیے کے ساتھ ان کا اپنا خاندان نہیں کھڑا زرداری اور مولانا ان بیانیے کے میمنہ میسرہ پر کیوں کھڑے ہوں گے؟ سیینٹ میں جو کچھ ہوا یہ کسی سینیٹر کی انفرادی واردات نہیں، کم از کم دو جماعتوں کی حد تک یہ اجتماعی واردات محسوس ہو رہی ہے جو قیامت کے اشارے پر انجام دی گئی۔ تاہم مان لیں یہ انفرادی واردات ہے تو اس میں حیرت کیسی؟
آپ نے سینٹ ٹکٹ کون سا تقوی اور کردار دیکھ کر بانٹے تھے کہ اب صدمے کی حالت میں چپ چاپ دیوار سے لگے بیٹھے ہی۔ سینیٹر طلحہ محمود صاحب کون سے شیخ الحدیث ہیں کہ جے یو آئی ان پر مہربان ہے؟ ہاں ہر جماعت اپنا ایک اے ٹی ایم رکھنا ضروری سمجھتی ہو تو یہ الگ بات ہے۔ سر پیٹیے مگر یاد رکھیے پہلے سینٹ کا ٹکٹ بکتا ہے، اس کے بعد سینٹر بکتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد جب آپ سب نے مل جل کر حکومت کی تھی تو انجمن مفادات باہمی کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ برادرم اعجاز الحق خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کی بجائے وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن کہا کرتے تھے۔ ان دنوں آپ چاہتے تو بہت کچھ بدل دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے اس عہدِ ہنی مون میں آپ نے خفیہ رائے شماری کا قانون بدل کیوں نہ دیا؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں آپ خود تو پوری تندہی سے ہر واردات کرتے رہیں لیکن عمران خان آپ کے مقابلے میں اللہ کا ولی بن کر رہے؟
بشکریہ روزنامہ 92۔