محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
صاحب! اسی نظریۂ ضرورت کے تو ہم ڈسے ہوئے ہیں۔ جب بھی جمہوریت پنپنے لگتی ہے، کوئی قومی ضرورت آڑے آجاتی ہے۔یوں نظام کی بقا کیلئے جو کچھ بھی کیا گیا وہ درست تھا۔
صاحب! اسی نظریۂ ضرورت کے تو ہم ڈسے ہوئے ہیں۔ جب بھی جمہوریت پنپنے لگتی ہے، کوئی قومی ضرورت آڑے آجاتی ہے۔یوں نظام کی بقا کیلئے جو کچھ بھی کیا گیا وہ درست تھا۔
جمہوریت اور بدنیتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ جب سپریم کورٹ نے ۲۰۱۷ میں نواز شریف کو نااہل کیا تو ن لیگیوں نے فوری طور پر اپنی پارلیمانی اکثریت کا سہارا لیتے ہوئے قانونی ترامیم کرکے نواز شریف کی پارٹی صدارت کو بحال کر دیا تھا۔صاحب! اسی نظریۂ ضرورت کے تو ہم ڈسے ہوئے ہیں۔ جب بھی جمہوریت پنپنے لگتی ہے، کوئی قومی ضرورت آڑے آجاتی ہے۔
عین متفق! میں عمران خان کا 2006 میں دیا گیا انٹرویو پیش کر چکا ہوں جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ کس طرح 2002 انتخابات سے قبل آئی ایس آئی چیف ان سے ملے اور کہا کہ آپ ق لیگی اتحاد میں چلے جائیں یعنی مشرف کی حمایت کریں۔ عمران خان نے اتحاد پر استفسار کیا کہ اس میں تو وہی کرپٹ لوگ ہیں جس کے خلاف جہاد کا مشرف نے اعلان کیا تھا۔ اس پر آئی ایس آئی چیف نے جواب دیا کہ ہم کیا کریں لوگ چوروں کو ہی ووٹ دیتے ہیںتو یہ طے پایا کہ اِس ملک کے مستقبل کا فیصلہ اب بھی صرف اور صرف فوج یا اس کے تراشیدہ نام نہاد سیاست دان کریں گے۔ کم از کم، عامۃ الناس کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔سیاست مہنگا کھیل ہے اور یہ عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے، پرانے چہروں اور ابن الوقت سیاست دان ہی ہمارے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں؛ اُن پر ہی تکیہ کرنا ہو گا اور ان میں سے بھی صرف وہ جو سلسلہء اسٹیبلشیہ سے بیعت یافتہ ہوں۔ یعنی، کوئی ورائٹی نہیں؛ کوئی نیا پن نہیں؛ وہی فوجی بوٹ، وہی خاکی سائے، وہی اسٹیبلشیائی چلن ہماری سیاست کو بے رنگ بنائے رکھیں گے۔ یہ ہے نیا پاکستان جس کا خواب جناح نے دیکھا تھا اور جس کے حصول کی خاطر لاکھوں افراد کا خُون بہا۔ کوئی متبادل تک نہیں؛ متبادل قیادت بھی ایسی ہے جس کے سر پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ بھی عسکریوں کے گن گانے لگ جائے! اک حبس ہے اور عجب بے کیفی! کون سمجھے!
سبحان تیری قدرت!سیشن جج گوجرانوالہ راؤ جبار
ان کی تعریف؟سبحان تیری قدرت!
سارے اپنے ہی بندے ہیں، آہو!سبحان تیری قدرت!
کیا تعریف کروں اُس کی جس نے تجھے بنایا۔۔۔ان کی تعریف؟
عمران خان کو منظر سے ہٹانا تو بہت ہی آسان ہے۔ ان کے خلاف کیلیفورنیا کی عدالت کا ایک فیصلہ آن ریکارڈ موجود ہے۔ 62،63 پر آرام سے فارغ ہو جائیں گےایک وقت آئے گا جب عمران خان صاحب کو بھی سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیا جائے گا۔
خلیل بھیا! کچھ تو کھل کر کہیں، جناب!یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
یہ جو زبان بندی ہے اس کے پیچھے وردی ہےخلیل بھیا! کچھ تو کھل کر کہیں، جناب!
ہم کسی قدر کُھل کر ضرور کچھ کہنا چاہیں گے۔ دراصل، لیڈرشپ بُری بھی کیوں نہ ہو، کرپٹ ترین بھی کیوں نہ ہو، تاہم، اس کے ساتھ موجود محبت دِل سے نہیں جاتی ہے کہ یہ رشتے ایک پَل میں بنتے ہیں اور نہ ایک پَل میں ختم ہوتے ہیں۔ یہ لیڈرشپ اپنے چاہنے والوں کے دل کی آواز بن جاتی ہے اور ان کے وجود کا ایک حصہ! الطاف حسین صاحب ہوں، نواز شریف صاحب ہو یا حتیٰ کہ بلاول بھٹو یا عمران خان صاحب، انہیں حراست میں بھی لے لیا جائے، جلا وطن کر دیا جائے، ان پر جھوٹے سچے مقدمات بھی بنا دیے جائیں، تب بھی انہیں ان کے چاہنے والوں کے دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ وہ سچ ہے جس پر ہزار پردے ڈال دیے گئے ہیں۔ کراچی کے باسیوں کی اکثریت کو آج بھی کھل کر بولنے دیا جائے تو وہ جیے الطاف کا نعرہ لگا دیں گے۔ نواز شریف صاحب آج بھی لاہور میں منظر عام پر آجائیں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اکھٹا ہو جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اُن سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں؛ ہمیں خبر ہے کہ وہ دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں تاہم حقیقتِ حال یہی ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بڑے شہروں میں نواز شریف صاحب کو جیل میں رکھنے پر شدید تناؤ پایا جاتا ہے مگر مصلحت اور نظام کو چلتے رہنے دینے کی خاطر عوام خاموش ہیں۔ شاید وہ یہ خواب دیکھتے ہیں کہ عدالتیں ان کو بری کر دیں گی؛ ان پر قائم مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں؛ شاید ایسا نہیں ہے مگر وہ اس آس پر وقت گزاری کر رہے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو بیان کرنے مشکل ہیں۔ یہاں سچ بولنا اور سہنا مشکل ہے۔ تاہم، جو کچھ چل رہا ہے، وہ بیان کرتے رہنا بھی لازم ہے تاکہ تاریخ لکھنے والے کو کوئی سرا تو مل سکے کہ یہاں آخر چل کیا رہا ہے۔یہ جو زبان بندی ہے اس کے پیچھے وردی ہے
تو عدالت سے ثابت شدہ مجرم کو کیا فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھیں؟اسی طرح پنجاب کے بڑے شہروں میں نواز شریف صاحب کو جیل میں رکھنے پر شدید تناؤ پایا جاتا ہے مگر مصلحت اور نظام کو چلتے رہنے دینے کی خاطر عوام خاموش ہیں۔
آپ اُن کو سلاخوں کے پیچھے رکھیں اور جلا وطن رہنے دیں۔ شاید وہ اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہوں گے مگر اس سے ان کی سیاسی قامت میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہم وہ لکھ رہے ہیں، جو حقیقتِ حال ہے جس سے گھبرانے کی شاید کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔تو عدالت سے ثابت شدہ مجرم کو کیا فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھیں؟
ایک طرف عوام کو ریاست مدینہ جیسی قانون کی حکمرانی چاہئے۔ لیکن جب کسی طاقتور شخص کو قانون کے نیچے لایا جاتا ہے تو وہی عوام شدید تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
میرے خیال میں عوام ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے کہ اسے کیسا پاکستان چاہئے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ مفاہمت کے حامی ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی سے جمہوری تسلسل آگے بڑھتا ہے۔ البتہ جس قسم کی عوام دشمن مفاہمت قوم نے پچھلے دس سالوں میں دیکھی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آج یہ اسی مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کا نتیجہ ہے جویہ دونوں بڑے سیاسی خاندان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
گھبرانے کی ضرورت تو ہے۔ کیونکہ ن لیگ اصل میں نواز شریف ہے جبکہ پیپلز پارٹی زرداری۔ ان دونوں کو جیل بھیج کر ملک کی آدھی سیاسی قوت تتر بتر ہو گئی ہے۔ اس خلا کی وجہ سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ اسے فسطائیت کہہ رہے ہیں۔ دیگر اسے خاموش مارشل لا سمجھ رہے ہیں۔گھبرانے کی شاید کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
آپ انہیں جیل میں ہی رکھیے اور ایک بار پھر عرض ہے کہ مت گھبرائیے! ہمارا تجزیہ معروضی نوعیت کا ہے۔ اسے دل پر نہ لیجیے۔ اپوزیشن کی قیادت آپ کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ ہے۔ آپ کو اُڑان بھرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے جب تک کہ آپ عسکری ایندھن سے لیس ہیں۔ فقط یہ گزارش ہے کہ زرداری صاحب کو مقبول سیاسی لیڈرشپ میں شمار نہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی بھٹو اور بے نظیر کا ہی نام ہے اور کسی قدر بلاول بھٹو! زرداری صاحب تو پیپلز پارٹی کے اندر بھی مقبول نہیں ہیں۔گھبرانے کی ضرورت تو ہے۔ کیونکہ ن لیگ اصل میں نواز شریف ہے جبکہ پیپلز پارٹی زرداری۔ ان دونوں کو جیل بھیج کر ملک کی آدھی سیاسی قوت تتر بتر ہو گئی ہے۔ اس خلا کی وجہ سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ اسے فسطائیت کہہ رہے ہیں۔ دیگر اسے خاموش مارشل لا سمجھ رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میری دلی خواہش ہے کہ نواز شریف اور زرداری رہا ہو کر واپس آئیں اور ملک کی سیاست میں اپنی 40 سالہ تجربہ کاری دکھائیں۔ لیکن ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں جب وہ خود ہی رہا ہونا نہیں چاہتے؟ یہ جن کرپشن کیسز کی وجہ سے اندر ہیں وہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ رہائی کیلئے عدالت منی ٹریل، گواہان، کوئی ثبوت مانگتی ہے جو یہ سیاسی جادوگر دینے سے مسلسل انکاری ہے۔ اب قانون یہ کہتا ہے جو اپنے پر لگے الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ دھو نہ سکے وہ مجرم ہے۔ ایسے میں یہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی قبر خود ہی کھودیں جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کو ملک آگے لیجانے کیلئے اس اپوزیشن کی ضرورت ہے جو جیل میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے
عسکری ایندھن سے لیس ایک زبردست اڑان ق لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی بھری تھی۔ آج وہ جماعتیں کدھر کھڑی ہیں؟آپ کو اُڑان بھرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے جب تک کہ آپ عسکری ایندھن سے لیس ہیں۔