محترم نہایت معذرت کے ساتھ!
یہ جو مفہوم آپ نے تحریر کیا ہے یہ بات مشرکوں اور کافروں کو بطور چیلنج کہا گیا تھا کہ کہ جن کو تم پوجتے ہو، جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ مکھی بنانا تو دور کی بات اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو وہ اسے چھڑوا نہیں سکتے یعنی واپس نہیں حاصل کرسکتے۔
مگر آج کی سائنس کا جواب الگ نہیں ہے بلکہ سائنس کی بھی وہی تحقیق ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
لیجئے محترم سائنس کی تحقیق بھی پیش خدمت ہے اب کیا خیال ہے مکھی ڈبو کر پینے کے بارے میں؟
انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences
رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔
"مکھی جب کھیتوں اور سبزیوں پر بیٹھتی ہے تو اپنے ساتھ مختلف بیماریوں کے جراثیم اٹھا لیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ جراثیم مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ مکھی کے پیٹ میں بکتر فالوج نامی ایک مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو زہریلے جراثیم کو ختم کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ اگر تم کسی نمکین پانی میں مکھی کے پیٹ کا مادہ ڈالو تو تمہیں وہ بکتر فالوج مل سکتا ہے۔ جو مختلف بیماریاں پھیلانے والے چار قسم کے جراثیم کو ہلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مکھی کے پیٹ کا یہ مادہ بدل کر بکتر فالوج کے بعد ایک ایسا مادہ بن جائے گا جو چار مزید قسم کے جراثیم کوفنا کرنے کے لیے مفید ہوگا۔ "۔
اب عرب کے ایک اسلامی ادارے جمعیۃ الھدایۃ الاسلامیۃ کی تحقیقات ملاحظہ ہوں ۔ انہوں نے مکھی پر ایک طویل مضمون شائع کیا ۔ جس کا قابل ذکر حصہ یہ ہے۔
"مکھی کے جسم میں جو زہریلا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے مبعد البکتیریا کہتے ہیں۔ مکھی کے ایک پر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ البکتیریا کو اس کے پیٹ سے ایک پہلو کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا مکھی جب کسی کھانے یا پینے کی چیز پر بیٹھتی ہے تو پہلو سے چمٹے ہوئے جراثیم اس میں ڈال دیتی ہے۔ ان جراثیم سے بچانے والی پہلی چیز وہ مبعد البکتیریا ہے۔ جسے مکھی اپنے پیٹ میں ایک پر کے پاس اٹھائے ہوتی ہے۔ لہٰذا چمٹے ہوئے زہریلے جراثیم اور ان کے عمل کو ہلاک کرنے کیلئے یہ چیز کافی ہے کہ پوری مکھی کو کھانے میں ڈبو کر باہر پھینک دیا جائے۔
دیکھئے، تفہیم الاسلام صفحہ ۴۵۵
(بشکریہ محمد شاکر کراچی۔
http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=296)
طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے ( Organisms ) اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔
( مصر ) کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ ( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
(بشکریہ:
ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ)
http://baseeratonline.com/2014/12/14/حدیث-نبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-اور-سائنس-ک/
مزید تفصیلات کے لیے متذکرہ ربط یا گوگل بابا سے استفادہ کیجئے۔