چائے میں مکھی

بہت سے لوگ سماجی رابطے کی سائٹس پر عام لوگوں سے الگ موقف اس لئے اپناتے ہیں کہ انھیں علیحدہ سے توجہ حاصل ہو سکے - یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے - بعض لوگ اسی عارضے کے تحت کبھی کسی تسلیم شدہ حقیقت کا انکار کرنے لگتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں بھی انھیں فوراََ توجہ مل جاتی ہے لوگ اختلاف ہی سہی مگر انکی بات پر بات ضرور کرتے ہیں - بعض لوگ اسی سستی شہرت کے حصول کیلئے بعض اوقات محترم اور ہردل عزیز شخصیات میں مین میخ نکالنے لگتے ہیں - اسی سستی شہرت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بلا وجہ نامور لوگوں سے بغض پال لیا جائے - ایسے میں کسی اور کی شہرت سے منسلک ہو کر اپنی شہرت کا سامان پیدا کیا جاتا ہے .
خیر یہ نفسیات کی ایک طویل بحث ہے پھر کبھی اس پر تفصیلاً بات کریں گے

یہ تحریر دوسرے دھاگے کیلئے تھی یہاں غلطی سے داخل کردی گئی ہے ، معذرت
 

تجمل حسین

محفلین
یہی وہ جہالت ہے جو ہمیں لے ڈوبی ہے

تعجب ہے آپ کے نزدیک حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا جہالت ہے۔:question:

حدیث تو وہ اونٹ کے پیشاب کی "افادیت" سے متعلق بھی صحیح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سائنسی بنیادوں پر ایسی کوئی بات نہیں۔

محترم کیا آپ مکمل سند اور حوالے کے ساتھ حدیث پیش کرسکتے ہیں۔

اگر سائنسی بنیادوں پر مکھی کے ایک پر میں شفا اور ایک میں بیماری ثابت ہو جائے تو ضرور ربط دیجئے گا۔

ایک مسلمان کے لیے سائنس سے زیادہ اہمیت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی ہونی چاہیے۔:)
 

arifkarim

معطل
قرآن مجید میں دسوں آیات ہیں جو کائنات میں غوروفکر پر دلالت کرتی ہیں بلکہ باربار کہا گیا کہ أفلا يتفكرون ..إن في ذلك آبات ﻷولى الألباب ..آپ مراجعہ کریں اک ضخیم عدد ہے. عقل جبار غزالی کی کتابیں دیکھیے فرماتے ہیں کہ قرآن نور عقل نور .کبهی متضاد سمتوں میں نہیں چلتے بشرط کہ آپ دونوں کو موقع دے اور صبر کے ساتھ پڑھیں
متفق۔ آپنے بالکل درست فرمایا۔ سائنس کا علم محدود ہے۔ کل سائنس جو کہتی تھی وہ آج نہیں کہتی اور کل بالکل کچھ اور کہے گی جوں جوں سائنسی علوم میں ترقی ہوگی۔ میں نے اوپر اسی لئے کہا تھا کہ دین کو سائنس کیساتھ نہ جوڑا جائے کہ اگر کل کو سائنس اپنے سابقہ بیانات سے ہٹ گئی تو دین متنازع ہو سکتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
تعجب ہے آپ کے نزدیک حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا جہالت ہے۔:question:
عمل کرنا ہر انسان کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ مجھے جہالت والی یہ بات لگی تھی کہ ایک جراثیم آلود شے کو مزید ڈپکیاں دینے سے وہ مزید پاک صاف کیسے ہو سکتی ہے؟ :)

محترم کیا آپ مکمل سند اور حوالے کے ساتھ حدیث پیش کرسکتے ہیں۔
یہ حدیث غالباً ایک خاص قبیلہ سے متعلق تھی جنہیں کوئی بیماری لاحق تھی:
http://wikiislam.net/wiki/Camel_Urine_and_Islam#Camel_Urine_in_the_Hadiths
http://islamqa.info/en/83423

ایک مسلمان کے لیے سائنس سے زیادہ اہمیت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی ہونی چاہیے۔:)
جو کہ ہے۔ اسی لئے تو سائنس اور دین کو آپس میں نہ ملانے کا کہا تھا۔ :)
 
خیر کسی کو کچھ لگنا اس کا اپنا مسئلہ ہے ..پہلی اڑان بهی انسانوں کو جہالت لگی تهی ..
امید ہے کسی کی دل آزاری نہ ہوئی ہو کہ دل کی حرمت کعبے کی حرمت کی طرح ہے
اس باب کو بند کرتے ہیں
ملاقات اچهی رہی آپ سے جناب عارف کریم
 
خیر کسی کو کچھ لگنا اس کا اپنا مسئلہ ہے ..پہلی اڑان بهی انسانوں کو جہالت لگی تهی ..
امید ہے کسی کی دل آزاری نہ ہوئی ہو کہ دل کی حرمت کعبے کی حرمت کی طرح ہے
اس باب کو بند کرتے ہیں
ملاقات اچهی رہی آپ سے جناب عارف کریم

شبیر حسین تاب صاحب آپ نے بہت متاثر کیا - الله آپکے علم اور عمل میں برکتیں عطا فرمائے
 

تجمل حسین

محفلین
قرآن میں تو ہم پڑھا ہے کہ جسکا مفہوم ہے کہ اگر مکھی ہم سے کوئی چیز لے لے تو ہم اس کو واپس نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔۔

محترم نہایت معذرت کے ساتھ!
یہ جو مفہوم آپ نے تحریر کیا ہے یہ بات مشرکوں اور کافروں کو بطور چیلنج کہا گیا تھا کہ کہ جن کو تم پوجتے ہو، جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ مکھی بنانا تو دور کی بات اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو وہ اسے چھڑوا نہیں سکتے یعنی واپس نہیں حاصل کرسکتے۔

اگر آپ ’’کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے‘‘ کا سوال سائنس سے پوچھیں گی تو الگ جواب ملے گا۔

مگر آج کی سائنس کا جواب الگ نہیں ہے بلکہ سائنس کی بھی وہی تحقیق ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔:)

مجھے جہالت والی یہ بات لگی تھی کہ ایک جراثیم آلود شے کو مزید ڈپکیاں دینے سے وہ مزید پاک صاف کیسے ہو سکتی ہے؟

اگر سائنسی بنیادوں پر مکھی کے ایک پر میں شفا اور ایک میں بیماری ثابت ہو جائے تو ضرور ربط دیجئے گا۔

لیجئے محترم سائنس کی تحقیق بھی پیش خدمت ہے اب کیا خیال ہے مکھی ڈبو کر پینے کے بارے میں؟ :)
انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences

رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔

"مکھی جب کھیتوں اور سبزیوں پر بیٹھتی ہے تو اپنے ساتھ مختلف بیماریوں کے جراثیم اٹھا لیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ جراثیم مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ مکھی کے پیٹ میں بکتر فالوج نامی ایک مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو زہریلے جراثیم کو ختم کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ اگر تم کسی نمکین پانی میں مکھی کے پیٹ کا مادہ ڈالو تو تمہیں وہ بکتر فالوج مل سکتا ہے۔ جو مختلف بیماریاں پھیلانے والے چار قسم کے جراثیم کو ہلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مکھی کے پیٹ کا یہ مادہ بدل کر بکتر فالوج کے بعد ایک ایسا مادہ بن جائے گا جو چار مزید قسم کے جراثیم کوفنا کرنے کے لیے مفید ہوگا۔ "۔
اب عرب کے ایک اسلامی ادارے جمعیۃ الھدایۃ الاسلامیۃ کی تحقیقات ملاحظہ ہوں ۔ انہوں نے مکھی پر ایک طویل مضمون شائع کیا ۔ جس کا قابل ذکر حصہ یہ ہے۔

"مکھی کے جسم میں جو زہریلا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے مبعد البکتیریا کہتے ہیں۔ مکھی کے ایک پر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ البکتیریا کو اس کے پیٹ سے ایک پہلو کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا مکھی جب کسی کھانے یا پینے کی چیز پر بیٹھتی ہے تو پہلو سے چمٹے ہوئے جراثیم اس میں ڈال دیتی ہے۔ ان جراثیم سے بچانے والی پہلی چیز وہ مبعد البکتیریا ہے۔ جسے مکھی اپنے پیٹ میں ایک پر کے پاس اٹھائے ہوتی ہے۔ لہٰذا چمٹے ہوئے زہریلے جراثیم اور ان کے عمل کو ہلاک کرنے کیلئے یہ چیز کافی ہے کہ پوری مکھی کو کھانے میں ڈبو کر باہر پھینک دیا جائے۔

دیکھئے، تفہیم الاسلام صفحہ ۴۵۵
(بشکریہ محمد شاکر کراچی۔ http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=296)


طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے ( Organisms ) اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔

( مصر ) کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ ( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
(بشکریہ: ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ)
http://baseeratonline.com/2014/12/14/حدیث-نبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-اور-سائنس-ک/


مزید تفصیلات کے لیے متذکرہ ربط یا گوگل بابا سے استفادہ کیجئے۔:LOL:
 
آخری تدوین:

ثاقب عبید

محفلین
محترم نہایت معذرت کے ساتھ!
یہ جو مفہوم آپ نے تحریر کیا ہے یہ بات مشرکوں اور کافروں کو بطور چیلنج کہا گیا تھا کہ کہ جن کو تم پوجتے ہو، جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ مکھی بنانا تو دور کی بات اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو وہ اسے چھڑوا نہیں سکتے یعنی واپس نہیں حاصل کرسکتے۔



مگر آج کی سائنس کا جواب الگ نہیں ہے بلکہ سائنس کی بھی وہی تحقیق ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔:)





لیجئے محترم سائنس کی تحقیق بھی پیش خدمت ہے اب کیا خیال ہے مکھی ڈبو کر پینے کے بارے میں؟ :)
انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences

رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔

"مکھی جب کھیتوں اور سبزیوں پر بیٹھتی ہے تو اپنے ساتھ مختلف بیماریوں کے جراثیم اٹھا لیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ جراثیم مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ مکھی کے پیٹ میں بکتر فالوج نامی ایک مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو زہریلے جراثیم کو ختم کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ اگر تم کسی نمکین پانی میں مکھی کے پیٹ کا مادہ ڈالو تو تمہیں وہ بکتر فالوج مل سکتا ہے۔ جو مختلف بیماریاں پھیلانے والے چار قسم کے جراثیم کو ہلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مکھی کے پیٹ کا یہ مادہ بدل کر بکتر فالوج کے بعد ایک ایسا مادہ بن جائے گا جو چار مزید قسم کے جراثیم کوفنا کرنے کے لیے مفید ہوگا۔ "۔
اب عرب کے ایک اسلامی ادارے جمعیۃ الھدایۃ الاسلامیۃ کی تحقیقات ملاحظہ ہوں ۔ انہوں نے مکھی پر ایک طویل مضمون شائع کیا ۔ جس کا قابل ذکر حصہ یہ ہے۔

"مکھی کے جسم میں جو زہریلا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے مبعد البکتیریا کہتے ہیں۔ مکھی کے ایک پر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ البکتیریا کو اس کے پیٹ سے ایک پہلو کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا مکھی جب کسی کھانے یا پینے کی چیز پر بیٹھتی ہے تو پہلو سے چمٹے ہوئے جراثیم اس میں ڈال دیتی ہے۔ ان جراثیم سے بچانے والی پہلی چیز وہ مبعد البکتیریا ہے۔ جسے مکھی اپنے پیٹ میں ایک پر کے پاس اٹھائے ہوتی ہے۔ لہٰذا چمٹے ہوئے زہریلے جراثیم اور ان کے عمل کو ہلاک کرنے کیلئے یہ چیز کافی ہے کہ پوری مکھی کو کھانے میں ڈبو کر باہر پھینک دیا جائے۔

دیکھئے، تفہیم الاسلام صفحہ ۴۵۵
(بشکریہ محمد شاکر کراچی۔ http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=296)


طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے ( Organisms ) اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔

( مصر ) کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ ( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )
(بشکریہ: ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ)
http://baseeratonline.com/2014/12/14/حدیث-نبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-اور-سائنس-ک/


مزید تفصیلات کے لیے متذکرہ ربط یا گوگل بابا سے استفادہ کیجئے۔:LOL:

بہت خوب تجمل صاحب۔ میری معلومات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثيرا۔
 

تجمل حسین

محفلین
پس ثابت ہوا!

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا

اسلامی سائنس بھی عجب نرالی شے ہے

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا

محترم آپ نے شاید دھیان اور توجہ سے پڑھا ہی نہیں میں نے پہلے غیر مسلموں کے طبی رسالہ کا حوالہ دیا تھا بعد میں مسلمانوں کی ریسرچ پیش کی تھی۔
اگر آپ نے غور سے نہیں پڑھا تو دوبارہ پڑھ لیں۔ :glasses-nerdy:
انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences

رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔
 

زیک

مسافر
محترم آپ نے شاید دھیان اور توجہ سے پڑھا ہی نہیں میں نے پہلے غیر مسلموں کے طبی رسالہ کا حوالہ دیا تھا بعد میں مسلمانوں کی ریسرچ پیش کی تھی۔
اگر آپ نے غور سے نہیں پڑھا تو دوبارہ پڑھ لیں۔ :glasses-nerdy:
یہ کونسا رسالہ ہے؟ اس کا کوئی حوالہ کہ یہ مشہور تو کیا موجود بھی ہے؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
انگلینڈ کے مشہور طبی رسالہ Doctorian Experiences

رسالہ نمبر ۱۰۵۷۔ اس میں مکھی کے متعلق نئی تحقیق یوں بیان کی گئی ہے۔
یہ doctorian بھلا کیا لفظ ہوا۔ اور اس رسالے کا ربط عنایت کیجئے کیوں کہ گوگل پر سرچ کرنے سے متذکرہ بالا رسالہ مشہور تو کیا مذکور بھی نہیں۔
 
Top