کچھ فیصلے انسان اپنے دل سے کرتا ہے تو کیا دل میں ذہن جیسی پراسیسنگ ہوتی ہے؟
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں دل سے مراد آپ خیال کا وہ پہلو لے رہے ہیں جو ہمارے خیال کے اس پہلو کے خلاف دلائل دیتا ہے جو منطق کے مطابق سوچ کر فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
اگر میں غلط ہوں تو براہ کرم اصلاح فرما دیجئے گا۔
انسانی سوچ بے شک ایک جال کی طرح کام کرتی ہے جس کی بہت سے گرہیں ہیں اور بہت سے راستے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم تربوز کے متعلق سوچتے ہیں لیکن ہمارا ذہن یا ہمیں کسی اور تانے بانے میں ٹیوب ویل کا منظر دکھا کر اس تربوز کو اس کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش میں مشغول ہوتا ہے اس میں کھیت ، بیل ، پانی، کسان، بیج ، دھوپ کچھ بھی آ سکتا ہے۔
یا پھر ہم ایک مسئلے کا منطقی حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں جو منطق اور اسباب و علل سے جڑا ہوا ہے جبکہ سوچ کا وہی پہلو جسے آپ دل سے تشبیہہ دیتے ہیں آپ کو کچھ ایسا کرنے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے جو بظاہر اس منطق اور اسباب و علل سے مرتبط نہیں ہے اور آپ اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی دوسری رائے کو پہلی رائے پر ترجیح دے کر عمل کر لیتے ہیں اور ایسی صورت میں اگر یہ عمل کامیاب ہو تو آپ کا یقین اس دوسرے پہلو پر زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ پہلے پہلو سے آپ کو اپنا تعلق نسبتا کمزور محسوس ہوتا ہے۔
ایسے میں اگر اس سوچ کے جال پر اس یوزر مینوئیل اور نقشہ کی گرفت نہ رکھی جائے تو اس سے گمراہی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ یہ سوچ عموما منطق اور اسباب و علل کی مخالفت کرتی ہے ہم اسے دل کا نام دیتےہیں اور یہی وہ دل ہے جس کا بگاڑ زندگیاں تباہ اور آخرت برباد کر دیتا ہے-اور عقل یا دماغ (جو عموما اسباب و علل کا پابند ہوتا ہے) سے زیادہ اس دل (اسباب و علل سے آزاد سوچ) کو روشن اور پاکیزہ اور مطیع ہدایت کرنے پر زور دیا جاتا ہے
اور ایمان تو نام ہی دل (اسباب و علل سے پاک سوچ) کے مان جانے کا ہے ۔ خدا پر یقین صرف چیزیں دیکھ کر کرنا چاہیں گے تو دہریہ ہونے کا خطرہ ہے جبکہ یہاں آپ کا دل آپ کو بتا رہا ہے کہ خدا ہے ہے ہے لیکن آپ اسے عقل کی حدوں میں قید کرنے کی کوشش کریں گے تو اسٹیفن ہاکنگز تو بن سکتے ہیں مومن باللہ نہیں
ابو جہل کا دل مانتا تھا کہ خدا ہے اور اسی خدا نے اپنے محبوب کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا لیکن اس کا دماغ تمام تر دلائل دیکھنے کے باوجود اسی جال کے تانے بانے میں موجود دوسرے اسباب و علل (مال -جاہ و حشم ، تفاخر -تسلط)کو مرکز یقین بنا کر اسے حق سے تجاہل برتنے پر راضی رہا اور اس رضا میں جب اس کا دل مطیع جہل ہو گیا جس میں اسکی اپنی مرضی شامل تھی لہذا معذور نہ رہا بلکہ ابو جہل کہلایا