انیس الرحمن
محفلین
چالاک خرگوش کے کارنامے
ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دینے والا بچوں کا ناول
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دینے والا بچوں کا ناول
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
مکھّن چور
ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کسی نے بہت سا مکھن چرا لیا ہے۔ سب جانوروں کو بڑی تشویش ہوئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز ایک جانور ساری رات جاگ کر پہرا دے۔ پہلی باری ریچھ کی آئی۔ وہ مرتبان سامنے رک کر بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے ریچھ کی ٹانگیں درد کرنے لگیں۔ رات کے پچھلے پہر باہر کھُسر پھُسر کی آواز سنائی دی۔ ریچھ کے کان کھڑے ہوگئے۔ کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا، "بیری کے درخت والے چھتّے میں سوراخ ہو گیا ہے۔ سارا شہد بہا جا رہا ہے، بھیّا ریچھ ہوتے تو انہیں بتا دیتا۔"
ریچھ شہد کھانے کا بڑا شوقین تھا۔ وہ سب کچھ بھول بھال کر باہر کی طرف لپکا۔ اُدھر خرگوش اندر آیا اور مکھّن کا مرتبان نکال کر جی بھر کے مکھّن کھایا اور ریچھ کے آنے سے پہلے باہر چلا گیا۔ بےچارا ریچھ ناکام واپس لوٹا۔
اگلی صبح جانوروں نے مکھّن کم پایا تو انہوں نے ریچھ کو بہت برا بھلا کہا اور سزا کے طور پر سال بھر کے لیے اس کا مکھّن بند کر دیا۔
اگلے دن کتّے کی باری تھی۔ وہ دن بھر پہرا دیتے دیتے تھک گیا۔ رات کو پھر خرگوش آیا۔ اس نے کتّے کو زور سے سلام کیا، "ہیلو بھیّا بھوں بھوں! کیسے مزاج ہیں؟"
کتّا بولا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ ذرا دوڑ لگائیں۔"
کتا دوڑنے کا بہت شوقین تھا۔ جھٹ تیار ہو گیا۔ خرگوش نے کہا، "میں گھاس میں دوڑتا ہوا لمبا چکّر کاٹ کر پل تک جاتا ہوں، تم سڑک سڑک جاؤ، دیکھیں پہلے کون ہاتھ لگا کر واپس لوٹتا ہے۔"
کتّا مان گیا۔ دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش گھاس میں کچھ دور دوڑا، پھر دُبک کر بیٹھ گیا۔ جب کتّا کافی دور نکل گیا، تب وہ اطمینان سے باہر نکلا اور اس نے گودام میں جا کر جی بھر کے مکھّن کھایا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔
اتنے میں کتّا دوڑ لگا کر واپس آ گیا۔ اس نے ہانپتے ہوئے آواز دی، "اے خرگوش بھیّا! کہاں ہو تم؟"
خرگوش نے گھاس سے سر نکالا اور جھوٹ موٹ ہانپتا ہوا باہر آیا اور کتّے سے ہاتھ ملا کر گھر کو چل دیا۔
اگلے دن بےچارا کتّا بھی سال بھر کے لیے مکھّن سے محروم کر دیا گیا۔
اب بھیڑیے کی باری تھی۔ وہ بھی دن بھر مرتبان سامنے رکھ کر بیٹھا رہا۔ رات کو خرگوش پھر آیا۔ اس نے بھیڑیے کو گدگداتے ہوئے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیڑیے خان؟"
بھیڑیا گدگدی کے مارے ہنسنے لگا۔ خرگوش نے اور زیادہ گدگداتے ہوئے کہا، "اتنا نہیں ہنسا کرتے بھیڑیے بھیّا!"
بھیڑیا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ اسے گدگدی بہت ہوتی تھی۔ خرگوش نے دونوں ہاتھوں سے گدگداتے ہوئے کہا، "جو زیادہ ہنستا ہے، وہی زیادہ روتا بھی ہے۔"
بھیڑیا ہنستے ہنستے اپنی کرسی سے لڑھک گیا اور زمین پر لوٹنے پوٹنے لگا۔ خرگوش نے اسے کرسی پر بٹھایا اور گرد جھاڑنے کے بہانے اس کی آہستہ آہستہ مالش کرنے لگا۔
بھیڑیا سو گیا۔ تب خرگوش اندر گیا۔ اس نے جی بھر کے مکھّن کھایا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ اگلے دن بھیڑیے کا بھی وہی حشر ہوا۔ سال بھر کے لیے مکھّن بند!
اب لومڑ کی باری تھی۔ رات کو پھر خرگوش آیا۔
"اوہو! آج لومڑ بھیّا کی باری ہے۔" خرگوش نے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیّا جی؟"
لومڑ نے بیزاری سے کہا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ آنکھ مچولی کھیلیں۔"
"اور اگر چور آ گیا تب؟"
خرگوش بولا، "ہم دونوں اس کا بھُرتا بنا دیں گے۔"
لومڑ مان گیا۔ دونوں درختوں کے پیچھے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں لومڑ اتنا تھک گیا کہ وہ آرام کرنے زمین پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔
اگلے دن اس کو بھی سزا ملی۔ سال بھر تک مکھّن بند۔
لومڑ ذرا ہوشیار جانور تھا۔ اس نے اپنا شبہ خرگوش پر ظاہر کیا۔ اب تو سب جانور باری باری اپنی آپ بیتی بیان کرنے لگے۔ سب کو یقین ہو گیا کہ خرگوش چالاکی سے مکھّن چُرا لیتا ہے۔ سب جانوروں نے اس دفعہ جنگل کے جاسوس بندر کو چور پکڑنے کے لیے مقرّر کیا۔
بندر مکھّن کا مرتبان نیچے رکھ کر اس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
رات کو خرگوش آیا، "ہیلو بھیّا بندر! کیسے مزاج ہیں؟"
"بہت برے۔" بندر نے رکھائی سے جواب دیا، "صبح سے سر درد اور زکام ہے۔"
"تو آئیے سیر کو چلیں۔" خرگوش بولا۔
"نہیں بھیّا! بالکل موڈ نہیں ہے۔" بندر رکھائی سے بولا۔
آنکھ مچولی بھی نہیں کھیلو گے؟" خرگوش نے اشتیاق سے پوچھا۔
بندر بولا، "نہیں، مجھے بچوں کے کھیل پسند نہیں آتے۔"
خرگوش نے حیرانی سے پوچھا، "تو پھر کونسا کھیل پسند ہے تمہیں؟"
بندر بولا، "رسّا کشی۔"
خرگوش مان گیا۔ بندر نے جھٹ پٹ خرگوش کی دُم سے رسّا باندھا۔ اس دوسرا سِرا درخت سے باندھ کر بولا، "کھینچیے رسّا۔"
اب خرگوش رسّا کھینچنے میں مصروف رہا۔ اُدھر بندر سب جانوروں کو بلا لایا۔ خرگوش انہیں آتے دیکھ کر چونکنا ہوا اور ساری بات بھانپ گیا۔ اس نے دُم چھڑانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
بےچارا خرگوش پکڑا ہی گیا، جانوروں نے سزا کے طور پر اس کی دُم کاٹ ڈالی اور اس کے کانوں کو زور زور سے کھینچا۔ کہتے ہیں میاں خرگوش تب سے لنڈورے ہیں اور اس کے کان بھی لمبے ہیں۔ اس دن سے خرگوش جنگل کے جانوروں سے علیحدہ رہتا ہے۔
دانت گوند میں جم گئے!
بھیڑیے کے کھیت سے شکرقندی چُرانا کوئی آسان کام نہ تھا، کیوں کہ بھیڑیا بہت دبے پاؤں چلتا ہوا آتا اور چور کو پیچھے سے پکڑ لیتا تھا، لیکن خرگوش ہر روز بھیڑیے کے کھیت سے شکرقندی چُرا لاتا۔ وہ پہلے ایک بڑی سی ہڈی کھیت میں دبا دیتا، پھر شکرقندیاں اکھاڑ کر اپنے تھیلے میں بھرتا اور ٹہلتا ہوا کھیت سے باہر چلا جاتا۔بھیڑیے کو بھی شکرقندیوں کی چوری کا پتہ چل گیا۔ ایک دن وہ چور کو پکڑنے کے لیے بھوسے کے ڈھیر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر میں خرگوش بھی آ پہنچا۔ اس نے زمین کھود کے ہڈی دفن کی اور شکرقندی اکھاڑ کر تھیلے میں بھری اور سیٹی بجاتا ہوا چل دیا۔
جونہی وہ بھوسے کے ڈھیر کے پاس پہنچا، بھیڑیا جھٹ سے باہر نکلا اور اس نے خرگوش کو پکڑ لیا۔
"تم میرے کھیت میں کیوں آئے؟" بھیڑیے نے پوچھا۔
خرگوش نے کہا، "میں خود نہیں آیا۔ ہوا تیز تھی۔ اس نے مجھے اڑا کر تمھارے کھیت میں لا پھینکا!"
بھیڑیے نے پوچھا، "پھر تم نے میری شکرقندی کیوں توڑی؟"
خرگوش نے مسمسی صورت بنا کر کہا، "ہوا تیز تھی۔ میں سہارا لینے کے لیے شکرقندی کا پودا پکڑتا وہ جڑ سے اکھڑ جاتا۔"
بھیڑیا خرگوش کی چالاکی پر ہنسا اور بولا، "یہ شکرقندیاں تمھارے تھیلے میں کیسے آ گئیں؟"
خرگوش نے مسکینی سے کہا، "میں بھی اس پر غور کرتا ہوا جا رہا تھا کہ تم نے پکڑ لیا۔"
بھیڑیا چیخ کر بولا، "بس بس۔ اپنی بکواس بند کرو اور کان کھول کر سن لو کہ آج تمہارا قیمہ پکایا جائے گا۔"
خرگوش نے فوراً کہا، "تم بھی کان کھول کر سن لو کہ میں تمہیں ایک راز بتانے والا تھا، جو اب کبھی نہ بتاؤں گا۔"
"وہ کیا ہے بھلا؟" بھیڑیے نے اشتیاق سے پوچھا۔
خرگوش ہونٹ بھینچ کر بولا، "بالکل نہیں بتاؤں گا۔ بےشک تم میرا قیمہ بناؤ یا بوٹیاں اڑا دو۔"
اب بھیڑیے کا اشتیاق بڑھا۔ وہ جتنا پوچھتا، خرگوش اتنا ہی انکار کرتا رہا۔ آخر خرگوش نے کہا، "تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ان شکرقندیوں کی خاطر تمھارے کھیت میں آیا تھا۔ یہ بات بالکل نہیں ہے بھیّا جی!"
"تو پھر؟" بھیڑیے نے پوچھا۔
خرگوش نے کہا، "میں ڈائناسار کی ہڈیاں لینے تمھارے کھیت میں آیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ تمھارے کھیت میں دفن ہیں۔"
بھیڑیے نے کہا، "میں نے تو کبھی ڈائناسار کا نام نہیں سنا۔ پتہ نہیں تم یہ کیا ذکر لے بیٹھے۔"
خرگوش نے حیرانی سے کہا، "ارے تو کیا تم ڈائناسار کا نام نہیں جانتے؟ بھیّا جو ان ہڈیوں کو کھا لیتا ہے، وہ اپنے سے سینکڑوں گنا طاقتور جانور کو مار گرا سکتا ہے۔"
ایسی کہانیاں سنا سنا کر خرگوش پہلے ہی بھیڑیے کو بےوقوف بنا چکا تھا۔ اسے خرگوش کی باتوں کا یقین نہ آیا۔ خرگوش نے پھر کہا، "نہ مانو، تمھاری مرضی! اگر مجھے مل گئیں تو سب سے پہلے تمہیں مار گراؤں گا۔ سمجھے!"
خرگوش نے لمبے لمبے سانس لیے اور جلدی سے بولا، "اوہ! ٹھہرنا ذرا! کیا تمہیں بھی کچھ خوشبو آئی بھیّا؟"
بھیڑیے نے بھی لمبے لمبے سانس لیے۔ اسے قریب ہی دفن کی ہوئی ہڈیوں کی خوشبو آئی جو صبح خرگوش نے دفن کی تھیں۔
وہ دونوں جلدی جلدی زمین کھودنے لگے۔ خرگوش نے اپنے قریب ہی دبی ہوئی ایک بڑی سی ہڈی نکالی اور چپکے سے اس پر گاڑھے گاڑھے گوند کی شیشی انڈیل دی اور جلدی سے بولا، "ارے یہ رہی۔ میں نے نکال لی ہے۔"
بھیڑیا بےصابری سے بولا، "لاؤ لاؤ! کہاں ہے؟ مجھے دو۔"
اس نے خرگوش کے ہاتھ سے ہڈی چھین لی اور چبانے کے لیے اس پر منہ مارا۔ لیکن اس کے دانت گوند میں گڑ کر جم گئے اور منہ چپک کر رہ گیا۔
"غرغر۔۔۔۔۔ خرخرخر۔۔۔۔۔" بھیڑیے نے خرگوش کو امداد کے لیے پکارنا چاہا، لیکن اس کے منہ سے کچھ بھی تو نہ نکل سکا۔
بےچارہ کبھی ایک ہاتھ سے ہڈی کھینچتا۔ کبھی دونوں ہاتھوں سے زور لگاتا۔ اس کوشش میں اس کی آنکھیں باہر اُبل آئیں۔ پسینے سے جسم شرابور ہو گیا اور آخر ہڈی منہ سے باہر نکل تو آئی، لیکن اس کے ساتھ بھیڑیے کے چار دانت بھی باہر آ رہے۔
خرگوش جو سب تماشا دیکھ رہا تھا، اب چپکے سے کھسک گیا۔