جادو کا چمٹا اور پھُکنی
خرگوش بہت خوش تھا۔ آج اس نے آدم جی کو ہرا دیا تھا۔ وہ اچھلتا کودتا جنگل سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے لومڑ نے جھپٹ کر اسے پکڑ لیا۔ خرگوش سہم کر بولا، "مجھے جانے دو، چھوڑ دو مجھے۔"
لیکن لومڑ نے اسے اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا اور اسے دو تین زور کے جھٹکے دیے۔ چمٹا اور پھُکنی آپس میں ٹکرائے اور ایک زوردار جھنجھناتی ہوئی آواز پیدا ہوئی۔
چھن۔ چھنانن۔۔ نن نن نن۔۔۔۔۔
لومڑ نے چمٹے اور پھُکنی کو کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ حیرانی سے بولا، "تم یہ کیا چیزیں لیے پھرتے ہو؟"
خرگوش نے کہا، "یہ جادو کی چیزیں ہیں۔ سمجھے؟"
لومڑ حیرانی سے بولا، "کس کام آتی ہیں یہ؟"
خرگوش نے دو تین دفعہ چمٹا بجایا اور بولا، "جو تم مانگو گے، وہ اس کے دونوں سِروں میں آ پھنسے گا۔"
لومڑ نے پوچھا، "اور یہ دوسری چیز کس کام آتی ہے؟"
"وہ بھی بتاؤں گا۔ پہلے تم اس کا کمال دیکھ لیتے۔"
خرگوش چمٹا بجانے لگا۔ چھنا نن نن۔۔ نن نن۔۔۔۔۔
لومڑ بےصبری سے بولا، "اچھا اس کا کمال دکھاؤ تو سہی۔"
خرگوش نے چمٹے کے دونوں سِرے لومڑ کی ناک کی طرف کیے اور بولا، "آنکھیں بند کر لو۔ تم جو کچھ مانگو گے وہ اس میں آ پھنسے گا۔"
لومڑ نے خرگوش کو پکڑے رکھا اور پھر آنکھیں بند کر کے زور سے بولا، "بھُنی ہوئی مُرغی مل جائے تو مزہ آ جائے۔"
اور اسے سچ مچ مزہ آ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کی ناک زور سے مروڑ رہا ہے۔
لومڑ کی آنکھیں کھُل گئیں اور ہاتھ سے خرگوش بھی چھُوٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ خرگوش پوری قوّت سے چمٹے کے ساتھ اس کی ناک مروڑ رہا ہے۔ لومڑ نے اپنی ناک چھڑانے کی کوشش کی۔ وہ اچھلا کودا، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
خرگوش ہنس کر بولا، "چمٹے کا کمال تو تم دیکھ چکے ہو۔ اب یہ بھی دیکھو کہ پھُکنی کس کام آتی ہے۔"
یہ کہتے کہتے اس نے ٹھکا ٹھک دو تین دفعہ لومڑ کے اس زور سے پھُکنی ماری کہ وہ چیخنے لگا، "او ہو ہو! ہائے ہائے! مر گیا!"
خرگوش ہنس کر بولا، "نہیں ابھی نہیں مرے۔ تم خاموشی سے آگے آگے چلو، ورنہ سچ مچ تمہارا خاتمہ ہو جائے گا۔"
یہ کہہ کر اس نے لومڑ کے منہ پر ایک اور پھُکنی جما دی۔ اب لومڑ چیختا چلّاتا آگے آگے اور خرگوش اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
ایک جگہ لومڑ زور سے اچھلا۔ اس کی ناک چمٹے کی گرفت سے آزاد ہو گئی۔ وہ تیزی سے خرگوش کو پکڑنے کے لیے لپکا۔ اس نے خرگوش کو پکڑ ہی لیا ہوتا اگر وہ لپک کر ایک درخت پر نہ چڑھ جاتا۔
"آجاؤ، اب نیچے آ جاؤ، تمہارا کھیل ختم ہو چکا ہے۔" لومڑ نے کہا۔
خرگوش بولا، "میں نیچے نہیں آ سکتا۔ تم ہی اوپر آ جاؤ نا!"
اب لومڑ درخت پر تو چڑھ نہیں سکتا تھا۔ بس وہ نیچے بیٹھا دانت پیستا رہا۔ وہ بولا، "میں ابھی جا کر کلہاڑی لاتا ہوں۔ درخت کاٹ کر گرا دوں گا، ساتھ ہی تم بھی نیچے آ گرو گے۔"
لومڑ یہ کہہ کر چل دیا۔ خرگوش درخت پر چڑھ تو گیا تھا، لیکن نیچے اترنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اچانک اسے ایک موٹی بھدّی آواز سنائی دی:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دو ا کیا ہے؟
وہ سمجھ گیا کہ ریچھ بھیّا ہیں۔ ذرا اچھے موڈ میں ٹہلتے ہوئے آ رہے ہیں۔ خرگوش کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ بے فکروں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ وہ اتنی زور سے ہنسا کہ درخت پر بیٹھے ہوئے پرندے ڈر گئے۔ ریچھ بھی ڈر کے مارے دُبک گیا، لیکن جب اس نے خرگوش کو دیکھا تو بگڑ کر بولا، "یہ کیا بدتمیزی ہے جی؟ کیوں ہنستے ہو دیوانوں کی طرح سے؟"
خرگوش نے ایک اور قہقہہ مارا، "ہا ہا۔ ہو ہو ہی خی۔ بھئی واہ کیا خوب تماشا ہے!!"
اس نے نیچے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ بس سامنے غور سے دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔ ریچھ بھی حیران ہوا، "ارے! کیا دیکھتے ہو؟ کیا کوئی تماشا ہو رہا ہے؟"
خرگوش نے پھر کوئی توجّہ نہ دی۔ بس غور سے سامنے دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔ اب بھیّا ریچھ نے بےصبری سے چلّا کر کہا، "کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ اس طرح کیوں ہنس رہے ہو؟"
خرگوش نے پہلی دفعہ ریچھ کو جھُک کر دیکھا۔ سلام کیا اور بولا، "بھیّا ریچھ بس پوچھو نہیں کتنا مزیدار تماشا ہو ر ہا ہے۔ یہاں سے مجھے گلشن منزل صاف نظر آ رہی ہے۔ گلشن بیگم اپنی لڑکیوں کو ناچنا سکھا رہی ہے۔ دیکھنا ہے تو اوپر آ جاؤ۔"
"لیکن کیسے آؤں؟" ریچھ نے پوچھا۔
"ارے بھیّا رہے نہ گاؤدی آخر۔ جلدی سے جا کر سیڑھی لے آؤ۔"
ریچھ بھاگا ہوا اپنے گھر گیا۔ وہاں سے سیڑھی لے کر آیا۔
"مجھے تو یہاں سے کچھ نظر نہیں آتا۔" ریچھ سیڑھی پر چڑھ کر بولا۔
خرگوش نے دور سے آتے ہوئے لومڑ کو دیکھا اور بولا، "تم جلدی سے میری جگہ آ جاؤ میں ذرا سیڑھی پر کھسک جاتا ہوں۔"
ریچھ خرگوش کی جگہ جا بیٹھا اور خرگوش تیزی کے ساتھ نیچے اترا۔ اس نے پھُکنی اور چمٹا اٹھایا۔ سیڑھی کندھے پر رکھی اور تیزی سے بھاگا۔
ادھر لومڑ نے آتے ہی درخت کو کاٹنا شروع کر دیا۔ ریچھ نے گھبرا کر نیچے دیکھا اور چلّا کر کہا، "اے لومڑ بھیّا! یہ کیا کرتے ہو تم؟"
لومڑ نے جب ریچھ کی آواز سنی تو بڑا سٹپٹایا۔ جب اس نے خرگوش کی جگہ ریچھ کو بیٹھے دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ لومڑ حیرانی سے چلّایا، "یہ کیا ماجرا ہے؟ یہاں تو خرگوش بیٹھا ہوا تھا۔ تم کہاں سے آ مرے؟"
ریچھ بولا، "میں یہاں گلشن بیگم کی لڑکیوں کا ناچ دیکھنے اوپر چڑھا تھا، لیکن مجھے تو یہاں سے کچھ نظر نہیں آیا۔"
لومڑ اور حیرانی سے بولا، "لیکن تم اوپر چڑھے کیسے؟"
"سیڑھی سے چڑھا اور کیسے چڑھا؟"
ریچھ لومڑ کو پاگل سمجھنے لگا، لیکن اس کو پتا نہیں تھا کہ خرگوش سیڑھی بھی لے گیا ہے۔
"یہاں کوئی سیڑھی نہیں ہے۔" لومڑ بولا۔
ریچھ نے بھی نیچے نظر دوڑائی۔ سیڑھی سچ مچ غائب تھی۔ وہ حیرانی سے چلّایا، "ارے! ابھی تو یہاں تھی۔ یہ سب خرگوش کی شرارت ہے۔ وہ جاتا ہوا سیڑھی بھی لے گیا ہے۔"
لومڑ کے ذہن میں پوری بات آ گئی۔ وہ غصّے سے چیخ کر بولا، "آج میں نے خرگوش پکڑ لیا تھا، لیکن تم نے اسے اپنی بےوقوفی سے بھاگنے کا موقع دے دیا۔"
ریچھ حیرانی سے بولا، "وہ یہاں بیٹھا گلشن بیگم کی لڑکیوں کا ناچ دیکھ رہا تھا، لیکن مجھے تو کچھ نظر نہیں آیا۔"
لومڑ اور زور سے چلّایا، "اور نہ تمہیں نظر آئے گا۔ خیر، تم دیکھتے رہو دن بھر۔ میں تو جا رہا ہوں۔"
لومڑ بڑبڑاتا ہوا چل دیا۔ ریچھ تمام دن دھوپ میں تپتا رہا۔ شام کو اس کی بیگم نے اسے اتارا۔