انیس الرحمن
محفلین
آہ! اس میں زہر تھا
ایک دن خرگوش کو گوشت کا بہت بڑا ٹکڑا راستے میں پڑا ہوا ملا۔ وہ سے لے جانے والا ہی تھا کہ کہیں سے بھیڑیا آ ٹپکا۔اس نے خوش دلی سے پوچھا، "کیسے مزاج ہیں خرگوش بھیّا؟"
لیکن جونہی اس کی نظر گوشت پر پڑی، اس کا لہجہ بدل گیا، "واہ کتنا عمدہ گوشت ہے! یا تو سیدھے طریقے سے تم یہ مجھے دے دو ورنہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اسے کیسے لے جا سکتے ہو۔"
یہ کہتے ہی وہ گوشت کے حصّے بخرے کرنے بیٹھ گیا۔ خرگوش بےچارہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے گوشت کے گِرد دو تین چکر لگائے۔ اسے زور زور سے کئی بار سونگھا اور بولا، "بھیّا بھیڑیے! کیا یہ گوشت تمہیں ٹھیک معلوم ہوتا ہے؟"
بھیڑیے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
خرگوش نے گوشت کے گِرد ایک اور چکّر لگایا اور اسے پنجے سے چھو کر دیکھا۔ پھر ایک زوردار ٹھوکر لگا کر بولا، "بھیڑیے بھیّا! مجھے اِس سے سڑی ہوئی بُو آ رہی ہے۔ تمہیں یہ کیسا معلوم دیتا ہے؟"
بھیڑیے نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔
خرگوش نے کہا، "اچھا، تم مانو یا نہ مانو۔ میں سونگھنے میں غلطی نہیں کرتا۔ یہ زہریلا گوشت ہے۔ اسے کھا کر تم بیمار ہو جاؤ گے۔"
خرگوش نے کچھ لکڑیاں اکھٹّی کیں اور آگ جلائی۔
بھیڑیے نے پوچھا، "تم یہ کیا کر رہے ہو؟"
خرگوش نے کہا، "بس دیکھتے جاؤ۔ میں ابھی دیکھتا ہوں کہ یہ گوشت کیسا ہے۔"
پھر اُس نے گوشت کا ایک ٹکڑا بھونا۔ پھر اُسے سونگھا اور چکھا۔ پھر سونگھا پھر چکھا، یہاں تک کہ وہ سارا ٹکڑا ہڑپ کر گیا۔
پھر وہ اٹھ کر ایک طرف چلا گیا، جیسے اسے کسی چیز کا انتظار ہو۔ بھیڑیا اسے غور سے دیکھتا رہا۔ اچانک خرگوش نے ایک چیخ ماری اور سینہ پکڑ کر لوٹنے پوٹنے لگا۔ اس نے چیخ کر کہا، "بھیّا بھیڑیے خاں، اس میں۔۔۔۔۔ آہ! اوہ۔۔۔۔۔ اس میں زہر تھا۔۔۔۔۔ اب جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لاؤ۔۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔۔ آہ!"
بھیڑیا دوڑتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ جونہی وہ نظروں سے غائب ہوا۔ خرگوش جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور سارا گوشت اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔
بھیڑیا جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں نہ خرگوش ہے نہ گوشت۔
ہفتے بھر خرگوش کے مکان سے طرح طرح کی لذیذ خوش بوئیں آتی رہیں اور بھیڑیا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔
ایک دن اسے راستے میں خرگوش مل گیا۔ بھیڑیے نے غصّے سے کہا، "اے خرگوش! تمہیں مجھے یوں دھوکہ دے کر شرم نہ آئی۔"
خرگوش نے آنکھیں مل مل کر کئی بار بھیڑیے کو دیکھا، پھر جوش کے ساتھ بولا، "اخّاہ! یہ تم ہو بھیڑیے بھیّا! بہت دنوں بعد نظر پڑے۔ عید کا چاند ہو گئے ہو۔ بھابھی اور بچے کیسے ہیں؟"
بھیڑیے نے کہا، "ان سب کو تمہارا انتظار ہے۔"
بھیڑیا خرگوش کو پکڑنے کے لیے دوڑا۔ ٹھیک اُس وقت جب بھیڑیا خرگوش کو پکڑنے ہی والا تھا، خرگوش لپک کر ایک کھوکلے تنے میں گھس گیا اور تیر کی طرح دوسری طرف سے نکل کر جنگل میں غائب ہو گیا۔ بھیڑیے نے خرگوش کو تنے سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور نہ اسے پتہ تھا کہ دوسری طرف بھی سوراخ ہے۔
وہ جلدی سے گھاس پھونس اور لکڑیاں اکھٹّی کر کے لایا اور اسے آگ لگا دی۔ لکڑیاں جلیں اور اس کے ساتھ ہی کھوکھلا تنا بھی جل کر راکھ ہو گیا۔