بدر ہو کر بھی چاند کا سفر جاری ہے۔
مذکورہ خطِ مستقیم سے جب یہ آگے نکل گیا تو دائیں طرف کی شارپ لائن مدھم ہو گئی اور چاند کی ٹکیہ کا اسی طرف کا کچھ حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کیوں؟ کہ اب ہم چاند کا تاریک حصہ بھی ’’دیکھ‘‘ رہے ہیں۔ کبھی یہ دکھائی دے بھی جاتا ہے پر عام طور پر نہیں۔
قمری زاویہ صفر سے بڑھ کر 12 ڈگری کا ہوا تو ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ چاند کی ٹکیہ گول نہیں رہی۔ یہ چاند کے ’’گھٹنے کا عمل‘‘ ہے۔
چلئے صاحب، آدھا سفرتو طے ہوا بقیہ آدھے کے لئے کچھ تیزگامی سے کام لیں، یعنی تفصیلات میں جانے کی اب ویسی ضرورت نہیں رہی۔ چاند کی 21، 22 تاریخ کو ہم چاند کی ٹکیہ کو پھر آدھا دیکھتے ہیں، مگر اس کا رُخ 7 تاریخ والی ’’آدھی روٹی‘‘ کے الٹ ہے۔ 27، 28، 29 تاریخ تک ہمارے سامنے چاند کا تاریک رخ رہ جاتا ہے یعنی چاند دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ان راتوں (27ویں، 28ویں، 29ویں شب) کو لیالِ اسود یعنی کالی راتیں بھی کہتے ہیں کہ ان میں چاند ہوتا تو ہے دکھائی نہیں دیتا۔
یہاں چاند کا چکر پورا ہوتا ہے اور وہ پھر اس خط پر زمین نے ساتھ 180 ڈگری کا زاویہ بناتا ہے اور پھر ۔۔۔
نئے قمری مہینے کا آغاز ہوتا ہے۔
سب کو ہر نیا چاند مبارک ہو!