چست فقرے۔ کیا حذف کیا؟

موضوع شاید فقرہ چست بنانے سے زیادہ تدوین کے استعمال کی جانب چلا گیا ہے، جو عموماً ٹائپو یا املا کی درستی کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ :)
فقرے چست بنانے والی سرگرمی عموماً لمبی تحریر میں کرنی پڑ جاتی ہے۔ دو تین دفعہ کچھ شامل کرنے یا نکالنے کے لیے تدوین ہو جاتی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
موضوع شاید فقرہ چست بنانے سے زیادہ تدوین کے استعمال کی جانب چلا گیا ہے، جو عموماً ٹائپو یا املا کی درستی کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ :)
فقرے چست بنانے والی سرگرمی عموماً لمبی تحریر میں کرنی پڑ جاتی ہے۔ دو تین دفعہ کچھ شامل کرنے یا نکالنے کے لیے تدوین ہو جاتی ہے۔

درست !
دیکھیےہمارا جواب کیسا چُست ہے۔ :p
 
لیں جی۔ کل کی مثال

اصل
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ میں سایہ مل سکے۔

پہلی تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کی صورت میں سایہ اور بارش کی صورت میں چھت مل سکے۔

دوسری تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کے وقت سایہ اور بارش کے وقت چھت مل سکے۔
:)
 
ایک چست "لفظ" اکثر لوگ بولتے ہیں۔
مدعا: معذرت خواہ ہوں میں سمجھ نہیں پایا آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے اپنی بات دہرا دیجئے۔
کہا جانے والا لفظ: "ہیں؟"
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ؒ تحریر کو لہو لہان کردیتے تھے

زیرِ نظر تصویر سے اندازہ لگا لیجیے

31337870_2052838221624880_6249789925261049856_n.jpg

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ڈاکٹر انصاری صاحب کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے ایڈیٹرز میں ہوتا تھا۔ استادِ محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے ایک بار ایک واقعہ سنایا کہ جب ڈاکٹر صاحب اسلامی یونی ورسٹی کے صدر تھے تو میں نے کسی مسئلہ میں کوئی درخواست آپ کی خدمت میں پیش کی تو اس میں بھی ایڈیٹنگ شروع کردی۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے یہ واقعہ خود بھی سنایا اور جہاد والی کتاب کے مقدمے میں بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے میرا ایک ریسرچ پیپر کئی بار ریویو کیا، جس میں دو سال لگ گئے۔

ڈاکٹر ممتاز صاحب امریکہ کے متعدد جامعات میں پروفیسر رہے ہیں خود بھی ایک اچھے محقق تھے، ایک دفعہ ڈاکٹر انصاری صاحب کو اپنی کتاب ایڈیٹنگ کے لیے دی جب مکمل ہوئی تو ممتاز صاحب نے کہا کہ اس میں تو ایک لفظ بھی میرا نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب ''اسلامی جمیعت طلبہ'' کے مؤسسین میں سے تھے اس مناسبت سے سلیم منصور خالد نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے:
کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔

نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں:
’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)

خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میں نے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔''
(بہ یاد ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاریؒ، سلیم منصور خالد، ماہنامہ ترجمان القران لاہور، ستمبر، 2017ء)
 

محمداحمد

لائبریرین
صدر صاحب کی یہ معصومانہ بے باکی ہی غالباً وہ وجہ ہےکہ جس کے باعث انتہائی ضروری مواقع کے علاوہ صدر صاحب کے منصہء شہود پر آنے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ :)
حوالہ

یہ جملہ میں نے کئی ایک بار ترتیب دیا ہے ۔ افسوس کہ اس کے مراحل محفوظ نہیں رکھ سکا۔

اب بھی یہ سرکاری خطوط کے طرز کی عبارت لگتی ہے کہ جس میں پورے پیراگراف کے بعد ہی ختمہ لگایا جاتا ہے۔

اسے چھوٹے چھوٹے فقروں میں کیسے توڑا جائے ۔ یا زیادہ چست کیسے بنایا جائے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
لیں جی۔ کل کی مثال

اصل
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ میں سایہ مل سکے۔

پہلی تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کی صورت میں سایہ اور بارش کی صورت میں چھت مل سکے۔

دوسری تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کے وقت سایہ اور بارش کے وقت چھت مل سکے۔
:)

اچھا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ؒ تحریر کو لہو لہان کردیتے تھے

زیرِ نظر تصویر سے اندازہ لگا لیجیے

31337870_2052838221624880_6249789925261049856_n.jpg

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ڈاکٹر انصاری صاحب کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے ایڈیٹرز میں ہوتا تھا۔ استادِ محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے ایک بار ایک واقعہ سنایا کہ جب ڈاکٹر صاحب اسلامی یونی ورسٹی کے صدر تھے تو میں نے کسی مسئلہ میں کوئی درخواست آپ کی خدمت میں پیش کی تو اس میں بھی ایڈیٹنگ شروع کردی۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے یہ واقعہ خود بھی سنایا اور جہاد والی کتاب کے مقدمے میں بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے میرا ایک ریسرچ پیپر کئی بار ریویو کیا، جس میں دو سال لگ گئے۔

ڈاکٹر ممتاز صاحب امریکہ کے متعدد جامعات میں پروفیسر رہے ہیں خود بھی ایک اچھے محقق تھے، ایک دفعہ ڈاکٹر انصاری صاحب کو اپنی کتاب ایڈیٹنگ کے لیے دی جب مکمل ہوئی تو ممتاز صاحب نے کہا کہ اس میں تو ایک لفظ بھی میرا نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب ''اسلامی جمیعت طلبہ'' کے مؤسسین میں سے تھے اس مناسبت سے سلیم منصور خالد نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے:
کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔

نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں:
’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)

خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میں نے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔''
(بہ یاد ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاریؒ، سلیم منصور خالد، ماہنامہ ترجمان القران لاہور، ستمبر، 2017ء)

کیا بات ہے۔

ویسے میرا خیال تھا کہ جماعت میں بالعموم تما م جماعتوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ کیا اب بھی ایسا ہے۔

شروع شروع میں ایم کیو ایم میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں معلوم ہوتا۔
 

یاز

محفلین
یہ جملہ میں نے کئی ایک بار ترتیب دیا ہے ۔ افسوس کہ اس کے مراحل محفوظ نہیں رکھ سکا۔

اب بھی یہ سرکاری خطوط کے طرز کی عبارت لگتی ہے کہ جس میں پورے پیراگراف کے بعد ہی ختمہ لگایا جاتا ہے۔

اسے چھوٹے چھوٹے فقروں میں کیسے توڑا جائے ۔ یا زیادہ چست کیسے بنایا جائے؟
لیجئے ہماری جانب سے حقیر سی کاوش پیش ہے۔
اصل: صدر صاحب کی یہ معصومانہ بے باکی ہی غالباً وہ وجہ ہےکہ جس کے باعث انتہائی ضروری مواقع کے علاوہ صدر صاحب کے منصہء شہود پر آنے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔

چست کردہ: غالباً صدر صاحب کی اسی معصومانہ بے باکی کے باعث ان کی رونمائی پر غیراعلانیہ پابندی ہے، بجز اشد ضروری مواقع کے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
لیجئے ہماری جانب سے حقیر سی کاوش پیش ہے۔
اصل: صدر صاحب کی یہ معصومانہ بے باکی ہی غالباً وہ وجہ ہےکہ جس کے باعث انتہائی ضروری مواقع کے علاوہ صدر صاحب کے منصہء شہود پر آنے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔

چست کردہ: غالباً صدر صاحب کی اسی معصومانہ بے باکی کے باعث ان کی رونمائی پر غیراعلانیہ پابندی ہے، بجز اشد ضروری مواقع کے۔

خوب ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا بات ہے۔

ویسے میرا خیال تھا کہ جماعت میں بالعموم تما م جماعتوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ کیا اب بھی ایسا ہے۔

شروع شروع میں ایم کیو ایم میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں معلوم ہوتا۔
بھائی صاحب اسی ان پڑھ لوگ ، سانوں کی پتہ
 

عثمان

محفلین
لیں جی۔ کل کی مثال

اصل
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ میں سایہ مل سکے۔

پہلی تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کی صورت میں سایہ اور بارش کی صورت میں چھت مل سکے۔

دوسری تدوین
ہمارے ہاں اوور ہیڈ پل اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ نیچے سے روڈ کراس کرنے والے لوگوں کو دھوپ کے وقت سایہ اور بارش کے وقت چھت مل سکے۔
:)
دو دفعہ تدوین کے باوجود آپ سڑک پار لکھنے کی بجائے "روڈ کراس" ہی لکھتے رہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
ڈاکٹر ممتاز صاحب امریکہ کے متعدد جامعات میں پروفیسر رہے ہیں خود بھی ایک اچھے محقق تھے، ایک دفعہ ڈاکٹر انصاری صاحب کو اپنی کتاب ایڈیٹنگ کے لیے دی جب مکمل ہوئی تو ممتاز صاحب نے کہا کہ اس میں تو ایک لفظ بھی میرا نہیں ہے۔
:)
 
آخری تدوین:
Top