اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ڈاکٹر انصاری صاحب کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے ایڈیٹرز میں ہوتا تھا۔ استادِ محترم ڈاکٹر مشتاق صاحب نے ایک بار ایک واقعہ سنایا کہ جب ڈاکٹر صاحب اسلامی یونی ورسٹی کے صدر تھے تو میں نے کسی مسئلہ میں کوئی درخواست آپ کی خدمت میں پیش کی تو اس میں بھی ایڈیٹنگ شروع کردی۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے یہ واقعہ خود بھی سنایا اور جہاد والی کتاب کے مقدمے میں بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے میرا ایک ریسرچ پیپر کئی بار ریویو کیا، جس میں دو سال لگ گئے۔
ڈاکٹر ممتاز صاحب امریکہ کے متعدد جامعات میں پروفیسر رہے ہیں خود بھی ایک اچھے محقق تھے، ایک دفعہ ڈاکٹر انصاری صاحب کو اپنی کتاب ایڈیٹنگ کے لیے دی جب مکمل ہوئی تو ممتاز صاحب نے کہا کہ اس میں تو ایک لفظ بھی میرا نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب ''اسلامی جمیعت طلبہ'' کے مؤسسین میں سے تھے اس مناسبت سے سلیم منصور خالد نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے:
کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔
نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں:
’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)
خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میں نے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔''
(بہ یاد ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاریؒ، سلیم منصور خالد، ماہنامہ ترجمان القران لاہور، ستمبر، 2017ء)