چند ادبی لطیفے

سیما علی

لائبریرین
ایک بار اشرف صبوحی کسی کام سے حفیظ جالندھری کے گھر گئے۔ وہاں انہوں نے حفیظ جالندھری سے کوئی کتاب طلب کی، جو کسی الماری میں مقفل تھی۔ حفیظؔ صاحب نے بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی: ’’بیگم! ذرا چابی دینا، ایک کتاب نکالنی ہے۔‘‘
اس پر صبوحی چہک کر بولے: ’’ہاں ہاں! ضرور چابی دیجیے انہیں! یہ بھی اب جاپانی کھلونا بن گئے ہیں، چابی کے بغیر نہیں چل سکتے۔‘‘
(’’شاعروں، ادیبوں کے لطیفے ‘‘از ’’شاہد حمید‘‘، ناشر ’’بک کارنر، جہلم‘‘، صفحہ نمبر 286 سے انتخاب)
 

جاسمن

لائبریرین
ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں.
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا ۔
"جون صاحب اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہییے، یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں."
 

جاسمن

لائبریرین
جگر مُراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا، حضرت آپ کی غزل کے اس شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد، میں بڑی مُشکِل سے پِٹنے سے بچا ہوں ۔
جگر صاحب ہنس کر بولے: عزیزم میرا خیال ہے کہ اس شعر میں ضرور کوئی خامی رہ گئی ہوگی، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ پِٹنے سے بچ جاتے.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
منٹو اور کرشن چندر دونوں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ تھے۔ آپس میں افسانہ نگاری کا ایک خاموش مقابلہ بھی جاری رہتا تھا۔ کرشن چندر نے منٹو کی موت پر نقوش میں یہ واقعہ بیان کیا۔ لکھتے ہیں کہ ایک روز منٹو اُن کے کمرے میں آئے اور اپنے نام احمد ندیم قاسمی کا خط پڑھنے کے لیے دیا۔ خط پڑھ کر کرشن چندر بھانپ گئے کہ منٹو کا مقصد کیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے خط میں منٹو کو اُردو افسانے کا ''بادشاہ‘‘ قرار دیا تھا۔ منٹو یہ خط دکھا کر کرشن چندر پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جواب میں کرشن چندر نے دراز کھول کر احمد ندیم قاسمی کا ایک خط منٹو کو پڑھنے کے لئے دیا۔ منٹو خط پڑھ رہا تھا اور کرشن چندر اُس کے چہرے پر تاثرات دیکھ رہے تھے۔ خط میں قاسمی نے کرشن چندر کو اُردو افسانے کا ''شہنشاہ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ پڑھ کر منٹو کا پھولا ہوا سینہ نارمل ہو گیا۔ ایک بادشاہ اور ایک شہنشاہ! دونوں میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ احمد ندیم قاسمی کا بھلا ہو جنہوں نے افسانہ نگاری کا مقابلہ برابری کی بنیاد پر ختم کر دیا ۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
انجمن حمایت اسلام راولپنڈی کے ایک جلسے میں حفیظ جالندھری نے نظم پڑھنے کے بعد جب چندے کی اپیل کی تو تلوک چند محروم نے یہ شعر پڑھا۔

حفیظ کہتے تھے احباب جس کو بندہ نواز
بنا ہے گردش دوراں سے اب وہ چندہ نواز
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
منیر نیازی نے اپنا ایک واقعہ سنایا۔ ایک دفعہ وہ ایک تانگے میں دیگر سواریوں کے ہمراہ کہیں جارہے تھے کہ اس تانگے کی ایک اور تانگے والے سے ٹھن گئی ۔ اب دونوں تانگے نہایت خطرناک انداز میں برابر برابر سڑک پر ریس لگانے لگے ۔ منیر نیازی اور دیگر سواریوں نے گھبرا کر شور مچادیا کہ تانگے کی رفتار کم کرو ۔ جب اصرار بڑھا تو ان کے کوچوان نے مقابل کوچوان کو یہ کہتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں کہ" پْتر !جے میریاں سواریاں بے غیرت نہ ہوندیاں تے تینوں دسدا "۔
 

سیما علی

لائبریرین
میرے خیال آپ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ صحیح بات کر رہے ہیں :)

تخلص کو اس انداز سے استعمال کرنا کہ اس سے وہ نہ صرف ذو معنی ہو جائے بلکہ اس سے شعر چمک اٹھے ایک خوبی ہے، جیسے مومن، داغ یا قمر جلالوی نے اپنے اپنے تخلص کو استعمال کیا ہے۔

تخلص کو بطور اسم یا فعل یا صفت اسطرح استعمال کرنا کہ اس سے یہ واضح ہی نہ ہو کہ شاعر نے اسے بطور تخلص استعمال کیا ہے بہرحال عیب ہے!
بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر
گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بار کسی دعوت میں بہت سے شعرا و ادبا مدعو تھے کھانا آنے سے قبل اس بات پر پر گفتگو ہو رہی تھی کہ صاحب طرز انشا پردازی یا شاعری اکتسابی چیز نہیں ہے کہ انسان اسے محنت سے حاصل کرلے اور وہ اپنے انداز تحریر سے پہچانا جائے بلکہ ایک وہبی صفت ہے جو فطری طور پر اسے ملتی ہے اسی لئے ہم بعض دفعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ غزل غالب یا علامہ اقبال کے رنگ میں ہے یا یہ مولانا آزاد کی سی نثر ہے۔ اتفاق سے سب سے پہلے رائتہ لا کر رکھا گیا تو مجاز کہنے لگے کہ اب دیکھئے رائتے ہی کو لے لیجئے اگر اسے مختلف شعرا استعمال کرتے تو کیسے کرتے۔ جیسے علامہ اقبال کہتے
حیف شاہیں رائتہ کھانے لگا
یا جوش ہوتے تو یوں کہتے:
وہ کج کلاہ جو کھاتا ہے رائتہ اکثر
اور اختر شیرانی کہتے
رائتہ جب رخ سلمیٰ پہ بکھر جاتا ہے
اور میں تو یوں ہی کہتا کہ
ٹھہرئے ایک ذرا رائتہ کھالوں تو چلوں
 

سیما علی

لائبریرین
مرزا غالب دوستوں کی محفل میں بیٹھے تھے اور دہلی اور لکھنو کی اردو میں فرق پر گفتگو جاری تھی کہ کسی نے مرزا غالب سے پوچھا: ”حضور“ 'میرا قلم' صحیح ہے یا 'میری قلم '؟ مرزا غالب نے کہا : عورت لکھےتو ”میری قلم“ مرد لکھے تو "میرا قلم" اسی طرح کسی نے پوچھا : "جُوتا صحیح ہے یا جُوتی" ؟ ایک صاحب کہنے لگے: "بھائی مرزا تو یہی کہینگے کہ عورت پہنے تو جُوتی اور مرد پہنے تو جُوتا"۔ مرزا غالب نے جواب دیا : ”جی نہیں!! زور سے پڑے تو جُوتا ، آہستہ پڑے تو جُوتی۔“ 🤓🤓🤓🤓
 

سیما علی

لائبریرین
لیلٰی گورکھ پوری

برسات کا موسم تھا۔ یونیورسٹی میں چاروں طرف گھاس اُگ آئی تھی۔ گھسیارے گھاس کاٹنے میں جتے ہوئے تھے۔
ممتاز شاعر ،پروفیسر مجنوں گورکھ پوری کی کلاس جاری تھی۔ ایک گھسیارن کلاس کے سامنے والے برآمدے سے گزری۔ طلبا کی نظریں لا محالہ اس کی طرف اٹھیں۔ مجنوں نے بھی اس جانب دیکھا اور بے ساختہ بولے:
’یہ کون ہے؟‘‘

ایک گوشے سے آواز آئی۔۔۔۔۔’’لیلٰی گورکھ پوری‘‘۔


یہ سننا تھا کہ سارے کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔
 

سیما علی

لائبریرین
علیگڑھ یونیورسٹی کا یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ریاضی کی کلاس میں طلبا نے متذکرہ شعر بلیک بورڈ پر لکھ دیا اور مشہور زمانہ و مایہ ناز ریاضی دان استاد، جو بعد ازاں وائس چانسلر بھی رہے، جناب ڈاکٹر ضیاالدین احمد صاحب کا انتظار کرنے لگے، جو یہ کلاس پڑھاتے تھے۔ آپ تشریف لائے اور بورڈ کی طرف دیکھا اور شعر کے سامنے مساوات کا نشان بنایا اور یہ لکھ دیا: ”لا متناہی“ یہ ہے ایک ماہر ریاضی کا جواب کہ وہ عرصہ جس میں 'شبہائے ہجر' کی مدت بھی شامل ہو اس میں وقت کی مقدار کا تعین ممکن نہیں ہے۔
 
Top