چند اقتباسات - میرا مطالعہ

اللہ کبھی کبھار توفیق دیتا ہے تو کچھ مطالعہ ہو جاتا ہے۔ اور اسی مطالعہ میں بعض اوقات کوئی بات دل کو لگتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
یہ لڑی کچھ ایسے ہی اقتباسات کے لیے بنائی ہے۔ ان اقتباسات کا کسی خاص موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
 
”طاہر مسعود: آپ نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھا تھا کہ گزشتہ بیس سال سے دنیا اور بالخصوص ہمارے ملک میں ادیب کم اور ادب کے خوردہ فروش یا بساطی زیادہ پیدا ہو رہے ہیں ۔ آپ کو یہ بات لکھے ہوئے بھی پندرہ بیس برس ہو چکے ہیں ۔ کیا اس عرصے میں صورت حال میں کچھ تبدیلی آئی یعنی واقعتاً کچھ ادیب پیدا ہوئے یا نہیں؟
مجنوں: جی نہیں، اس کے برعکس خوردہ فروشوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں شعر و ادب لکھنے سے کہیں اہم کام ہیں۔
طاہر مسعود: مثلا؟
مجنوں: مثلا گھاس چھیلنا، یہ نہ سمجھیے کہ یہ کہہ کر ادب کی تحقیر کر رہا ہوں لیکن فرض کیجیے اگر گھسیارا غلط گھاس چھیل دے تو لان کی رونق ختم ہو جائے گی۔ ہر کام اپنی جگہ پر ایک نجی تقدس لیے ہوتا ہے۔ کام ایک پاک چیز ہے۔ وہ چیزوں کی ناپاکیاں دور کرتا ہے جو کام ایسا نہیں کرتا، وہ فضول اور بے کار ہے۔
طاہر مسعود: تو آپ کی رائے میں گزشتہ بیس سال میں نہ کوئی اچھا ادب پیدا ہوا ہے اور نہ ہی ادیب؟
مجنوں: صرف بیس سال کیوں؟ چالیس سال کہیے۔ بات یہ ہے کہ زندگی جتنی زیادہ پیچیده ہوتی گئی ہے۔ ادب، فن کاری یا مصوری کے لیے فرصت گھٹ گئی ہے۔ یعنی اب اس کے نک سک کو درست کرنے کی فرصت نہیں۔ اب اشتہار بازی کا دور ہے۔
طاہر مسعود: جی ہاں! آپ نے ایک جگہ زندگی میں آنے والی عجلت اور سنسنی خیزی کو انڈسٹریلائزیشن کا لازمی نتیجہ بتایا ہے۔
مجنوں: صرف عجلت ہی نہیں ہے انڈسٹریلائزیشن کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مشین انسان زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ حالاں کہ مشین انسان کے لیے بنائی گئی تھی لیکن ایسا دھوکے میں ہو گیا۔“

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں مجنوں گورکھ پوری کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 
”طاہر مسعود : مولانا آزاد سے بھی پاکستان کے قیام پر بھی گفتگو ہوئی؟ مولانا کیا فرماتے تھے؟
اختر رائے پوری: تقسیم کے بعد جب سول سروس والوں سے یہ پوچھا جانے لگا کہ وہ پاکستان جائیں گے یا بھارت ہی میں رہیں گے تو میں نے مولانا سے مشورہ کیا کہ آیا میں پاکستان چلا جاؤں یا یہیں رہوں تو مولانا نے مجھ سے کہا کہ ”پاکستان اب بن چکا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے استحکام اور سلامتی کے لیے کام کریں۔“ میں ان ہی کے مشورے پر پاکستان چلا آیا۔

طاہر مسعود : مولانا اگر اس انداز میں سوچتے تھے تو وہ خود کیوں نہیں آئے؟
اختر رائے پوری: اگر آجاتے تو کہا جاتا کہ پہلے مخالفت کی اور اب پاکستان بن گیا تو اپنے مفاد کے لیے یہاں آ گیا۔ ان کا نہ آنا ہی بہتر ہوا۔

طاہر مسعود : ذاتی زندگی میں مولانا آزاد آپ کو کیسے محسوس ہوئے؟
اختر رائے پوری: وہ بہت نفیس اور شان دار آدمی تھے، البتہ ایک آدھ کمزوری ان کی طبیعت میں بھی تھی لیکن اس کا ذکر جانے دیں۔ بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔“

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 
”میرا خیال یہ ہے کہ نہ صرف ہماری اردو شاعری بلکہ عالمی بنیاد پر تمام زبانوں کی جدید شاعری کے لیے جو مسائل درپیش ہیں ان میں موضوعات کی کمی اور موزوں اسالیبِ بیان کا فقدان سب سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اردو شاعری کے دو سب سے بڑے موضوعات - عشقیہ اور غیرعشقیہ (یعنی سیاسی اور غیر شخصی) ایک طرح کساد بازاری کا شکار ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد غیر عشقیہ موضوعات کا دور بھی ختم ہوگیا۔ دوسرا سوال اسالیب بیان کا ہے۔ جس طرح جدید یورپی شاعری قدیم یونان و روم کے علم الاصنام کے تلمیحی خزانوں سے محروم ہوگئی، اسی طرح ہماری اردو شاعری کو بھی تہذیبِ قدیم سے وابستہ اپنے قدیم تلمیحی خزانوں سے محرومی کا سامناکرنا پڑا۔ گل، بلبل، برق، آشیانہ، صیاد وغیرہ جیسی ترکیبوں اور استعاروں کے استعمال کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ اسی طرح غزل میں غیر مخلص قافیہ پیمائی کو بھی اب گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ مسائلی زاویۂ نظر اور تشکیلی تسلسل کو اب سب سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔
ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری کو کسی نظریہ یا نظريات کا تابع ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن جس طرح مغربی شاعری میں ارسطو اور ہاریس (HORACE) سے لے کر آج تک مختلف نظریاتِ شاعری قبول کیے گئے اور بعد میں ان میں سے بعض کے خلاف بغاوت بھی ہوتی گئی، لیکن چند بنیادی تصورات کو بحیثیتِ مجموعی قبول کیا گیا۔ اسی طرح ہماری شاعری کے تخلیقی اور جمالیاتی پہلوؤں کے متعلق بھی نظریات کے پیش کرنے اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے۔“

نعیم صدیقیؒ کے شعری مجموعہ ”پیمانۂ امروز“ کے پیش لفظ ”حرفِ اول“ سے اقتباس
 

یاقوت

محفلین

نعیم صدیقیؒ کے شعری مجموعہ ”پیمانۂ امروز“ کے پیش لفظ ”حرفِ اول“ سے اقتباس
محترم پیمانہ امروز کیا پی۔ڈی۔ایف میں پڑھنے کیلئے مل سکتا ہے۔۔۔۔ کہیں سے نعیم صدیقیؒ کی ایک دو غزلیں پڑھنے کو ملیں جس کے بعد بڑی حسرت ہے انکا کوئی مجموعہ پڑھنےکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
محترم پیمانہ امروز کیا پی۔ڈی۔ایف میں پڑھنے کیلئے مل سکتا ہے۔۔۔۔ کہیں سے نعیم صدیقیؒ کی ایک دو غزلیں پڑھنے کو ملیں جس کے بعد بڑی حسرت ہے انکا کوئی مجموعہ پڑھنےکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا کلام وقتاً فوقتاً یہاں شیئر کرتا رہتا ہوں۔
پیمانۂ امروز، شعلۂ خیال ریختہ پر موجود ہیں
 
”طاہر مسعود : آپ ابلاغ کی اہمیت پر زور دے کر شاعری کو صحافت یا پروپیگنڈے کے قریب نہیں لا رہے ہیں؟
فیض: شاعری اور صحافت میں بس اتنا فرق ہے کہ صحافت میں جمالیاتی پہلو نہیں ہوتا۔ جمالیات کو آپ ابلاغ میں شامل کر لیں تو ادب بن جاتا ہے اور جمالیات کو خارج کر دیں تو وہ صحافت بن جاتی ہے۔

طاہرمسعود: کیا شاعری کی کوئی ایسی قسم ممکن نہیں جسے خود کلامی سے تعبیر کیا جائے؟
فیض: باکل ممکن ہے۔ خالص جمالیاتی شاعری کا تصور بھی موجود ہے اور اس میں فرحت کا پہلو بھی ہے جو شاعری کے لیے لازم ہے لیکن اس کا میدان بہت محدود ہے۔ داغ کی شاعری بہت اچھی ہے لیکن آپ اسے غالب کے مقابلے پر تو نہیں رکھ سکتے ۔ شاعری میں مضمون کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ محض فنی کمال سے بڑی شاعری پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی محض پروپیگنڈے سے۔ دونوں چیزیں یک جا ہوں، تب جا کر بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔ خالص رومانی یا خالص غنائی شاعری کی تحقیر نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی اپنی جمالیاتی افادیت ہے۔“

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں فیضؔ کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 
”طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ ن۔ م۔ راشد نے اظہار کے نئے نئے سانچے بنائے اور اسلوب میں بھی تجربات کیے؟
فیض: تجربات تو ضرور کیے مگر محض تجربہ کرنا کافی نہیں ہے۔ تجربے کی اہمیت تو اسی وقت ہوتی ہے، جب تجربہ کامیاب ہو۔ ایک شاعر کا تجربہ جو اس کی حد تک محدود رہا اور شاعر کا حال یہ ہے کہ اسے آگے کا راستہ نہیں مل رہا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تجربہ کا کمال یہ ہے کہ اس سے بڑا آرٹ پیدا ہو۔

طاہر مسعود: ایلیٹ نے لکھا ہے کہ ندرت تکرار سے بہتر ہے۔
فیض: تکرار سے تو ہر چیز بہتر ہے۔ آپ اقبال کی مثال لیں۔ ان سے زیادہ تکرار کس کے یہاں ملتی ہے مگر اس سے ان کی شاعری میں فرق تو نہیں آیا۔ تکرار کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ مکھی پر مکھی مارتے چلے جائیں اور دوسری یہ کہ آپ ایک پرانے مضمون کو اس طرح آگے بڑھائیں کہ اس میں حسن پیدا ہو جائے اور تکرار باقی نہ رہے۔“

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں فیضؔ کے انٹرویو سے ایک اور اقتباس
 
”اسلوب کیا ہے؟
سقراط نے کہا تھا: انسان اپنے کلام سے پہچانا جاتا ہے۔ کلام کیا ہے؟ انسانی خیالات اور جذبات و احساسات کا ترجمان، اور جو کلام ادائے خیالات اور اظہارِ جذبات کے لیے وسیلے کا کام کرتا ہے، دراصل اسی سے اسلوب کی تشکیل بھی ہوتی ہے۔ یوں ہر شخص کے سوچنے اور محسوس کرنے کا مخصوص انداز ہوتا ہے۔ سوچنے اور محسوس کرنے کا مخصوص انداز آدمی کے لب و لہجے میں ایک انفرادیت پیدا کر دیتا ہے، اور یہی انفرادیت فن کار کا اسلوب کہلاتا ہے۔ فنون لطیفہ میں، خواہ مصوری ہو یا بت تراشی، موسیقی ہو یا ادب، اسلوبِ ادا کی بڑی اہمیت ہے۔ جب ہم کسی شعریا نثر پارے کی تعریف کرتے ہیں تو بسا اوقات اس کے موضوع کی نہیں بلکہ اس اسلوب ادا کی تعریف کرتے ہیں جو فن کار نے اپنی تخلیق میں اختیار کیا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اسلوب کی درج ذیل تعریفیں جامع اور مستند کہی جا سکتی ہیں:
* مصنف کی شخصیت ہی کا دوسرا نام اسلوب ہے۔(یوفون)
* اسلوب، خیال کا لباس ہے۔(پوپ)
* اسلوب، مصنف کی تمام زندگی کا عکس ہے۔(ڈاکٹر روز)
* اسلوب اس طرزِ تحریر اور طرزِ بیان کا نام ہے جس کے ذریعے ایک شخص اپنے خیالات اور جذبات کو بیان کرتا ہے۔(ایلن وارنر)
* اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ انفرادی طرزِ نگارش ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے میز ہوتا ہے۔(عابد علی عابد)
* اسلوب کی عظمت شخصیت کی صدائے بازگشت ہے۔ (لیوکس)

ان تمام تعریفات کا مجموعی تاثر یہی مرتب ہوتا ہے کہ اس میں بیک وقت جامعیت بھی ہے، وسعت و تنوع بھی اور بوقلمونی و نیرنگی بھی .................. اسلوب کی اہمیت علمائے ادب کے درمیان نزائی مسئلہ نہیں رہی، بلکہ اس میں جدت طرازی ان کا وتیرہ رہی ہے۔ یہ جدت طرازی اگر شعوری ہوئی تو خون جگر کرنا پڑا یا پھر ماحول کے ذریعے ان کے لاشعور کی پرداخت نے انھیں ایک خاص میزان عطا کر دیا۔ چنانچہ اس فطری طرزِ ادا نے ایک مخصوص اسلوب کی شکل اختیار کر لی اور اس کے ذریعے، وہ اپنے فکر و خیال کے موثر اظہار و ابلاغ پر قادر ہوا۔ فن کار کے ہر تخلیقی عمل میں اسلوب کی حیثیت ایک معتبر معاون کی ہے۔ فن کار اسلوب کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور اسلوب کی بقاء، بہر حال ایک فن کار کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی ادب پارے کو موثر اور دل پذیر ہونے کے لیے اس کے اسلوب کی انفرادیت لازمی ہے، جس کی تزئین کاری کے لیے اس میں دل کشی اور دل نشینی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلوب کی یہی خصوصیت ایک عام لکھنے والے اور صاحب طرز ادیب میں امتیاز قائم کرتی ہے۔“

ڈاکٹر امتیاز احمد کے پی ایچ ڈی کے مقالہ ”مولانا مودودیؒ کی نثر نگاری“ سے اقتباس
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
”طاہر مسعود : آپ ابلاغ کی اہمیت پر زور دے کر شاعری کو صحافت یا پروپیگنڈے کے قریب نہیں لا رہے ہیں؟
فیض: شاعری اور صحافت میں بس اتنا فرق ہے کہ صحافت میں جمالیاتی پہلو نہیں ہوتا۔ جمالیات کو آپ ابلاغ میں شامل کر لیں تو ادب بن جاتا ہے اور جمالیات کو خارج کر دیں تو وہ صحافت بن جاتی ہے۔

طاہرمسعود: کیا شاعری کی کوئی ایسی قسم ممکن نہیں جسے خود کلامی سے تعبیر کیا جائے؟
فیض: باکل ممکن ہے۔ خالص جمالیاتی شاعری کا تصور بھی موجود ہے اور اس میں فرحت کا پہلو بھی ہے جو شاعری کے لیے لازم ہے لیکن اس کا میدان بہت محدود ہے۔ داغ کی شاعری بہت اچھی ہے لیکن آپ اسے غالب کے مقابلے پر تو نہیں رکھ سکتے ۔ شاعری میں مضمون کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ محض فنی کمال سے بڑی شاعری پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی محض پروپیگنڈے سے۔ دونوں چیزیں یک جا ہوں، تب جا کر بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔ خالص رومانی یا خالص غنائی شاعری کی تحقیر نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی اپنی جمالیاتی افادیت ہے۔“

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں فیضؔ کے انٹرویو سے ایک اقتباس

فیض صاحب کی یہ بات سمجھنے میں مجھے ایک زمانہ لگا ۔ اسی بات کو فیض نے بہتر اور واضح تر انداز سے افتخار عارف کے مجموعے"مہرِ دو نیم" کے پیش لفظ میں بھی بیان کیا ہے ۔ ابلاغ کی اہمیت پر کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ: شاعر معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے ۔ لیکن اس آنکھ کا کام محض قطرے میں دجلہ دیکھنا نہیں بلکہ دجلہ دکھانا بھی ہے۔
 
"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"

اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
 

یاقوت

محفلین
"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"

اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
بے اختیار جو منھ سے نکلا وہ ہے ""ہائے ہائے ""
 
"طاہر مسعود: ہماری نئی تہذیب ادب کو اپنی ضروریات میں شمار نہیں کرتی۔ وہ ادب سے منہ موڑ چکی ہے اور دوسرے ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات ، فلم ، موسیقی اور دوسری تفریحات انسان کی ذہنی و روحانی تھکن کو دور کرنے کے لیے بہت کافی ہیں ۔ پھر ایسے میں ادب کی کیا ضرورت ہے؟

سلیم احمد: وہ ادب کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ سطح پر زندہ رہنے سے کام چل جائے گا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کو اچھے خواب دکھاتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ خود آپ کے نفس میں اور آپ کے معاشرے کی تہوں میں تخریب کے کتنے ہولناک عناصر کام کر رہے ہیں اور آپ اس میں خوش رہنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور اخبار ایک افیون کا کام کرتے ہیں اور آپ اس کے سرور میں خود آگہی اور اپنی صورت حال کی صحیح شناخت اور علم سے محفوظ رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں۔ آپ کے ضمیر پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا کہ جس اخبار کے اداریے میں آپ کو اخلاقیات کا بہترین درس دیا گیا ہے اور جس میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ ہم اسلام کی طرف کسی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ان ہی صفحات پر قتل، اغوا، ڈکیتی، رشوت، مجرمانہ حملوں کی خبریں چھپی ہوتی ہیں۔ آپ ان دونوں کو اپنے ذہن کے خانوں میں الگ الگ رکھتے ہیں اور اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں، ایک ادیب یہ نہیں کر سکتا۔ ایک ادیب آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے معاشرے میں ظاہری سطح کے نیچے کیا ہو رہا ہے اور خود آپ کے وجود کی تہوں میں کیا ہلچل مچی ہوئی ہے۔ وہ ریا کاری کا پردہ چاک کرتا ہے، وہ منافقت کو بے نقاب کرتا ہے اور یقین کیجیے کہ سماجی منافقت سے زیادہ ہمیں کسی اور چیز سے خطرہ نہیں ہے۔"

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں سلیم احمد کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 
"طاہر مسعود: شہزادصاحب! گفتگو کا آغاز ایک نازک سے سوال سے ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری کل وقتی کام ہے۔ شاعری اور دنیاوی معاملات کامیابی اور حسن و خوبی سے یکساں طور پر نہیں چل سکتے۔ آپ شاعر بھی ہیں اور افسر بھی۔ یہ فرمائیے کہ آپ نے ان دونوں میں توازن کیسے قائم رکھا ہے؟
شہزاد احمد : میں نے دونوں میں کوئی توازن قائم نہیں رکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں ایک تخلیقی شخصیت دوسری مشینی شخصیت۔ بعض عادات جو آپ سیکھتے ہیں ابتدائی مرحلے میں وہ ایک تخلیقی کام ہوتا ہے۔ جب آپ سائیکل چلانا سیکھ لیتے ہیں تو آپ کے لیے تخلیقی یا تربیتی کام نہیں رہتا۔ پھر آپ اسے اپنے روبوٹ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ آدمی بہ یک وقت تخلیقی اور روبوٹ کی سطح پر زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے بہت سے کام ہم نہیں کرتے، ہمارا روبوٹ کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی چیز کون سی ہے؟ اگر تمام فیصلے روبوٹ کرتا ہے تو آپ تخلیقی آدمی نہیں ہیں لیکن اگر آپ روز مرہ کی چیزوں سے ہٹ کر بھی فیصلے کرتے ہیں تو آپ یقیناً تخلیقی آدمی ہیں۔ یہ تضاد ہے، لیکن اس تضاد سے کوئی بھی مبرا نہیں۔"

ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں شہزاد احمد کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 
"طاہر مسعود: کیا اچھی شاعری کے لیے مقبول ہونے کی شرط ضروری ہے؟
شہزاد احمد: بالکل نہیں۔
طاہر مسعود: لیکن وہ مقبول بھی ہوتی ہے؟
شہزاد احمد: اگر مقبول ہوتی ہے تو لوگ اس کی کوئی جہت ڈھونڈ نکالتے ہوں گے۔ تخلیق کا عمل مقبولیت کے خلاف ہے۔
طاہر مسعود: کیا مقبولیت کوئی بری چیز ہے؟
شہزاد احمد: بری چیز کا سوال نہیں ہے جو مروج ہے یا فرمائشی چیز ہے، اگر آپ کو وہی کرنا ہے تو یہ کوئی تخلیقی عمل نہیں ہے۔ تخلیقی عمل تو یہ ہے کہ آپ چیزوں کو جس طرح محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار اس طرح کریں۔ اگر آپ کا اظہار ویسا ہی ہے جیسا عام لوگ کرتے ہیں تو یہ ادب نہیں ہے۔ ادب کی جو اعلیٰ سطح ہے اس میں مقبولیت کی گنجائش بہت کم ہے۔ جو شاعری عام طور پر مقبول ہوتی ہے اس میں کلیشے کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔
طاہر مسعود : اگر آپ کی شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کی شاعری کے جوہر میں وہ کون سا عنصر ملتا ہے جس نے اسے مقبول ہونے سے روکے رکھا؟
شہزاد احمد: مقبولیت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ لکھنے والے کا مسئلہ ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر وہ کچھ محسوس کر رہا ہے کہ اسے کچھ لکھنا ہے تو اسے لکھ دے۔ مقبولیت لکھنے والے کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے روبوٹ کا مسئلہ ہے کہ آپ مقبول ہوتے ہیں یا نہیں۔"
ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں شہزاد احمد کے انٹرویو سے ایک اور اقتباس
 
"طاہر مسعود: آپ طنز اور مزاح میں زیادہ بڑا درجہ کسے دیتے ہیں؟
کرنل محمد خان: اگر طنز لطیف ہو تو یہ مزاح سے بڑی چیز ہے لیکن ایسا طنز کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ابن انشا جیسا طنز لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں بیش تر طنز نگار اس طرح طنز کرتے ہیں جیسے کلہاڑا چلا رہے ہوں۔ اعلیٰ درجے کے طنز کے لیے مخصوص دماغی ساخت کی ضرورت ہوتی ہے جو کم از کم میرے پاس ناپید ہے۔
طاہر مسعود: مزاح کا مقصد صرف مزاح ہی ہوتا ہے جب کہ طنز کا مقصد مزاح کے علاوہ کچھ اور بھی ہوتا ہے مثلاً معاشرے کی مختلف ناہمواریوں کی طرف اشارہ کرنا، چوں کہ طنز ایک طرح کے سماجی مقصد سے وابستہ ہے اس لیے اس کی اہمیت مزاح سے بڑھ کر ہے۔ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟
کرنل محمد خان: طنز میں ایک زائد خوبی اصلاح کا پہلو ہے۔ مزاح کی اپنی ایک اہمیت ہے جو چیز کسی انسان کو خوش کرتی ہے، اس کی یہ خوبی کہ وہ کسی کو خوش کرتی ہے، یہ بجائے خود ایک بڑی قدر ہے۔ مقصد کیا ہے؟ کیا انسان کو مسرت بہم پہنچانا ایک مقصد نہیں ہے؟ آپ کسی کو میٹھا بول بولتے ہیں، کسی کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان سب کے پس منظر میں ایک مقصد کارفرما ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے جب کوئی خط آتا ہے کہ میں نے آپ کی کتاب پڑھی اور بے حد مسرور ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ میں نے ایک خدمت انجام دی ہے۔"
ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں کرنل محمد خان کے انٹرویو سے ایک اقتباس
 

الف نظامی

لائبریرین
انتظار حسین لکھتے ہیں:
ہجرت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ کیا میں ہجرت کو بھول جاوں؟ اگر ہم پاکستان پہنچ چکے ہیں تو کیا میں 1947 کو فراموش کر دوں؟ اگر میں اسے بھول گیا تو پاکستان میرے لئے بے معنی ہو جائے گا جس تاریخ کے پیٹ سے پاکستان پیدا ہوا ہے۔ اس تاریخ کو لوگ کہتے ہیں کہ بھول جاو ، حالاں کہ یہ تو ناجائز اولاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جائے۔
ہجرت کے دو پہلو ہیں۔ ایک ذہنی اور دوسرا جسمانی۔
اس علاقہ کے لوگوں کو بھی ایک سطح پر ہجرت سے گزرنا پڑا ہے۔ پہلے یہ علاقہ ہندوستان میں تھا۔ انہیں ذہنی سفر کر کے پاکستان اس وقت آنا پڑا جب یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہوگیا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے تمام باشندوں یعنی سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی وغیرہ کو 1947 ہی میں ہجرت کر لینی چاہیے تھی۔ لیکن جو دانشور یہ بات کہتے ہیں کہ ہجرت ایک مخصوص خطہ زمین کے رہنے والے لوگوں نے کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دانشوروں نے خود اب تک ذہنی طور پر ہجرت کا سفر طے نہیں کیا۔ جب کہ میرے خیال میں یہ ایک قومی تجربہ ہے اور پوری قوم ہجرت کے تجربے سے گزری ہے۔

بحوالہ: یہ صورت گر کچھ خوابوں کے از طاہر مسعود
 

الف نظامی

لائبریرین
قیوم نظر کہتے ہیں:
1930 میں بیروزگاری عروج پر تھی ۔ ن م راشد ایم اے اکنامکس ہو کر ڈی سی ملتان کے دفتر میں ملازم تھے۔ کرشن چند ایم اے ایل ایل بی کر کے بیکار پھرتا تھا۔ راجندر سنگھ بیدی ڈاکخانے میں مہریں لگاتے تھے۔ مختار صدیقی اور یوسف ظفر کلرک تھے۔ ادیبوں کا اتنا بڑا طبقہ معاشی نا آسودگی کا شکار نہ ہوتا تو شاید ترقی پسند تحریک جنم نہ لیتی۔ لیکن سب کلرک تھے۔ بیروزگاری کے مارے ہوئے تھے۔ سرمایہ داری سے نفرت کرتے تھے اور ترقی پسندی انہیں اپیل کرتی تھی۔ وہ سوچتے تھے "اچھا سرمایہ داروں کے پاس اتنا مال ہے اور ہم بیکار پھر رہے ہیں"
بحوالہ: یہ صورت گر کچھ خوابوں کے از طاہر مسعود
 
Top