”طاہر مسعود: آپ نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھا تھا کہ گزشتہ بیس سال سے دنیا اور بالخصوص ہمارے ملک میں ادیب کم اور ادب کے خوردہ فروش یا بساطی زیادہ پیدا ہو رہے ہیں ۔ آپ کو یہ بات لکھے ہوئے بھی پندرہ بیس برس ہو چکے ہیں ۔ کیا اس عرصے میں صورت حال میں کچھ تبدیلی آئی یعنی واقعتاً کچھ ادیب پیدا ہوئے یا نہیں؟
مجنوں: جی نہیں، اس کے برعکس خوردہ فروشوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں شعر و ادب لکھنے سے کہیں اہم کام ہیں۔
طاہر مسعود: مثلا؟
مجنوں: مثلا گھاس چھیلنا، یہ نہ سمجھیے کہ یہ کہہ کر ادب کی تحقیر کر رہا ہوں لیکن فرض کیجیے اگر گھسیارا غلط گھاس چھیل دے تو لان کی رونق ختم ہو جائے گی۔ ہر کام اپنی جگہ پر ایک نجی تقدس لیے ہوتا ہے۔ کام ایک پاک چیز ہے۔ وہ چیزوں کی ناپاکیاں دور کرتا ہے جو کام ایسا نہیں کرتا، وہ فضول اور بے کار ہے۔
طاہر مسعود: تو آپ کی رائے میں گزشتہ بیس سال میں نہ کوئی اچھا ادب پیدا ہوا ہے اور نہ ہی ادیب؟
مجنوں: صرف بیس سال کیوں؟ چالیس سال کہیے۔ بات یہ ہے کہ زندگی جتنی زیادہ پیچیده ہوتی گئی ہے۔ ادب، فن کاری یا مصوری کے لیے فرصت گھٹ گئی ہے۔ یعنی اب اس کے نک سک کو درست کرنے کی فرصت نہیں۔ اب اشتہار بازی کا دور ہے۔
طاہر مسعود: جی ہاں! آپ نے ایک جگہ زندگی میں آنے والی عجلت اور سنسنی خیزی کو انڈسٹریلائزیشن کا لازمی نتیجہ بتایا ہے۔
مجنوں: صرف عجلت ہی نہیں ہے انڈسٹریلائزیشن کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مشین انسان زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ حالاں کہ مشین انسان کے لیے بنائی گئی تھی لیکن ایسا دھوکے میں ہو گیا۔“
ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادباء اور شعراء سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ میں مجنوں گورکھ پوری کے انٹرویو سے ایک اقتباس