چھوٹی بات، بڑا سبق

نیلم

محفلین
چھوٹی بات، بڑا سبق

رکشہ شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتا جا رہا تھا کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک رکشہ کے سامنے آ گئی ۔ رکشہ ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے رکشہ کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا ۔ بجائے اس کے کہ گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ رکشہ ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا کیونکہ غلطی اس کار والے کی تھی لیکن رکشہ ڈرائیور نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا ۔

میں نے رکشہ ڈرائیور سے کہا “ انکل اُس نے تو آپکے رکشے کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور آپ نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا ؟”

رکشہ ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں اور کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے ۔ “

اور میں حیرانی سے اس رکشہ ڈرائیور کی طرف دیکھنے لگا جس نے اتنی آسانی سے مجھے اتنی بڑی بات سمجھا دی
 

شمشاد

لائبریرین
محب بھائی میں بتاؤں۔ پنڈی میں مال روڈ پر ایک صاحب اپنے اسکوٹر پر جا رہے تھے کہ اشارے پر بروقت نہ رکھ سکے اور آگے کھڑی ایک ٹیکسی سے ٹکرا گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور باہر آیا اور اپنے نقصان کا اندازہ کر رہا تھا کہ وہ صاحب لٹھ لے کر اس پر سوار ہو گئے کہ تم نے ایکدم سے بریک کیوں لگائی اور لگے انگریزی میں بُرا بھلا کہنے۔ آگے سے جب ٹیکسی ڈرائیور نے ان کی انگریزی میں اچھی خاصی کلاس لی تو انہیں جان چھڑانی مشکل ہو گی کہ ٹیکسی ڈرائیور ایل ایل بی کا طالبعلم تھا لیکن روزی روٹی کے لیے ٹیکسی چلانے پر مجبور تھا۔

شاید آپکو یاد ہو رضوان نے بھی ایک دفعہ ایک ایسے ہی پڑھے لکھے ڈرائیور کا ذکر کیا تھا جو علامہ اقبال پر اتھارٹی تھا۔

غم روزگار نے کیسے کیسے لوگوں کو ایسے ہی کاموں پر لگا رکھا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
رکشہ والے کے جذبات و احساسات کو راوی نے خوبصورت لفاظی کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں کے پڑھنے کے قابل اور اثر انگیز بنایا ہے۔
 
محب بھائی میں بتاؤں۔ پنڈی میں مال روڈ پر ایک صاحب اپنے اسکوٹر پر جا رہے تھے کہ اشارے پر بروقت نہ رکھ سکے اور آگے کھڑی ایک ٹیکسی سے ٹکرا گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور باہر آیا اور اپنے نقصان کا اندازہ کر رہا تھا کہ وہ صاحب لٹھ لے کر اس پر سوار ہو گئے کہ تم نے ایکدم سے بریک کیوں لگائی اور لگے انگریزی میں بُرا بھلا کہنے۔ آگے سے جب ٹیکسی ڈرائیور نے ان کی انگریزی میں اچھی خاصی کلاس لی تو انہیں جان چھڑانی مشکل ہو گی کہ ٹیکسی ڈرائیور ایل ایل بی کا طالبعلم تھا لیکن روزی روٹی کے لیے ٹیکسی چلانے پر مجبور تھا۔

شاید آپکو یاد ہو رضوان نے بھی ایک دفعہ ایک ایسے ہی پڑھے لکھے ڈرائیور کا ذکر کیا تھا جو علامہ اقبال پر اتھارٹی تھا۔

غم روزگار نے کیسے کیسے لوگوں کو ایسے ہی کاموں پر لگا رکھا ہے۔

واقعی ،کیا خوب یاد دلایا ہے۔ کسی شخص کو اس کے روزگار سے نہیں پہچانا چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین

فرحت کیانی

لائبریرین
اور آپ اتنا ڈر گئی ہیں بے جا استعمال سے کے "نے" ہی ختم کر دیا۔ :p
دیکھا کیسے کاروائی میرے اوپر ہی الٹ جاتی ہے۔ :openmouthed:
ویسے یہ میں نے آپ کے امتحان کے لئے چھوڑا تھا کہ پتہ چلے آپ تحقیق کے کام میں میری کتنی مدد کر سکتے ہیں :cool3:
 

نیلم

محفلین
نیلم ، اتنا عالم رکشہ ڈرائیور کہاں سے ڈھونڈا ہے۔ :)
محب بھائی میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی سوچ کا مالک انسان ضروری نہیں کہ بہت پڑھا لکھا ہی ہو،،ایسی سوچ اچھی تربیت اور کچھ فطرت کی مرہون منت ہوتی ہے:)
کچھ لوگوں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی :D
میں بہت سے کم پڑھے لکھے لوگوں کو جانتی ہوں،،،جو کئی پڑھے لکھوں سے بہت بہتر ہیں:)
بُلھے شاہ بھی کہہ گئے ہیں کہ علم پڑھیا پر ادب نا سیکھیا کی لہنڑاں اس علم تو ،،ہووووووو
 

نیلم

محفلین
یہ رکشہ ڈرائیور کیا سیالکوٹ کا تھا۔
چیچو کی ملیاں کا کیوں نہیں تھا؟
پہلے یہی لکھنے لگا تھا۔ پھر سوچا آپ کیا لکھیں گے آکر :D
:rollingonthefloor:
 
Top