کیا چینی کمیشن رپورٹ پاکستان کے مسائل ختم کردے گی؟
22/05/2020 سید مجاہد علی
حکومت نے چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ جاری کردی ہے اور ملک میں چینی کے 9 کارخانہ داروں کو اس کاروبار میں بے قاعدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کمیشن رپورٹ کی تفصیلات بتائیں اور اسے اپنی حکومت کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ ان کے بقول ماضی میں کوئی حکومت ایسا کمیشن قائم کرنے اور اس کی رپورٹ عام کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکی۔
اس تفصیلی رپورٹ میں چینی کے کاروبار کے ان تمام نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے جو پاکستان کے کسی بھی کاروبار میں موجود ہوسکتے ہیں اور ملکی نظام کی کمزوری اور بدعنوانی کی وجہ سے ان نقائص کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ شوگر کمیشن رپورٹ پر تحریک انصاف کے نمائیندے خواہ جتنی بھی سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کرلیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ ملک میں معاملات کنٹرول کرنے کا نظام غیر مؤثر ہے اور رشوت یا ذاتی مفاد کے لئے کاروبار کرنے والے عناصر کو من مانی کرنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ نظام ہمیشہ سے خراب تھا لیکن موجودہ حکومت بھی دو برس کی مدت میں اس کی اصلاح کے لئے کوئی انقلابی اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے شروع میں جب ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہؤا تھا تو حکمران پارٹی میں شامل متعدد افراد پر الزام عائد ہؤا ۔ وزیر اعظم کو اسی دباؤ کی وجہ سے اس بحران کے پس پردہ عوامل کی تحقیقات کروانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
گندم اور چینی کے بحران پر ابتدائی رپورٹ گزشتہ ماہ کے شروع میں سامنے آئی تھی۔ اس بارے میں ابہام موجود ہے کہ حکومت نے وہ رپورٹیں خود عام کرنے کا فیصلہ کیا تھا یا بعض میڈیا چینلز میں اس کے بارے میں معلومات عام ہونے کے بعد حکومت کو مجبوراً ان رپورٹوں کو جاری کرنا پڑا تھا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت بھی گندم اور چینی کے بحران پر جاری ہونے والی رپورٹوں پر اپنے ٹوئٹ پیغامات میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے اپنی حکومت کا شاندار کارنامہ قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ عذر تراشتے ہوئے کہ وہ اس معاملہ کی فورنزک رپورٹ آنے کے بعد متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور کسی کو بھی عوام کی قیمت پر منافع خوری کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ فورنزک رپورٹ 25 اپریل کو سامنے آجائے گی۔ تاہم بعد میں کابینہ نے تحقیقات کرنے والے کمیشن کو مزید تین ہفتے کی مہلت دے دی۔ اس طرح یہ تفصیلی رپورٹ اب سامنے آئی ہے۔ شہزاد اکبر کے بقول کابینہ نے اس پر غور کرنے کے بعد اسے من و عن ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عام قاری مختصر یا تفصیلی رپورٹ میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کرسکتا۔ مہینہ بھر قبل ملزمان کی طرف نشاندہی ہوجانے کے بعد وزیر اعظم کو اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے آخر کون سی تفصیلات کا انتظار تھا؟ تفصیلی یا فورنزک رپورٹ دیکھنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلی رپورٹ میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے برآمد پر سبسڈی دینے کا فیصلہ بنیادی نکتہ تھا جس سے وزیر اعظم کے قریب ترین سیاسی ساتھی جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار نے خاص طور سے استفادہ کیا تھا۔ تفصیلی رپورٹ میں اس معاملہ کو چینی کی پیدا وار ، گنا پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ زیادتی ،شوگر ملز کی ہیرا پھیری ، ٹیکس چوری اور سبسڈی سے فائدہ اٹھانے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس میں شہباز شریف اور آصف زرداری کو گھسیٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سوال وفاقی حکومت کی کوتاہی اور پنجاب حکومت کے سبسڈی دینے کا تھا لیکن الزام کا پھندا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گردن میں فٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ اس سال جنوری کے دوران اچانک گندم اور چینی کے بحران کے بارے میں تھا اور جواب یہ درکار تھا کہ کن لوگوں نے اس کا اہتمام کیا اور اس سے مالی فائدہ اٹھایا تاہم تفصیلی رپورٹ میں ایک خاص صنعت کے زیر و بم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ان بنیادی اہمیت کے سوالوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فورنزک رپورٹ کی تفصیلات دیکھنے کے بعد اور کٹہرے میں جہانگیر ترین اور مونس الہیٰ کے ساتھ شہباز شریف اور آصف زرداری سے تعلق والے اومنی گروپ کو کھڑا دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں ملزموں کی نشاندہی کے باوجود ، وزیر اعظم کو ملزموں کو سیاسی طور سے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کرنے کی بجائے سزا دینے کے لئے فورنزک رپورٹ کا انتظار کیوں تھا۔ اب شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ ’ چینی بحران میں ملوث تمام عناصر کے خلاف فوجداری مقدمات ایف آئی اے اور نیب کو بھجوائے جائیں گے۔شوگر ملز سے وصولی بھی کی جائے گی‘۔ یعنی نہ نو مل تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ البتہ اس تفصیلی رپورٹ کی بنیاد پر شہزاد اکبر نے ایک بار پھر اپنی حکومت اور وزیر اعظم کی سیاسی مارکیٹنگ کے لئے ’پریس کانفرنس شو ‘ منعقد کیا اور لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ سب کیا دھرا سابقہ حکمرانوں کا ہے جن کے بچے اور ساتھی اب تفصیلی رپورٹ میں ملزم قرار پائے ہیں۔ ماضی کی تہوں سے یہ بات تو تلاش کرلی گئی ہے کہ مراد علی شاہ نے اومنی گروپ کو سبسڈی دی تھی لیکن یہ ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا کہ عثمان بزدار نے حال ہی میں کس کے دباؤ یا کسے خوش کرنے کے لئے چینی کی برآمد پر سبسڈی کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ کسی دوسرے صوبے نے ایسی کوئی سبسڈی فراہم نہیں کی تھی۔
معاملہ جنوری کے بحران کا تھا لیکن مقدمہ گزشتہ پانچ برس کے دوران چینی کی پیدا وار، گنے کی خریداری، دوہرے اکاؤنٹ رکھنے اور ذاتی مفاد کے لئے سبسڈی دینے تک پہنچا دیا گیا۔ اصل سوال کا جواب اب بھی غائب ہے۔ ملک میں چینی کی قلت کے زمانے میں وفاقی حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی تھی؟ مان لیا جائے کہ کسی بھی بنیاد پر وفاقی کابینہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی غلطی کی مرتکب ہوسکتی ہے لیکن دیانت دار وزیر اعظم اور ان کے وفادار معاونین کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ یہ غلطی انہی سے سرزد ہوئی تھی اور عوام کے لئے ایک خاص وقت میں تکلیف اور مشکل پیدا کرنے میں وہ خود بھی چینی سے دولت کمانے والے لوگوں ہی کی طرح ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کی عثمان بزدار کو چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کا ’حکم یا مشورہ‘ کس نے دیا تھا۔ ان دو سوالوں کا جواب بین السطور سابقہ رپورٹ میں بھی موجود تھا اور تازہ رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ تاہم معلومات کے ہجوم، اعداد و شمار کے انبار اور شہزاد اکبر کے جوش خطابت میں ان پہلوؤں کو دبا دیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر نے برملا کہا ہے کہ اگر خسرو بختیار کا بھائی چینی کا کاروبار کرتا ہے تو اس کے لئے ان کے بھائی کو تو مورد الزام نہیں ٹھہریا جاسکتا۔ البتہ جہانگیر ترین کو محلاتی سازشوں کے نتیجہ میں چونکہ قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے لہذا ان پر الزامات کے چھینٹے پڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابتدائی رپورٹوں کے بعد بھی ان سطور میں یہ کہا جاچکا ہے کہ کوئی بھی کاروبار کرنے والا گروہ صورت حال، سرکاری قواعد اور سیاسی اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھائے گا۔ اب بھی یہی بات درست ہے۔ شوگر ملوں سے دولت کمانے کا طریقہ ہو یا تعمیراتی شعبہ میں مختلف ہتھکنڈوں سے حکومت کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہو، اصل ذمہ دار ان وہ سیاسی قیادت ہوگی جو جان بوجھ کر ایسی بے قاعدگی کی اجازت دیتی ہے۔ جنوری میں پیدا ہونے والے بحران کا جواب بھی اسی وقت ملے گا جب یہ مان لیا جائے گا کہ وزیر اعظم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے ذریعے ملک میں چینی کی قلت کے وقت اسے برآمد کرنے کی اجازت دی۔ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس پر سبسڈی دے کر اس نیک کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اب وزیر اعظم خود کوئی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنے سیاسی وسیم اکرم کی جوابدہی کا اعلان کرنے کی بجائے اپوزیشن خاندانوں اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ملزم قرار دے کر داد وصول کرنا چاہتے ہیں۔
معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں سیاسی خاندانوں کی منافع خوری کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو سیاسی نابغہ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے‘۔ عمران خان اگر یہ بات جانتے ہیں تو یہ بھی بتادیں کہ جو سیاست دان دولت مند ساتھیوں کے وسائل پر زندگی گزارنے کا عادی رہا ہو اور ان کے فراہم کردہ فنڈز سے سیاسی ریلیاں کرتا رہا ہو ، ایسے ہی کاروباری دوستوں کے جہاز میں سفر کرتا رہا ہو اور پھر اسی جہاز میں موسم کے ساتھ رنگ بدلنے والے سیاسی عناصر کو بنی گالہ بلواکر ان کی پذیرائی کرتا رہا ہو، کیا وہ اس وقت بھی یہ بات جانتے تھے کہ سیاست میں روپیہ لگانے والا تاجر اپنی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کرے گا یا اس وقت وہ ’بھولے بادشاہ ‘ تھے۔ اسی کے ساتھ اگر شہزاد اکبر یہ بھی بتادیتے کہ کیا اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو تاجروں ، صنعتکاروں اور مفاد یافتہ طبقات سے پاک کردیا گیا ہے؟
چند روز پہلے سپریم کورٹ نے کورونا وائرس پر سوموٹو مقدمہ کی سماعت کے دوران وسائل کی فراہمی اور ان کے بے دردی سے اصراف پر متعدد سوال اٹھائے ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ ناقص ہوتے ہیں اور ان سے مرض کا تعین نہیں ہوسکتا۔ ایماندا روزیر اعظم اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی دعوے دار حکومت کے لئے چیف جسٹس کے یہ سوال تازیانہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیرت ہے حکومت ان الزامات پر اپنی پوزیشن واضح کرنے، کورونا فنڈز کا درست آڈٹ پیش کرنے، مصارف میں گھپلوں کی وضاحت دینے کی بجائے چینی اسکینڈل کو آڑ بنا کر سیاسی چاند ماری کی مشق میں مصروف ہے۔