وں کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کو تمام انسانی خیالات پر فوقیت حاصل ہے لہذا ترتیب وار صورت میں پہلے شرعی نقطہ نظر پر بات ہوگی، پھر انسانی خیالات کے تناظر میں۔
اگر ایک ساتھ لے کر چلا جائے تو یہ بھی قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن شرعی تناظر میں فیصلہ ہوجانے کے بعد انسانی خیالات کو اسی وقت یا تو رد کردیا جائے گا یا قبول۔
اور اگر آپ شرعی تناظر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تو اس کی وجہ بیان کردیں، پھر بات کو آگے لے کر بڑھا جاسکتاہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
میں اس دھاگے میں ، خاص طور پر آپ کے اس نکتے پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جس کو ہم شریعت اور سنت کہتے ہیں وہ بغداد شریف کی قدیم ایرانی اور قدیم یہودی النسل شریعت و سنت ہے اور یہ یقینی طور پر انسانی خیالات ہی نہیں بلکہ انسانی ذاتی خواہشات پر مشتمل بغداد میں پلی بڑھی۔ جو کہ مزدا اہورا کے ماننے والوں کے بنیادی عقائید پر مشتمل ہے۔ لہذا اس بغدادی شرعی تناظر میں ہم کسی بھی طور پر نظریہء ارتقاء کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے کہ یہ انسانی خیالات، فلسفے، سماجی رواج وغیرہ سے وجود میں آئی ہے اور پھر ان رواجوں کو اللہ کی شریعت کا نام دیا گیا ۔ اس شریعت کے نظریات کا دار و مدار قدیم یہودی کتب اور قدیم زرتشت مذاہب کی کتب سے ہے ، الہامی کتب سے قطعاً نہیں۔ اس یہودی النسل ، یا میسوپوٹیمیا کے نظریات کے مطابق، انسان اللہ کی سپیششل تخلیق ہے جو کہ اللہ کا عکس ہے۔ لہذا ان نظریات کے مطابق نظریہ ارتقا بالکل غلط ہے۔
کیا یہ شریعت اللہ ہے؟ اس کو جواب ہم کو قران حکیم سے ملتا ہے ۔ اس شریعت یعنی شریعت اللہ سے ارتقاء صاف اور واضح ہے۔
قرآن حکیم اور ڈارون کے ارتقائی نظریات میں فرق ہے۔ ڈارون ، خلیہ کے ارتقاء سے انسانی عقل تک زمین یا کائنات کے جغرافیائی اور موسمیاتی عوامل کو قرار دیتا ہے جبکہ اللہ تعالی ، خلیہ کے ڈئزائین کو ، جس میں ارتقاء کرنے کی صلحیت موجود ہے ، اپنی تخلیق قرار دیتا ہے۔ اور خو اللہ تعالی اپنے آپ کو الگ ذات قرار دیتا ہے۔ نا کہ کل کائنات۔
دوسری شریعت ،سنت اللہ ، یعنی اللہ تعالی کی پریکٹسز ہے جو نا تبدیل ہوتی ہے ، نا ہی اس میں تحویل ہوتی ہے
48:23 سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
(یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے
اب ہم قرآن حکیم میں اللہ تعالی کے فرمان دیکھتے ہیں۔ کہ اللہ تعالی اس بنیادی خلئے (جس کو ہم زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں ) کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ میں آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ ان آیات اور ان آیات میں موجود الفاظ کو اپنی تعلیم کی نگاہ سے دیکھئے نا کہ روایتی ترجموں کی نگاہ سے۔ ان آیات پر غور کرنے سے ہماری سمجھ میں یہ بھی آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی خود اس کتاب کی حفاظت کررہا ہے۔
4:1 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ
الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ
خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، وہ ذات جس نے تمہیں بنایا، ایک نفس واحدہ (سنگل سیل) سے اور اسی ( نفس واحدہ سنگل سیل ) سے اس کا جوڑا (pair) بنایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مرد اور عورتوں کو بنایا اور پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے بارے میں تم ۔ سوال کرتے ہو اور رحم (ماں کے پیٹ) کے بارے میں ، یقیناً، اللہ اس سب پر نظر رکھتا ہے۔
اللہ تعالی نے اس آیت میں بہت ہی الگ الگ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہاں ، اپنے آپ ک ایک الگ ذات قرار دیا ہے۔ اور نفس واحدہ ، مرد، عورت کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کہ کس طرح نفس واحدہ، سنگل سیل، جس کا جوڑا بھی اسی سنگل سیل سے بنتا ہے ، ماں کے پیٹ میں ، کس طرح اللہ تعالی نے اس سے بہت سارے مرد اور عورتیں بنائیں اور پھر پھیلا دیا، جس پر اللہ تعالی نظر رکھے ہوئے ہے۔
گویا، اس ذات نے جو یہ سب کچھ جانتی ہے، ماں کے پیٹ میں ایک نفس واحدہ سے انسان بننے کے ارتقائی عمل کو صاف صاف بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتایا ہے کہ سارے پراسیس پرکو اللہ اپنی نظر میں رکھتا ہے۔ میں اس نظر رکھنے سے یہ سمجھتا ہوں کہ جب سنگل سیل میں ڈٰی این اے کھلتا ہے اور پھر دوبارہ ذپ کی طرح سے بند ہوتا ہے تو اس عمل کے درست رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہ ایسا ہے کہ ایک زپرکو کھول کر پانی میں پھینک دیں اور یہ توقع کریں کہ وہ خود بخود دوبارہ بند ہوجائے گا۔ ماں کے پیٹ میں یہ عمل ہوتا ہے، ہم سب جانتے ہیں لیکن اس عمل پر کیا قوتیں عمل کرتی ہیں کہ یہ درست رہتا ہے، یہ ہم نہیں جانتے ۔ ہاں ایک ذات ہے جو یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ اس پر نظر رکھتا ہے۔
میں اس سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس نفس واحدہ میں اللہ تعالی نے ارتقائی عمل کو آرکیٹیکٹ کیا۔ یہ عمل ایک سنگل سیل سے ہماری نظروں سے اوجھل ماں کے پیٹ میں مکمل ہوتا ہے، ہم اس کو ننگی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے لیکن پھر بھی دوسرے آلات کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ کیا یہ ارتقاء ہماری موجودہ معلومات سے ثابت ہے؟ میں کہوں گا کہ ہاں ثابت ہے۔ تو کیا ایسا ممکن ہے کہ سنگل سیل کے اس ارتقائی عمل کے باقیات سے باقی تمام جانداروں کا ارتقاء ہوا؟ یہ سوال غیر ضروری رہ جاتا ہے کیوں کہ ہم پہلے ہی ارتقائی عمل کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اس نفس واحدہ سے ہی باقی تمام دوسرے جاندار بنے، اگر یہ جیناتی تبدیلی مراحل میں آئی یا نہیں ، یعنی پہلے اس نفس واحدہ نے ماں کے پیٹ سے باہر مچھلی یا بندر کی شکل اختیار کی اور بہت بعد میں ماں کے پیٹ سے یہ ارتقائی عمل ترقی پاتا رہے، اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔ اس لئے کہ تخلیق کرنے والی ذات کا یہ دعوی ہے کہ نفس واحدہ سے مکمل انسان تک کا ارتقائی عمل اس نفس واحدہ کے بنایدی ڈیزائین میں شامل ہے۔ جس کا ہم خود بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ تو اس میں غلط کیا ہے ؟
۔اس نفس واحدہ کی تخلیق کائینای عوامل سے خود بخود ہوئی یا اللہ تعالی نے اس نفس واحدہ کو ڈیزائین کیا ، اور اسی سنگل سیل میں میں یہ پروگرام یا ڈیزائین رکھا کہ وہ ارتقاء کرکے انتہائی عقل رکھنے والا انسان تک جاپہنچے ت تو اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ارتقاء ہمارے سامنے ہے، اب چاہیں تو ہم اس کو اللہ تعالی کا کارنامہ قرار دیں یا پھر کائنات کے عوامل کا لیکن ہم سب قائیل ہین کہ سنگل سیل سے ہی اس ارتقاء کی ابتداء ہوئی اور اس بات کے بھی قائیل ہیں کہ اسی سنگل سیل کے مختلف ڈیزائین سے ہم بتدریج ، انسان بننے تک پہنچے۔
تو اب بنیادی سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا اللہ نے یہ نفس واحدہ بنایا یا کائنات نے بنایا، ہم اللہ تعالی کا انکار کرسکتے ہیں (نعوذ باللہ) تو پھر اس بیان کی کیا اہمیت ہے؟
21:30 أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
کیا منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا اورہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا کیا پھر بھی یقین نہیں کرتے
یہ معلومات (نالج) انسان کے پاس 1400 سال پہلے نہیں تھی کہ ساری کائنات جڑی ہوئی تھی ، ایک تھی، ایسا بیان کون دے سکتا ہے؟ صرف وہ جو اس کے بارے میں جانتا ہے؟ کہ یہ سب ایک تھے، الگ الگ کئے گئے اور پانی سے پھر جان کو بنایا۔ کیا ہم آج یہ نہیں جانتے ؟
کیا اس نفس واحدہ سے باقی دوسری اشیاء بھی بنائیں؟
6:99 وَهُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ انظُرُواْ إِلِى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے ہر چیز اگنے والی نکالی پھر ہم نے اس سے سبز کھیتی نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پرچڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھل کے جھکے ہوئے گچھے اور انگور اور زیتون اور انار کے باغ آپس میں ملتے جلتے اور جدا جدا بھی ہر ایک درخت کے پھل کو دیکھو جب وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان چیزوں میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں
کیا یہ سب ڈیزائین کیا گیا؟ کہ اس سنگل سیل کا ارتقاء ہو؟ تو میں اس کے لئے ایک بہت ہی آسان مثال دوں گا۔
جب میں نے اوپن برہان بنایا تو سوچا کہ سرچ انجن میں کسی بھی آیت کو بآسانی ڈھونڈا جاسکے ، گویا اوپن برہان کے ڈیزائین میں یہ شامل تھا کہ اگر ہم گوگل کریں openburhan.net 6:99
تو ہم بآسانی سورۃ 6، آیت 99 پر پہنچ جائیں۔ اگر ایسا ڈیزائین نہیں کرتا تو پھر اس کو گوگل کرنا مشکل ہوتا، یہ خود سے نہیں ہو گیا۔ ڈیزائین کیا گیا۔
اسی طرح سنگل سیل میں ارتقائی عمل ڈیزائین کیا گیا، ارتقاء تو ثابت ہے، اور بیان بھی کردیا گیا ہے۔ صرف سوال اتنا ہے کہ اس سنگل سیل کا جو کہ ارتقاء کی صلاحیت رکھتا ہے ، اس کا کوئی ڈیزائینر ہے، یا یہ کائناتی عوامل سے خود سے پیدا ہوا۔ ایک کتاب ایسے بالکل درست بیانات سے بھری ہوئی ہے جو سطحی نظر سے دیکھنے سے معمولی بیانات لگتے ہیں لیکن غور کرنے پر یہی بیانات ، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کا کوئی نا کوئی ڈیزائینر ہے۔
میں اس پیغام کو محدود رکھنا چاہتا ہوں ، اس لئے مزید آیات نہیں لکھ رہا۔ آپ درج ذیل آیات پڑھئے اور اس پر مزید غور کیجئے۔ اور پھر ان آیات میً موجود بیانات کو آج کی معلومات کی مدد سے سمجھئے اور سوال کیجئے کہ کیا جو کوئی یہ بیانات دے رہا ہے ، وہ یہ سب کچھ جانتا ہے ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ رسول اکرم کے پاس سنگل سیل سے مرد و عورت کے ارتقاء کی جانکاری ہو؟ لیکن پھر بھی بہترین الفاظ میں اس حقیقت کو 4:1 میں بیان کیا گیا ہے؟
(9:111), (16:71), (43:32), (59:9)
(14:34)
(16:
, (20:50), (21:30), (22:45), (30:20), (31:2
, (51:49)
(10:19), (57:25)
کم از کم ان آیات سے ہم کو یہ جواب مل جاتا ہے کہ ارتقاء اور شریعت اللہ کسی طور پر بھی دو الگ الگ ایک دوسرے کے مخالف نظریات نہیں ہیں۔ لہذا ارتقاء کو شریعت کی مدد سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
۔