ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

محمد سعد

محفلین
آصف اثر
جتنی شدت کے ساتھ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کی گنجائش نکل ہی نہیں سکتی، کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اگر ارتقاء درست ثابت ہو گیا تو نعوذ باللہ اسلام جھوٹا ہے؟ کوئی بڑا دعویٰ کرنے سے پہلے سوچ تو لیا کریں۔ ورنہ دعویٰ کرنے سے گریز کرنا اور یہ کہنا کہ میں فی الحال نہیں جانتا بھی ایک آپشن ہوتا ہے۔
 
وں کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کو تمام انسانی خیالات پر فوقیت حاصل ہے لہذا ترتیب وار صورت میں پہلے شرعی نقطہ نظر پر بات ہوگی، پھر انسانی خیالات کے تناظر میں۔
اگر ایک ساتھ لے کر چلا جائے تو یہ بھی قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن شرعی تناظر میں فیصلہ ہوجانے کے بعد انسانی خیالات کو اسی وقت یا تو رد کردیا جائے گا یا قبول۔
اور اگر آپ شرعی تناظر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تو اس کی وجہ بیان کردیں، پھر بات کو آگے لے کر بڑھا جاسکتاہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

میں اس دھاگے میں ، خاص طور پر آپ کے اس نکتے پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جس کو ہم شریعت اور سنت کہتے ہیں وہ بغداد شریف کی قدیم ایرانی اور قدیم یہودی النسل شریعت و سنت ہے اور یہ یقینی طور پر انسانی خیالات ہی نہیں بلکہ انسانی ذاتی خواہشات پر مشتمل بغداد میں پلی بڑھی۔ جو کہ مزدا اہورا کے ماننے والوں کے بنیادی عقائید پر مشتمل ہے۔ لہذا اس بغدادی شرعی تناظر میں ہم کسی بھی طور پر نظریہء ارتقاء کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے کہ یہ انسانی خیالات، فلسفے، سماجی رواج وغیرہ سے وجود میں آئی ہے اور پھر ان رواجوں کو اللہ کی شریعت کا نام دیا گیا ۔ اس شریعت کے نظریات کا دار و مدار قدیم یہودی کتب اور قدیم زرتشت مذاہب کی کتب سے ہے ، الہامی کتب سے قطعاً نہیں۔ اس یہودی النسل ، یا میسوپوٹیمیا کے نظریات کے مطابق، انسان اللہ کی سپیششل تخلیق ہے جو کہ اللہ کا عکس ہے۔ لہذا ان نظریات کے مطابق نظریہ ارتقا بالکل غلط ہے۔
کیا یہ شریعت اللہ ہے؟ اس کو جواب ہم کو قران حکیم سے ملتا ہے ۔ اس شریعت یعنی شریعت اللہ سے ارتقاء صاف اور واضح ہے۔

قرآن حکیم اور ڈارون کے ارتقائی نظریات میں فرق ہے۔ ڈارون ، خلیہ کے ارتقاء سے انسانی عقل تک زمین یا کائنات کے جغرافیائی اور موسمیاتی عوامل کو قرار دیتا ہے جبکہ اللہ تعالی ، خلیہ کے ڈئزائین کو ، جس میں ارتقاء کرنے کی صلحیت موجود ہے ، اپنی تخلیق قرار دیتا ہے۔ اور خو اللہ تعالی اپنے آپ کو الگ ذات قرار دیتا ہے۔ نا کہ کل کائنات۔

دوسری شریعت ،سنت اللہ ، یعنی اللہ تعالی کی پریکٹسز ہے جو نا تبدیل ہوتی ہے ، نا ہی اس میں تحویل ہوتی ہے

48:23 سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
(یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے

اب ہم قرآن حکیم میں اللہ تعالی کے فرمان دیکھتے ہیں۔ کہ اللہ تعالی اس بنیادی خلئے (جس کو ہم زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں ) کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ میں آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ ان آیات اور ان آیات میں موجود الفاظ کو اپنی تعلیم کی نگاہ سے دیکھئے نا کہ روایتی ترجموں کی نگاہ سے۔ ان آیات پر غور کرنے سے ہماری سمجھ میں یہ بھی آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی خود اس کتاب کی حفاظت کررہا ہے۔


4:1 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، وہ ذات جس نے تمہیں بنایا، ایک نفس واحدہ (سنگل سیل) سے اور اسی ( نفس واحدہ سنگل سیل ) سے اس کا جوڑا (pair) بنایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مرد اور عورتوں کو بنایا اور پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے بارے میں تم ۔ سوال کرتے ہو اور رحم (ماں کے پیٹ) کے بارے میں ، یقیناً، اللہ اس سب پر نظر رکھتا ہے۔

اللہ تعالی نے اس آیت میں بہت ہی الگ الگ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہاں ، اپنے آپ ک ایک الگ ذات قرار دیا ہے۔ اور نفس واحدہ ، مرد، عورت کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کہ کس طرح نفس واحدہ، سنگل سیل، جس کا جوڑا بھی اسی سنگل سیل سے بنتا ہے ، ماں کے پیٹ میں ، کس طرح اللہ تعالی نے اس سے بہت سارے مرد اور عورتیں بنائیں اور پھر پھیلا دیا، جس پر اللہ تعالی نظر رکھے ہوئے ہے۔

گویا، اس ذات نے جو یہ سب کچھ جانتی ہے، ماں کے پیٹ میں ایک نفس واحدہ سے انسان بننے کے ارتقائی عمل کو صاف صاف بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتایا ہے کہ سارے پراسیس پرکو اللہ اپنی نظر میں رکھتا ہے۔ میں اس نظر رکھنے سے یہ سمجھتا ہوں کہ جب سنگل سیل میں ڈٰی این اے کھلتا ہے اور پھر دوبارہ ذپ کی طرح سے بند ہوتا ہے تو اس عمل کے درست رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہ ایسا ہے کہ ایک زپرکو کھول کر پانی میں پھینک دیں اور یہ توقع کریں کہ وہ خود بخود دوبارہ بند ہوجائے گا۔ ماں کے پیٹ میں یہ عمل ہوتا ہے، ہم سب جانتے ہیں لیکن اس عمل پر کیا قوتیں عمل کرتی ہیں کہ یہ درست رہتا ہے، یہ ہم نہیں جانتے ۔ ہاں ایک ذات ہے جو یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ اس پر نظر رکھتا ہے۔

میں اس سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس نفس واحدہ میں اللہ تعالی نے ارتقائی عمل کو آرکیٹیکٹ کیا۔ یہ عمل ایک سنگل سیل سے ہماری نظروں سے اوجھل ماں کے پیٹ میں مکمل ہوتا ہے، ہم اس کو ننگی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے لیکن پھر بھی دوسرے آلات کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ کیا یہ ارتقاء ہماری موجودہ معلومات سے ثابت ہے؟ میں کہوں گا کہ ہاں ثابت ہے۔ تو کیا ایسا ممکن ہے کہ سنگل سیل کے اس ارتقائی عمل کے باقیات سے باقی تمام جانداروں کا ارتقاء ہوا؟ یہ سوال غیر ضروری رہ جاتا ہے کیوں کہ ہم پہلے ہی ارتقائی عمل کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اس نفس واحدہ سے ہی باقی تمام دوسرے جاندار بنے، اگر یہ جیناتی تبدیلی مراحل میں آئی یا نہیں ، یعنی پہلے اس نفس واحدہ نے ماں کے پیٹ سے باہر مچھلی یا بندر کی شکل اختیار کی اور بہت بعد میں ماں کے پیٹ سے یہ ارتقائی عمل ترقی پاتا رہے، اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔ اس لئے کہ تخلیق کرنے والی ذات کا یہ دعوی ہے کہ نفس واحدہ سے مکمل انسان تک کا ارتقائی عمل اس نفس واحدہ کے بنایدی ڈیزائین میں شامل ہے۔ جس کا ہم خود بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ تو اس میں غلط کیا ہے ؟

۔اس نفس واحدہ کی تخلیق کائینای عوامل سے خود بخود ہوئی یا اللہ تعالی نے اس نفس واحدہ کو ڈیزائین کیا ، اور اسی سنگل سیل میں میں یہ پروگرام یا ڈیزائین رکھا کہ وہ ارتقاء کرکے انتہائی عقل رکھنے والا انسان تک جاپہنچے ت تو اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ارتقاء ہمارے سامنے ہے، اب چاہیں تو ہم اس کو اللہ تعالی کا کارنامہ قرار دیں یا پھر کائنات کے عوامل کا لیکن ہم سب قائیل ہین کہ سنگل سیل سے ہی اس ارتقاء کی ابتداء ہوئی اور اس بات کے بھی قائیل ہیں کہ اسی سنگل سیل کے مختلف ڈیزائین سے ہم بتدریج ، انسان بننے تک پہنچے۔

تو اب بنیادی سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا اللہ نے یہ نفس واحدہ بنایا یا کائنات نے بنایا، ہم اللہ تعالی کا انکار کرسکتے ہیں (نعوذ باللہ) تو پھر اس بیان کی کیا اہمیت ہے؟
21:30 أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
کیا منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا اورہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا کیا پھر بھی یقین نہیں کرتے

یہ معلومات (نالج) انسان کے پاس 1400 سال پہلے نہیں تھی کہ ساری کائنات جڑی ہوئی تھی ، ایک تھی، ایسا بیان کون دے سکتا ہے؟ صرف وہ جو اس کے بارے میں جانتا ہے؟ کہ یہ سب ایک تھے، الگ الگ کئے گئے اور پانی سے پھر جان کو بنایا۔ کیا ہم آج یہ نہیں جانتے ؟

کیا اس نفس واحدہ سے باقی دوسری اشیاء بھی بنائیں؟
6:99 وَهُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ انظُرُواْ إِلِى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے ہر چیز اگنے والی نکالی پھر ہم نے اس سے سبز کھیتی نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پرچڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھل کے جھکے ہوئے گچھے اور انگور اور زیتون اور انار کے باغ آپس میں ملتے جلتے اور جدا جدا بھی ہر ایک درخت کے پھل کو دیکھو جب وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان چیزوں میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں

کیا یہ سب ڈیزائین کیا گیا؟ کہ اس سنگل سیل کا ارتقاء ہو؟ تو میں اس کے لئے ایک بہت ہی آسان مثال دوں گا۔
جب میں نے اوپن برہان بنایا تو سوچا کہ سرچ انجن میں کسی بھی آیت کو بآسانی ڈھونڈا جاسکے ، گویا اوپن برہان کے ڈیزائین میں یہ شامل تھا کہ اگر ہم گوگل کریں openburhan.net 6:99
تو ہم بآسانی سورۃ 6، آیت 99 پر پہنچ جائیں۔ اگر ایسا ڈیزائین نہیں کرتا تو پھر اس کو گوگل کرنا مشکل ہوتا، یہ خود سے نہیں ہو گیا۔ ڈیزائین کیا گیا۔

اسی طرح سنگل سیل میں ارتقائی عمل ڈیزائین کیا گیا، ارتقاء تو ثابت ہے، اور بیان بھی کردیا گیا ہے۔ صرف سوال اتنا ہے کہ اس سنگل سیل کا جو کہ ارتقاء کی صلاحیت رکھتا ہے ، اس کا کوئی ڈیزائینر ہے، یا یہ کائناتی عوامل سے خود سے پیدا ہوا۔ ایک کتاب ایسے بالکل درست بیانات سے بھری ہوئی ہے جو سطحی نظر سے دیکھنے سے معمولی بیانات لگتے ہیں لیکن غور کرنے پر یہی بیانات ، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کا کوئی نا کوئی ڈیزائینر ہے۔


میں اس پیغام کو محدود رکھنا چاہتا ہوں ، اس لئے مزید آیات نہیں لکھ رہا۔ آپ درج ذیل آیات پڑھئے اور اس پر مزید غور کیجئے۔ اور پھر ان آیات میً موجود بیانات کو آج کی معلومات کی مدد سے سمجھئے اور سوال کیجئے کہ کیا جو کوئی یہ بیانات دے رہا ہے ، وہ یہ سب کچھ جانتا ہے ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ رسول اکرم کے پاس سنگل سیل سے مرد و عورت کے ارتقاء کی جانکاری ہو؟ لیکن پھر بھی بہترین الفاظ میں اس حقیقت کو 4:1 میں بیان کیا گیا ہے؟
(9:111), (16:71), (43:32), (59:9)
(14:34)
(16:8), (20:50), (21:30), (22:45), (30:20), (31:28), (51:49)
(10:19), (57:25)

کم از کم ان آیات سے ہم کو یہ جواب مل جاتا ہے کہ ارتقاء اور شریعت اللہ کسی طور پر بھی دو الگ الگ ایک دوسرے کے مخالف نظریات نہیں ہیں۔ لہذا ارتقاء کو شریعت کی مدد سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
آصف اثر
جیسا کہ ابھی ابھی فاروق سرور خان نے بھی کافی اچھی طرح سے واضح کر دیا، ارتقاء کی حقیقت، شریعت سے کسی طرح متصادم نہیں ہے۔ تو بہتر ہے کہ اپنے اسی غلط تصور کے ساتھ چپکے رہنے کے بجائے حقیقی مشاہدے کی بنیاد پر بات کریں اور اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو اس کی نشاندہی کر کے شکریہ کا موقع دیں۔
ورنہ آپ کو یاد ہو گا کہ کسی دور میں آپ جیسے دلائل استعمال کرتے ہوئے جمہور علماء زمین کے چپٹے ہونے کے تصور سے بھی چپکے ہوئے تھے۔ جیسا کہ ہمیں تفسیر جلالین سے معلوم ہوتا ہے۔
جبکہ آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کسی بھی طرح زمین کے گول ہونے کی حقیقت سے متصادم نہیں ہے۔
اگر جلال الدین سیوطی اور ان کے دور کے جمہور علماء، اپنی سوچ کو محدود کرنے کے نتیجے میں، طبیعی دنیا کے مشاہدے کی ایک شے کو غلط سمجھ سکتے ہیں، تو آپ کوئی ان سے بڑے عالم تو نہیں ہیں۔ تو کیوں نہ ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں غلطی کا امکان کم ہو؟
ارتقاء، خالصتاً ایک طبیعی دنیا کے مشاہدے کا موضوع ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کے لیے مجھے کیوں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہونی چاہیے کہ آیا اسلام کی آپ کی انٹرپرٹیشن درست ہے یا فاروق سرور خان کی یا کسی اور کی؟
 
آخری تدوین:
یہ کہنا کہ ارتقاء اور شریعت اللہ ( شریعت بغدادی نہیں) کسی طور پر بھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں۔ دونوں نفس واحدہ سے انسان ہی نہیں تمام جانداروں اور نباتات کے ارتقاء کا بیان دیتے ہیں۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ نفس واحدہ، یعنی سنگل سیل کا یہ ارتقاء کائنائی عوامل سے خود بخود بن گیا یا اس کو کسی نے ڈیزائین کیا ۔ جو لوگ انسانی سیل کے ڈی این اے میں چھپے ڈیزائین کو جانتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ اس کے پرزے اور اس کا پروگرام ایک جمبو جیٹ سے زیادہ کمپلیکس ہے۔ نفس واحدہ یا سنگل سیل کے ڈی این اے میں کتنے پارٹ ہوتے ہیں اور اس کا پرگرام کتنا کمپلکس ہوتا ہے ، آپ اس کے بارے میں کچھ گوگل کیجئے تو یہ جان لیں گے کہ یقیناً یہ پرزے اور پروگرام، کسی بھی جمبو جیٹ کے پرزوں اور پروگرام سے بہت ہی بڑا ہے،

اب جینیاتی سائنسدان کہتے ہیں کہ کیچڑ یا پانی میں بجلی کا ایک کوندا آ کے برسا اور ایک بنیادی سیل بن گیا۔ ہی ہی ہی ہی :)
تو بھائی اتنی بار بجلی گری ، تو اسی پانی اور کیچڑ اور بجلی سے کوئی مزید کمپلیکس سیل کیوں نہیں بنا ، ان چار پانچ بلین سالوں میں؟

اب میرا یہ بیان پڑھئے اور بتائیے کہ میں سچ کہتا ہوں یا جھوٹ کہتا ہوں۔ فاروق سرور خان جھوٹے کے منہہ میں خاک

میں اٹلانٹا کے سب سے بڑے کاروں کے جنک یارڈ کے پاس ہائی وے سے گذر رہا تھا ، موسم خراب تھا، بارش اور بجلی بار بار گر رہی تھی ، اچانک جنک یارڈ میں ایک جگہ بجلی گری اور صاحب اسی لمحے ، کاروں کے اس جنک یا کیچڑ سے، بجلی گرنے سے، ایک جمبو جیٹ تیار ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جی، یقین کریں ، مان لیں :)

جینیاتی سائندانوں کی طرح یہ بھی ایک دعوی ہے کہ یہ جمبو جیٹ جو آپ دیکھتے ہیں۔ یہ بوئنگ کے کسی انجینئروں نے ڈیزائین اور آرکیٹیکٹ نہیں کیا ، یہ تو ایسا کا ایسا ہی اٹلانٹا کے ایک جنک یارڈ میں بجلی گرنے سے وجود میں آیا تھا :)

اگر آپ یہ کہانی مان لیتے ہیں تو پھر آپ کو حق ہے کہ آپ کیچڑ میں بجلی گرنے سے سنگل سیل بننے پر یقین و ایمان رکھیں۔

جہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمبو جیٹ ڈیزائین کیا گیا۔ ویاں مجھے یہ ماننے سے انکار نہیں کہ انتہائی کمپلکس سنگل سیل بھی ڈیزائین کیا گیا، ارتقاء اس کے ڈیزائین میں شامل تھا۔ ارتقاء کا ہم انکار نہیں کرسکتے ۔ سنگل سیل کا ہم انکار نہیں کرسکتے ، سوال صرف یہ ہے کہ کوئی ڈیزائنر ہے یا نہیں ۔ چارلس ڈارون نے ایک فلسفہ پیش کیا، اور رسول اکرم محمد نے ایک فسلفہ پیش کیا۔ جب ہم چارلس ڈارون اور انہی مضامین کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سب کچھ خود بخود کائیناتی قوتوں کی مدد سے ہو گیا۔ بادی النظر رسوال اکرم کا فلسفہ اور در حقیقت اللہ تعالی کا بیان قرآن حکیم میں پڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کتاب میں جو نظریات جن الفاظ میں ملتے ہیں ، اس سے ایک بہت ہی بڑا سپریم آرکیٹیکٹ ثابت ہے، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ سب اس نے ڈیزائین اور آرکیٹیکٹ کیا اور ساتھ ہی ساتھ وہ نظریات اور الفاظ بھی پیش کرتا ہے جو جدید ترین سائنس سے ثابت ہیں۔ آپ اب چاہیں تو چارلس ڈارون کے بناء ڈیزائنر والے نظریے کو مان لیں یا حضرت رسول کرم کے ہم کو پیش کردہ ایک سپریم آرکیٹکٹ و ڈیزائنر کے نظریے کو مان لیں ۔ یہ آپ کی مرضی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ چارلس ڈارون اور اس کے ماننے والے بہت سے دوسرے ارتقاء کے مشاہدے میں تو کامیاب رہے لیکن جمبو جیٹ فرام جنک یارڈ کی تھیوری کو مان کر ایک سپریم آرکیٹکٹ اور ڈیزائنر کو ماننے میں ناکام رہے۔

والسلام
 

محمد سعد

محفلین
آصف اثر
امید کرتا ہوں کہ اب آپ کی تسلی ہو چکی ہو گی اور آپ حقیقی مشاہدے کی بنیاد پر ارتقاء کے حوالے سے گفتگو کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کریں گے۔ اگر اب بھی بہانے بناتے اور قادیانی کے لیبل لگاتے رہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کے پاس اس موضوع پر کوئی معلومات سرے سے ہیں ہی نہیں۔

امید ہے کہ اس گنتی میں مزید اضافہ نہیں کریں گے
تیرہ تبصرے کر چکے۔ ایک بھی ایسی دلیل نہیں کہ جس میں آپ نے کسی ایسے حقیقی ڈیٹا کی طرف اشارہ کیا ہو جو ارتقاء کو غلط ثابت کرتا ہو۔
سارا زور دوسروں کے ایمان پر انگلیاں اٹھانے اور ان کو قادیانیوں کے ساتھ جوڑنے پر ہے۔
جو کہ اب
انیس تک پہنچ گئی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
سائنس و ٹیکنالوجی کے زمرے میں ارتقاء کی تھیوری پر مذہبی تناظر میں بحث کارِ لاحاصل ہے۔ ارتقاء کے حوالے سے پیش کردہ جدید نظریات مذہبی کتب اور نظریات سے فیض پا کر سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس لڑی میں ارتقاء کے حوالے سے خالصتاََ سائنسی تناظر میں بات کی جائے تاکہ ہمارے پلے بھی کچھ پڑے۔ اگر ہم ارتقاء کے نظریے کو مذہبی تناظر میں جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو شاید اس حوالے سے مذہبی تعلیمات کا زمرہ بہتر رہے گا۔
 

محمد سعد

محفلین
سائنس و ٹیکنالوجی کے زمرے میں ارتقاء کی تھیوری پر مذہبی تناظر میں بحث کارِ لاحاصل ہے۔ ارتقاء کے حوالے سے پیش کردہ جدید نظریات مذہبی کتب اور نظریات سے فیض پا کر سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس لڑی میں ارتقاء کے حوالے سے خالصتاََ سائنسی تناظر میں بات کی جائے تاکہ ہمارے پلے بھی کچھ پڑے۔ اگر ہم ارتقاء کے نظریے کو مذہبی تناظر میں جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو شاید اس حوالے سے مذہبی تعلیمات کا زمرہ بہتر رہے گا۔
وہ اصل میں بات یہ ہے کہ۔۔۔ کوئی سائنس وائنس آتی ہو گی تو سائنسی تناظر میں بات کرنے پر متفق ہوں گے نا۔ :whistle:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ معرکہ محفل پر کئی مرتبہ برپا ہو چکا ہے۔ ساری لڑیاں ایک جگہ اکٹھی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوئی لڑی رہ جائے تو محفلین اضافہ کر دیں۔
عرفان سعید بھائی
ان لڑیوں سے پتہ چلتا ہے کہ محفل کا ارتقاء فی الحال منجمد ہے یا ارتقاء کے اصول محفل پر لاگو نہیں ہوتے ۔
اور لڑی ھذا سے اس بات کا بیّن ثبوت بھی ملتا ہے ۔
۔ یکے از متاثران بلکہ قتیلان ارتقائے محفل ۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
یہ مضمون اچھا لگا

بہت سے مسلمان طالبعلم حیاتیاتی ارتقا ئی عمل کے مفروضے پر مبنی تشریح یعنی ”تھیوری آف ایوولیوشن“ کے بارے میں مخمصے کا شکار ہیں۔اس نظریہ کے مطابق کرۂ ارض پر بسنے والے تمام نوع کے جاندار دراصل ماضی میں پائے جانے والے کچھ دوسرے جانداروں کی نسل ہیں۔ اور یہ کہ آج ہم جانداروں میں جو رنگا رنگ تنوع دیکھتے ہیں وہ کئی نسلوں پر محیط تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔

مسلم طالبعلم، تھیوری آف نیچرل سلیکشن کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ حیاتیاتی ارتقاءکس طرح پیش آتا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق جانداروں کے گروہ میں انفرادی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ کامیاب جاندار اپنی خصوصیات کو اگلی نسل تک پہنچانے پر قدرت پاتے ہیں بہ نسبت ’کم‘ کامیاب جانوروں کے۔ کامیاب جاندار اس طرح طویل عرصے پر محیط اس تبدیلی کے عمل میں حصہ ڈالتے ہیں۔
اس مضمون کے آغاز ہی میں ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ارادہ ارتقائی عمل کے سائنسی جوانب پر بحث کرنا نہیں ہے۔ اِس مضمون میں ہم اس سائنسی مسئلے کا اسلامی تعلیمات کے پہلو سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔
بطور مسلمان ہمیں صرف یہ سوالات پوچھنے ہوں گے:
کیا حیاتیاتی ایولیوشن کانظریہ، اور اس کے طریقۂ کار کے طور پر نیچرل سلیکشن کا نظریہ ،اسلامی تعلیمات سے میل کھاتا ہے یا اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہے؟
ایمانی بنیاد پر نہیں، تو کیا خالصتاً ایک سائنسی نظریے کے طور پر ایک مسلمان نظریۂ ارتقاءکو مان سکتا ہے؟ یعنی آدمی یہ اعتقاد رکھے کہ ایسا کوئی ارتقاءہوا ہے تو وہ خدائی تخلیق کی ہی ایک صورت ہوگی؟ بالفاظِ دیگر، خدائی تخلیق ہی ایک ارتقائی عمل کی صورت ظہور میں آگئی ہو، کیا ایک مسلمان کیلئے یہ مفروضہ رکھنا جائز ہے یا ناجائز؟
پھر، انسانی ارتقاءکے نظریے کو بھی کیا ایک مسلمان تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو اُن فوسلز کی کیا توجیہ کی جائے گی جن کی دریافت سے بعض لوگوں نے نظریہ قائم کیا ہے کہ یہاں دو پیروں پر چلنے والے، آلات کے استعمال سے واقف، بڑے دماغ والے بن مانسوں کی آثار پائے گئے ہیں؟
ہم دوبارہ واضح کرنا چاہیں گے کہ ارتقاءکا سائنسی پہلو ہمارے مد نظر نہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہونگی۔یہ نظریہ سائنسی اعتبار سے سچ ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ ہمارے اِس مضمون کو اِس سے غرض نہیں۔
جب ہم قرآن و حدیث سے رجوع کرتے ہیں تو یہ ایک معلوم امر ہے کہ زمین پر آج تک رہنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ اور حوا کی اولاد ہیں آدم ؑ مٹی سے تخلیق کئے گئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آدم ؑ کو بغیر والدین کے وسیلے کے پیدا کیا۔
کتاب اللہ واضح طور پر آدم اور حواعلیہما السلام کے بنفس نفیس اور براہِ راست وجود میں آنے کی گواہی دے رہی ہے۔آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک معجزہ تھی، ایک ایسی اٹل حقیقت جس کی، بذریعہ سائنسی ذرائع ، نہ تائید کی جا سکتی ہے اور نہ تردید۔ایمان بالغیب آخر اور کس چیز کا نام ہے؟ قرآن میں بیان کردہ معجزات اپنے اثبات کے واسطے بشری ذرائع کے محتاج نہیں؛کہ محدود انسانی عقل اسکا محاصرہ کرنے سے ہے ہی قاصر ہیں۔ نصوص سے البتہ یہی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک منفرد ترین واقعہ تھا، اور کائناتی عمل میں ایک یکتا قسم کی چیز۔
یہ بات البتہ ملحوظِ خاطر رہے کہ نباتات و جمادات جس کسی تخلیقی عمل سے گزرے ہوں گے، شرعی نصوص میں اس پر سیر حاصل تفصیل نہیں دی گئی ۔ نہ یہ ذکر ہے کہ آدم وحوا علیہما السلام کو عرصہ دارز پہلے جب کرۂ ارض پر بھیجا گیا تو وہ کس طرح بھیجا گیا تھا؟ اور آیا اُسوقت زمین پر دیگر جانداروں کی آبادکاری تھی یا نہیں؟ ’فانا‘ اُس وقت کس حالت میں تھا اور ’فلورا‘ کس حالت میں؟ وحی کے ذریعہ سے رب العالمین کا مقصود __ اِس حوالہ سے __ صرف اتنا ہے کہ ہم سمعنا و اطعنا کی صورت یہ ایمان رکھیں کہ اس نے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا جیسا کہ اسکی شان ہے اور جیسا اس نے چاہا۔
’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے‘ 39:62
’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘ 21:30چنانچہ جہاں تک دیگر مخلوقات کا تعلق ہے تو قرآن مجید نہ تو اُن کے حیاتیاتی ارتقاءکا اثبات کرتا ہے اور نہ انکار۔ نہ نیچرل سلیکشن کے نظریہ کا اثبات کرتا ہے اور نہ انکار۔ (نیچرل سلیکشن یعنی دوام صرف ’طاقتور‘ کو حاصل ہوتا ہے اور کمزور کے مقدر میں مغلوب ہو کر مٹ جانا لکھا ہے)۔پس یہ خالصتاً ایک سائنسی سوال رہ جاتا ہے۔ یہاں؛ نظریۂ ارتقاءکو سائنسی بنیادوں پر ہی کھڑا ہو کر دکھانا ہوگا۔ اور اگر اس نظریہ کو کوئی معتمد سائنسی بنیاد میسر نہیں آتی تو یہ بے بنیاد رہے گا۔ مگر اِسکا سب سیاق سائنسی رہے گا۔ وحی اس کو ماننے کی ہدایت کر رہی ہے اور نہ جھٹلانے کی۔ جبکہ ہماری بحث یہاں صرف اِس بات سے ہے کہ اس بابت وحی کی دلالت کیا ہے؟ صاف سی بات ہے، وحی اگر کسی سائنسی مسئلہ کی بابت خاموش ہے تو وہ سائنس کا دردِ سر ہے؛ سائنس اس سے خود نمٹے۔
سائنس کا رول بس اتنا ہے کہ مظاہراتِ کائنات کا مطالعہ کرے، اس میں پنہاں اللہ کی قدرتوں کا مشاہدہ وانکشاف کرے اور اسے تقویتِ ایمانی کا ذریعہ اور منفعت انسانی کا وسیلہ بنائے۔اگر کوئی ایسے فوسلز جو یہاں دو پیروں پر چلنے والے، آلات کے استعمال سے واقف، بڑے دماغ والے بن مانسوں کے آثار پر دلالت کرتے ہوں، واقعتا کہیں دریافت ہوئے ہیں تو بھی اسلامی تعلیمات کو ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔
(انسانی مخلوق کو چھوڑ کر) جانداروں کے حوالہ سے اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ارتقائی مراحل واقعتا ان کے اندر وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں تو یہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے (بشرطیکہ یہ ثابت ہوتا ہو) تو عین ممکن ہے کہ انکا ظہور آدم علیہ السلام کی دنیا میں آمد سے پہلے ہوا ہو؟ ہمارے لیے وحی اور نصوص کی روشنی میں بس اتنا ایمان لانا کافی ہے کہ وہ بہر حال آدم علیہ السلام کے آباء واجداد نہیں تھے!

یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کو ماننے سے خدا کی نفی لازم آتی ہے۔ حالانکہ نظریۂ ارتقا جانداروں کے وجود میں آنے کا بتدریج طریقہ بتاتا ہے۔ خدا کے وجود کا ثبوت یا عدم کا ثبوت نظریۂ ارتقا کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو ایک سادہ سائنسی موضوع ہے جس میں مادی اسباب کے تحت مختلف جانداروں کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ در حقیقت سائنس کا موضوع ہی یہ ہے کہ فطرت میں موجود کسی بھی مظہر کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھائے۔ اس سے خدا کی ذات کی نفی ہرگز ہرگز لازم نہیں آتی۔مذہب اور خصوصاً الہامی کتابوں کو بھی اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنے آپ کو کسی بھی طور سے سائنس سے ہم آہنگ بنانے کی کوششیں کرے یا کوئی سائنسی نظریہ جو مذہب سے بظاہر متصادم نظر آتا ہو اسی غلط ثابت کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرے۔ اس کی وجہ مذہب کا موضوع ہے جو سائنسی نظریات سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتا۔ ۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کی جائے اور سائنس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور مذہب کو اپنا ۔
سائنس کا موضوع کبھی بھی مذہب نہیں ہوتا اور نا مذہب کا موضوع سائنس۔ ملحدین جو دعوے کرتے نظر آتے ہیں ان میں سائنس کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ انکا ذاتی نقطہ نظر ہے جسکی حقانیت کے لیے وہ سائنس کا سہارا لیتے ہیں ۔ گزشتہ تحاریر میں ہم اسکی کئی مثالیں بھی پیش کرچکے ہیں۔

(عرب کے جید عالم شیخ عبد الوہاب الطریری کے زیر نگرانی کام کرنے والی ایک تحقیقاتی کمیٹی کے طرف سے شائع ہونے والا ایک مختصر مقالہ )
 

عرفان سعید

محفلین
تفکر کا کچھ مواد یہاں بھی ہے

’’زندگی کے بارے میں یہ تصور اپنے اندر بڑی شان و شوکت رکھتا ہے جس کے مطابق اس کے آغاز میں خالق نے کئی قسم کی قوتیں چند مخلوقات یا کسی ایک مخلوق کو عطا کیں اور کشش کے اٹل ضابطوں کے زیرِ اثر ،یہ کرّہ جوں جوں اپنے محور پر گردش کرتا جاتا ہے ، یہ بے حد سادگی سے شروع ہو نے والی متناہی مخلوقات وجود میں آتی ہیں جو کہ بے حد حسین اور نہایت حیرت انگیز واقع ہوئی ہیں ، اور مزید ہوتی چلی جا رہی ہیں‘‘۔ (چارلس ڈارون )
’’خدا پر ایمان اور ارتقا ء کے سائنسی نظریے کا آپس میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ خدا پر ایمان کا اصل اختلاف تو اس فلسفیانہ حاشیہ کاری یا من گھڑت اختراع سے ہے جو ارتقا ء کے سائنسی اصول پر تھوپا گیا ہے[philosophical gloss or add-on to the scientific doctrine of evolution]، یعنی یہ دعویٰ کہ ارتقا ء ایک ایسا عمل ہے جو کسی سمت کے بغیر ، خدا یا کسی بھی ہستی کی راہنمائی، یا اسکے بنائے ہوئے ضابطے کے بنا چلا جا رہا ہے‘‘۔ ( مشہور فلسفی ایل ون پلانٹنگا (Alvin Plantinga)کا مقالہ ’’ سائنس، مذہب اور فطرت پرستی :اختلاف دراصل ہے کہاں”)
میڈیا پر جاری ڈارون ازم اور کریشن ازم کی آئے دن کی بحثوں کے باعث یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ جذباتی تقریروں میں ہی گم ہو کر رہ جائیں۔ لیکن ان لفّاظیوں سے ہٹ کر، اگر غور کیا جائے تو یہ سادہ سی حقیقت سامنے آجائے گی کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خدا کے وجود کے انکار سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میری اس بات سے کیا مراد ہے؟ زندگی کے وجود میں آنے کی توجیہہ کے لیے ڈارون کے تجویز کردہ بے ترتیب تغیّر اور فطری چناؤ کے اندھا دھن عمل [ blind mechanism of random mutation and natural selection]کو خدا کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضی جان لینیکس (John Lennox) اپنی کتاب Undertaker: Has Science Buried God?: ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ایک خاص نقطہ نظر کے حامل افراد کے لیے اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ فطرت کی قوتوں اور اس کے افعال کو اندھا دھن تصور کیا جائے۔ زیادہ تر فطری افعال واقعی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ کمزور اور طاقتور نیوکلائی قوتیں ، برقی مقناطیسیت اور کششِ ثقل کے پاس کوئی ذہنی یا جسمانی آنکھیں تھوڑی ہیں جن سے وہ دیکھ سکتی ہوں۔ اور گھڑی، گاڑی، سی ڈی پلیئر یا کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک پر نظر ڈالیں ، وہ بھی آپ کو بصارت سے محروم ہی ملیں گے۔ اور اس سے بڑھ کر، وہ نا صرف دیکھ نہیں سکتے بلکہ ان کو کوئی شعور بھی نہیں، بلکہ زیادہ درست بات یہ ہوگی کہ ان میں شعور و فکر کی صلاحیت ہی نہیں کیونکہ ان میں دماغ نہیں پایا جاتا۔ یہ خودکار سلسلے جو اگرچہ کہ خود نابینا ہیں، لیکن یہ ایسے اشخاص کی تخلیق ہیں جن کے بارے میں نابینا ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ خودکار سلسلے بہت ذہانت کے ساتھ تخلیق کیے گئے ہیں۔حتیٰ کہ ایسے افعال جن کے اندر کسی درجے میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے ان پر بھی یہ بات پوری طرح ٹھیک بیٹھتی ہے “۔
لینیکس بطور مثال ایک سادہ سی ذہنی مشق پیش کرتے ہیں جسے میں کچھ یوں بیان کروں گا۔ ’’ تصور کیجیے گاڑیوں کی ایک ایسی فیکٹری ہے کہ جس میں تمام کام خودکار روبوٹ کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ دیکھ کر کہ یہاں سارا کام خودکار روبوٹ کرتے ہیں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گاڑیاں تیار کرنے کا عمل ایک عقل و شعور سے عاری کام ہے؟ ۔ ایسا دعویٰ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم پہلے یہ بھی تسلیم کریں کہ تمام روبوٹ، ان کو چلانے والے سافٹ ویئر پروگرام اور فیکٹری خود، کسی صاحبِ عقل کی تخلیق نہیں۔ لیکن کوئی ذرا بھی معقول شخص یہ جان سکتا ہے کہ اصلاً ایسانہیں ہے اور انسانی ذہانت اس میں واضح طور پر کارفرما ہے۔
یہ سوال کہ آیا زندگی کو کسی ذہین ہستی نے وجود بخشا یا اس کا بنانے والا ذہانت سے عاری ہے، سائنس سے متعلق ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ سائنس سے ماوراء یا ما بعد الطبیعات * سے متعلق ہے۔
کیونکہ بائیولوجی کا موضوع تو زندگی کے چلتے ہوئے سلسلے میں اسباب و علل سے متعلق مسائل ہیں نا کہ اس اوّلین سبب کا تعین کہ جس سے زندگی کی ابتداء ہوئی’ اس کا موضوع ہے ۔ دوسرے لفظوں میں سائنسی طریقوں کی مدد سے یہ دکھایا جا نا ناممکن ہوگا کہ فطرت کے قوانین اور افعال (جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کے عمل کی راہنمائی کرتے ہیں )کیسے وجود میں آئے۔ ان قوانین اور افعال کے وجود میں آنے کے سوال کا تعلق اس اوّلین سبب سے ہے اور ایسے بنیادی سوالات سائنس کی مدد سے نہیں بلکہ ماورائے سائنس یا موجودات (ontological)٭کے علم سے دیے جاسکتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ نقطہ نظر کہ ڈارون کے پیش کردہ ارتقاء کے عمل میں اور ارتقا کے عمل کی رہنمائی کرنے والے فطرت کے قوانین کی تخلیق میں بھی کسی قسم کی ذہانت کارفرما نہیں ایک فلسفیانہ موشگافی[philosophical add-on] ہے سائنس نہیں۔
(٭آنٹالوجی (Ontology)ما بعد الطبیعات (جو کہ خود فلسفے کی ایک اہم ترین شاخ ہے )کی وہ شاخ ہے جو وجود کی فطرت سے بحث کرتی ہے۔
٭’’ماوراء سائنس ‘‘ کی اصطلاح ان اصولوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو سائنس کے لیے اگرچہ بنیادی نوعیت کے حامل ہیں لیکن بذاتِ خود سائنس کے ذریعے ان کی تصدیق ممکن نہیں۔)
خدا کے وجود پر یقین رکھنے والے ایسے افراد جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو تسلیم کرتے ہیں وہ اس کے ماورائے سائنس ہونے کا نظریہ[meta-scientific view] اختیار کرتے ہیں یعنی اس کے پیچھے ایک برتر ذہین ہستی کے کارفرما ہونے کے نظریے کے قائل ہیں (بالکل ویسے ہی جیسے روبوٹ، ان کے سافٹ ویئر ، اور فیکٹری بذاتِ خود انسانوں کی کاوش کا نتیجہ ہیں)۔دوسری طرف ملحد حضرات کو یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ طبعی قوانین اور افعال بس خود سے قائم و دائم ہیں۔
درحقیقت ایسے مذہبی حضرات کی کثیر تعداد ہےجو خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ جان لینکس ایسے کئی اشخاص کا ذکر کرتے ہیں۔
’’ برطانیہ میں مثال کے طور پر دنیا کی مشہور کیو گارڈنز(Kew Gardens) لندن کے سابق ڈائریکٹر سر گِلین پرانس(Ghillean Prance) فیلو آف دی رائل سوسائٹی (FRSٌ) )، سر برائن ہِیپ(Brian Heap) دی رائل سوسائٹی کے سابق نائب صدر(FRSٌ)، ، کیمبرج یونیورسٹی کے جیولوجی کے پروفیسر باب وہائٹ(Bob White)، (FRSٌ)، کیمبرج یونیورسٹی کے پالیو بائیولوجی[Paleobiology] کے پروفیسر سائمن کانوے مورس(Simon Conway Morris) (FRSٌ)، لندن یونیورسٹی کے ایوولوشنری بائیولوجی کے پروفیسر سام بیری(Sam Berry) اور کیمبرج یونیورسٹی کے فراڈے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈینس الیگزینڈر(Denis Alexander) ، یہ سب دورِحاضر کے ممتاز ارتقائی بائیولوجی کے ماہرین ہیں جو خدا پر یقین رکھتے اور درحقیقت عیسائی ہیں۔
امریکہ میں انسانی جینوم کے پراجیکٹ(Human Genome Project) ڈائریکٹر فرانسز کولنز(Francis Collins) ہیں جو کہ خدائی تصور کے حامل ارتقاء کے عمل کو بائیولوگوس[Biologos] کانام دیتے ہیں۔ یہ تمام حضرات ارتقاء کے عمل سے الحاد یا خدا کے انکار کی دلیل ڈھونڈنے کی کسی بھی کوشش کو پوری شدت سے رد کرتے ہیں۔
بلکہ شاید چارلس ڈارون نے خود اس سلسلے میں پوری دردمندی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اپنی سوانح حیات میں وہ لکھتے ہیں:
’’ خدا کے وجود پر ایمان کی ایک اور دلیل مجھے کہیں زیادہ وزنی معلوم ہوتی ہے اور اس کا تعلق جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے ہے ۔ یہ تصور کرنامحال ، بلکہ ناممکن ہے کہ یہ انتہا ئی زبردست کائنات ، اور یہ انسان کہ جس کے پاس دور دراز ماضی اور مستقبل میں کہیں آگے تک نظر ڈالنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، محض ایک اندھے اتفاق، یا ضرورت کی پیداوار ہیں۔ اس زاویے سے غور کرتے ہوئے میں خود کو مجبور پاتا ہوں کہ اس اوّلین سبب ِتخلیق میں ایک انسانی ذہن سے کسی درجے مماثلت رکھنے والی ذہانت کی موجودگی کو تسلیم کروں اور اس طرح میں مستحق ہوں کہ میرا شمار بھی خدا پر یقین رکھنے والو ں میں کیا جائے”۔
ماہرِ فزکس اسٹیفن بَر[Stephen Barr] ‘ جدید فزکس اور قدیم ایمانیا ت’ میں جان لینکس کی طرح رچرڈ ڈاکنز کی خدا کے انکار اور ارتقاء کے موضوع پر کتاب ’’نابینا گھڑی ساز‘‘ کے جواب میں اس ہی نوعیت کی دلیل پیش کرتے ہیں :
’’اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ فطری سلسلہ افعال کے بارے میں سائنسی روداد [scientific accounts of natural processes] کہیں بھی یہ تصور پیش نہیں کرتی کہ صریح بد نظمی سے ایک مربوط نظم و ضبط وجود میں آیا، یا ساخت سے محروم حالت سے ساخت کا ظہور ہوا۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ سائنسی روداد ہمیں یہ بتاتی ہے کہ فطرت میں پائی جانی والی اشیاء کے اندر ایک نظم و ضبط پوشیدہ ہے جوبتدریج ظاہر ہوتا چلاجا تا ہے، ہاں ایسا اکثر ایک غیر محسوس اور خفیہ انداز میں واقع ہوتا ہے۔ جب ہم نےبے ہنگم نظر آنے والی صورتحال ، یا ایسی چیزیں جو بنا کسی خاص ساخت کے پائی جاتی ہیں خودبخود اور اچانک ایک منظم ترتیب میں خود کو ڈھال لیتی ہیں ‘ کو دیکھا ہم نے ایسے ہر معاملے میں یہ جانا کہ وہ جو بظاہر بے ہنگم نظر آرہاتھا وہ درحقیقت اپنے اندر ایک زبر دست ترتیب رکھتا تھا۔۔ مشہور ملحد بائیولوجسٹ رچرڈ ڈاکنز اس بات کی تعریف نہیں کرتے لگتے کہ ان کا نابینا گھڑی ساز[blind watchmaker] پالے [Paley] کی گھڑی سے کہیں زیادہ زبردست واقع ہوا ہے۔ پالے کو ایک گھڑی زمین پر پڑی ہوئی ملتی ہے اور وہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایسی چیز بھلا اتفاقیہ طور پر یہاں کیسے پائی جا سکتی ہے۔ ڈاکنز ایک عظیم الشان خودکار فیکٹری دیکھتا ہے جو اندھا دھن گھڑیاں بنائے چلی جا رہی ہے اور اپنے تئیں سمجھتا ہے کہ اس نے پالے کے سوال کا تسلی بخش جواب دے دیا ہے۔لیکن یہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ ایک گھڑیاں بنانے والی فیکٹری کے بارے میں کیسےاس وضاحت کی ضروری درکار نہیں ہوسکتی جو ہمیں ایک گھڑی کے بارے میں چاہیے۔ جب ایک گھڑی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیوں کر وجود میں آئی تو کیا یہی سوال گھڑیاں بنانے والی فیکٹری کے بارے میں نہیں اٹھتا؟”
جو حضرات اس موضوع پر مزید گہرائی میں جانا چاہیں ، وہ یہ مکالمہ دیکھ لیں Does Evolution Undermine God? – Professor Pritchard & Subboor Ahmad پروفیسر پریچرڈ یونیورسٹی آف برمنگھم میں لائف سائنس کے پروفیسر ہیں اور خود کو card-carrying Darwinist کہتے ہیں ۔ صبور احمد حمزہ اینڈرئیس کے دعوت پروجیکٹ کے ممبر ہیں ، بیالوجی میں سپیشلسٹ اور فلاسفی میں پوسٹ گریجویشن کررہے ہیں۔ اس مکالمہ میں خالص سائنسی حوالے سے ایوولوشن پر بحث کی گئی ہے اور یہ اتقاء کے متعلق عوامی سوچ اور اصل علمی حقیقت میں فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔ ایک اوراہم ویڈیو مکالمہ نظریہ ارتقاء کے الحاد کیساتھ تعلق اور نظریہ ارتقاء کے ذریعے انکار خدا کی معقولیت پر ہے جو صبور احمد کا ایتھیس الائنس آف امریکہ کے سابق صدر کیساتھ ہوا ۔ اس لنک سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مزید صبور احمد کی ہی ایک تقریر نظریہ ارتقاء ، ڈارون ازم اور اسلام کے موضوع پر ہے یہ بھی نظریہ ارتقاء کے متعلق جدید ذہن کے بہت سے اشکالات کو دور کرنے میں معاون ہے۔

تحریر سکاٹ ینگرن ترجمہ احسان محمدی، علی حارث
 

جان

محفلین
میری ذاتی رائے اس سلسلہ میں کچھ یوں ہے!
اول رب خالقِ کائنات ہے سو اس کی مرضی وہ کائنات کا آغاز بگ بینگ سے کرے یا کسی بھی اور طریقے سے، انسانی تخلیق کو ارتقائی عمل سے گزارے یا کسی بھی اور عمل سے، الغرض کائنات کی کوئی بھی تخلیق رب کے سامنے اس بات کی محتاج نہیں کہ وہ صرف اسی مخصوص عمل سے پیدا کی گئی ہے جیسا انسان سوچتا ہے یا کسی بھی طریقے سے بشمول قران سے انسان 'انٹرپریٹ' کرتا ہے۔ اس لیے انسان جس کے حواس محدود صلاحیت کے حامل ہیں کبھی بھی یقین سے دعوی نہیں کر سکتا کہ فلاں عمل ویسے چل رہا ہے اور یہی 'غیر یقینی' انسان کو خدا کی تخلیقات پہ غور و خوض کرنے پہ مجبور کرتی ہے اور اسی کا نام سائنس ہے۔ ایسا کرنے سے اصولی طور پر انسان کا ایمان مزید بڑھتا ہے جب وہ کائنات کی باریک بینیوں اور پیچیدگیوں سے واقف ہوتا ہے نہ کہ اس پہ کوئی حرف پڑتا ہے۔ حرف اس وقت پڑتا ہے جب رجعت پسند طبقے میں اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
دوم خالقِ کائنات کی مرضی کہ وہ کائناتی معاملات کو سائنسی عمل سے چلائے، جادو سے چلائے یا کسی بھی اور عمل سے، یہ رب کا اختیار ہے اور یہ وہ اختیار ہے جو اسے رب بناتا ہے۔ انسان کا کام محض یہ رہ جاتا ہے کہ وہ مشاہدہ کرے، سوچے، غور کرے، تجربے کرے الغرض کسی بھی طریقے سے کائناتی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اسے اپنے استعمال میں لائے۔ خود اللہ کریم قران پاک میں انسان کو اس بات پہ اکسا رہے ہیں کہ وہ غور کیوں نہیں کرتا، پورا قران پاک ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جو انسان کو غور و فکر کرنے پہ اکساتی ہیں، سورہ رحمٰن میں یہی بات بار بار دہرائی گئی ہے، ایمان بالغیب کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ 'اندھا دھند' ایمان لایا جائے، اگر ایسا کرنا مقصود ہوتا تو پھر ہر وہ شخص سچا ہے جو آگ کی پوجا کرتا ہے، بتوں کی پوجا کرتا ہے، ستاروں کی پوجا کرتا ہے، سورج کی پوجا کرتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں اللہ کریم نے اس پر واضح مثالیں قران کریم میں دی ہیں۔
سوم سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر یہ شریعت کیا ہے، کائنات کے ہر عمل کو شریعت کی آنکھ سے دیکھنے کی کیا اور کیوں ضرورت ہے؟ شریعت کو سمجھنے سے پہلے انسان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نبی کیوں آتا ہے یا اللہ کریم نبی کیوں بھیجتے ہیں۔ میری دانست میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ جب انسان اس قدر گر جاتا ہے کہ حقیقی مالک سے ہٹ کر اس کی تخلیقات میں سے کسی کو خالق کا درجہ دے دیتا ہے تو اللہ کریم انسان کو حقیقی خدا سے آشنا کرنے کے لیے نبی بھیجتے ہیں، اب نبی کا کام انسان کو اس کے حقیقی مالک سے آشنا کرنا ہے، اب یہاں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نبی کا بنیادی کام ریاضیاتی علوم پہ بحث کرنا نہیں ہوتا، طبعی عوامل کی ترویج و وضاحت کرنا نہیں ہوتا، کیمسٹری، جادو، سوشالوجی وغیرہ جیسے مضامین کی ترویج کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا بنیادی مقصد انسان کو اس کے مالک سے آشنا کروانا ہوتا ہے اور بنیادی اخلاقیات سے روشناس کروانا ہوتا ہے اس کے پیغامات اس تک پہنچانے ہوتے ہیں اور خود خدا کا بھی نبی بھیجنے کا 'بنیادی مقصد' میری سمجھ میں یہی آتا ہے پھر انسان کو مطمئن کرنے کے لیے اللہ پاک غور و خوض پہ اکساتے ہیں، دلیلیں دیتے ہیں تاکہ انسان پٹڑی پہ چڑھ جائے، ایک دفعہ غور و خوض کی پٹڑی پہ چڑھ گیا تو باقی کام انسان کا ہے کہ وہ اس کی جستجو میں لگا رہے، ساکن نہ رہے اور اس کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہو، اب جیسے ہی مذہب رجعت پسند کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ اس کی اپنے دماغ کے مطابق تشریح کر کے اسے 'شریعت' کے خول میں لپیٹ کر محدود کر دیتا ہے اور پھر جو اس سے ہٹ کر بات کرتا ہے وہ 'کفر و شرک' کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پہ طرح طرح کے دہریت و ملحدیت کے فتوے لگتے ہیں۔ بنیادی اخلاقیات اور حدود جن کا قران میں ذکر ہے یقیناً وہ انتہائی بنیادی نوعیت کی ہیں جو ازل سے انسان کی فطرت میں ہیں اس لیے ان اخلاقیات کی حدود کے بہانے ہم ہر چیز جس پر غور و فکر لازم ہے محدود نہیں کر سکتے۔
چہارم جب انسان مذہب کو آزاد نہیں چھوڑتا اور اسے 'شریعت' کے پردے میں لپیٹ کر محدود کر دیتا ہے تو بنیادی طور پر وہ انسان کو ایک ہی سوچ میں مقید کرنا چاہتا ہے جو کہ ایک غیر فطری عمل ہے۔ اب اس کے نتائج بہت دور رس ہوتے ہیں، اول اس سے آمریت کو فروغ ملتا ہے، دوم مخلتف فرقے وجود میں آتے ہیں، سوم مذہب کی حقانیت پہ سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، چہارم قوم تفریق ہو جاتی ہے وغیرہ۔ موضوع کو سمیٹنے کے لیے میں اس میں سے صرف پہلے یعنی آمریت کو چھیڑوں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خدا کا نبی بھیجنے کا مقصد آمریت کو فروغ دینا ہے؟ میری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ یہ کہ یقیناً نہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ خدا اس کائنات کا خالق ہے سارے اختیارات اسی کے پاس ہیں اور وہ ہر شے پہ قادر ہے تو پھر خدا اگر چاہتا تو کئی طریقوں سے انسان کو اپنا مکمل تابع بنا دیتا جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
  • خدا اگر چاہتا تو انسان کی جبلت میں سے ہی برائی و شرک کا مادہ ختم کر دیتا اور یوں ہر انسان آج اسی کو پوجتا اور دنیا میں برائی و مذہب نامی کوئی چیز نہ ہوتی!
  • خدا اگر چاہتا تو انسان کی برائی یا برے کام کا صلہ فوراً اسے عطا کر دیتا، یعنی جو جھوٹ بولتا اس کی زبان فوراً کام کرنا چھوڑ جاتی، جو چوری کرتا اس کا ہاتھ فوراً کام کرنا چھوڑ دیتا، جو قتل کرتا اس کی سانس خود بخود بند ہو جاتی لیکن ہم جانتے ہیں ایسا نہیں ہے!
  • خدا اگر چاہتا تو انسان کی تمام خواہشات کو فوراً پورا کر دیتا، جو شخص جس کی خواہش کرتا فوراً اسے مل جاتی اور یوں وسائل و آرزو کی کشمکش بالکل ہی ختم ہو جاتی!
  • خدا اگر چاہتا تو انسان کی جبلت میں سے آرزو، خوف، جذبات، جستجو کا عنصر ہی ختم کر دیتا اور انسان کو فرشتہ بنا دیتا جو ہر وقت اسے پوجنے کے علاوہ کوئی کام نہ کرتا!
لیکن ہم جانتے ہیں خدا نے ایسا نہیں کیا بلکہ کائنات میں انسان کو آزاد تخلیق کیا، اس کو غور و فکر کرنے اور فیصلہ کرنے کے لیے عقل بھی دی، آرزو بھی بخشی، اچھائی و برائی کا مادہ بھی دیا، جذبات بھی عطا کیے، وسائل بھی اور جستجو کرنے کی خواہش بھی اور یہ سب کرنے کے بعد انسان کو حقیقی خدا سے آشنا کرانے اور بنیادی اخلاقیات سکھانے کے لیے نبی بھی بھیجے۔ ان سب کے باوجود انسان کو آزاد چھوڑ دیا اور اسی آزادی کا آخرت کے روز امتحان ہے۔ خدا کو اگر آمریت یا ایک ہی نقطہ نظر کی ترویج کرنی مقصود ہوتی تو میری دانست میں وہ کبھی 'امرھم شوری بینھم' کی تاکید نہ کرتا لہذا ہم اپنی نفسانی و علمی کوتاہی کی بنیاد پر ہر چیز کو 'شریعت' کے پردے میں لپیٹ کر اسے محدود نہیں کر سکتے!
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
آصف اثر
جتنی شدت کے ساتھ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کی گنجائش نکل ہی نہیں سکتی، کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اگر ارتقاء درست ثابت ہو گیا تو نعوذ باللہ اسلام جھوٹا ہے؟ کوئی بڑا دعویٰ کرنے سے پہلے سوچ تو لیا کریں۔ ورنہ دعویٰ کرنے سے گریز کرنا اور یہ کہنا کہ میں فی الحال نہیں جانتا بھی ایک آپشن ہوتا ہے۔
اس بات کو ذرا دوسرے زاویے سے اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں، کہ جس طرح کا ایمان آپ کا انسانی ڈیٹا پر ہے، یا باالفاظِ دیگر آپ انسانی ڈیٹا جیسے کمزور ترین فیکٹر کی وجہ سے قرآن و حدیث کے بارے میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بھی ارتقا ہی کی بات کرتے ہیں، کل کلا اگر یہ تھیوری غلط ثابت ہوگئی تو اللہ بچائے آپ کا ایمان تو کافی خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔
کیا خیال ہے، آپ جیسے ڈرے ہوئے افراد کا شرعی احکامات کو ڈیٹا کا محتاج بنانا کتنا درست طرزِ عمل ہے؟
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
آصف اثر
جیسا کہ ابھی ابھی فاروق سرور خان نے بھی کافی اچھی طرح سے واضح کر دیا، ارتقاء کی حقیقت، شریعت سے کسی طرح متصادم نہیں ہے۔ تو بہتر ہے کہ اپنے اسی غلط تصور کے ساتھ چپکے رہنے کے بجائے حقیقی مشاہدے کی بنیاد پر بات کریں اور اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو اس کی نشاندہی کر کے شکریہ کا موقع دیں۔
حضرت شریعت سے آپ کے اسی شغف کو دیکھ کر ہی تو مجھے اتنی محنت کرنا پڑی کہ آپ اسی موضوع پر شرعی تناظر میں دلائل دے کر اپنے ڈیٹا کو قابلِ استعمال بنالیں گے۔ لیکن ایس ہوتا نظر نہیں آرہا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ کسی دور میں آپ جیسے دلائل استعمال کرتے ہوئے جمہور علماء زمین کے چپٹے ہونے کے تصور سے بھی چپکے ہوئے تھے۔ جیسا کہ ہمیں تفسیر جلالین سے معلوم ہوتا ہے۔
جبکہ آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کسی بھی طرح زمین کے گول ہونے کی حقیقت سے متصادم نہیں ہے۔
اگر جلال الدین سیوطی اور ان کے دور کے جمہور علماء، اپنی سوچ کو محدود کرنے کے نتیجے میں، طبیعی دنیا کے مشاہدے کی ایک شے کو غلط سمجھ سکتے ہیں، تو آپ کوئی ان سے بڑے عالم تو نہیں ہیں۔ تو کیوں نہ ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں غلطی کا امکان کم ہو؟
ارتقاء، خالصتاً ایک طبیعی دنیا کے مشاہدے کا موضوع ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کے لیے مجھے کیوں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہونی چاہیے کہ آیا اسلام کی آپ کی انٹرپرٹیشن درست ہے یا فاروق سرور خان کی یا کسی اور کی؟
آصف اثر
امید کرتا ہوں کہ اب آپ کی تسلی ہو چکی ہو گی اور آپ حقیقی مشاہدے کی بنیاد پر ارتقاء کے حوالے سے گفتگو کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کریں گے۔
دیکھیں میری تو پوری کوشش رہی کہ آپ قرآن سے کوئی ایسا حوالے دے دیں گے جس میں انسانی ارتقا کا ذکر کیا گیا ہوگا پھر جب وہ ثابت ہوجائے گا تو آپ کے ارتقائی ڈیٹا کو اُن حوالوں کے لیے بطورِ دلیل کے استعمال ہونے پر بحث ہوگی لیکن آپ اس پر بات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں اور چوں کہ یہ نکتہ ہی فی الحال اس بحث کا محور بنا ہوا ہے کہ قرآن کے ارتقائی تصور کے لیے مشاہداتی ڈیٹا کو استعمال کیا جائے تو اب آپ ہی ذرا یہ وضاحت کرکے سب کو ممنون ہونے کا موقع دیں کہ ارتقا کے ڈیٹا کو تخلیق کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتاہے؟
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
وہ اصل میں بات یہ ہے کہ۔۔۔ کوئی سائنس وائنس آتی ہو گی تو سائنسی تناظر میں بات کرنے پر متفق ہوں گے نا۔ :whistle:
ویسے میں خود یہ امید کررہا تھا کہ آپ چوں کہ شریعت کے ارتقائی نظریے سے بہت ہی زیادہ واقفیت رکھتے ہیں لہذا ضرور اس پر شرعی تناظر میں بات کرکے اپنے من پسند ڈیٹا کو بطور دلیل استعمال کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، لیکن اب یہ انکشاف آپ نے کرہی دیا ہے کہ آپ اپنے ڈیٹا کو جس شرعی دلائل کے لیے بطورِ ثبوت استعمال کرنا چاہتے ہیں، مضحکہ خیز طور پر آپ کے پاس وہ دلیل ہی سرے سے موجود نہیں۔ اب یہ معمہ آپ ہی کو حل کرنا ہے کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس بات کا ذرا دوسرے زاویے سے اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں، کہ جس طرح کا ایمان آپ کا انسانی ڈیٹا پر ہے، یا باالفاظِ دیگر آپ انسانی ڈیٹا جیسے کمزور ترین فیکٹر کی وجہ سے قرآن و حدیث کے بارے میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بھی ارتقا ہی کی بات کرتے ہیں، کل کلا اگر یہ تھیوری غلط ثابت ہوگئی تو اللہ بچائے آپ کا ایمان تو کافی خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔
کیا خیال ہے، آپ جیسے ڈرے ہوئے افراد کا شرعی احکامات کو ڈیٹا کا محتاج بنانا کتنا درست طرزِ عمل ہے؟
ایک بار پھر اصل موضوع کو ڈاج کرنا اور دوسروں کے ایمان پر انگلیاں اٹھانا۔ صرف کسی بات کو دہراتے رہنے سے وہ درست نہیں ہو جاتی۔ یہ آپ کو پہلے بھی کئی بار محفل پر لوگ سمجھا چکے ہیں۔
بیس۔
 

محمد سعد

محفلین
حضرت شریعت سے آپ کے اسی شغف کو دیکھ کر ہی تو مجھے اتنی محنت کرنا پڑی کہ آپ اسی موضوع پر شرعی تناظر میں دلائل دے کر اپنے ڈیٹا کو قابلِ استعمال بنالیں گے۔ لیکن ایس ہوتا نظر نہیں آرہا۔


دیکھیں میری تو پوری کوشش رہی کہ آپ قرآن سے کوئی ایسا حوالے دے دیں گے جس میں انسانی ارتقا کا ذکر کیا گیا ہوگا پھر جب وہ ثابت ہوجائے گا تو آپ کے ارتقائی ڈیٹا کو اُن حوالوں کے لیے بطورِ دلیل کے استعمال ہونے پر بحث ہوگی لیکن چوں کہ آپ اس پر بات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں اور چوں کہ یہ نکتہ ہی فی الحال اس بحث کا محور بنا ہوا ہے کہ قرآن کے ارتقائی تصور کے لیے مشاہداتی ڈیٹا کو استعمال کیا جائے تو اب آپ ہی ذرا یہ وضاحت کرکے سب کو ممنون ہونے کا موقع دیں کہ ارتقا کے ڈیٹا کو تخلیق کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتاہے؟
اکیس۔
 

آصف اثر

معطل
ایک بار پھر اصل موضوع کو ڈاج کرنا اور دوسروں کے ایمان پر انگلیاں اٹھانا۔ صرف کسی بات کو دہراتے رہنے سے وہ درست نہیں ہو جاتی۔ یہ آپ کو پہلے بھی کئی بار محفل پر لوگ سمجھا چکے ہیں۔
بیس۔
حضرت جاتے جاتے یہ تو بتادیں کہ اگر کل کلا آپ کا ارتقائی نظریہ غلط ثابت ہوگیا تو آپ کے ایمان کا کیا ہوگا؟
 
Top