بہت خوب مرچ مصالحے کی چاٹ کے جواب میں اس چاٹ کے قوام میں یہ اپنی کچھڑی بھی خوب ہی بگھاری ہے آنجناب نے، اور کچھڑٰ ی بھی ایسی کہ الفاظ ، جملے اور مفہوم سب کچھ ہی اس کچھڑٰ ی کی نذر ہو گیا ہے۔جو باتیں سابقہ پوسٹ میں جوابا ٓعرض کی گئیں تھیں ان کو کچھڑٰی کی نذرفرما کر ایک بار پھر اپنے دلائل کی عمارت اپنی سابقہ دانش پر استوار کر دی ہے آپ نے۔آپ کی مذکورہ علمی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خود کو "مستند ہے میرا فرمایا ہوا "کے منصب پر فائز فرما کر علما کے لیے بھی اپنی رائے کو بصورت "عیار علم " پیش فرما رہے ہیں ، جبھی علما سو اور علما حق کی اتنی واضح تفریق آپ نے فرما دی ہے ۔جو قرض بصورت سوال آپ نے پیش کیا ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے اس مقولے کے آپ قائل ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ سو حضرت عالم عالم میں فرق ہوتا ہے جعلی عالم جعلی ہی ہوتا ہے چاہے اس میں حقیقی عالم کی قدرے مشابہت بصورت لباس ، شکل اور مخالف ،بعض خلق خدا کی جانب سے، موجود ہو۔اگر علمائے حق کی مخالفت کی جاتی رہی ہے تو محض اس مشابہت کی بنا پر طاہر قادری صف علما حق میں نہیں شامل اور غالباآپ تجاہل عارفانہ کا شکار ہیں کہ مسٹر طاہر تو لفظ مولانا سے کچھ یوں بیزار ہیں کہ وہ خود کو اس صف میں ویسے ہی شامل نہیں کرنا چاہتے لہذا ان کو اگر قرار دینا ہی ہے تو اسکالر حق قرار دیجئے کہ اب عالم و علما کی اصطلاح فرسودہ ہو چکی ہے، آپ کے عالم حق کے مطابق۔
حضرت جن صوفی منش حضرات کے آپ اسما گنوا رہے ہیں ذرا یہ بھی فرما دیجئے کہ ہم گنہ گار مسلمانوں میں کس کس کے خلاف ان حضرات نے کب کب فتویٰ صادر کیے ہیں؟ بات یہ نہیں کہ آپ تین نام پیش کریں اور جوابا میں بھی مفتی وقار الدین، مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی، مفتی منیب کا نام پیش کردوں جنھوں نے ان کے خلاف فتویٰ دیئے ہیں؟یا صاحبزادہ فضل کریم اور ثروت اعجاز قادری کی حالیہ مخالفت لانگ مارچ کا حال بیان کروں یا اس بچارے مظفر وارثی کا دکھڑا پیش کروں جو عالم نہیں اور اس نے کوئی فتویٰ نہیں دیا لیکن اس کا مشاہدہ اور اس کی دکھ بیتی سینکڑوں فتویٰ اور خریدے ہوئے یا ’نظرے خوش گزرے ‘قسم کے تاثرات پر بھاری ہے جن کے جلوے منہاج کی ویب سائٹ پر نظر آتے ہیں، بات یہ ہے کہ یہ گواہی طاہر صاحب کے لیے گھر کی گواہی کے برابر ہے، اور گھر کی گواہی کو کون رد کر سکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ حق کی مخالفت ہمیشہ قلیل لوگ کرتے ہیں تو میں کسی اور بحث میں پڑنے کی بجائے عرض کروں کہ آپ کی دانش تمام تر عمومی کلیوں پر استوار ہے بہتر ہو گا کہ آپ اپنا فوکس ذرا طاہر صاحب کے اوپر ہی مرکوز رکھیں ، اور عمومی کلیوں میں اتنا دم ہوتا نہیں۔اور یہ یاد رکھیں کہ حق کی مخالفت ہمیشہ اکثریت کی طرف سے کی جائے یہ بات درست نہیں کہ فتح مکہ کے بعد حق کی حمایت دنیا کے بہت سارے حصوں میں کب کی اکثریت میں تبدیل ہو چکی ہے۔
کیا کہنے آپ کی یہ لاجواب بات پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ یقنا پاکستان کے سارے "سچے آستانوں" کو آپ کا یہ قول زریں جلی حروف میں لکھوا کر اپنے مین گیٹ پر لگو دینا چاہیے اور تمام تھانوں میں یہ بات ایف آئی آر کے رجسٹر کے اوپر لکھ دینی چاہیے یعنی آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی نوسر باز عوام کی جیبیں کسی نوسرے بازی کے تحت خالی کروا لےتو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق متاثرین کے سوا اور کسی کو نہیں ہے؟
حضرت یہ حق معاشرے کے ہر اس شخص کوحاصل ہے جس کو ذرا برابر معاشرے کا درد ہے اور کم از کم باطل کی مخالفت کا درجہ یہ ہے کہ باطل کو دل میں برا جانا چاہے لیکن شاید آپ آئندہ اپنی کسی منطق کے تحت یہ حق بھی چھین لینا چاہیں گے۔ اور اطلاعا عرض ہے کہ ایک مسٹر طاہر ہی نہیں بلکہ مجھے ان عوام سے بھی ہمدردی ہے جو کہ زرداری کو ووٹ دیتے ہیں اور مسٹر الطاف کی حمایت کرتے ہیں، اور حسینی قافلہ یزیدی قوتوں کے ہاتھوں لٹ گیا یہ بات مسٹر طاہر القادری کی اس منطق کی روشنی میں الزاما کہی گئی جس کے مطابق وہ خود کو حسینی قوتوں کا نمائندہ قرار دے رہے تھے، امید ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اور مجھے اگلی کلاس میں ابجد کی تختی لے کر نہیں بیٹھنا پڑے گا۔
میرے محترم بھائی ۔۔۔۔
آپ کا فلسفہ آپ کی منطق آپ کی سوچ پر استوار ہے ۔اور آپ نقار خانے کی آوازوں کو " حق " کی آواز سمجھتے ہیں ۔
جبکہ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے بخوبی یہ جانتے ہیں کہ "حق پر چلنے والوں کی تعداد ہميشہ ہی قلیل ہوتی ہے "
"اور باطل کثرت میں ہوتے ہمیشہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے "
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جیت حق و سچ کی ہوتی ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کئی بار باطل کی حکمرانی کئی تہذییوں و نسلوں کو برداشت کرنی پڑی ہے ۔
اور یہ " باطل " کا طویل عرصے تک طاقتور رہنا اس باعث ممکن ہوتا ہے ۔
کہ حق کا پلڑا بھاری ہونے تک" علماء سو " یا " بہروپئے " عوام الناس کو اپنی الزامی سیاست کے بل پر یہ باور کروانے میں محو رہتے ہیں کہ دراصل باطل ہی حق ہے۔اور جو " حق " کی جانب بلا رہا ہے وہ " باطل " ہے
آپ نے بھی تسلیم کیا کہ " الزامی " سیاست کا حصہ تھی آپ کی تحریر ۔
لفظ " مولانا " بہت محترم بہت پاکیزگی کا حامل ہے ۔ اور " علماء سو " کی حرکات کے باعث اس قدر رسوا ہو چکا ہے کہ اب کسی کو مذاق میں ہی " مولوی " کہو تو وہ سب و شتم پر اتر آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب ہی نہیں بلکہ روشن سوچ کے مالک اکثر صاحب علم ایسے " مولاناؤں " کی صف سے بیزار ہیں ۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب اک اسکالر ہیں ۔ روایتی " ملا " نہیں ۔
میرے محترم بھائی
الف سے اللہ ۔ ب سے بسم اللہ ۔ پ سے پاکیزہ سیاست ۔۔۔۔۔۔۔۔سیکھایا کریں ۔ ابجد کی بھول بھلیاں پیچھا چھوڑ دیں گی ۔
جب جواب نہ ہو تو " سچے آستانوں " کی جانب خلوص دل سے رجوع کرنا چاہیئے ۔ آگہی عام ہوتی ہے ۔۔۔۔۔