محمد امین بھائی میرا نہیں خیال کہ وہ جلا وطن تھے۔وہ تو وہاں رہائش پذیر تھے اور اب اپنے وطن واپس آ رہے ہیں۔نہیں سمجھےسرکار۔۔۔ ۔سوال میرا صرف اتنا تھا کہ وہ جلا وطن کیوں ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم شہزاد احمد بھائی یہی اصل وقت ہے عوام کو جمع کرنے کا کہ جب ہر پاکستانی حکومت سے بلکہ اگر زرداری سے کہا جائے تو بہتر ہو گا نجات چاہتا ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے لیے ہمارے دل میں بہت احترام ہے لیکن انہوں نے پاکستان آنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا ہے، وہ مناسب معلوم نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔ انتخابات سے قبل آپ کا پاکستان میں تشریف لانا اور عوام کو اس وقت سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینا، جب کہ وہ موجودہ حکومت سے نجات کے لیے انتخابات کو ایک بڑا ذریعہ سمجھ رہے ہوں، کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر معاملہ ہے ۔۔۔ اللہ کرے اُن کا پاکستان واپس تشریف لانا اہلیانِ وطن کے لیے مبارک ثابت ہو ۔ اُن کے عقائد و نظریات سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ایک عالم کی حیثیت سے وہ ہمارے لیے ، بہرحال، قابلِ احترام شخصیت ہیں ۔۔۔
آپ کے خلوصِ نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن عرض یہ ہے کہ وہ کون سا نظام ہو گا کہ جس کے ذریعے یہ سب مقاصد حاصل ہو سکیں گے ۔۔۔ خیر اس کا جواب تو تئیس دسمبر کو ہی مل پائے گا لیکن ہماری ناقص رائے میں یہ وقت ایسے نعروں کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہے ۔۔۔ صدر موصوف بھلے آئندہ انتخابات میں ہمارے سر پر مسلط رہیں اور صوبوں میں چاہے وہی نقشہ بنے جس کا تذکرہ آپ نے فرمایا ہے لیکن ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس پبلک کا مینڈیٹ ہو گا (دھاندلی ہو بھی جائے تو کتنی ہو جائے گی؟) ۔۔۔ ہاں، اس حوالے سے آپ سے متفق ہوں کہ موجودہ نظام میں اصلاحات ضروری ہیں لیکن یہ کام تدریجاََ ہونا چاہیے ۔۔۔ عام انتخابات سر پر ہوں اور ہم اس طرح کے ایڈونچرز میں پڑ جائیں تو پھر آپ ہی بتائیے کہ قوم کا کیا بنے گا؟ یہ بات یاد رہے کہ جہاں پاکستان میں علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے چاہنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں، وہیں پر اُن کے مخالفین کی تعداد بھی چنداں کم نہیں ۔۔۔ ہم خود اُن کے عقائد و نظریات سے کافی حد تک اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہماری صفوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو اُن کے بارے میں طرح طرح کے نازیبا کلمات ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ مذہبی تعصب کی یہ ناخوشگوار صورت حال علامہ صاحب کے رستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔۔۔ اگر وہ پارلیمانی نظام کے بجائے کوئی اور نظام تجویز کریں گے تو پھر لامحالہ فوج اور عدالت کے علاوہ ہمارے ہاں کا مذہبی طبقہ ( جو علامہ صاحب سے بیر رکھتا ہے) اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ عام انتخابات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے، اُن کی مخالفت کریں گے ۔۔۔ فوج اور عدلیہ تو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ چاہنے کے باوجود بھی علامہ صاحب کا ساتھ دے سکیں تو اس صورت میں علامہ صاحب ریاست بچانے کے لیے ،خدا جانے، کیا سفارشات پیش فرمائیں گے لیکن چانکہ اُن کا علم ہم سے بہت زیادہ ہے اس لیے ہم اُن کی بات غور سے سنیں گے ۔۔۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی اس طریقے سے فرمائیں گے کہ یہ مسائل ۔۔۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے ۔۔۔ ریاست بچانے کے راستے میں حائل نہ ہو سکیں گے ۔۔۔ کوئی بات بری لگے تو معذرت ۔۔۔محترم شہزاد احمد بھائی یہی اصل وقت ہے عوام کو جمع کرنے کا کہ جب ہر پاکستانی حکومت سے بلکہ اگر زرداری سے کہا جائے تو بہتر ہو گا نجات چاہتا ہے۔
جہاں تک آپ نے بات کی الیکشن کی تو اس میں کون سی کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے صدر موصوف نے ہی رہنا ہے اور مرکز میں ایک مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے جس میں اکثریت پارٹی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہو گی۔پنجاب میں ن کی حکومت سندھ میں پی پی کی بلوچستان میں انتہائی مخلوط حکومت،اور کے پی کے میں اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کے کاندھوں پر کھڑی حکومت گلگت بلتستان میں بھی پی پی کی کمزور حکومت۔فرق کیا ہو گا جماعت اسلامی کی چند سیٹیں شامل ہو جائیں گی اور خان صاحب بھی 15 سے 18 سیٹوں کے ساتھ اسمبلی میں ہوں گے۔
اب اس قسم کی حکومت سے آپ کیا خیر کی توقع رکھتے ہیں جو ڈاکٹر صاحب ہم عوام سے چھیننے لگے ہیں وہ کہتے ہیں الیکشن کرواؤ مگر پہلے نظام کو ایسا بنا لو کہ اسد عباسی اور شہزاد احمد جیسے لوگ جن کے پاس کم از کم 6 کروڑ نہیں ہے الیکشن پر لگانے کے لئے وہ بھی اسمبلی میں پہنچ سکیں۔تو اس میں برا کیا ہے۔
ارے شہزاد احمد بھائی آپ نے جواب اس اچھے انداز سے لکھا کہ کچھ برا لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یقیناّ آپ مخالفت برائے مخالفت اور بحث برائے بحث والوں میں سے نہیں ہیں۔آپ کے خلوصِ نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن عرض یہ ہے کہ وہ کون سا نظام ہو گا کہ جس کے ذریعے یہ سب مقاصد حاصل ہو سکیں گے ۔۔۔ خیر اس کا جواب تو تئیس دسمبر کو ہی مل پائے گا لیکن ہماری ناقص رائے میں یہ وقت ایسے نعروں کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہے ۔۔۔ صدر موصوف بھلے آئندہ انتخابات میں ہمارے سر پر مسلط رہیں اور صوبوں میں چاہے وہی نقشہ بنے جس کا تذکرہ آپ نے فرمایا ہے لیکن ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس پبلک کا مینڈیٹ ہو گا (دھاندلی ہو بھی جائے تو کتنی ہو جائے گی؟) ۔۔۔ ہاں، اس حوالے سے آپ سے متفق ہوں کہ موجودہ نظام میں اصلاحات ضروری ہیں لیکن یہ کام تدریجاََ ہونا چاہیے ۔۔۔ عام انتخابات سر پر ہوں اور ہم اس طرح کے ایڈونچرز میں پڑ جائیں تو پھر آپ ہی بتائیے کہ قوم کا کیا بنے گا؟ یہ بات یاد رہے کہ جہاں پاکستان میں علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے چاہنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں، وہیں پر اُن کے مخالفین کی تعداد بھی چنداں کم نہیں ۔۔۔ ہم خود اُن کے عقائد و نظریات سے کافی حد تک اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہماری صفوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو اُن کے بارے میں طرح طرح کے نازیبا کلمات ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ مذہبی تعصب کی یہ ناخوشگوار صورت حال علامہ صاحب کے رستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔۔۔ اگر وہ پارلیمانی نظام کے بجائے کوئی اور نظام تجویز کریں گے تو پھر لامحالہ فوج اور عدالت کے علاوہ ہمارے ہاں کا مذہبی طبقہ ( جو علامہ صاحب سے بیر رکھتا ہے) اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ عام انتخابات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے، اُن کی مخالفت کریں گے ۔۔۔ فوج اور عدلیہ تو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ چاہنے کے باوجود بھی علامہ صاحب کا ساتھ دے سکیں تو اس صورت میں علامہ صاحب ریاست بچانے کے لیے ،خدا جانے، کیا سفارشات پیش فرمائیں گے لیکن چانکہ اُن کا علم ہم سے بہت زیادہ ہے اس لیے ہم اُن کی بات غور سے سنیں گے ۔۔۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی اس طریقے سے فرمائیں گے کہ یہ مسائل ۔۔۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے ۔۔۔ ریاست بچانے کے راستے میں حائل نہ ہو سکیں گے ۔۔۔ کوئی بات بری لگے تو معذرت ۔۔۔
شہزاد احمد بھائی یہ بات تو ڈاکٹر صاحب کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آپ میڈیا پر آنے والی رپورٹس دیکھیں اندازہ ہو جائے گا۔جلسہ تو حسبِ توقع کامیاب ہوا ہے ۔۔۔ اب طاہر القادری صاحب کا اصل امتحان شروع ہو گا ۔۔۔ یہ تو ہو گئے "عقیدت مند" ۔۔۔ اب دیکھتے ہیں ۔۔۔ جب وہ لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے تو ان کا ساتھ دینے کے لیے بھی کیا یہ سبھی لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے؟