ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اہل جنوں کے دل میں نئی اک ترنگ ہے
اہل خرد کے چہرے کا پھر زرد رنگ ہے

اپنی یہ جنگ ہے حق و باطل کے درمیاں
دولت کی جنگ ہے نہ حکومت کی جنگ ہے

اک تہلکہ سا مچ گیا نکلے جو سربکف
ظالم بھی سوچتا ہے کہ کیسا یہ ڈھنگ ہے

چلتی نہیں ہے ظلم کی داداگری سدا
کچھ کور باطنوں کی نظر پھر بھی تنگ ہے

دائم نہیں رہے گی سیاہی یہ رات کی
آئے گی صبح جس کا لہو جیسا رنگ ہے

رکھتے نہیں کسی سے بھی ذاتی عناد ہم
گر ہے کسی سے اپنی اصولوں کی جنگ ہے

وقت جہاد آیا تو ڈر کے کھسک گیا
چرچا تھا شیخ کا کہ بڑا وہ دبنگ ہے

سانسوں کی ڈور رہتی ہے اسکی گرفت میں
یہ زندگی بھی گویا کہ کوئی پتنگ ہے

ہر شعر سے نعیم جھلکتی ہے میری فکر
میری غزل پہ میرے تفکر کا رنگ ہے
السلام علیکم محترمی! اردو محفل میں خوش آمدید! :)
اپنی رکنیت کے پہلے ہی روز 117 مراسلہ جات کرنے والے آپ پہلے شخص ہیں. آپ کو مبارک ہو! امید ہے دستورِ محفل کے مطابق اپنا تعارف بھی پیش کریں گے اور شاعری پوسٹ کرنے میں تھوڑا سا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ قارئین ساتھ ساتھ آپ کے کلام سے لطف اٹھا سکیں. :)
 

فرقان احمد

محفلین
السلام علیکم محترمی! اردو محفل میں خوش آمدید! :)
اپنی رکنیت کے پہلے ہی روز 117 مراسلہ جات کرنے والے آپ پہلے شخص ہیں. آپ کو مبارک ہو! امید ہے دستورِ محفل کے مطابق اپنا تعارف بھی پیش کریں گے اور شاعری پوسٹ کرنے میں تھوڑا سا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ قارئین ساتھ ساتھ آپ کے کلام سے لطف اٹھا سکیں. :)
اس کی نوبت اب کہاں رہی! :)
 

رانا

محفلین
ڈاکٹر صاحب پتہ نہیں کب کے ترسے ہوئے تھے اپنا کلام سنانے کو۔ اج موقع ملا تو انہیں "ذرا پی لینے دو جی لینے دو":)
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہم نکلے تو ہیں دل سےتری یاد مٹانے
کیا جانیے اس کام میں لگ جائیں زمانے

ہم خود بھی کہاں چاہتے ہیں درد کا درماں
آیا جو مسیحا تو لگے زخم چھپانے

جو زخم لگا روح پہ شاید ہی بھرے وہ
تا عمر ہی تڑپیں گے ہم اس درد میں جانے

جو لوگ یہ کہتے ہیں تمہیں دل سے بھلا دوں
وہ دیکھ لیں گر تم کو تو بن جائیں دوانے

مجنوں ہو کہ فرہاد کہ رانجھا ہو کہ پنوں
آسانی سے لگتے نہیں عشاق ٹھکانے

اس حلقۂ یاراں کو نہ اتنا بھی بڑھاؤ
ایسا نہ ہو لگ جائیں غلط لوگ بھی آنے

ہم نے جو گزارے تھے کبھی ساتھ تمہارے
آساں نہیں اتنے بھی وہ دن رات بھلانے

ہو سکتے ہیں کیسے وہ بھلا دوست ہمارے
جو لوگ ہمیں دیتے نہیں ملنے ملانے

تم خود ہی ملاقات پہ آمادہ نہیں ہو
ملنا ہو تو مل جاتے ہیں لاکھوں ہی بہانے

یہ نوکری بھی گویا کہ جیںے کی سزا ہے
پھر ترک سخن کر کے چلے بوجھ اٹھانے

بہتر ہے نعیم اس سے بڑھاؤ نہ تعلق
لگ جائیں نہ پھر دل کو وہی روگ پرانے
 

م حمزہ

محفلین
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

تمہاری انجمن سے یوں پریشاں حال ہم نکلے
کہ جیسے بزم یاراں سے فسردہ شمع غم نکلے

صدائیں ہم نے جتنی دیں وہ سب واپس پلٹ آئیں
جنہیں ہم نے خدا سمجھا وہ پتھر کے صنم نکلے

بھنور میں چھوڑ کر کشتی وہ خود ساحل پہ جا بیٹھے
ہمارے ناخدا بیگانۂ رنج و الم نکلے

خطا حوا نے کی جو کھا گئی ابلیس سے دھوکہ
گنہ شیطان ہی کا تھا مگر جنت سے ہم نکلے

حدیثیں سن چکے کتنی ریاکاری کے بارے میں
جناب شیخ کے پھر بھی نہ لیکن پیچ و خم نکلے

جوانی واعظ و ناصح کی گزری دیر میں لیکن
قریب المرگ جب پہنچے تو وہ سوئے حرم نکلے

گنے جب اشک میں نے جو بہائے تھے تری خاطر
ستارے آسماں کے میرے اشکوں سے بھی کم نکلے

خدایا موت آئے جب کہ سجدے میں مرا سر ہو
زباں پر ذکر ہو تیرا ہی جب بھی میرا دم نکلے

کبھی ہم نے جھکایا ہی نہیں سر ظلم کے آگے
یزیدوں کے مقابل حق کا ہم لے کر علم نکلے

نعیم اس سے مرا رشتہ اگر ہے بھی تو رسمی ہے
نہیں پرواہ جس کو میں جیؤں یا میرا دم نکلے
بہت ہی خوبصورت!
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

مصلوب کر کے اس نے مرا قد بڑھا دیا
میں آدمی تھا اس نے مسیحا بنا دیا

کچھ وہ بھی ہوشیارتھا کچھ میں بھی سادہ دل
کچھ میرے عجز نے بھی اسے حوصلہ دیا

ناعاقبت اندیشی تھی اس کی کہ اس نے خود
اک جاں نثار دوست کو خود ہی گنوا دیا

چھوڑا نشان جس نے وہ زندہ ہے آج تک
اس موت نے وگرنہ سبھی کو مٹا دیا

ہمزاد میرا لمبے سفر سے تھا فکرمںد
آدھی ہی رات گزری تھی اس نے جگا دیا

یہ زندگی بھی اپنی طرح بے نیاز تھی
ہم نے دیا ہے کیا اسے اس نے بھی کیا دیا

اسنے بدل کے رکھ دی مری ہر شناخت ہی
رنگ اپنا اس نے مجھ پہ کچھ ایسا چڑھا دیا

پہلے ہی کم نہیں تھا ترے ہجر کا ملال
ان فاصلوں نے اور بھی اس کو بڑھا دیا

میں بجھ گیا تو پھر بھی مجھےغم نہیں کوئی
روشن رہے گا مجھ میں ترے نام کا دیا

سب دے رہےتھےحشر میں بس واسطےنعیم
ہم نے بھی اس کے نام کا پھر واسطہ دیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

لگی ہیں عشق میں ہم پر یہ تہمتیں کیسی
کیا ہی جرم نہیں تو ندامتیں کیسی

خزاں رسیدہ تھے جب تک سکوں سے رہتے تھے
بہار لائی ہے گلشن میں وحشتیں کیسی

ہیں حسن و عشق سے فتنے تمام دنیا میں
محبتیں ہی نہ ہوں تو عداوتیں کیسی

وہ جانتا ہے کہ میرا کوئی قصور نہ تھا
وہ پھر بھی مانگ رہا ہے وضاحتیں کیسی

میں آدمی ہوں فرشتہ تو ہو نہیں سکتا
ہر ایک بات پہ پھر یہ شکایتیں کیسی

تمہارے پیش نظر تو انا کی تسکیں تھی
گزر گئیں مرے دل پر قیامتیں کیسی

ذرا سی بات پہ جو جنگ پر اتر آئے
تمام عمر کی اس سے رفاقتیں کیسی

ہمارا حال ہوا جو تمہاری فرقت میں
بیان کرنے میں وہ سب قباحتیں کیسی

مرا نہیں تو کچھ اپنا ہی تم خیال کرو
زمانہ پوچھ رہا ہے بجھارتیں کیسی

کیا ہے فیصلہ تم نے جو ساتھ چلنے کا
تو پا شکستگی کیسی مسافتیں کیسی

نعیم اس نے تو بس مسکرا کے دیکھا تھا
زبان خلق پہ پھیلیں حکایتیں کیسی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

گو بظاہر شہر میں ہے بزم آرائی بہت
جھانک کر دیکھو دلوں میں تو ہے تنہائی بہت

دل مرا بھی چاہتا ہے اس سے ملنے کے لئے
ساری دنیا کہہ رہی ہے وہ ہے ہرجائی بہت

میرے دشمن نے بنایا ہو گا منصوبہ نیا
کر رہا ہے کچھ دنوں سے وہ پذیرائی بہت

وقت آخر اقربا بھی عذر کر کے چھپ گئے
ہم سمجھتے تھے ہماری ہے شناسائی بہت

ہم سنائیں بھی اگر تو کس کو اپنا حال زار
دوست کوئی بھی نہیں‘ پر ہیں تماشائی بہت

جب سے تیری جھیل سی آنکھوں میں ڈوبا ہے یہ دل
تب سے شعروں میں مرے آئی ہے گہرائی بہت

اور مل پایا نہ کچھ بھی اک خموشی کے سوا
گرچہ ہم نے اس کے در پر کی جبیں سائی بہت

میگساری اصل میں اتنی بری شے بھی نہیں
ہاں مگر یاروں نے کی ہنگامہ آرائی بہت

دل تو کیا‘ چہرہ بھی پڑھ پائے نہیں اہل نظر
ان کا دعویٰ تھا کہ رکھتے ہیں وہ بینائی بہت

آپ بیتی تھی مری دراصل جگ بیتی نعیم
داستان غم مری دنیا نے دہرائی بہت
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کیا بات تھی ایسی اے خدا میرے سخن میں
لگتے ہی رہے تیر سدا میرے بدن میں

کوئی تو یہاں پر ہے مری جان کا دشمن
اک آگ لگا دی ہے یہ کس نے مرےتن میں

احباب لگاتے رہے جو بن کے مسیحا
وہ زخم ابھی باقی ہیں سب میرے بدن میں

ہر وقت ہی کرتے ہیں وہ دشنام طرازی
جیسے کہ نہیں کوئی زباں میرے دہن میں

کوئی تو سبب ہے بے سبب اس کے کرم کا
اب بھی ہےمجھے شبہ زمانے کےچلن میں

آ جائے کہیں پھر نہ ترے دھوکے میں یہ دل
پھر ذکر مرا تو نے کیا ہے انجمن میں

کانٹوں کی طرح تو نے جسے پھینک دیا ہے
وہ پھول مہکتا تھا کبھی تیرے چمن میں

آئی جو ہمیں ہوش شب غم تھی مقابل
بھولےرہےخود کو بھی ہم اک تیری لگن میں

پھرتے ہی رہے خانہ بدوشوں کی طرح ہم
تا عمر مسافر رہے اپنے ہی وطن میں

نکلے جو تری راہ میں تو ہٹ گئی دل سے
ہیبت سی جو ہوتی تھی کبھی دار و رسن میں

میں نے بھی تو توڑا ہےنہ ملنے کا وہ وعدہ
باہم ہےیہی مجھ میں اور اس عہد شکن میں

کیا اپنی محبت کا ثبوت اور تمہیں دوں
میں بات بھی کرتا ہوں ترے طرز سخن میں

رہتے نہیں دائم کبھی دنیا میں اندھیرے
پیغام یہ پوشیدہ ہے سورج کی کرن میں

دامن پہ لگے دھبے ہی کیا کافی نہیں تھے
کیوں داغ لگے اتنے نعیم اپنے کفن میں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کوئی انسان بھی گو عقل سے محروم نہیں
اپنا انجام کسی شخص کو معلوم نہیں

جو چلا آیا ترے در پہ وہ خوش قسمت ہے
تیرا دیدار بھی ہر شخص کو مقسوم نہیں

عقل کب ڈھوںڈ سکی ہے ترے گھر کا رستہ
سچے سالک سے ترا راستہ معدوم نہیں

اہل ایمان پہ لازم ہے یزیدوں سے جہاد
ظلم کے آگے جو جھک جائے وہ مظلوم نہیں

وہ کسی حال میں رکھے رہو راضی بہ رضا
ہے یہاں کونسا انسان جو مغموم نہیں

تو ہے غفار تو انسان خطا کا پتلا
بخش دے سب کو کہ ہم میں کوئی معصوم نہیں

یا خدا وہ بھی دعائیں مری پوری کر دے
جو مرے دل میں ہیں اشعار میں منظوم نہیں

ہر عبادت کے پس پردہ کوئی مقصد ہے
صرف سجدہ کسی مذہب کا بھی مفہوم نہیں

جب ہوئےتم سے جدا تو ہمیں معلوم ہوا
اس جہاں میں کوئی بھی لازم وملزوم نہیں

پل رہے ہیں جو غریبوں کے محاصل پہ خواص
سبھی جمہور کے خدام ہیں مخدوم نہیں

وہی اوروں پہ حکومت سدا کرتا ہے نعیم
اپنے جذبات کا حاکم ہے جو محکوم نہیں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کب تک رہیں گے عالم ناپائیدار میں
دائم رہا ہے کون اس اجڑے دیار میں

صیاد نے چمن میں بچھایا ہے جال پھر
دن رہ گئے ہیں تھوڑے ہی فصل بہار میں

بلبل نے گیت گایا تو آںسو نکل پڑے
گاتےتھےگیت ہم بھی کبھی تیرےپیار میں

چپ چاپ کرتے جائیے جیسے کہ حکم ہو
اتنا ہی اختیار ہے بس اپنے اختیار میں

گزری گراں نہ ہم پہ مشقت بھی کام کی
شامل تھا تیرا غم بھی غم روزگار میں

ہم پر بھی ہو گی تیری کبھی نگہ التفات
بیٹھے ہیں ہم ابھی بھی اسی انتظار میں

میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میرےساتھ ہے
کھائے ہیں کتنے دھوکے اسی اعتبار میں

نزدیک آ رہی ہے گھڑی اس کی دید کی
ہلچل سی اک مچی ہے دل بے قرار میں

آتے ہیں مجھ سے ملنےسلاطین بھی نعیم
کچھ خوبیاں فقیروں سی ہیں خاکسار میں
 
Top